جو جتنا خدا کو پیارا ہو خدا تعالی اتنی ہی علی قدر مراتب اس کی دعاؤں کو سنتا ہے تو اس پوری دنیا میں خدا تعالی کا سب سے پیارا وجود حضرت خلیفۃ المسیح ایدہ اللہ تعالی ہیں تو صاف ظاہر ہے کہ خلیفۃ المسیح کی دعائیں سب سے ذیادہ خدا تعالی کی بارگاہ میں قبولیت کا درجہ پاتی ہیں ۔اس بات کو اگرمثال سے سمجھایا جائے تو یوں سمجھ لیں کہ ہماری دعا سادہ پانی کی طرح ہے اور خلیفۃ المسیح کی دعا میٹھے شربت کی طرح اگرہم اپنے سادے پانی میں میٹھا شربت ملا لیں گے تو ہمارا سادہ پانی بھی میٹھا شربت بن جائے گا اور یہ وہ نقطہ ہے جوخود خدا تعالی کی ذات نے ہمیں بتایا ہے چنانچہ حضرت مولوی غلام رسول صاحب راجیکیؓ صاحب نے 1919 میں قادیان میں مکان بنانے کا ارادہ کیا لیکن حالات بہت کمزور تھے چنانچہ آپؓ نے حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ سے مکان کے حوالہ سے دعا کی درخواست کی تو حضورؓ کی دعاؤں سے مکان بنانے کے غیر معمولی انتظامات ہوگئے کچھ ہدیۃ اللہ تعالی نے بندوبست کیا کچھ قرض حسنہ میسر آگیا حالانکہ آپؓ کے پاس ایک دیوار کھڑی کرنے کی گنجائش نہ تھی چنانچہ اس مکان کی تیاری میں جو قرض حسنہ لیا تھا اس کو اتارنے کی فکر آپؓ کو دامن گیر رہتی۔ چنانچہ رمضان المبارک آگیا اور آپؓ نے تہیا کیا کہ قرض کو اتارنے کیلئے ان ایام میں خاص دعائیں کروں گا لیکن اس بار اس پریشانی کا آپؓ حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ سے ذکر نہ کرسکے چنانچہ حضرت مولوی غلام رسول صاحب راجیکیؓ فرماتے ہیں «چنانچہ اس رمضان میں بھی جب میں نے خاص توجہ سے گراں بار قرض کے اترنے کیلئے دعا کی اور دعا کرتے ہوئے آٹھواں دن ہوا تو اللہ تعالی کی قدوس ذات میرے ساتھ ہمکلام ہوئی اور اس پیارے اور محبوب مولی نے مجھ سے ان الفاظ میں کلام فرمایا ’اگر تو چاہتا ہے کہ تیرا قرض جلد اتر جائے تو خلیفۃ المسیح کی دعاؤں کو بھی شامل کرلے‘
(حیات قدسی صفحہ267-268)
سننے والی ذات حضرت مولوی غلام رسول راجیکیؓ کی دعا سن بھی رہی ہے لیکن پھر یہ کہہ رہی ہے کہ خلیفۃ المسیح کی دعا کو بھی شامل کرو اس میں ہم سب خوش نصیب احمدیوں کو اللہ تعالی یہ پیغام دے رہا ہے کہ اگر تم چاہتے ہو کہ تمہاری دعائیں جلد اور ذیادہ قبول ہوں تو خلیفۃ المسیح کو دعا کیلئے ضرور لکھا کرو۔ قبولیت دعا کے حوالے سے ایک بہت ضروری بات یہ ہے کہ حضورایدہ اللہ تعالی کو کبھی کبار خط نہیں لکھنا چاہیے بلکہ بار بار انکو دعا کیلئے لکھتے رہیں یہ نقطہ حضرت مسیح موعودؑ کی ذندگی سے ہمیں ملتا ہے جب بھی کوئی آپ کو بذریعہ خط یا زبانی دعا کے لئے لکھتا یا کہتا تو آپؑ اسے یہ نصیحت لازمی کرتے کہ دعا کیلئے بار بار یاد دلاتے رہیں چنانچہ حضرت بھائی عبد الرحمان قادیانیؓ فرماتے ہیں ’’ہم لوگ اکثر لکھتے اور عرض کرتے رہا کرتے تھے اور بعض اصحاب ضرورت وحاجت اکثر روزانہ اور متواتر ہفتوں بھی حضرت کے حضور دعاؤں کی درخواستیں بھیجا کرتے تھے حضور کی مجلس کے دوران بھی کبھی کبھی احباب التجاء دعا کیا کرتے جس کے جواب میں عموما حضورؑ فرمایا کرتے تھے ان شاءاللہ دعا کروں گا یاد دلاتے رہیں‘‘
(سیرت المہدی جلد دوم صفحہ366)
اسی پہلو کو اجاگر کرتے ہوئے حضرت مسیح موعودؑ نے دعا کا اصول بیان کرتے ہوئے فرمایا ’’اصول دعا میں سے یہ بات ہے کہ جب تک انسان کو کسی کے حالات کے ساتھ پورا تعلق نہ ہو تب تک وہ رقت اور درد اور توجہ نہیں ہوسکتی جو دعا کے واسطے ضروری ہے اور اس قسم کے حضور اور توجہ کا پیدا کرنا دراصل اختیاری امر نہیں ہے دعا میں کوشش ہر دو طرف سے ہونی ضروری ہے دعا کرنے والا خدا تعالی کے حضور میں توجہ کرنے میں کوشش کرے اور دعا کرانے والا اس کو توجہ دلانے میں مشغول رہے باربار یاد دلائے خاص تعلق پیدا کرے صبر اور استقامت کے ساتھ اپنا حال زار پیش کرتا رہے تو خواہ مخواہ کسی نہ کسی وقت اس کے لئے درد پیدا ہوجائے گا‘‘
(ملفوظات جلد پنجم صفحہ50-51)
اس لئے پیارے آقا کو اسقدر دعا کیلئے خط لکھا کریں کہ پیارے آقا کی یادداشت میں آپ خوش نصیب محفوظ ہوجائیں آمین
(ع الف ورک)