میری ہمشیرہ مکرمہ نصرت پروین صاحبہ 4 فروری 2021ء کو 66 سال کی عمرمیں مالک حقیقی کے حضور حاضر ہو گئیں۔ إنّا للّٰه وإنّا إليهِ رَاجعُون۔ وفات کے وقت آپ ربوہ میں تھیں، وصیت کے نظام سے وابستہ تھیں بہشتی مقبرہ میں تدفین ہوئی۔ عزیزہ نصرت نے ابتدائی تعلیم دارالیمن ربوہ کے پرائمری اسکول میں حاصل کی اوربقیہ تعلیم بشیرآباد اسٹیٹ ضلح حیدرآباد میں مکمل کی، تعلیم مکمل کرنے کے بعد مقامی گورنمنٹ اسکول میں درس و تدریس کے شعبہ سے وابستہ ہوگئیں، ملازمت کے دوران ہی 1976ء میں سندھ یونیورسٹی سے ٹیچنگ ڈپلومہ کیا۔
آپ ہمیشہ طالبات میں بہت مقبول رہیں، تعلیم کے ساتھ روزمرہ زندگی میں بھی ان کی رہ نمائی کرتی تھیں، دوران ملازمت آپ کی تقرری ایسے گاؤں میں ہو گئی جہاں بہت مخالفت تھی لیکن آپ نے وہاں جا کر اپنے فرائض ادا کرنے شروع کئے، اپنے کام میں باقاعدگی، لگن محنت اور حسنِ اخلاق سے آپ نے یہ تبدیلی پیدا کی کہ سب لوگ آپ کی خدمات کے معترف ہوئے اور پھر وہ وقت بھی آیا جب یہ سب لوگ اپنی فیملیز کے ساتھ آپ کے بچوں کی شادیوں میں شامل ہوئے۔
آپ کو وقت کی قدرو قیمت کا بہت شدت سے احساس تھا، آپ اپنی گھریلو مصروفیات کے ساتھ ساتھ ملازمت سے متعلق فرائض بھی ادا کرتی رہیں اور جماعتی ذمہ دارریوں کو بھی احسن رنگ میں ادا کرتی تھیں، دن بھر کی مصروفیات کے بعد رات کو بہت تھوڑا آرام کر کے اپنے مولیٰ کے حضور قیام و سجود میں وقت گزارتیں۔
؎دو گھڑی عرض مدعا کرے
وقت بنے ساز گار آدھی رات
ہماری شب بیدار بہن والدہ مرحومہ کی نیک اقدار کی امین تھیں، بچوں کی تعلیم و تربیت، خاوند کی اطاعت گزاری، خدمت خلق، مہمان نوازی، پڑوسیوں سے حسنِ سلوک، صفائی ستھرائی عزیزوں رشتے داروں سے تعلق غرض ہر شعبہ زندگی میں اچھے نقوش چھوڑنے والی تھیں۔ آپ کی عبادات کی کیفیت قابلِ رشک تھی، نماز سے پہلے وضو اپنے تمام لوازم کے ساتھ پورا کرتی تھیں۔
آخری علالت میں آپ کو رکعتوں کی تعداد یاد نہیں رہتی تھی، آپ نماز پڑھتی چلی جاتی تھیں حتیٰ کہ بچوں کو کہنا پڑتا کہ آپ کی نماز مکمل ہو گئی ہے۔ بیماری کہ دوران جب MRI مشین پر تھیں تو ٹیکنیشن بار بار کہہ رہا تھا ہاتھوں کو حرکت نہ دیں لیکن آپ اسکی ہدایت پر عمل نہیں کر پا رہی تھیں، نصف گھنٹہ کا ٹیسٹ تقریباً ڈیڑھ گھنٹہ پر محیط ہو گیااور بعد میں آپ کی بیٹی نے دریافت کیا کہ آپ ہاتھوں کو کیوں ہلا رہی تھیں تو آپ نے بتایا کے میں نماز پڑھ رہی تھی۔
آپ ہر سال پورے روزے رکھتی تھیں، آپ کو کئی سال سے شوگر کی تکلیف تھی لیکن یہ عارضہ کبھی بھی روزوں کی راہ میں حائل نہیں ہوا، قرآن کریم کی تلاوت باقاعدہ کرتی تھیں، قرآن کریم کی تفسیر اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب کے مطالعہ میں بھی بہت باقاعدگی تھی، روحانی خزائن کی بہت سی جلدوں کا مطالعہ کر چکی تھیں، جہاں بھی رہیں بچوں کو قرآن کریم پڑھاتی رہیں۔ اپنے سب بچوں سے جبکہ وہ سب صاحب اولاد ہیں، چند باتوں کے بارے میں ضرور استفسار کرتی تھیں، سب سے اول سوال نماز،اسکے بعد نماز جمعہ کی ادائیگی، حضور پر نور کا خطبہ سننے اور قرآن کریم کی تلاوت بابت گاہے بگاہے پوچھتی رہتی تھیں، بچوں کواس بات کا احساس تھا کہ امی کا فون آئیگا تو اس بارے میں ضرور پوچھیں گی۔
الله تعالیٰ پر توکل اوردعا پر یقین بہت محکم تھا، خود بھی بہت دعا کرتیں، کوئی بھی معاملہ ہوتا تو بچوں سے کہتیں دعا کرو اورحضور کی خدمت میں دعا کے لئے لکھو، دعا کے ساتھ ساتھ صدقات کی طرف بہت توجہ کرنے والی تھیں۔ آپ سے دعا کے لئے کوئی بھی کہتا تو آپ اپنی دعاؤں میں ان کو یاد رکھتیں، اسی طرح اگر کوئی بھی کام آپ سے کہا جاتا تو آپ ذمہ داری سے اس کام کی تکمیل کرتی تھیں۔ میری علالت کے دوران آپ جہاں میرےلئے دعائیں کرتی رہیں وہیں ایک مریض سے رابطہ کرکے علاج اور خوراک کے حوالہ سے میری راہ نمائی کی۔
رشتوں اور تعلقات کی بہت تکریم تھی، اپنے سسرال اور خاوند کے بہن بھائیوں سے نہ صرف تعلقات رکھنے میں اپنا کردار ادا کیا بلکہ باہمی تعلق اور محبت کو اور بڑھایا، آپ کے خاوند کی ہمشیرہ نے اظہار خیال کرتے ہوئے بتایا کے میں ساری زندگی پہ نظر دوڑاتی ہوں تو کوئی ایک بات بھی ایسی نظر نہیں آتی جو ہمیں ناگوار گزری ہو۔ اپنے بہن بھائیوں سے بھی مثالی سلوک تھا، میرے بھائی مبارک احمد اور ان کی اہلیہ کی وفات کے بعد ہر رنگ میں ان کے بچوں کی خدمت اور سر پرستی کرتی رہیں۔
آپ کو اپنی عملی زندگی میں تقریباً بیالیس سال تک لجنہ میں مختلف شعبہ جات میں خدمت کی توفیق ملی، آپ نے سیکرٹری ناصرات بشیرآباد، جنرل سیکرٹری لجنہ سنجر چانگ، جنرل سیکرٹری لجنہ میرپور خاص، نائب صدرلجنہ میرپور خاص، سیکرٹری تربیت میرپور خاص، صدر لجنہ میرپور خاص، سیکرٹری تجنید دارلصدرربوہ، سیکرٹری تربیت رحمان کالونی ربوہ کی حیثیت سے خدمت کی توفیق پائی۔
مہمان نوازی کا وصف بہت نمایاں تھا، ہر آنے والے مہمان کی خاطر مدارات و تکریم کے اوصاف آپ کو ورثہ میں ملے تھے اور آپ نے خوب خوب اس کی پاسداری کی۔
2013ء سے 2015ء کے عرصے میں جب آپ صدر لجنہ میرپورخاص شہرتھیں تو لجنہ کی تمام میٹنگز آپ کے گھر پہ ہوتی تھیں، آپ نہایت خوشی سے کھانے پینے کی تمام اشیاء خود گھر پر بناتیں اور مہمانوں کو پیش کرتی تھیں۔ کبھی بھی ایسا نہیں ہوا کہ لجنہ کی کوئی عہدیداریا ممبر آپ کے گھر پر گئی ہوں اور آپ نے بغیر تواضع کے واپس آنے دیا ہو۔
ہمارے ہاں جب بھی بچوں کی شادیوں یا تقاریب پہ آتی تھیں، گھر کے سب ام کاج سنبھال لیتی تھیں اور ہمیں دیگر مصروفیات کے لئے سہولت مہیا کرتی تھیں۔
میری ہمشیرہ جو آپ سے بڑی ہیں نے مجھے بتایا کہ آپ کے گھر میں دو خوبصورت پیالے تھے، میں نے ان کی تعریف کی کہ بہت پیارے ہیں، بہن فرصت پاتے ہی بازار گئیں اور ویسے ہی نئے پیالے لا کر مجھے دےدئے۔ ایک موقع پر آپکو کچھ کپڑے بیرون ملک سے آئے تو بہن نے انکی تعریف کی، ان کے چلے جانے کہ بعد وہ کپڑے سلوا کر ان کے گھر پہ بھجوادئے۔
جہاں ضرورت محسوس کرتیں بچیوں کی شادی پر ہر رنگ میں ممد اورمعاون ہوتیں اور حسب حالات اس سلسلے میں تحریک بھی کرتیں۔
ہمسایوں سے بہت حسنِ سلوک کرنے والی تھیں، گھر میں جب بھی پسندیدہ ڈش بنتی تو پڑوسیوں کے گھر ضرور بھجواتیں۔
دوسروں کی غلطیاں اور قصور معاف کرنے کا حوصلہ رکھتی تھیں، کسی کی لغزش کو نظر انداز کر کہ ایسے ہو جاتی تھیں جسے کچھ ہوا ہی نہیں۔ اپنے قرابت داروں کی خوشیوں میں شامل ہوتیں، تکلیف اور غم کے وقت بھی حاضر ہو کر ڈھارس بندھاتیں، مریضوں کی عیادت کے لیے بھی وقت نکالتی تھیں۔
اپنی روز مرہ مصروفیات، خاوند کی خدمت، بچوں کی دیکھ بھال، ان کی تعلیم و تربیت، جماعتی خدمت کی ساتھ ساتھ گھر کی صفائی ستھرائی بھی قابل ستائش تھی، ہر چیز سلیقے سے رکھی صاف ستھری نظر آتی تھی، ایک اجلا پن تھا جو ہر طرف محسوس ہوتا تھا۔ میرا بھانجا عزیزم عاصم جو آپ کا بھی بھانجا ہی ہے، ایک امتحان کی تیاری کہ سلسلے میں دو ماہ کے لگ بھگ آپ کے ہاں قیام پذیر رہا، آپ جب ملازمت سے گھر واپس آتیں عزیز نے اپنے ادارے میں جانا ہوتا تھا لیکن عزیز کا کہنا ہے کہ کبھی بھی ایسا نہیں ہوا کہ مجھے کھانا کھائےبغیر جانے دیا ہو یا مجھے اپنے سینٹر میں پہنچنے میں دیر ہوئی ہو۔
میں نے اپنی علالت کے دوران آپ سے دعا کی درخاست کرتے ہوئے کہا کہ دعا کریں کہ الله تعالیٰ مجھے صحت اور زندگی دے میں آؤں اور ملاقات ہو جائے لیکن بہن کو پہلے بلاوا آگیا، ہم سب اسی رستے کے مسافر ہیں۔
خوش نصیب ہیں وہ سب جو اچھی یادیں چھوڑ جاتے ہیں، الله تعالیٰ میری بہن کو مغفرت کی چادر میں ڈھانپ لے، ان کے درجات بہت بلند فرمائے، ان کے بچوں اور سب عزیزوں کو صبر جمیل عطا ہو۔
؎بلانے والا ہے سب سے پیارا
اسی پہ اے دل تو جان فدا کر
(منصور احمد کاہلوں۔ آسٹریلیا)