جماعت احمدیہ کا نظام خلافت
قسط 5 (آخری)
خلافت سے دستبرداری
سوال نمبر13: کیا خلافت سے دستبرداری کی جاسکتی ہے؟
جواب:جب قرآن کریم سے یہ ثابت ہوگیا کہ خلیفہ نبی کاقائمقام اور جانشین ہوتا ہےاور نیز یہ کہ خلیفہ خدا بناتا ہےاور خلیفہ کا مشن بالکل وہی ہوتا ہے جو انبیاء کا ہوتا ہے۔اگر انبیاء ہر حال میں تا حیات اپنے منصب پر قائم اور فائز رہتے ہیں تو پھر یہ کیسےممکن ہے کہ خلیفہ جو نبی کا حقیقی جانشین اور قائمقام ہوتا ہے وہ خلافت سے دستبرداری اختیار کرلے۔ایک حدیث بھی خلافت سے دستبردار نہ ہوسکنے کی تائید کرتی ہے۔
حضرت عثمانؓ کی خلافت کے متعلق مسند احمد بن حنبل ؒ میں آنحضرتؐ کا حضرت عثمانؓ کے لئے یہ واضح ارشاد درج ہے کہ
اِنَّ اللّٰہَ یَقُمِّصُکَ قَمِیْصًا فَاِنْ اَرَادَکَ الْمُنَافِقُونَ عَلٰی خِلْعِہِ فَلَا تَخْلَعْہُ اَبَدًا
(مسند احمدبن حنبل)
یعنی اے عثمانؓ ! یقیناً اللہ تعالیٰ تجھے ایک قمیص پہنائے گا۔ اگر منافق اس قمیص کو اتارنے کی کوشش کریں تو ہرگز ہرگز نہ اتارنا۔
پس یہی وجہ تھی کہ حضرت عثمان غنیؓ نے شہادت تو قبول کرلی مگر منصب خلافت سے دستبرداری اختیار نہ کی۔ جو اس بات کا بین ثبوت ہے کہ خلافت سے دستبرداری جائز نہیں۔
حضرت امام حسنؓ کی خلافت سے دستبرداری کا جواز
اب یہاں پر ایک سوال پید اہوتا ہے کہ اگر خلافت سے دستبرداری جائز نہیں تو پھر حضرت امام حسنؓ جن کو حضرت علی کرَّم اللہ وجہُ کی شہادت کے بعد باقاعدہ طورپر خلیفہ منتخب کرلیا گیا تھا انہوں نے حضرت امیر معاویہ کے حق میں کیوں دستبرداری اختیار کی؟
1۔ خلافت راشدہ اولیٰ کے بارہ میں آنحضرتؐ کی یہ پیشگوئی تھی کہ خلافت راشدہ 30سال تک قائم رہے گی۔ اور اس کے بعد بادشاہت قائم ہوجائے گی۔
(ترمذی و ابوداؤد بحوالہ مشکوٰۃ کتاب الفتن فعل ثانی عن سفینۃ)
لہٰذا اس پیشگوئی کے مطابق ضروری تھا کہ خلافت راشدہ جس کا دور حضرت علیؓ کی شہادت کے وقت تقریباً تیس سال بنتا ہے، اپنے اختتام کو پہنچ جاتی۔
2۔ ایک دوسری روایت ہے کہ آنحضرتؐ نے حضرت حسنؓ کے بارہ میں یہ پیشگوئی فرمائی تھی کہ میرے اس نواسے کے ذریعے خدا دو مسلمان گروہوں میں صلح کروائے گا۔
(بخاری بحوالہ مشکوٰۃ باب مناقب اہل بیت و فتح الباری شرح حدیث مذکور)
پس آنحضرتؐ کی اس پیشگوئی کے مطابق ضروری تھا کہ حضرت امام حسنؓ امت محمدیہ میں پید ا ہونے والے انشقاق و افتراق کو ختم کرنے کے لئے خلافت سے دستبرداری اختیار کرتے۔ لہٰذا حضرت امام حسنؓ کے اس فعل کو مقام مدح میں سمجھاگیا ہے۔
چنانچہ حضرت حسنؓ نے میری دانست میں بہت اچھا کام کیا کہ خلافت سے الگ ہوگئے۔ پہلے ہی ہزاروں خون ہوچکے تھے۔ انہوں نے پسند نہ کیا کہ اور خون ہوں۔اس لئے معاویہ سے گزارہ لے لیا۔۔۔۔حضرت امام حسنؓ نے پسند نہ کیا کہ مسلمانوں میں خانہ جنگی بڑھے اور خون ہوں۔ انہوں نے امن پسندی کو مدنظر رکھا اور حضرت امام حسینؓ نے پسند نہ کیا کہ فاسق و فاجر کے ہاتھ پر بیعت کروں کیونکہ اس سے دین میں خرابی ہوتی ہے۔ دونوں کی نیت نیک تھی۔اِنَّمَا الْاَعْمَالُ بِالنِّیَّاتِ
(ملفوظات جلد چہارم نیا ایڈیشن صفحہ 579-580)
اس مسئلہ پر جماعت کے مستند عالم، سلطان القلم اور حضرت مسیح موعودؑ کے صاحبزادے حضرت مرزا بشیر احمدؓ صاحب ایم۔اے بھی سیرۃ خاتم النبیین میں روشنی ڈالتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں:
یہ سوال کہ کوئی خلیفہ یا امیر باقاعدہ طورپر منتخب یا مقرر ہونے کے بعد خود بعد میں کسی مصلحت کی بناء پر خلافت سے دستبردار ہوسکتا ہے یا نہیں؟ ایک ایسا سوال ہے جس کے متعلق اسلامی شریعت میں کوئی نص نہیں پائی جاتی مگر ظاہر ہے کہ اس معاملہ میں دنیوی امراء کے متعلق تو کوئی امر مانع نہیں سمجھا جاسکتا۔البتہ دینی خلفاء کا سوال قابل غور ہے۔تاریخ سے پتہ لگتا ہے کہ جب حضرت عثمانؓ خلیفہ ثالث سے ان کے زمانہ کے باغیوں نے یہ درخواست کی کہ آپ خود بخودخلافت سے دستبردار ہوجائیں ورنہ ہم آپ کو جبراً الگ کردیں گے تو اس پر حضرت عثمانؓ نے یہ جواب دیا کہ جو عزت کی قمیص خدانے مجھے پہنائی ہے میں اسے خود اپنی مرضی سے کبھی نہیں اتاروں گا۔
(طبری و تاریخ کامل ابن اثیر حالات قتل حضرت عثمانؓ
نیز زرین عن عبداللہ بن سلام بحوالہ تلخیص الصحاح باب فی ذکرالخلفاء الراشدین)
جس میں آنحضرتؐ کے اس ارشاد کی طرف اشارہ تھا جو آپ نے حضرت عثمانؓ سے فرمایا تھا کہ خدا تمہیں ایک قمیص پہنائے گا اور لوگ اسے اتارنا چاہیں گے مگر تم اسے نہ اتارنا۔
(ترمذی بحوالہ مشکوٰۃ باب مناقب عثمانؓ)
لیکن اس کے مقابلہ میں حضرت امام حسنؓ کا یہ فعل ہے کہ انہوں نے امت محمدیہؐ کے اختلاف کو دیکھتے ہوئے امیر معاویہ کے حق میں خلافت سے دستبرداری اختیار کر لی (بخاری عن حسن بصری کتاب الصلح نیز طبری و تاریخ کامل ابن اثیر حالات 41 ہجری)۔ اور یہ روایت آتی ہے کہ اس سے آنحضرتؐ کی وہ پیشگوئی پوری ہوئی کہ میرے اس نواسے کے ذریعہ خدا دو مسلمان گروہوں میں صلح کروائے گا (بخاری بحوالہ مشکوٰۃ باب مناقب اہل بیت و فتح الباری شرح حدیث مذکور)۔ گویا امام حسنؓ کے اس فعل کو مقام مدح میں سمجھا گیا ہے کہ ان کی اس دستبرداری کے نتیجہ میں آنحضرتؐ کی وہ پیشگوئی پوری ہوئی جس میں آپ نے امام حسنؓ کی ایک امتیازی خوبی بیان کی تھی۔ اور امت محمدیہؐ پھر ایک نقطہ پر جمع ہوگئی۔ ان دو مثالوں سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ دستبرداری کا سوال حالات پر چھوڑا گیا ہےیعنی یہ کہ اگر خلافت کا استحکام ہوچکا ہو جیسا کہ حضرت عثمانؓ کے معاملہ میں ہوچکا یا یہ کہ اگر دستبرداری کے متعلق لوگوں کی طرف سے خواہش یا مطالبہ ہو تو وہ ناپسندیدہ بلکہ ناجائز ہے۔لیکن اگر قبل استحکام خلافت جیساکہ امام حسنؓ کے معاملہ میں پایا جاتا ہے کسی اعلیٰ غرض کے حصول کےلئے کوئی امر مانع نہیں ہے۔اس جگہ یہ ذکر ضروری ہے کہ یہ خیال جو ہم نے یہاں ظاہر کیا ہے یہ اسلام کا کوئی فیصلہ یا عقیدہ نہیں ہے بلکہ محض ایک رائے ہے جو واقعات سے نتیجہ نکال کر قائم کی گئی ہے۔واللّٰہ اعلم‘‘
(سلسلہ احمدیہ صفحہ639-638 ازحضرت مرزا بشیراحمد ایم۔ اے)
خلافت احمدیہ پر اعتراضات کے جوابات
سوال نمبر1: خلافت احمدیہ پر ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ قرآن کریم میں پہلے تو خلافت نبوت کے علاوہ خلافت ملوکیت کا بھی ذکر ہے۔پھر خلافت ملوکیت کو چھوڑ کر آیت استخلاف میں صرف خلافت نبوت کے ساتھ اس کی مشابہت کو کیوں مخصوص کیا گیا ہے؟
جواب: آیت استخلاف کے الفاظ بتاتے ہیں کہ گو مسلمانوں سے دوسری آیات میں بادشاہتوں کا بھی وعدہ ہے مگر اس جگہ بادشاہت کا ذکر نہیں ہے بلکہ صرف مذہبی نعمتوں کا ذکر ہے۔چنانچہ اس آیت میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ وَ لَیُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِیْنَهُمُ الَّذِی ارْتَضٰى لَهُمْ کہ خدا اپنے قائم کردہ خلفاء کے دین کو دنیا میں قائم کرکے رہتا ہے۔اب یہ اصول دنیا کے بادشاہوں کے متعلق نہیں اورنہ ا ن کے دین کو خدا تعالیٰ نے کبھی دنیا میں قائم کیا بلکہ یہ اصول روحانی خلفاء کے متعلق ہی ہے۔پس یہ آیت ظاہر کر رہی ہے کہ اس جگہ جس خلافت سے مشابہت دی گئی ہے وہ خلافت نبوت ہی ہے نہ کہ خلافت ملوکیت۔اسی طرح فرماتا ہے۔ وَ لَیُبَدِّلَنَّهُمْ مِّنْۢ بَعْدِ خَوْفِهِمْ اَمْنًا کہ خدا ان کےخوف کو امن سے بدل دیا کرتا ہے۔یہ علامت بھی دنیوی بادشاہوں پر کسی صورت میں چسپاں نہیں ہوسکتی۔کیونکہ دنیوی بادشاہ اگر آج تاج و تخت کے مالک ہوتے ہیں تو کل تحت سے علیحدہ ہوکر بھیک مانگتے دیکھے جاتے ہیں۔اسی طرح خداتعالیٰ کی طرف سے ان کے خوف کو امن میں بدل دینے کا کوئی وعدہ نہیں ہوتا بلکہ بسا اوقات جب کوئی سخت خطرہ پیدا ہوتا ہے تو وہ اس کے مقابلہ کی ہمت تک کھو بیٹھتے ہیں۔
پھر فرماتا ہے یَعۡبُدُوۡنَنِیۡ لَا یُشۡرِکُوۡنَ بِیۡ شَیۡئًا کہ وہ خلفاء میری عبادت کریں گے اور میرے ساتھ کسی کو شریک نہیں کریں گے۔گویا وہ خالص موحد اور شرک کے شدید ترین دشمن ہوں گے۔مگر دنیا کے بادشاہ تو شرک بھی کرلیتے ہیں حتیٰ کہ رسول کریمؐ فرماتے ہیں یہ بھی ممکن ہے کہ ان سے کبھی کفر بواح صادر ہوجائے۔پس وہ اس آیت کے مصداق کس طرح ہوسکتے ہیں۔
چوتھی دلیل جس سے یہ ثابت ہوتا ہے ان خلفاء سے مراد دنیوی بادشاہ ہرگز نہیں یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَ مَنْ كَفَرَ بَعْدَ ذٰلِكَ فَاُولٰٓئِكَ هُمُ الْفٰسِقُوْنَ یعنی جو لوگ ان خلفاء کا انکار کریں گے وہ فاسق ہوجائیں گے۔اب بتاؤکہ جو شخص کفر بواح کا بھی مرتکب ہوسکتا ہو۔ آیا اس کی اطاعت سے خروج فسق ہوسکتا ہے؟ یقیناً ایسے بادشاہوں کی اطاعت سے انکار کرنا انسان کو فاسق نہیں بناسکتا۔فسق کا فتویٰ انسان پر اسی صورت میں لگ سکتا ہے جب وہ روحانی خلفاء کی اطاعت سے انکار کرے۔
غرض یہ چاروں دلائل جن کا اس آیت میں ذکر ہے اس امر کا ثبوت ہیں کہ اس آیت میں جس خلافت کا ذکر کیا گیا ہے وہ خلافت ملوکیت نہیں۔پس جب خدا نے یہ فرمایا لَیَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِی الْاَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِهِمْکہ ہم ان خلیفوں پر ویسے ہی انعامات نازل کریں گے جیسے ہم نے پہلے خلفاء پر انعامات نازل کئے تو اس سے مراد یہی ہے کہ جیسے پہلے انبیاء کی مدد ہوتی رہی ہے اسی طرح ان کی مددہوگی۔پس اس آیت میں خلافت نبوت سے مشابہت مراد ہےنہ کہ خلافت ملوکیت ہے۔
سوال نمبر2: جماعت احمدیہ کی خلافت پر ایک اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ خلیفہ وقت کے لئے بادشاہ ہونا ضروری ہے۔اس کی قرآن کریم سے دلیل یہ دی جاتی ہے کہ آیت استخلاف کا شان نزول یہ ہے کہ جب کفار کے مظالم حد سے بڑھ گئے اور صحابہ نے کچھ مایوسی کا اظہار کرنا شروع کر دیا تو اس وقت مسلمانوں کو آئندہ حکومت و بادشاہت ملنے کی امید دلا کر ان کو حوصلہ اور تسلی دی گئی۔نیز آیت استخلاف میں لَیَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِی الْاَرْضِ میں لفظ اَلاَرض سے زمینی اور دنیاوی بادشاہت کا استدلال کیا جاتاہے۔اور اس دعویٰ کی عملی دلیل یہ دی جاتی ہے کہ خلافت راشدہ اولیٰ کو روحانی خلافت کے ساتھ ساتھ زمینی بادشاہت یعنی حکومت بھی عطا کی گئی تھی؟
جواب: خلافت کے لئے حکومت کا ملنا ضروری نہیں ہے۔
1۔ جہاں تک شان نزول کا تعلق ہے تو اس سلسلہ میں عرض ہے کہ کسی آیت کے مضامین اور مطالب کا محض شان نزول تک محدود کردینا یہ قرآنی روح کے منافی ہے۔اگر اس اصول کو درست تسلیم کرلیاجائے تواس کا مطلب یہ ہوگا کہ کوئی متعلقہ آیت کریمہ کا کوئی اور مفہوم اور مطلب نہیں ہوسکتا۔حالانکہ قرآن کریم کے کئی بطن اور ایک سے زیادہ مضامین ایک مسلمہ حقیقت ہے۔علاوہ ازیں شان نزول کا معیار محض ایک ذوقی استدلال ہے یہ کوئی تسلیم شدہ معیار نہیں۔لہذا ہر آیت کی شان نزول کی روشنی میں تشریح و تفسیر کرنا ضروری نہیں۔
2۔ جہاں تک آیت استخلاف میں لَیَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِی الْاَرْضِ کے الفاظ میں فی الارض سے زمینی بادشاہت یعنی حکومت کا استدلال ہے تو یہ بھی قرآنی محاورہ کی روشنی میں درست نہیں کیونکہ قرآن کریم میں دیگر مقامات پر خلافت کے ساتھ الارض کا لفظ استعمال کیا گیا ہے مگر وہاں خلافت سے مراد حکومت نہیں لیا جاتا۔جیساکہ حضرت آدمؑ کے لئے فرمایا اِنِّیْ جَاعِلٌ فِی الاَرْضِ خَلِیفَۃً (البقرہ:31) یقیناً میں زمین میں ایک خلیفہ بنانے والا ہوں۔ اسی طرح فرمایا وَيَجْعَلُكُمْ خُلَفَاءَ الْأَرْضِ (النمل:63) اور وہ تمہیں زمین کے وارث بناتا ہے اسی طرح سورۃ یونس میں فرمایاکہ ثُمَّ جَعَلْنٰكُمْ خَلٰٓىٕفَ فِی الْاَرْضِ مِنْۢ بَعْدِهِمْ لِنَنْظُرَ كَیْفَ تَعْمَلُوْنَ (یونس:15) پھر ان کے بعد ہم نے تمہیں زمین میں (ان کا) جانشین بنایا تاکہ ہم دیکھیں کہ تم کیسے عمل کرتے ہو۔اس آیت کریمہ میں توآیت استخلاف کی طرح اعمال کا بھی ذکر آیا ہےجس طرح آیت استخلاف میں خلافت اعمال صالحہ کے ساتھ مشروط قرار دی گئی ہے اسی طرح اس آیت کریمہ میں خلافت دینے کا مقصد ہی اچھے اعمال بجالانا شرط قرار دیا گیا ہے۔لہٰذا یہ استدلال کہ آیت استخلاف میں خلافت فی الارض کا ذکر ہے اس لئے خلافت روحانی کے ساتھ دنیاوی بادشاہت اور حکومت کا ملنا ضروری ہے، درست قرار نہیں پاتا۔
3۔ یہ دلیل کہ خلافت راشدہ اولیٰ یعنی خلفاء اربعہ کو دنیاوی بادشاہت بھی حاصل تھی۔مگر یاد رکھنا چاہئے کہ اس وقت کے مخصوص حالات کے پیش نظر خلفاء اربعہ کو دنیاوی بادشاہت کا حاصل ہونا آئندہ کےلئے کوئی قاعدہ کلیہ قرار نہیں دیا جاسکتا۔ خلفاء اربعہ کو حکومت ملنا ان کے لئے ایک جزوی امتیاز تھا۔آنحضرتؐ نے اپنے بعد جس خلافت کی پیشگوئی فرمائی تھی اس میں اپنے بعد خلافت علیٰ منہاج نبوت کی تخصیص کی گئی تھی۔ پھر خلافت علیٰ منہاج نبوت کے بعد درمیانی زمانہ کے حالات و واقعات اور خرابیوں کا ذکر کرکے آخری زمانہ میں دوبارہ خلافت علیٰ منہاج نبوت کا ذکر ملتاہے۔ خلافت علی منہاج نبوت سے مراد ایسی خلافت جو نبوت کے طریق پر قائم ہواور جس کا مقصد انبیاء علیہم السلام کے مشن کو ہی آگے بڑھانا ہے۔تاریخ انبیاء کے مطالعہ سے صرف چند ایک ایسے انبیاء کا ذکر ملتا ہے جن کو نبوت کے ساتھ حکومت بھی حاصل تھی۔باقی تمام انبیاء کو دنیاوی حکومت حاصل نہ تھی۔ لہٰذا ثابت یہ ہوا کہ خلافت علیٰ منہاج نبوت سے مراد ایسی خلافت ہےجس کے لئے حکومت ارضی کا حاصل ہونا ضروری نہیں۔ویسے مماثلت کے لئے ہر امر میں مشابہ ہونا ضروری نہیں جزوی مشابہت سے بھی مماثلت ثابت ہوسکتی ہے۔لہٰذا خلافت احمدیہ پر یہ اعتراض کہ اس کو چونکہ حکومت یا بادشاہت حاصل نہیں لہٰذا یہ آیت استخلاف کی مصداق یا خلافت راشدہ کی مثیل نہیں ہوسکتی غلط اور بے بنیاد ہے۔
سوال نمبر3: خلافت راشدہ خلافت علیٰ منہاج نبوت پر قائم تھی اور یہی دعویٰ خلافت احمدیہ کا ہے حالانکہ خلافت راشدہ کو تو حکومت بھی حاصل تھی جبکہ خلافت احمدیہ حکومت کے منصب سے محروم ہے لہٰذا خلافت احمدیہ کس طرح خلافت راشدہ کی قائم مقام ہوسکتی ہے؟
جواب: اس سوال کا جواب دیتے ہوئے حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں:
’’ایک اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ خلیفہ وہ ہوتا ہے جو بادشاہ ہو یا مامور ہو تم کون ہو؟ بادشاہ ہو؟ میں کہتا ہوں نہیں۔ مامور ہو؟ میں کہتا ہوں نہیں۔پھر تم خلیفہ کس طرح ہوسکتے ہو؟ خلیفہ کے لئے بادشاہ یا مامور ہونا شرط ہے۔یہ اعتراض کرنے والے لوگوں نے خلیفہ کے لفظ پر ذرا بھی تدبر نہیں کیا۔یہ ایسی ہی بات ہے کہ ایک شخص درزی کی دکان پر جائے اور دیکھے کہ ایک لڑکااپنے استاد کو کہتا ہے ’’خلیفہ جی‘‘۔وہ وہاں سے آکر لوگوں کو کہنا شروع کردے کہ خلیفہ تو درزی کو کہتے ہیں اور کوئی شخص جو درزی کا کام نہیں کرتا وہ خلیفہ کس طرح ہوسکتا؟ اسی طرح ایک شخص مدرسہ میں جائے (پہلے زمانہ میں مانیٹر کو خلیفہ کہتے تھے) اور لڑکوں کو ایک لڑکے کو خلیفہ کہتے سنے اور باہر آکر کہہ دے کہ خلیفہ توا سے کہتے ہیں جو مانیٹر ہوتا ہے۔اس لئےوہ شخص جو لڑکوں کا مانیٹر نہیں وہ خلیفہ نہیں ہوسکتا۔خلیفہ کےلئے تو لڑکوں کا مانیٹرہونا شرط ہے۔اسی طرح ایک شخص دیکھے کہ آدم علیہ السلام کو خداتعالیٰ نے خلیفہ بنایا اور ان کے فرشتوں کو حکم دیا کہ سجدہ کرو۔وہ کہےکہ خلیفہ تو وہی ہوسکتا ہے جس کو سجدہ کرنے کا حکم فرشتوں کو ملے ورنہ نہیں ہوسکتا۔
اسی طرح ایک اور شخص آنحضرتؐ کے خلفاء کو دیکھے جن کے پا س سلطنت تھی تو کہے کہ خلیفہ تو اس کو کہتے ہیں جس کے پاس سلطنت ہو اس کے سوا اور کوئی خلیفہ نہیں ہوسکتا کیونکہ خلیفہ کےلئے سلطنت کا ہونا شرط ہے لیکن ایسا کہنے والے اتنا نہیں سمجھتے کہ خلیفہ کے لفظ کے معنی کیا ہیں؟ اس کے یہ معنی ہیں کہ جس کا خلیفہ کہلائے اس کا وہ کام کرنے والا ہواگر کوئی درزی کا کام کرتا ہے تو وہی کام کرنے والا اس کا خلیفہ ہو اور اگر کوئی طالب علم کسی استاد کی غیر حاضری میں اس کا کام کرتا ہے تو وہ اس کا خلیفہ ہے۔
اسی طرح اگر کوئی کسی نبی کا کام کرتا ہے تو وہ اس نبی کا خلیفہ ہے اگر خدانے نبی کو بادشاہت اور حکومت دی ہے تو خلیفہ کے پاس بھی بادشاہت ہونی چاہئے اور خدا خلیفہ کو ضرور حکومت دے گا اور اگر نبی کے پاس ہی حکومت نہ تھی تو خلیفہ کہاں سے لائے۔ آنحضرتؐ کو چونکہ خداتعالیٰ نے دونوں چیزیں یعنی روحانی اور جسمانی حکومتیں دی تھیں اس لئے ان کے خلیفہ کے پاس بھی دونوں چیزیں تھیں۔لیکن اب جبکہ خداتعالیٰ نے حضرت مسیح موعودؑ کو حکومت نہیں دی تو اس کا خلیفہ کس سے لڑتا پھرے کہ مجھے حکومت دو۔ایسا اعتراض کرنے والے لوگوں نے خلیفہ کے لفظ پر غور نہیں کیا۔
(سوانح فضل عمر جلد دوم صفحہ 50-52)
حضرت مسیح موعودؑکی جانشین شخصی خلافت یا انجمن
جماعت احمدیہ مبائعین اور پیغامیوں یعنی غیرمبائعین کے درمیان سب سے بڑا اختلافی مسئلہ یہ ہے کہ جماعت احمدیہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات کے بعد رسالہ الوصیت کے مطابق شخصی خلافت کی قائل ہے۔ جبکہ پیغامی یعنی غیر مبائعین کا نقطہ نظر یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بعد نظام خلافت قائم کرنے کی ضرورت نہیں بلکہ جماعت احمدیہ کے تمام معاملات اور امور کی نگران کسی شخصی خلافت کی بجائے انجمن معتمدین ہونی چاہیئے۔ مگراس مسئلہ کا حل خود خدا تعالیٰ نے قرآن کریم میں بیان فرمایا ہے۔جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتاہے۔ لَیَسۡتَخۡلِفَنَّہُمۡ فِی الۡاَرۡضِ کَمَا اسۡتَخۡلَفَ الَّذِیۡنَ مِنۡ قَبۡلِہِمۡ (النور:56)
یعنی اللہ تعالیٰ مسلمانوں میں بھی اسی طرح کے خلیفہ بنائے گا جس طرح پہلے لوگوں میں بنائے۔اس آیت سے دوباتیں ثابت ہوئیں۔ ایک تو یہ کہ مسلمانوں میں اللہ تعالیٰ ویسے ہی خلیفے بنائے گا جیسے پہلوں میں بنائے۔ اب اگر پہلی امتوں میں نبیوں کے بعد انجمنیں بنتی تھیں تو اب بھی انجمن ہی خلیفہ ہو گی اور اگر پہلی امتوں میں شخص واحد نبی کا قائم مقام ہوتا رہا تو اب بھی شخص واحد ہی قائم مقام ہوگا۔پس سوال یہ ہے کہ کیا پہلے کسی نبی کا خلیفہ کبھی انجمن بھی ہوئی؟ کبھی نہیں۔حضرت موسیٰ کا خلیفہ بھی ایک ہی شخص ہوا۔پس ضرور تھا کہ نبی کریمؐ کا خلیفہ بھی ایک ہی شخص ہوتا اور مسیح موعود علیہ السلام کا خلیفہ بھی ایک ہی شخص ہوتا نہ انجمنیں۔کیونکہ لفظ کَمَا نے اس مسئلہ کو بالکل صاف کردیاہے اور آیت ہُوَ الَّذِیۡ بَعَثَ فِی الۡاُمِّیّٖنَ رَسُوۡلًا مِّنۡہُمۡ یَتۡلُوۡا عَلَیۡہِمۡ اٰیٰتِہٖ وَیُزَکِّیۡہِمۡ وَیُعَلِّمُہُمُ الۡکِتٰبَ وَالۡحِکۡمَۃَ ٭ وَاِنۡ کَانُوۡا مِنۡ قَبۡلُ لَفِیۡ ضَلٰلٍ مُّبِیۡنٍ (الجمعہ:3) سے بھی یہی ثابت ہوتا ہے کہ جس طرح نبی کریمؐ کے بعد خلافت ہوئی اسی طرح مسیح موعودؑ کے بعد ہوگی۔کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ مسلمانوں کی تربیت رسول کریمؐ دو وقت کریں گے۔ ایک ابتداء اسلام میں۔ ایک آخری زمانہ میں۔ پس مسیح موعودؑ کے کام کو ان کے کام کے ساتھ مشابہت دے کر اللہ تعالیٰ نے بتا دیا ہے کہ آخری زمانہ بھی اول زمانہ کے مشابہہ ہوگا۔پس ضرور ہے کہ آج بھی اسی طرح خلافت ہو جس طرح رسول کریمؐ کے زمانہ میں تھی۔اسی طرح قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَشَاوِرْهُمْ فِی الْاَمْرِۚفَاِذَا عَزَمْتَ فَتَوَكَّلْ عَلَى اللّٰهِ (آل عمران رکوع17) یعنی تو معاملات میں ان لوگوں سے مشورہ لے لیا کر۔لیکن جب تو عزم اور ارادہ کرلے تو پھر اللہ تعالیٰ پر توکل کرکے اپنے عزم ومنشاکے مطابق کام کر۔اس آیت میں بھی خلافت کا مسئلہ صاف کردیا گیا ہے کیونکہ رسول کریمؐ نے فرمایا ہے کہ یہ آیت میری امت پر ایک رحمت ہے اور جواس پر عمل کرکے مشورہ سے کام کرے گاوہ کامیاب ہوگا۔اور جو بلا مشورہ کام کرے گا وہ ہلاک ہوگااور اس طرح آنحضرتؐ نے بتا دیا ہے کہ یہ آیت آپؐ کے ساتھ مخصوص نہیں۔بلکہ آپؐ کے بعد بھی اس پر عملدرآمد جاری رہے گا۔پس شَاوِرکے لفظ سے جس میں ایک آدمی کو مخاطب کیا گیا ہے صاف معلوم ہوتا ہے کہ رسول کریمؐ کے بعد صرف ایک شخص خلیفہ ہوگااور وہ لوگوں سے مشورہ لینے کے بعد جوبات خدااس کے دل میں ڈالے اس پر عمل ہوگااور لوگوں کے مشورہ پر چلنے کاپابند نہیں ہوگا۔کیونکہ دوسری حدیث سے ثابت ہے کہ یہ آیت اصل میں آپ کے بعد کے حکام کے لئے ہے۔پس خلافت قرآن کریم سے ثابت ہے اورآیت استخلاف اور آیت مشاورۃ اس مسئلہ کا فیصلہ کردیتی ہیں۔
اسی طرح جب بنی اسرائیل نے اپنے ایک نبی سے اپنے اوپر ایک حاکم مقرر کرنے کی درخواست کی تو ان کے لئے کوئی انجمن نہ مقرر کی گئی بلکہ ان کے نبی نے یہ کہا کہ اِنَّ اللّٰهَ قَدْ بَعَثَ لَكُمْ طَالُوْتَ مَلكًا کہ تجھ پر طالوت کو بادشاہ بنایاہے۔جس پر اس وقت بھی چند لوگوں نے کہا وَنَحْنُ اَحَقُّ بِالْمُلکِ مِنہُ اگر جمہوریت خداتعالیٰ کے نزدیک پسندیدہ ہوتی تو ایک انجمن مقرر کی جاتی نہ بادشاہ۔اگر کہو کہ اس وقت زمانہ اور تھا اور اب اور ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں صاف فرما چکا ہے کہ امت محمدیہؐ کی خلافت امت بنی اسرائیل کی خلافت کے مطابق ہوگی۔جیسا کہ پہلے لکھا جا چکا ہے۔خلافت طالوت کے متعلق یہ بات بھی قابل غور ہے کہ طالوت کا حکم قطعی قرار دیا گیا ہےاور جو لوگ طالوت کے احکام کو مانتے تھے انہیں کو مومن کہا ہے اور آیت استخلاف میں بھی خلفاء کے منکرین کو فاسق کہا ہے جیسا کہ فرمایا وَمَنْ کَفَرَ بَعدَ ذٰلِکَ فَاُولٰئِکَ ھُمُ الْفَاسِقُون خلفاء کے کافر فاسق ہوں گے۔
یہ مسئلہ بھی یاد رکھنے کے قابل ہے کہ حضرت آدم کو بھی خداتعالیٰ نے خلیفہ بنایا اور اس وقت جمہوریت کو قائم نہیں کیا تھا اور ان کے وجود پر ملائکہ نے اعتراض بھی کیامگر اللہ تعالیٰ نے فرمایا۔اِنِّی اَعْلَمُ مَالَاتَعْلَمُون پھر ملائکہ نے تو اپنے اعتراض سے رجوع کرلیا۔لیکن ابلیس نے رجوع نہ کیااور ہمیشہ کے لئے ملعون ہوا۔پس خلافت کا انکار کوئی چھوٹا سا انکار نہیں۔شیطان جو اول الکافرین ہے وہ بھی خلیفہ کے انکار سے ہی کافر بنا تھا۔اب دیکھنا یہ ہے کہ کون ملائکہ میں سے بنتا ہے اور کون ابلیس کا بھائی بنتا ہے۔
مندرجہ بالا حوالہ جات سے یہ ثابت ہو چکا ہے کہ قرآن شریف سے شخصی خلافت ثابت ہے نہ کہ جمہوری اور قدیم سے اللہ تعالیٰ کی سنت یہی چلی آئی ہے کہ وہ نبی کے بعد ایک شخص کو خلیفہ بناتا ہےاور اس کے بعد دوسرے کو نہ یہ کہ چند آدمیوں کو ایک ہی وقت میں خلیفہ بنادیتا ہے۔
شخصی خلافت کاثبوت حدیث سے
احادیث سے ثابت ہے کہ خلیفہ کا وجود ضروری ہے اور آنحضرتؐ نے بھی جمہوریت کو قائم نہیں کیا بلکہ خلافت کو قائم کیا ہے اور یہی نہیں بلکہ آپؐ نے صحابہؓ کو وصیت کی کہ میرے بعد اختلافات پھیلیں گے مگر تم میرے خلفاء کی سنت پر عامل ہونااور انہیں کے طریق پرچلنا۔ اُوْصِیْکُمْ بِتَقْوَی اللّٰہِ وَالسَّمْعِ وَالطَّاعَۃِ وَاِنْ کَانَ عَبْدًا حَبْشِیًافَاِنَّہُ مَنْ یَعِشْ مِنْکُمْ بَعْدِیْ فَیَرَی اِخْتِلَافًا کَثِیرًافَعَلَیْکُمْ بِسُنَّتِی وَسُنَّۃِ الْخُلْفَاءِ الرَّاشِدِیْنُ الْمُھْتَدِیْنَ مِنْ بَعْدِیْ تَمُسِّکُوابِھَا وَعَضُّوْاعَلَیْھَا بِالنَّوَاجِذِ اِیَّاکُمْ وَمُحْدَثَاتِ الاُمُور میں تمہیں تقویٰ اللہ کی ہدایت کرتا ہوں اور اطاعت فرمانبرداری کی۔خواہ تم پر حبشی غلام ہی سردار کیوں نہ ہو۔کیونکہ میرے بعد جوزندہ رہیں گے اور جلدی ہی دیکھیں گے کہ بہت اختلاف ہو جائے گا۔پس میری اور میرے خلفاء کی جوراشد اور مہدی ہوں گے سنت کو مضبوط پکڑنا اور دانتوں میں زور سے دبائے رکھنا۔یعنی چھوڑنا نہیں اور نئی نئی باتیں جو نکلیں ان سے بچنا۔
اس حدیث میں رسول کریمؐ نے اپنی امت کو خلفاءراشدین کی سنت پر عمل کرنے کی ہدایت کی ہے۔اس حدیث سے نہ صرف یہ معلوم ہوتا ہے کہ رسول کریمؐ کے قائم مقام ایک ایک آدمی ہوں گے بلکہ یہ بھی کہ ان کے اعمال ایک سنت نیک ہوں گے جن پر چلنا مومن کا فرض ہے اور ان کے خلافت چلنا ضلالت ہے۔ایک اور حدیث بھی ہے جس میں رسول کریمؐ فرماتے ہیں۔اگر دو خلیفے ہوں تو ایک کو قتل کردینا چاہیئے۔
اِذَابَوَیْعِ لِخَلِیْفَتَیْن فَاقْتُلُواالآخَرَمِنْھُمَا (مسلم) جب دو خلیفوں کی بیعت کی جائے تو جو بعد میں ہو اسے قتل کردو۔پس صاف معلوم ہوتا ہے کہ رسول کریمؐ نے ایک ہی خلیفہ تجویز کیا ہے اور جمہوریت کو قطعاً پسند نہیں کیا۔اس سے بھی بڑھ کر یہ بات ہے کہ حدیث میں حضرت عباس کی نسبت یہ دعا آئی ہے کہ وَاجْعَلِ الْخِلَافَۃَ بَاقِیَۃً فِیْ عَقْبِہٖ۔ اس کی اولاد میں خلافت کا سلسلہ جاری رکھ۔
خلفاء اربعہ کی خلافت کے آسمانی اور خدائی ہونے کا ثبوت یہ بھی ہے کہ رسول کریمؐ نے حضرت عثمان کو فرمایا۔ اِنَّہُ لَعَلَّ اللّٰہُ یُقَمِّصُکَ قَمِیْصًا خِلْعِہٖ فَلَا تَخْلَعْہُ لَھُم (ترمذی) یعنی خداتعالیٰ تمہیں کرتہ پہنائے گااور لوگ اسے اتارنا چاہیں گے مگر تم اسے ہرگز نہ اتارنا۔ اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ خلافت کا سلسلہ اسلام میں اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق ہوا۔ کیونکہ رسول کریمؐ نے یہ فرمایا ہے کہ خدا تجھے کرتہ پہنائے گا نہ یہ کہ لوگ پہنائیں گے۔خلافت کو خدا کی طرف منسوب کیا ہے۔اگر جمہوریت اسلام میں ہوتی تو آنحضرتؐ یہ فرماتے کہ لوگ تجھے کرتہ پہنانا چاہیں گے لیکن انکار کر دیجیواور کہہ دیجیو کہ یہ جمہوریت کے خلاف ہے اور تعلیم اسلام کے خلاف۔اس لئے میں خلیفہ نہیں بنتا۔مگر آپ نے فرمایا کہ خدا پہنائے گااور لوگ اتارنا چاہیں گے۔مگر تم جمہوریت کا ذرا خیال نہ کرنااوریہ کرتہ نہ اتاریو۔پس صاف معلوم ہوا کہ خلافت ہی اسلام کے احکام کے ماتحت ہے نہ جمہوریت۔
خلافت کے مسئلہ پر صحابہ کا تعامل اور اجماع
قرآن و حدیث کے بعد اجماع صحابہ کیونکہ اللہ تعالیٰ قرآن شریف میں فرماتا ہے وَالسّٰبِقُوۡنَ الۡاَوَّلُوۡنَ مِنَ الۡمُہٰجِرِیۡنَ وَالۡاَنۡصَارِ وَالَّذِیۡنَ اتَّبَعُوۡہُمۡ بِاِحۡسَانٍ ۙ رَّضِیَ اللّٰہُ عَنۡہُمۡ وَرَضُوۡا عَنۡہُ (التوبہ:100) اور مہاجرین وانصار سے سابق اور اول صحابہ اور جو پوری طرح ان کی اتباع کریں۔اللہ تعالیٰ ان سے راضی ہوا اور وہ اللہ تعالیٰ سے راضی ہوئے۔اس آیت میں بتایاگیا ہے کہ صحابہ کی اتباع ہی پر خدا راضی ہوسکتا ہےا ور صحابہ کا اجماع دوم اس بات پر ہوا کہ رسول کریمؐ کا اس سے پہلا اجماع قائمقام کوئی خلیفہ ہونا چاہئے اور سب صحابہ نے حضرت ابوبکرؓ کے ہاتھ پر بیعت کی اور پھر حضرت عمرؓ کے ہاتھ پر بیعت کی۔پھرحضرت عثمانؓ کے ہاتھ پر۔ پھر حضرت علیؓ کے ہاتھ پر۔کل صحابہ کا ایک کے بعد دوسرے کے ہاتھ پر بغیر اختلاف کے بیعت کرتے جانا ثابت کرتا ہے کہ سب اس بات پر متفق تھے اور کسی جماعت صحابہ کا انکار مسئلہ خلافت پرثابت نہیں۔بلکہ سب مقر تھے۔پس صحابہؓ کے اجماع کے خلاف فتویٰ دینے والا خدا تعالیٰ کی رضا کیونکر حاصل کرسکتا ہے۔صحابہ تو کلھم اجمعون خلافت کے مسئلہ پر ایمان لائیں اور اپنی ساری عمر اس پر عامل رہیں اور خدا ان کی اتباع کو اپنی رضا کا موجب قرار دے۔اورآج چند اشخاص اٹھ کر کہیں کہ شخصی خلافت مراد نہیں اسلام میں جمہوریت ہے۔
حضرت مسیح موعودؑ کی شہادت خلافت کے متعلق
حضرت اقدس نے حمامۃ البشریٰ میں یہ حدیث درج فرمائی ہے ثُمَّ یُسَافِرُ الْمَسِیْحُ الْمَوعُوْدُ اَوْخَلِیْفَۃُ مِنْ خُلْفَائِہٖ اِلیٰ اَرْضِ دَمِشْقَ اس حدیث کونقل کرکے حضرت صاحب نے خلافت کے مسئلہ پر دو گواہیاں ثبت کردی ہیں ایک تو نبی کریمؐ کی گواہی کہ مسیح موعودؑ کے بھی خلیفے ہونگے اور دوسری اپنی گواہی کیونکہ آپ نے اس حدیث کو قبول کیا ہے پس آپؑ نے اپنے بعدجو کچھ ہونے والا تھا۔ اس کا اظہار اس حدیث کے درج کردینے سے اپنی وفات سے قریباً پندرہ سال پہلے کردیا تھا کہ میرے بعد خلیفے ہونگے۔اگر خلیفوں کا ہونا خلاف اسلام ہوتا یا آپؑ کے بعد خلفاء کا وجود حضرت صاحب کے یا اللہ تعالیٰ کے منشاءکے خلاف ہوتا تو آپؑ کبھی یہ نہ فرماتے کہ احادیث سے ثابت ہے کہ مسیح یا اس کے خلفاء میں سے کوئی خلیفہ شام کو جائے گا اگر کوئی کہے کہ گو آپ نے خلیفہ کا شام جانا قبول فرمایا ہے مگر یہ تو نہیں فرمایا کہ وہ خلیفہ میری مرضی کے مطابق ہوگا تو اس کا جواب یہ ہے کہ اول تو اس کی نسبت خلفاء لکھا ہے یعنی مسیح موعود کے خلیفوں میں سے ایک خلیفہ۔پس اگر وہ غاصب یا ظالم ہوگا جو جمہوریت کا حق دبا کر خلیفہ بن جائے گا تواس کا نام آپؑ اپنا خلیفہ نہ رکھتے بلکہ فرماتے کہ اس کی امت میں سے ایک جابر بادشاہ۔ دوسرے یہ کہ آپؑ نے اس خلیفہ کو ایک ایسی پیشگوئی کا پورا کرنے والا بتا یا ہےجو خود آپؑ کی نسبت ہے اور فرمایا کہ یہ معلوم ہوتا ہے کہ یا مسیح موعود اس پیشگوئی کو پورا کرے گا یا اس کا خلیفہ جس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ وہ خلیفہ اس کا سچا جانشین ہوگا ورنہ وہ مسیح موعود کا قائم مقام ہوکر ایسی پیشگوئی کو پورا کرنے والا کیونکر ہوسکتا ہے۔؟
حضرت صاحب کی دوسری شہادت خلافت کے متعلق
آپ کا یہ الہام ہے کہ بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے اس الہام سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ حضرت صاحب کے بعد جمہوریت کا ہونا ضروری نہیں بلکہ آپؑ کی جماعت میں بادشاہ ہوں گے اور یہی زبردست اور طاقتور ہوں گے کیونکہ اگر آپؑ کے بعد پارلیمنٹوں کی حکومت تھی اور بادشاہت آپؑ کے اصول کے خلاف تھی تو الہام بدیں الفاظ ہونا چاہئے تھا۔’’پارلیمنٹیں تیرے دین پر چلیں گی‘‘
جمہوریت سے بھی خلافت ثابت ہے
اگریہ مان بھی لیاجائے کہ انجمن کا ہی فتویٰ درست اور صحیح ہے پھر بھی خلافت ثابت ہے کیونکہ حضرت صاحب کی وفات کے بعد کل احمدی جماعت کا پہلا اجماع خلافت کے مسئلہ پر ہی ہوا تھا اور کیا غریب اور کیا امیر کیا صدرانجمن احمدیہ کے ممبران اور کیا عام احمدی سب نے بالاتفاق بغیر تردد و انکار کے بلکہ اصرار اور الحاح سے حضرت مولوی صاحب کو خلیفہ تسلیم کیا اور عاجزانہ طورپر آپؓ سے خلیفہ ہونے کی درخواست کی جس سے یہ ثابت ہوجاتا ہے کہ خلیفہ خد اہی بناتا ہےاوریہ بھی ثابت ہوجاتا ہے کہ جمہوریت کے فیصلہ کے مطابق بھی خلافت ثابت ہے کیونکہ جمہور نے خود خلافت کا اقرار کیا پس اگر جمہوریت بھی ثابت ہوجائے تب بھی انجمن نے بغیر کسی ممبر کے انکار کے خلافت کو قبول کرلیا ہے اور اس طرح بھی جمہوریت کا خاتمہ ہوجاتاہے۔
نظامت خلافت پر اجماع
سلسلہ احمدیہ کا لٹریچر شاہد ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے وصال کے بعد سب سے پہلا اجماع قدرت ثانیہ یعنی نظام خلافت ہی پر ہوا اور الوصیۃ کے مطابق 27مئی 1908ء کو حضرت مولانا نورالدین بھیروی رضی اللہ عنہ خلیفہ اوّل منتخب ہوئے۔ اس موقعہ پر حضرت مولانا نورالدینؓ کی خدمت میں ایک درخواست پیش کی گئی جس پر جناب مولوی محمد علی صاحب، خواجہ کمال الدین صاحب، شیخ رحمت اللہ صاحب، ڈاکٹر سیدمحمد حسین شاہ صاحب اور ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب اور دوسرے بہت سے عمائدین انجمن کے دستخط ثبت تھے۔اس درخواست میں یہ لکھا تھا کہ:
’’اما بعد مطابق فرمان حضرت مسیح موعودعلیہ السلام مندرجہ رسالہ الوصیت ہم احمدیان جن کے دستخط ذیل میں ثبت ہیں اس امر پر صدق دل سے متفق ہیں کہ اوّل المہاجرین حضرت حاجی مولوی حکیم نورالدین صاحب جو ہم سب میں اعلم اور اتقی ہیں اورحضرت امام کے سب سے زیادہ مخلص اور قدیمی دوست ہے اور جن کے وجود کو حضرت امام علیہ السلام اسوۂ حسنہ قرار فرماچکے ہیں جیساکہ آپؑ کے شعر
چہ خوش بودے اگر ہر یک ز امت نور دیں بودے
ہمیں بو دے اگر ہر دل پُر از نور یقیں بودے
سے ظاہر ہے، کے ہاتھ پر احمد کے نام پر تمام احمدی جماعت موجودہ اور آئندہ نئے ممبر بیعت کریں اور حضرت مولوی صاحب موصوف کا فرمان ہمارے واسطے آئندہ ایسا ہی ہو جیساکہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کا تھا‘‘
(بدر 2جون 1908ء)
علاوہ ازیں جناب خواجہ کمال الدین صاحب سیکرٹری صدر انجمن احمدیہ نے انجمن کے جملہ ممبران کی طرف سے تمام بیرونی احمدیوں کی اطلاع کے لئے حسب ذیل بیان جاری کیا۔
’’حضور علیہ السلام کا جنازہ قادیان میں پڑھا جانے سے پہلے آپؑ کے وصایا مندرجہ رسالہ الوصیت کے مطابق حسب مشورہ معتمدین صدرانجمن احمدیہ موجودہ قادیان و اقرباء حضرت مسیح موعود علیہ السلام بہ اجازت حضرت ام المومنین کل قوم نے جو قادیان میں موجود تھی اور جس کی تعداد اس وقت بارہ سو تھی نے حضرت حاجی الحرمین الشریفین جناب حکیم نورالدین سلمہ کو آپؑ کا جانشین اور خلیفہ قبول کیا اور آپ کے ہاتھ پر بیعت کی۔معتمدین میں سے ذیل کے احباب موجود تھے۔
مولانا حضرت سید محمد احسن صاحب صاحبزادہ مرزا بشیرالدین محموداحمد صاحب، جناب نواب محمد علی خاں صاحب، شیخ رحمت اللہ صاحب، مولوی محمد علی صاحب، ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب، ڈاکٹر سید محمد حسین شاہ صاحب، خلیفہ رشیدالدین صاحب اور خواجہ کمال الدین‘‘
جناب خواجہ صاحب نے اس اطلاعی بیان میں یہ بھی تحریر فرمایا:
’’کل حاضرین نے جن کی تعداد اوپر دی گئی ہے بالاتفاق خلیفۃ المسیح قبول کیا یہ خط بطور اطلاع کل سلسلہ کے ممبران کو لکھا جاتا ہے کہ وہ اس خط کے پڑھنے کے بعد فی الفور حضرت حکیم الامت خلیفۃ المسیح والمہدی کی خدمت بابرکت میں بذات خود یا بذریعہ تحریربیعت کریں۔‘‘
(بدر2جون 1908ء)
محترم خواجہ صاحب نے بعد ازاں یہ بھی تسلیم کیا کہ
’’جب میں نے بیعت ارشاد کی۔۔۔یہ بھی کہا کہ میں آپ کا حکم بھی مانوں گا اور آنے والے خلیفوں کا حکم بھی مانوں گا‘‘
(لیکچر اندرونی اختلافات سلسلہ کے اسباب صفحہ 69-70 دسمبر1914ء)
ایک فیصلہ کن سوال
حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے ایک بار قادیان میں خطبہ جمعہ کے دوران ارشادفرمایا کہ:
’’اس مسئلہ کے متعلق ایک سوال ہے جو ہماری جماعت کےدوستوں کو یاد رکھنا چاہئے اور ہمیشہ ان لوگوں کے سامنے پیش کرتے رہنا چاہئے اور وہ یہ کہ یہی لوگ جو آج کہتے ہیں کہ الوصیت سے خلافت کا کہیں ثبوت نہیں ملتا ان لوگوں نے اپنے دستخطوں سے ایک اعلان شائع کیا ہوا ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات کے بعد حضرت خلیفہ اولؓ کی بیعت کے وقت انہوں نے کیا۔۔۔۔پس جماعت کے دوستوں کو ان لوگوں سے یہ سوال پوچھنا چاہئے کہ تم ہمیں الوصیت کا وہ حکم دکھاؤجس کے مطابق تم نے حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ کی بیعت کی تھی۔اس کے جواب میں یا تو وہ یہ کہیں گے کہ ہم نے جھوٹ بولا اوریا یہ کہیں گے کہ الوصیت میں ایسا حکم موجود ہے اور یہ دونوں صورتیں ان کے لئے شکست ہیں‘‘
(الفضل 21شہادت، اپریل 1940ء/1319ہش صفحہ6 خطبہ جمعہ حضرت مصلح موعودؓ )
شخصی خلافت پر سب سے بڑی شہادت
حضرت مسیح موعودؑ کے بعد آپ کی جانشین خلافت پر سب سے بڑی دلیل خدا تعالیٰ کی فعلی شہادت ہے۔نظام خلافت سے وابستہ جماعت مبائعین کا موازنہ غیر مبائعین سے کرکے بآسانی فیصلہ کیا جاسکتا ہےکہ خداتعالیٰ کی فعلی شہادت کس کے ساتھ ہے۔نظام خلافت سے وابستہ لوگوں کے ساتھ یا منکرین خلافت کے ساتھ۔
جماعت احمدیہ مبائعین آج خدا کے فضل اور خلافت کی برکت سے 200سے زائد ممالک میں نفوذکرچکی ہے۔جبکہ غیر مبائعین کی حالت ایسے ہی ہے جیسے آخری شب کا چراغ ہوتا ہے۔جس کی زندگی چند لمحوں کی مہمان ہوتی ہے۔آخر پر ہم ایک غیر کی شہادت پیش کرتے ہیں جس سے جماعت احمدیہ مبائعین کی ترقی روز روشن کی طرح عیاں ہے۔
قاہرہ کے شدید مخالف احمدیت اخبار’’الفتح‘‘ کو بھی لکھناپڑا کہ:
’’میں نے بغور دیکھا کہ قادیانیوں کی تحریک حیرت انگیز پائی۔انہوں نے بذریعہ تحریر وتقریر مختلف زبانوں میں اپنی آواز بلند کی ہے۔اور مشرق و مغرب کی مختلف ممالک و اقوام میں بصرف زرکثیراپنے دعویٰ کو تقویت پہنچائی ہے۔ان لوگوں نے اپنی انجمنیں منظم کرکے زبردست حملہ کیا ہے اور ایشیاء ویورپ، امریکہ اورا فریقہ میں ان کے ایسے تبلیغی مراکز قائم ہوگئے ہیں جو علم و عمل کے لحاظ سے تو عیسائیوں کی انجمنوں کے برابر ہیں لیکن تاثیرات و کامیابی میں عیسائی پادریوں کو ان سے کوئی نسبت نہیں۔قادیانی لوگ بہت بڑھ چڑھ کر کامیاب ہیں۔کیونکہ ان کے پاس اسلام کی صداقتیں اورپُر حکمت باتیں ہیں۔جو شخص بھی ان کے حیرت زدہ کارناموں کو دیکھے گا وہ حیران و ششدر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا کہ کس طرح اس چھوٹی سی جماعت نے اتنا بڑا جہادکیا ہے جسے کروڑوں مسلمان نہیں کرسکے۔صرف وہی ہیں جو اس راہ میں اپنے اموال اورجانیں خرچ کررہے ہیں۔اگر دوسرے مدعیان اصلاح اس جہاد کےلئے بلائیں یہاں تک کہ ان کی آوازیں بیٹھ جائیں اور لکھتے لکھتے ان کے قلم شکستہ ہوجائیں تب بھی عالم اسلام میں ان کا دسواں حصہ بھی اکٹھا نہ کرسکیں گے۔جتنا یہ تھوڑی سی جماعت مال و افراد کے لحاظ سے خرچ کررہی ہے۔‘‘
(الفتح 2جمادی الثانی 1351ھ)
خلافت سے وابستگی کی ضرورت
جن اغراض ومقاصد کے پیش نظر نظام خلافت جاری کیاگیا ہے وہ تبھی پورے ہوسکتے ہیں جب نظام خلافت کے ساتھ کما حقہ وابستگی اختیار کی جائے۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے خلافت کے انکار کو فسق قراردیا ہے۔چنانچہ اللہ تعالیٰ آیت استخلاف میں نظام خلافت کے اغراض و مقاصد اور برکات بیان کرنے کے بعد فرماتاہے:
وَ مَنْ كَفَرَ بَعْدَ ذٰلِكَ فَاُولٰٓئِكَ هُمُ الْفٰسِقُوْنَْ
(النور: 56)
یعنی اورجو کوئی اس کے بعد (خلافت) کا انکار کریں گے پس وہ لوگ فاسق وفاجر قرار پائیں گے۔
جبکہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں جب مومنوں کویہ ارشاد فرمایا کہ
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ حَقَّ تُقٰتِهٖ وَ لَا تَمُوْتُنَّ اِلَّا وَ اَنْتُمْ مُّسْلِمُوْنَ
(آل عمران: 103)
کہ اللہ تعالیٰ کا تقویٰ اس کی تمام شرائط کےساتھ اختیار کرو اور تم پر صرف ایسی حالت میں موت آئے کہ تم پورے فرمانبردار ہو۔
تو اس کے حصول کے لئے جو حقیقی ذریعہ ہے اس کو فوراً اگلی آیت میں بیان فرمادیا۔
ہمارا خلافت پہ ایمان ہے
یہ ملت کی تنظیم کی جان ہے
رہیں گے خلافت سے وابستہ ہم
جماعت کا قائم ہے اس سے بھرم
(ابو ہشام بن ولی)