• 9 مئی, 2025

سو سال قبل کا الفضل

2؍اکتوبر 1922ء دوشنبہ(سوموار)
مطابق 10صفر 1341 ہجری

صفحہ اول و دوم پرحضرت مصلح موعودؓ کی ایک تازہ نظم شائع ہوئی جو حضورؓ نے گورداسپور سے واپسی کے سفر میں کہی۔اس کے چند اشعار ذیل میں تحریر ہیں۔

ملک بھی رشک کرتے ہیں وہ خوش نصیب ہوں میں
وہ آپ مجھ سے کہتا ہے نہ ڈر قریب ہوں میں
کر اپنے فضل سے تُو میرے ہم سفر پیدا
کہ اس دیار میں اے جانِ من غریب ہوں میں
مرے پکڑنے پہ قدرت کہاں تجھے صیاد
کہ باغِ حسنِ محمدؐ کی عندلیب ہوں میں
نہ سلطنت کی تمنا نہ خواہشِ اکرام
یہی ہے کافی کہ مولیٰ کا اک نقیب ہوں میں

دوسرے صفحہ پر حضرت میر محمد اسحٰق صاحبؓ کی جانب سے ’’صیغہ لنگر خانہ کی ہفتہ وار رپورٹ ‘‘ شائع ہوئی ہے۔یہ رپورٹ 20 تا 26ستمبر کے اخراجات اور مہمانان کی تفصیل پر مشتمل ہے اور پہلی مرتبہ الفضل میں اس رپورٹ کی اشاعت ہوئی۔

صفحہ نمبر3 تا 5 پر ایک مضمون بعنوان ’’احمدیت ولایت کے ایک اخبار کی نظر میں‘‘ شائع ہوا ہے۔ دراصل اس مضمون میں ولایت سے شائع ہونے والے ایک اخبار ’’ویسٹ افریقہ‘‘ میں سلسلہ احمدیہ سے متعلق شائع ایک مفصل مضمون کے کچھ اقتباسات دیئے گئے ہیں۔مذکورہ اخبار 3جون 1922ء کی اشاعت میں زیرِ عنوان’’سلسلہ احمدیہ ہندوستان، مغربی افریقہ اور لنڈن میں‘‘تحریر کرتاہے کہ ’’اسلامی سلسلہ احمدیہ لنڈن میں اور درحقیقت تمام انگلینڈ میں مستقل ترقی کر رہا ہے۔یہ بیان ان لوگوں کے لیے واقعی موجبِ حیرت ہو گا جو اس مذہب سے تعلق نہیں رکھتے۔لیکن وہ اور زیادہ متحیر ہوں گےجب ان کو یہ معلوم ہو گا کہ دولتِ برطانیہ دوسری سلطنتوں کی نسبت مسلمانوں کی بہت بڑی تعداد پر حکمران ہے۔اس لحاظ سے حقیقت یہ ہے کہ حکومتِ برطانیہ معلومہ دنیا کی سب سے بڑی اسلامی سلطنت ہے۔‘‘

اس کے بعدمذکورہ اخبار عیدالفطر کی تقریب کے سلسلہ میں احمدیہ مسجد لنڈن میں نمازِ عید کی ادائیگی کے متعلق لکھتا ہے’’گزشتہ اتوار کو جوکہ ماہ رمضان کے خاتمہ کے بعد آیا، مسجد احمدیہ میلرز روڈساؤتھ فیلڈز میں جو دارالسلطنت برطانیہ میں سلسلہ احمدیہ کا مرکز ہے ایک تہوار منایا گیا۔فی الحال تو مسجد کی حیثیت ایک پرائیویٹ مکان کی سی ہے۔مگر مکان اور اس کی متعلقہ زمین جو مکان کی پشت پر ہے خریدی جا چکی ہے۔جس پر آئندہ ایک دو سال کے عرصہ میں مسجد کی تعمیر ہو گی۔جس پر پندرہ ہزار پونڈ صرف ہوں گے اور جس میں تین سو نمازی ایک وقت میں نماز پڑھ سکیں گے۔مسجد کا نقشہ تو وہی ہو گا جو عام طور پرمسجدوں کا ہوتا ہے مگر اس کی تعمیری مصالح میں انگلستان کی آب و ہوا کا خیال ضرور رکھا جائے گا۔مسٹر مبارک علی ایم اے اور مسٹر فتح محمد سیال ایم اے دو مشنری ہیں۔جو ساؤتھ فیلڈز میں تحریکِ احمدیت کے انچارج ہیں۔جس کے قریباً سو ممبر ہیں۔رمضان کےمہینہ کے بعد عیدالفطر کی نماز مسجد کے باغ میں ادا کی گئی۔مسلم اور غیر مسلم دونوں قسم کے لوگ مدعو تھے۔مشرقی قالین سبز گھاس پر نمازیوں کے لیے بچھائے گئے۔جن کا بیشتر حصہ ترکی ٹوپی یا پگڑی کے ساتھ یورپین لباس پہننے ہوئے تھا۔جس سے ایسا معلوم ہوتا تھا کہ ایک لمحہ کے لیے مشرق کو قریب تر لے آیا ہے۔

مسٹر مبارک علی نے پہلے مختصر نماز پڑھائی۔آپ کے مقتدیوں میں ہندوستانی، ایرانی، عراقی، مصری، مغربی افریقوی، مشرقی افریقوی اور روسی مردو عورت شامل تھے۔

بعدازاں اخبار نے مزید لکھا کہ’’یہ سلسلہ جو تمام دنیا میں پھیل رہا ہے یہاں اس کی ابتداء اور موجودہ نشوونما کے متعلق کچھ بیان کرنا بے محل نہ ہو گا۔اس کے بانی حضرت مرزا غلام احمد مسیحِ موعودؑ تھے۔جن کی وفات 1908ء میں ہوئی۔سلسلہ کی ابتداء پنجاب میں شروع ہوئی۔جہاں احمد(علیہ السلام) نے اپنے چار لاکھ متبعین کے ساتھ جو کہ زیادہ تر ہندوستان کے شمال مغربی علاقوں میں پھیلے ہوئے تھے۔بغیر نمود ونمائش کے زندگی بسر کی۔آجکل اغلباً احمدیوں کی تعداد 5لاکھ ہے۔جو تیزی کے ساتھ ترقی پذیر ہے۔احمد علیہ السلام کے خلیفہ اول حضرت مولوی نورالدین صاحب تھے۔جن کا انتقال 1914ء میں ہوا۔‘‘

مذکورہ اخبار اس مضمون میں حضرت مصلح موعودؓ کے متعلق لکھتا ہے’’آجکل اس سلسلہ کے لیڈر اور امام حضرت مرزا بشیرالدین محمود احمد صاحب خلف مسیح موعود علیہ السلام ہیں۔محبت اور صداقت کا یہ واعظِ اعظم جوکہ سلسلہ احمدیہ کا پیشرو ہے۔کس شکل و صور ت کا ہے۔

یہ مذہبی اور معاشرتی مصلح بٹالہ(پنجاب سے) شمال مشرق کی جانب گیارہ میل کے قریب فاصلہ پر ایک چھوٹے سے خاموش قصبہ میں جو کہ چھوٹے سے گاؤں سے بوجہ سلسلہ کی ترقی کے بہت بڑھ گیا ہے، رہتا ہے۔قادیان کی سڑک ہمیشہ زائرینِ قادیان سے جو دنیا کے ہر کونے سے اظہارِ عقیدت اور حصولِ فیض کے لیے آتے ہیں، پُر رہتی ہے۔۔۔

سلسلہ کے امام کے متعلق یوں تصور کرو کہ وہ چٹائی کے ایک چھوٹے سے ٹکڑے پر بیٹھا ہے۔صاف مگر سادہ لباس میں ملبوس ہے۔اس کا سر جھکا ہوا ہے۔اُس کی آنکھیں نیم وا ہیں۔وہ اپنا بزرگانہ سر اٹھاتا ہے اور تم ایک متبسم چہرے کو جس پر انوارِ نبوت ہویدا ہیں، دیکھتے ہو۔اُس کی آواز میں ہمدردی پائی جاتی ہے۔ اُس کے اطوار نہایت متحملانہ ہیں اور وہ بہت عقلمند انسان ہے۔

یہ ہے اس سلسلہ کا امام جو سلسلہ کا انتظام اور اہتمام کرنے میں خاص امتیاز رکھتا ہے۔‘‘

آخر میں اس اخبار نے تحریر کیا کہ’’ تمام احمدی احمد(علیہ السلام) کی اس پیشگوئی پر پورا ایمان اور یقین رکھتے ہیں کہ آخر کار اسلام تمام اقطاعِ عالم میں پھیل جائے گا اور آخر کار حکمران مذہب ہو جائے گا۔‘‘

اخبار مذکور نے حضرت مصلح موعودؓ کی شخصیت کے متعلق جو ذکر کیاٍ اس بارہ میں الفضل نے لکھا کہ ’’آپ کی شبیہِ مبارک اور حالت کا جو نقشہ کھینچا ہے وہ نہایت ہی دل آویز ہونے کے علاوہ حقیقت کے اس قدر مطابق ہے کہ اگر اس کو مدِ نظر رکھ کر یورپ کا کوئی شخص حضرت خلیفۃ المسیح ثانی کی مجلس میں آ جائے تو بغیر کسی کے تعارف کرائے اور بغیر ایک لمحہ کے توقف کے فوراً آپ کو پہچان لے گا۔ہم مضمون نگار کے اس کمال کا اعتراف کیے بغیر نہیں رہ سکتے کہ اس نے غالباً حضرت خلیفۃ المسیح ثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کے فوٹو سے اور آپ کے حالات سے جو ابھی تک انگریزی میں بہت کم شائع ہوئے ہیں ایسا صحیح اور درست نقشہ کھینچا ہے کہ گویا وہ حضور کے سامنے بیٹھا ہوا لکھ رہا تھا اور اسے حضور کی۔مجلس میں بیٹھنے کا موقع حاصل ہو چکا ہے۔‘‘

الفضل مزید لکھتا ہے کہ’’ ممکن ہے کوئی شخص اس مضمون کے متعلق یہ خیال کرے کہ مضمون کسی احمدی نے ہی لکھ کر چھپوا دیا ہو گا لیکن دو تین باتیں اس مضمون میں ایسی پائی جاتی ہیں جو اس بدظنی کو دور کر دیتی ہیں اول تو یہ کہ اخبار نے مضمون نگار کو اپنا خاص قائمقام قرار دیا ہے اور یہ ہو نہیں سکتا کہ یونہی کوئی مضمون بھیج دے اور اسے اخبار اپنا خاص قائمقام بنا لے۔دوسرے حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کے ہی ذکر میں آپ کو مسیحِ موعود لکھا ہے۔جس کی اصلاح کی طرف مولوی مبارک علی صاحب نے اخبار مذکور کو توجہ دلائی اور ان کے خط کی بناء پر اس نے اصلاح کا اعلان کیا۔ایسی غلطی کسی احمدی کے مضمون میں ہر گز نہیں ہو سکتی۔تیسرے یہ لکھا گیا ہے کہ ’’کہا جاتا ہے مغربی افریقہ سے سلسلہ احمدیہ لنڈن میں پہنچا۔‘‘ حالانکہ یہ درست نہیں۔ہمارا لنڈن مشن مغربی افریقہ کے مشن سے بہت پہلے کا قائم ہے۔‘‘

صفحہ نمبر5 پر ’’بانی آریہ سماج کی جائے ولادت کی تلاش‘‘ کے عنوان سے ایک مختصر مضمون شائع ہوا ہے۔نیز اسی صفحہ پر ’’خواجہ صاحب کے علومِ اسلامیہ‘‘ کے عنوان سے ایک مختصر تبصرہ شائع ہوا ہے جو خواجہ کمال الدین صاحب کی ایک تحریر پر کیا گیا ہے جس میں انہوں نے لکھا تھا کہ جرمنی میں تبلیغ کے لیے’’اشاعتِ اسلام‘‘ کے الفاظ استعمال نہ کرنے چاہییں۔

صفحہ نمبر 6 پر حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی 5 اور 6 ستمبر 1922ء کی مصروفیات پر مشتمل ڈائری شائع ہوئی ہے۔جس میں آپ کے ارشاد فرمودہ ملفوظات شامل ہیں۔

صفحہ نمبر7 پر ایک مختصر اعلان بعنوان’’ خانہ خدا کی بے حرمتی‘‘ شائع ہوا ہے۔اس اعلان کے تحت تحریر ہے کہ ’’مرزامحمد حسین صاحب ترگڑی ضلع گوجرانوالہ سے لکھتے ہیں کہ تین چار ماہ سے مخالفین تنگ کر رہے ہیں۔احمدیوں نے جو اپنی مسجد بنائی ہوئی ہے۔اس میں عین خطبہ کے وقت فساد کیا اور اپنے گدھے باندھے اور کئی دن سے گدھے مسجد میں باندھ رہے ہیں۔مسلمان کہلانے والوں کی ان حرکات پر کوئی شریف انسان افسوس کیے بغیر نہیں رہ سکتا۔اس پر بھی ہم تو یہی کہیں گے کہ خدا ان لوگوں کو سمجھ دے۔‘‘

اس خبر کے متعلق اظہارِ افسوس کے علاوہ یہی کہا جا سکتا ہے کہ

؎وقت بدلا ہے فقط ہیں سبھی حالات وہی
گرچہ انساں ہیں نئے مُو بمُو عادات وہی

مذکورہ اخبار کے مفصل ملاحظہ کےلیے درج ذیل لنک ملاحظہ فرمائیں۔

https://www.alislam.org/alfazl/rabwah/A19221002.pdf

(م م محمود)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 30 ستمبر 2022

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ