• 24 اپریل, 2024

اللہ تعالیٰ کی طرف سے بھیجے ہوئے کے ساتھ استہزاء اور …

اللہ تعالیٰ کی طرف سے بھیجے ہوئے کے ساتھ استہزاء اور حد سے زیادہ زیادتیوں میں بڑھنا اور اس پر ڈھٹائی اور ضد سے قائم رہنا یہ سب چیزیں ایسی ہیں جو کبھی دنیا کا امن اور سکون قائم نہیں رہنے دیں گی۔

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:۔
آج دنیا میں ہم دیکھ رہے ہیں کہ ہرطرف ایک افراتفری کا عالم ہے۔ چاہے وہ مشرقی ممالک ہوں یا مغربی، ترقی یافتہ کہلانے والے ممالک ہوں یا ترقی پذیر یا نسبتی لحاظ سے غیر ترقی یافتہ۔ بعض ملک یا ملکوں کے رہنے والے اپنے ملکوں کے اندر فسادوں کی وجہ سے پریشان ہیں اور خوف کا شکار ہیں۔ بعض دوسرے ممالک اور حکومتوں کی دخل اندازیوں کی وجہ سے خوف کا شکار ہیں۔ بعض دہشت گردوں کی کارروائیوں کی وجہ سے پریشان ہیں اور خوف کا شکار ہیں۔ یہ دہشت گردی سیاسی وجوہات کی وجہ سے ہو یا نام نہاد مذہب کی وجہ سے۔ نام نہاد مَیں اس لئے کہتا ہوں کہ مذہب کے نام پر یا مذہب کی طرف منسوب کرکے جو دہشت گردی ہوتی ہے اور اس منسوب کرنے والوں میں جیسا کہ مَیں نے کہا کچھ تو مذہب کے نام پر کرنے والے ہیں اور کچھ خود ساختہ تصور پیدا کرکے اور خاص طور پر اسلام کے خلاف تصور پیدا کرکے پھر اس کا ڈھنڈورا پیٹتے ہیں۔ بہرحال مذہب کبھی بھی دہشت گردی کی تعلیم نہیں دیتا اور خاص طور پر اسلام کی تعلیم تو کلیتاً اِس حرکت کے خلاف ہے اور پھر کسی حکومت میں رہ کر اس کا شہری ہو کر پھر اس قسم کی حرکتیں کرنا تو کسی بھی صورت میں اسلام میں قابل قبول نہیں ہے۔ لیکن بدقسمتی ہے کہ انسانیت اور خدا کی مخلوق پر بعض طبقات کی طرف سے ظلم خدا کے نام پر ہوتا ہے۔ پھر بعض ممالک جنگ کے خوف کی وجہ سے پریشان ہیں۔ بعض کو قدرتی آفات نے گھیرا ہوا ہے اور ان ملکوں میں بسنے والے پریشانی اور خوف کا شکار ہیں۔ غرض کہ آج ہر ہمدردِ انسانیت اور خداکا خوف رکھنے والا دل اس امر کی طرف متوجہ ہے اور غور کرتا ہے کہ کیا وجہ ہے کہ مکمل طور پر کہیں بھی کسی کو اطمینان قلب اور امن نصیب نہیں ہے اور اس درد کے ساتھ فی زمانہ صرف احمدی سوچتا ہے۔ مجھے ڈاک میں اکثر خطوط ملتے ہیں کہ دنیا کے امن کے لئے، ملک کے امن کے لئے دعا کریں۔ یہ خطوط لکھنے والے گو کہ چند ایک ہوں گے لیکن مجھے علم ہے، کئی ذریعوں سے علم ہوتا رہتا ہے کہ اکثریت احمدیوں کی دنیا کے یا اپنے اپنے ملکوں کے حالات کی وجہ سے پریشان ہے کہ کس قسم کے پریشان کن حالات ملکوں میں، دنیامیں پیدا ہوئے ہوئے ہیں۔ اور یہ جو سوچ ہے یہ اُس انقلاب کا نتیجہ ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنے ماننے والوں کے دلوں میں پیدا کیا۔ یہ جذبات اِس وجہ سے احمدی کے دل میں پیدا ہوتے ہیں کہ اُس کی ایمانی حالت کو اس زمانے کے امام نے بدلا ہے۔ خدا کا خوف اور خدا کی مخلوق سے ہمدردی اس کے دل میں پیدا کی۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے مختلف جگہ پر اپنی بعثت کی غرض بیان فرمائی ہے۔ آپؑ یہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ: ’’مَیں اس لئے بھیجا گیا ہوں کہ تا ایمانوں کو قوی کروں اور خداتعالیٰ کا وجود لوگوں پر ثابت کرکے دکھلاؤں کیونکہ ہر ایک قوم کی ایمانی حالتیں نہایت کمزور ہو گئی ہیں اور عالَم آخرت صرف ایک افسانہ سمجھا جاتا ہے اور ہر ایک انسان اپنی عملی حالت سے بتا رہا ہے کہ وہ جیسا کہ یقین دنیا اور دنیا کی جاہ و مراتب پر رکھتا ہے اور جیسا کہ اُس کو بھروسہ دنیوی اسباب پر ہے، یہ یقین اور یہ بھروسہ ہرگز اس کو خداتعالیٰ اور عالم آخرت پر نہیں۔ زبانوں پر بہت کچھ ہے مگر دلوں میں دنیا کی محبت کا غلبہ ہے۔ …سو مَیں بھیجا گیا ہوں کہ تا سچائی اور ایمان کا زمانہ پھر آوے اور دلوں میں تقویٰ پیدا ہو۔‘‘

(کتاب البریہ روحانی خزائن جلد 13صفحہ293-291 حاشیہ)

پھر آپؑ فرماتے ہیں۔ ’’وہ کام جس کے لئے خدا نے مجھے مامور فرمایا ہے وہ یہ ہے کہ خدا میں اور اس کی مخلوق کے رشتہ میں جو کدورت واقع ہو گئی ہے اس کو دُور کرکے محبت اور اخلاص کے تعلق کو دوبارہ قائم کروں اور سچائی کے اظہار سے مذہبی جنگوں کا خاتمہ کرکے صلح کی بنیاد ڈالوں اور وہ دینی سچائیاں جو دنیا کی آنکھ سے مخفی ہو گئی ہیں ان کو ظاہر کر دوں‘‘۔

(لیکچرلاہور۔ روحانی خزائن جلد20 صفحہ180)

آپؑ فرماتے ہیں ’’قرآن شریف کے بڑے حکم دو ہی ہیں، ایک توحید و محبت و اطاعت باری عزّاِسمہ دوسری ہمدردی اپنے بھائیوں اور اپنے بنی نوع کی‘‘۔

(ازالہ اوہام روحانی خزائن جلد3 صفحہ 550)

پس خوش قسمت ہیں وہ لوگ جو اس زمانے کے امام کو ماننے والے ہیں جس کو اللہ تعالیٰ نے زمانے کی اصلاح کے لئے اُس وقت بھیجا جب دنیا میں ہر طرف فساد اور خود غرضی کا دَور دَورہ تھا۔ اس امام کو ماننے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ہمیں اُن برائیوں اور فسادوں سے بچنے کے راستے دکھا دئیے۔ اب یہ ہر احمدی کا کام ہے کہ توحید کو دنیا میں قائم کرنے کے لئے کوشش کرے۔ خدا سے ذاتی تعلق پیدا کرے۔ مخلوق کی ہمدردی میں ہر وقت کوشاں رہے۔

اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت احمدیہ گزشتہ سو سال سے زائد عرصہ سے ہمدردی کے جذبہ کے تحت ان فرائض کی ادائیگی کے لئے حتی المقدور کوشش کرتی ہے۔ اور اس وجہ سے ہی کہ ہمارے دلوں میں ہمدردی ہے، ہمیں ان لوگوں کو ان آفات کی اور ان فسادات کی وجوہات بھی بتانی چاہئیں۔ دنیا کے ہر شخص تک یہ پیغام پہنچانا چاہئے کہ اس کی وجہ کیا ہے؟ اپنے اپنے حلقہ احباب میں بھی، اخباروں کو خطوط لکھ کر یاد وسرے ذرائع استعمال کرکے دنیا کو اب پہلے سے زیادہ کوشش کے ساتھ یہ بتانے کی ضرورت ہے کہ اگر خدا کو نہیں پہچانو گے، اگر اس کے قوانین پر عمل نہیں کرو گے تو یہ بے چینی کبھی ختم نہیں ہو گی، یہ فساد کبھی ختم نہیں ہوں گے، یہ ارضی اور سماوی آفات کبھی ختم نہیں ہوں گی۔ اور پھر اللہ تعالیٰ کی طرف سے بھیجے ہوئے کے ساتھ استہزاء اور حد سے زیادہ زیادتیوں میں بڑھنا اور اس پر ڈھٹائی اور ضد سے قائم رہنا یہ سب چیزیں ایسی ہیں جو کبھی دنیا کا امن اور سکون قائم نہیں رہنے دیں گی۔

اب آفات کو ہی لے لیں، جہاں ان کی شدت بڑھ رہی ہے، ان کی تعداد میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔ ان موسمی آفات کو زمینی، موسمی اور مختلف تغیرات کی وجہ قرار دیا جاتا ہے لیکن یہ بھی دیکھنے والی چیز ہے اور دنیا کو بتانے کی ضرورت ہے کہ سو سال پہلے ایک شخص نے دعویٰ کیا کہ مجھے اللہ تعالیٰ نے دنیا کی اصلاح کے لئے بھیجا ہے اور میری تائید میں اللہ تعالیٰ زمینی اور سماوی نشانات دکھائے گا۔ زلزلے آئیں گے، آفتیں آئیں گی، تباہیاں ہوں گی اگر لوگوں نے توجہ نہ دی۔ اور اس کے بعد ہم دیکھ رہے ہیں کہ یہ باتیں سچ ہوتی نظرآ رہی ہیں۔ زلزلے بھی اس کثرت اور اس شدّت سے آ رہے ہیں جن کی مثال سو سال پہلے کی تاریخ میں نہیں ملتی۔

(خطبہ جمعہ 23؍ نومبر 2007ء بحوالہ الاسلام ویب سائٹ)

پچھلا پڑھیں

اعجاز کلام کے کمالات قرآن شریف پر ختم ہوگئے

اگلا پڑھیں

مرد ِحق کی دُعا