• 26 اپریل, 2024

معاشرے کا امن ایک دوسرے کے جذبات کا خیال رکھنے اور معاف کرنے سے وابستہ ہے

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں :
’’اے ہموطن پیارو!! میں نے یہ بیان آپ کی خدمت میں اس لئے نہیں کیا کہ میں آپ کو دکھ دوں یا آپ کی دل شکنی کروں بلکہ میں نہایت نیک نیتی سے یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ جن قوموں نے یہ عادت اختیار کر رکھی ہے اور یہ ناجائز طریق اپنے مذہب میں اختیار کر لیا ہے کہ دوسری قوموں کے نبیوں کو بدگوئی اور دشنام دہی کے ساتھ یاد کریں وہ نہ صرف بیجا مداخلت سے جس کے ساتھ ان کے پاس کوئی ثبوت نہیں خدا کے گنہگار ہیں۔ بلکہ وہ اس گنہ کے بھی مرتکب ہیں کہ بنی نوع میں نفاق اور دشمنی کا بیج بوتے ہیں۔‘‘

(پیغام صلح، روحانی خزائن جلد نمبر23 صفحہ نمبر460 مطبوعہ 2008ء)

پھر فرمایا:
’’خدا تعالےٰ نے قرآن شریف میں اس قدر ہمیں طریق ادب اور اخلاق کا سبق سکھلایا ہے کہ وہ فرماتا ہےکہ وَ لَا تَسُبُّوا الَّذِیۡنَ یَدۡعُوۡنَ مِنۡ دُوۡنِ اللّٰہِ فَیَسُبُّوا اللّٰہَ عَدۡوًۢا بِغَیۡرِ عِلۡمٍ (سورۃالانعام: 109) یعنی تم مشرکوں کے بتوں کو بھی گالی مت دو کہ وہ پھر تمہارے خدا کو گالیاں دیں گے۔ کیوں کہ وہ اس خدا کو جانتے نہیں۔ اب دیکھو کہ باوجودیکہ خدا کی تعلیم کی رو سے بُت کچھ چیز نہیں ہیں مگر پھر بھی خدا مسلمانوں کو یہ اخلاق سکھلاتا ہے کہ بتوں کی بدگوئی سے بھی اپنی زبان بند رکھو اور صرف نرمی سے سمجھاؤ۔‘‘

(پیغام صلح، روحانی خزائن جلد نمبر23 صفحہ نمبر460-461 مطبوعہ 2008ء)

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام مزید فرماتے ہیں:
’’پہلا خلق ان میں سے عفو ہے۔ یعنی کسی کے گناہ کو بخش دینا۔ اس میں ایصال خیر یہ ہے کہ جو گناہ کرتا ہے وہ ایک ضرر پہنچاتا ہے اور اس لائق ہوتا ہے کہ اس کو بھی ضرر پہنچایا جائے۔ سزا دلائی جائے۔ قید کرایا جائے۔ جرمانہ کرایا جائے یا آپ ہی اس پر ہاتھ اٹھایا جائے۔ پس اس کو بخش دینا اگر بخش دینا‘ مناسب ہو تو اس کے حق میں ایصال خیر ہے۔ اس میں قرآن شریف کی تعلیم یہ ہے۔

وَ الۡکٰظِمِیۡنَ الۡغَیۡظَ وَ الۡعَافِیۡنَ عَنِ النَّاسِ (آل عمران: 135)۔ جَزٰٓؤُا سَیِّئَۃٍ سَیِّئَۃٌ مِّثۡلُہَا ۚ فَمَنۡ عَفَا وَ اَصۡلَحَ فَاَجۡرُہٗ عَلَی اللّٰہِ (الشوریٰ: 41)

یعنی نیک آدمی وہ ہیں جو غصہ کھانے کے محل پر اپنا غصہ کھا جاتے ہیں اور بخشنے کے محل پر گناہ کو بخشتے ہیں۔ بدی کی جزا اسی قدر بدی ہے جو کی گئی ہو۔ لیکن جو شخص گناہ کو بخش دے اور ایسے موقعہ پربخشے کہ اس سے کوئی اصلاح ہوتی ہو۔ کوئی شر پیدا نہ ہوتا ہو۔ یعنی عین عفو کے محل پر ہو۔ نہ غیر محل پر تو اس کا وہ بدلہ پائے گا۔‘‘

(اسلامی اصول کی فلاسفی، روحانی خزائن جلد10 صفحہ351 مطبوعہ 2008ء)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 30 نومبر 2021

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ