• 19 مئی, 2024

ہم بات کریں اُس بستی کی جس میں انوار برستے تھے

ہم بات کریں اُس بستی کی جس میں انوار برستے تھے
وہ ایسی مقدس بستی تھی جس میں کہ ملائک بستے تھے

پنج وقت اذانیں گونجتی تھیں اُس پیاری سوہنی بستی میں
ہم اپنے خدا کے قدموں میں دل رکھ کر سجدے کرتے تھے

اِک شجرِ خلافت دھوپ میں اس بستی کو چھاؤں دیتا تھا
وہ ہم سے محبت کرتا تھا، ہم اُس پر جان چھڑکتے تھے

مل جل کر دکھ سکھ بانٹتے تھے، غُربت میں بھی ہر گھر خوش تھا
سکھ چین تھا اُس کی مٹی میں ہم جس بستی میں رہتے تھے

سب دنیا میں مشہور تھی وہ، ظُلمت کے دور میں نُور تھی وہ
اِن سیدھے سادہ لوگوں کی بستی کے گُن سب گاتے تھے

اِک چھپتا پِھرتا نُور تھا واں، درویش صفت مسرور تھا واں
یہ بستی ایک گلستاں تھی، جس میں گلِ نور مہکتے تھے

کہساروں کے دامن میں کچے پکے گھر تھے لوگوں کے
کچھ مٹی کے ٹیلے بھی تھے جن پر ہم کھیلا کرتے تھے

کچھ عالی شان مساجد تھیں جو اس بستی کا جھومر تھیں
وہ مسجدِ اقصیٰ اور مبارک جِن میں جمعے پڑھتے تھے

(عبدالجلیل عباد – جرمنی)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 30 نومبر 2021

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ