• 20 جولائی, 2025

سخت الفاظ کے استعمال کا جواب

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام پہ اعتراض ہوتا ہے کہ آپ علیہ السلام نے اپنے مخالفین کے خلاف سخت زبان استعمال کی ہے۔ آج کے مضمون میں ہم اس اعتراض کا جواب قرآن کریم حدیث اور حضور اقدس علیہ السلام کے الفاظ میں بیان کریں گے۔

سب سے پہلے ہم قرآن کریم سے مثالیں پیش کریں گے کہ جو الفاظ حضور علیہ السلام نے بیان کئے ہیں خلاف قرآن نہیں ہیں۔ بلکہ بعض اوقات کسی قدر سختی بغرض مصلحت کرنی پڑتی ہے۔

قرآن میں سخت الفاظ

اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے:

قُلۡ ہَلۡ اُنَبِّئُکُمۡ بِشَرٍّ مِّنۡ ذٰلِکَ مَثُوۡبَۃً عِنۡدَ اللّٰہِ ۚ مَنۡ لَّعَنَہُ اللّٰہُ وَغَضِبَ عَلَیۡہِ وَجَعَلَ مِنۡہُمُ الۡقِرَدَۃَ وَالۡخَنَازِیۡرَ وَعَبَدَ الطّٰغُوۡتَ ۚ اُولٰٓئِکَ شَرٌّ مَّکَانًا وَّاَضَلُّ عَنۡ سَوَآءِ السَّبِیۡلِ

(المائدہ: 61)

ترجمہ : کہو کہ میں تمہیں بتاؤں کہ خدا کے ہاں اس سے بھی بدتر جزا پانے والے کون ہیں؟ وہ لوگ ہیں جن پر خدا نے لعنت کی اور جن پر وہ غضب ناک ہوا اور (جن کو) ان میں سے بندر اور سؤر بنا دیا اور جنہوں نے شیطان کی پرستش کی ایسے لوگوں کا برا ٹھکانہ ہے اور وہ سیدھے رستے سے بہت دور ہیں۔

نیز فرمایا:

اِنَّ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا مِنۡ اَہۡلِ الۡکِتٰبِ وَالۡمُشۡرِکِیۡنَ فِیۡ نَارِ جَہَنَّمَ خٰلِدِیۡنَ فِیۡہَاۤ ۚ اُولٰٓئِکَ ہُمۡ شَرُّ الۡبَرِیَّۃِ

(البینة: 7)

ترجمہ: کہ بیشک جن لوگوں نے کفر کیا ہے اہل کتاب اور مشرکوں میں سے وہ رہتے چلے جائیں گے جہنم کی آگ میں وہی لوگ بدترین خلائق ہیں۔

پھر فرمایا:

مَثَلُ الَّذِیۡنَ حُمِّلُوا التَّوۡرٰٮۃَ ثُمَّ لَمۡ یَحۡمِلُوۡہَا کَمَثَلِ الۡحِمَارِ یَحۡمِلُ اَسۡفَارًۢا

(الجمعۃ: 6)

ترجمہ: کہ جن لوگوں پر تورات کی اطاعت واجب کی گئی مگر باوجود اس کے انہوں نے اس پر عمل نہیں کیا ان کی مثال گدھے کی ہے جس نے بہت ساری کتابیں اٹھائی ہوئی ہیں۔

ان آیات سے ظاہر ہے کہ سخت الفاظ کا اپنے محل پر استعمال عندالشرع جائز ہے۔

احادیث میں سختی کے الفاظ

حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا عنقریب ایسا زمانہ آئے گا کہ نام کے سوا اسلام کا کچھ باقی نہیں رہے گا الفاظ کے سوا قر آن کا کچھ باقی نہیں رہے گا اس زمانے کے لوگوں کی مساجد بظاہر تو آباد نظر آئیں گی لیکن ہدایت سے خالی ہوں گی۔انکے علماء آسمان کے نیچےبسنے والی مخلوقات میں سےبدترین مخلوق ہونگے۔ ان میں سے ہی فتنے اٹھیں گے اور انہی میں لوٹ جائیں گے ان تمام خرابیوں کا وہی سرچشمہ ہوں گے۔

(مشکوة، کتاب العلم الفصل الثالث صفحہ38، کنزل الاعمال صفحہ6)

ایک دوسری حدیث میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میری امت پر ایک زمانہ اضطراب اورانتشار کا آئے گا لوگ اپنے علماء کے پاس رہنمائی کی امید سے جائیں گے تو انہیں بندروں اور سؤروں کی طرح پائیں گے یعنی انکا اپنا کردار انتہائی خراب اور قابل شرم ہوگا۔

(کنزالاعمال صفحہ190)

اب ان دونوں احادیث پر غور کرنے کا مقام ہے کہ پہلی حدیث میں زمین کے بدترین مخلوق علماء کو کہا گیا اور اسی طرح دوسری حدیث میں ان کی مثال بندروں اور سؤروں کی طرح بیان کی گئی ہے۔ لہٰذا الفاظ میں سختی قرآن اور احادیث کے بر خلاف نہیں ہیں لیکن یہ ہے کہ اس میں موقع اور محل دیکھنا چاہیے کہ پیچھے اس کاسیاق وسباق کیا چل رہا ہے۔

سخت الفاظ استعمال کرنے کی وجہ

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ مخالفوں کے مقابل پر تحریری مباحثات میں کسی قدر میرے الفاظ میں سختی استعمال میں آئی تھی۔ لیکن وہ ابتدائی طور پر سختی نہیں ہے بلکہ وہ تمام تحریریں نہایت سخت حملوں کے جواب میں لکھی گئی ہیں مخالفوں کے الفاظ ایسے سخت اور دشنام دہی کے رنگ میں تھے جن کے مقابل پر کسی قدر سختی مصلحت تھی۔ اس کا ثبوت اس مقابلہ سے ہوتا ہے جو میں نے اپنی کتابوں اور مخالفوں کی کتابوں کے سخت الفاظ اکٹھے کرکے کتاب مثل مقدمہ مطبوعہ کے ساتھ شامل کیے ہیں۔جس کا نام میں نے کتاب البریہ رکھا ہےاوربایں ہمہ میں نے ابھی بیان کیا ہے کہ میرے سخت الفاظ جوابی طور پر ہیں۔ ابتداسختی کی مخالفوں کی طرف سے ہے۔اور میں مخالفوں کے سخت الفاظ پر بھی صبر کر سکتا تھا لیکن دو مصلحت کے سبب سے میں نے جواب دینا مناسب سمجھا تھا۔ اول یہ کہ تا مخالف لوگ اپنے سخت الفاظ کا سختی میں جواب پا کر اپنی روش بدل لیں۔ اور آئندہ تہذیب سے گفتگو کریں۔

دوم یہ کہ تا مخالفوں کی نہایت ہتک آمیز اور غصہ دلانے والی تحریروں سے عام مسلمان جوش میں نہ آویں۔ اور سخت الفاظ کا جواب بھی کسی قدر سخت پا کر اپنی پرجوش طبیعتوں کو اس طرح سمجھا لیں کہ اگر اس طرف سے سخت الفاظ استعمال ہوئے تو ہماری طرف سے بھی کسی قدر سختی کے ساتھ انکو جواب مل گیا۔

(کتاب البریہ، روحانی خزائن جلد13 صفحہ11)

اسی طرح حضورؑ نے اپنے تمام مریدوں کو بھی نصیحت کرتے ہوئے لکھا:
’’اپنے تمام مریدوں کو جو پنجاب اور ہندوستان کے مختلف مقامات میں سکونت رکھتے ہوں نہایت تاکید سے سمجھاتا ہوں کہ وہ بھی اپنے مباحثات میں اس طرز کے کاربند رہیں اورہر ایک سخت اورفتنہ انگیز لفظ سے پرہیز کریں‘‘

(کتاب البریہ، روحانی خزائن جلد13 صفحہ13)

(لئیق احمد عامر)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 30 نومبر 2021

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ