آؤ! اُردو سیکھیں
سبق نمبر 68
ہمارا آج کا سبق متفرق مگر ایسے مختصر موضوعات پر مشتمل ہے جو اہم بھی ہیں اور بعض لحاظ سے اردو زبان بولنے والوں کے لئے مشکلات بھی پیدا کرتے رہتے ہیں۔
1۔ ضمیر اشارہ یعنی
Possessive and objective cases of pronouns کا درست استعمال
انگریزی زبان کے برعکس اردو زبان جنس کے لحاظ سے ضمیر وں میں فرق نہیں کرتی بلکہ اس فرق کو واضح کرنے کےلئے حرف ربط استعمال کئے جاتے ہیں جنہیں انگریزی میں prepositions کہا جاتا ہے اور ان حروف ربط کو بھی اپنے سے بعد آنے والی شے یا شخص کی جنس کے مطابق استعمال کرتے ہیں جیسے مذکر کے لئے اِس یا اُس کے ساتھ حرف ربط کا استعمال ہو تا ہے جیسے اِس کا یا اُس کا، جیسے وہ میرا بھائی ہے اُس کا نام اکبر ہے۔ یہاں لفظ نام مذکر ہے اس لئے کا استعمال ہوا ہے لیکن اگر کہیں یہ میرا بھائی ہے یہ اِس کی کتاب ہے۔ اب یہاں کتاب مونث ہے اس لئے اِس کی استعمال ہوا ہے، یہ میری بہن ہے اِس کا نام فاطمہ ہے یہ اِس کی کتاب ہے اور یہ اِس کا بیگ ہے۔ جیسے انگریزی میں عورت کے لئے She/Her / Her ہے اور مرد کے لئے He/His/Him ہے لیکن اردو میں دونوں کے لئے اس، اس کا، اس نے، اس کو وغیرہ آتا ہے۔ ایک اور الجھن یہ ہوتی ہے کہ اُس ہے یا اِس ہے۔ سادہ الفاظ میں جب آپ بات کررہے ہوں یا خطاب کررہے ہوں یا بآواز بلند اسکول یا مسجد میں یا کسی محفل میں کوئی تحریر پڑھ کر سنا رہے ہوں تو اس سوال کا جواب کہ آپ اِس کہیں گے یا اُس یہ ہے کہ آپ کو تحریر کا سیاق و سباق یعنی context reference and یاد رکھنا ہوگا۔ سیاق و سباق سے کیا مراد ہے اس کو ہم مزید واضح کرتے ہیں۔ سیاق و سباق سے مراد ہے کہ تحریر کا زمانہ یعنی tense کیا ہے۔ ماضی ہے یا حال یا مستقبل۔ جیسے اگر ماضی ہے تو جس کی بات ہورہی ہے وہ وقت اور مقام دونوں کے لحاظ سے آپ سے دور ہے اور دور کے لئے اُس کی ضمیر استعمال ہوگی کیونکہ وہ آپ کے قریب نہیں ہے۔ جیسے ہمارے گاؤں میں ایک درخت تھا اُس پر بہت پرندے بیٹھتے تھے۔ لیکن اگر زمانہ ماضی ہے مگر ماضی کے دو کردار آپس میں بات کررہے ہیں تو اِس کی ضمیر بھی آسکتی ہے کیونکہ وہ دونو ں آپ سے دور ہیں مگر ایک دوسرے کے قریب ہیں۔ جیسے ایک بچہ تھیلا لئے جارہا تھا ایک راہگیر نے اُس سے پوچھا کہ اِس تھیلے میں کیا ہے۔آپ دیکھ سکتے ہیں کہ پہلی ضمیر اُس ہے کیونکہ وہاں بیان یعنی narration آپ کی ہے اور وہ بچہ آپ سے دور ہے پھر دوسری ضمیر اِس ہے کیونکہ وہ بچہ اور اُس کا تھیلا اُس راہگیر کے قریب ہے جو سوال کررہا ہے۔ اس لئے اُس نے کہا کہ اِ س تھیلے میں کیا ہے۔ زیادہ تر مقررین کو الجھن اُس وقت ہوتی ہے جب وہ یہ نہیں سمجھ پاتے کہ بات کون کررہا ہے۔ جیسے بادشاہ نے اپنے قریب بیٹھے ہوئے شخص کو دیکھا اُس کے چہرے پر فکر و پریشانی تھی۔ بادشاہ نے ایک دوسرے شخص سے کہا کہ اِس کی مدد کرو۔ پہلی ضمیر اُس ہے کیونکہ بات آپ کررہے ہیں یا وہ کررہا ہے جو جس نے لکھا ہے۔ دونوں ہی ماضی کے ان کرداروں سے دور ہیں مگر جب بادشاہ نے کہا کہ اِس کی مدد کرو تو اِس آیا ہے کیونکہ بادشاہ اُس آدمی کے قریب ہے۔ پھر بادشاہ نے سپاہی کو حکم دیا کہ جس شخص نے اِس کو نقصان پہنچایا ہے اُس کو بلا کر لاؤ۔ بعض اوقات دو ایسی چیزوں یا اشخاص جو وقت اور جگہ کے لحاظ سے قریب ہوں، میں تفریق یعنی difference یا تمیز یعنی distinction کرنے کے لئے اسِ اور اُس کی ضمیر استعمال ہوتی ہے۔ جیسے مجھے بتاؤ آپ کو اِس بچے نے مارا ہے یا اُس نے۔ یہاں دونوں ہی بچے نزدیک ہیں اور سامنے ہیں مگر ضمیر کا فرق کیا گیا ہے۔ پھر جیسے یہ اِس کتاب میں ہےلکھا ہے یا اُس میں تم اسے چھوڑو اپنی بات کرو۔ انسان اس دنیا میں ہو یا اُس دنیا میں کام اعمال ہی آتے ہیں۔ پھر جیسے قائد اعظم کی بہت مخالفت ہوئی مگر انہوں نے اُس کا بھرپور مقابلہ کیا۔ یہاں مخالفت کیوں کے ماضی میں ہوئی اور اب دور کی بات ہے اس لئے ضمیر اشارہ دور یعنی اُس استعمال ہوگی۔ یہ کہنا غلط ہوگا کہ انہوں نے اِس کا بھرپور مقابلہ کیا۔ایک بار قائد اعظم اپنی داڑھی صاف کررہے تھے۔ ایک بچے نے پوچھا کہ آپ کیا کررہے ہیں تو انہوں نے کہا کہ داڑھی صاف کررہا ہوں۔ بچے نے کہا کہاں پر انہوں نے کہا منہ پر جس پر بچے نے کہا کیا آپ کے دو منہ ہیں۔ قائد اعظم کہتے ہیں کہ مجھے کبھی کسی نے ایسا لاجواب نہیں کیا جیسا اُس بچے کی اِس بات نے کیا۔یہاں ہم نے اِس بات نے کہا ہے کیونکہ بات پر زور دے کر اسے واضح کرنا چاہتے ہیں۔ جیسے ہم کہتے ہیں اس آدمی کی یہ بات سن کر میرا منہ کھلے کا کھلا رہ گیا۔ یعنی شدید حیرت ہوئی۔ یہاں بھی بات پر زور ہے یعنی یہ کہنا کہ‘‘اُس آدمی کی وہ بات سن کر’’ غلط ہوگا۔پس ہم نے سادہ الفاظ میں وضاحت کی ہے کہ یہ بات یقینی بنانے کے لئے کہ ہم صحیح ضمیرِ اشارہ استعمال کررہے ہیں ہمیں مضمون کا سیاق یعنی context اور سباق یعنی بعد میں آنے والے فقرات وغیرہ کے ساتھ ساتھ تحریر کا منطقی ڈھانچہ، زیرو بم، جذبات وغیرہ کو بھی سامنے رکھنا ہوگا۔ یہ بھی دیکھنا ہوگا اور سمجھنا ہوگا کہ اِس یا اُس جملوں میں بعض دیگر کردار بھی ادا کررہے ہوتے ہیں اس بات کی وضاحت ہم انگریزی کی مدد سے کریں گے۔
اِس بمعنی this
اس کھیل میں، اِس زمانے میں، اِس مرض میں وغیرہ یہاں اِ س کا مطلب ہے یہ والی یعنی in this game, era, disease۔
اُس بمعنی that: اُس زمانے میں، اُس حادثے میں، اُس وبا میں وغیرہ۔ یہاں اُس کا مطلب ہے in that age, catastrophe, pandemic۔
اِس بمعنی such a / like/so
وہ اِس تیزی سے بھاگا he ran so fast/ ran in such a rush۔ وہ جنگ میں اِس بہادری سے لڑا کہ جس کی مثال نہیں ملتی۔ پس یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ اِس اور اُس کے صحیح استعمال کا طریقہ مطالعہ کرنے سے آتا ہے۔
بعض ایسی صورتیں بھی ہوتیں ہیں جبکہ کوئی شخص یا چیز آپ سے دور ہو مگر آپ اِس کی ضمیر استعمال کرتے ہیں کیونکہ آپ حیرت، حقارت یا خوف وغیرہ کی وجہ سے کسی چیز یا شخص یا گروہ کو مخصوص کرتے ہوئے اُس پر زور دیتے ہیں۔ جیسے کیا تم نے پولیس والے پر اعتماد کیا، جب تم اِس پیشے کے لوگوں سے ملو تو احتیاط کرو۔ کبڈی کھیلو گے تو چوٹ تو لگے گی نا تمھیں کہا بھی تھا کہ اِس کام سے باز آجاؤ۔ تم اِس نوکری سے بھلاکیا کماتے ہو۔
حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں
اور نہ صرف مقال کے طور پر بلکہ حال کے طور پر بھی ان تمام محبتوں کا ایک صافی چشمہ اپنے پر صدق دل میں بہتا ہوا دیکھتا ہے اور ایک ایسی کیفیت تعلّق باللہ کی اپنے منشرح سینہ میں مشاہدہ کرتا ہے جس کو نہ الفاظ کے ذریعہ سے اور نہ کسی مثال کے پیرائے میں بیان کرسکتا ہے اور انوار الٰہی کو اپنے نفس پر بارش کی طرح برستے ہوئے دیکھتا ہے اور وہ انوار کبھی اخبار غیبیہ کے رنگ میں اور کبھی علوم و معارف کی صورت میں اور کبھی اخلاقِ فاضلہ کے پیرایہ میں اس پر اپنا پرتوہ ڈالتے رہتے ہیں۔ یہ تاثیرات فرقان مجید کی سلسلہ وار چلی آتی ہیں اور جب سے کہ آفتابِ صداقت ذات بابرکات آنحضرت ﷺ دنیا میں آیا اسی دم سے آج تک ہزارہا نفوس جو استعداد اور قابلیت رکھتے تھے متابعت کلام الٰہی اور اتباع رسول مقبولؐ سے مدارج ِ عالیہ مذکورہ ٔ بالاتک پہنچ چکے ہیں اور پہنچتے جاتے ہیں اور خدائےتعالیٰ اس قدر اُن پر پے در پے اور علی الاتصال تلطفات اور تفضلات وارد کرتا ہے اور اپنی حمایتیں اور عنایتیں دکھلاتا ہے کہ صافی نگاہوں کی نظر میں ثابت ہوجاتا ہے کہ وہ لوگ منظورانِ نظر احدیت سے ہیں جن پر لطف ربانی کا ایک عظیم الشان سایہ اور فضل ِ یزدانی کا ایک جلیل القدر پیرایہ ہے اور دیکھنے والوں کو صریح دکھائی دیتا ہے کہ وہ انعامات خارق عادت سے سرفراز ہیں اور کرامات عجیب و غریب سے ممتاز ہیں۔
(براہین احمدیہ حصہ چہارم روحانی خزائن جلد1 صفحہ528-530)
اقتباس کے مشکل الفاظ کے معنی
نہ صرف مقال بلکہ حال: صرف نظریاتی یا فلسفیانہ یا منہ کی باتوں کی حد تک نہیں بلکہ حقیقی اور عملی طور پر: Not only theoretical or verbal but practical and concrete۔
صافی چشمہ: پاکیزہ، صاف و شفاف پانی، روحانی تاثیرات۔A pure and pious source of love and spirituality
پُر صدق: سچائی سے بھرپور filled with truth
تعلق باللہ: اللہ تعالیٰ سے تعلق۔
منشرح سینہ: یقین اور اطمینان کے باعث حاصل ہونے والی فراخ دلی اور رضا۔Satisfied heart and agreed mind
مثال کے پیرائے میں: کسی مثال کی صورت میں To explain through an example
اخبار ِ غیبیہ: ایسی خبریں جو کسی علم میں نہ ہوں۔غیب میں ہوں۔
Information about unseen
علوم و معارف: علم کی جمع، گہری بصیرت اور فہم و ادراک۔
پیرایہ میں: شکل میں In the form of
پرتوہ: اسے عام طور پر ہ کے بغیر لکھتے ہیں، سایہ، اثر، رنگ، روشنی وغیرہ یہاں مراد ہے اثر انداز ہونا۔Shadow, reflection impact
سلسلہ وار: ایک تواتر سے، درجہ بہ درجہIn a sequence
آفتابِ صداقت ذاتِ بابرکات: سچائی کا سورج اور برکتوں والی شخصیت یعنی آنحضرتؐ۔
اسی دم سے: محاورہ ہے یعنی اسی وقت سے ویسے دَم کا معنی ہے سانس
ہزارہا نفوس: ہزار کی جمع ہے، یعنی انگنت لوگ
متابعت کلام الٰہی: قرآن مجید کی تعلیم پر عمل کرنا۔
مدارج عالیہ مذکورہ بالا: یعنی روحانی ترقی کے وہ مقامات جو اس تحریر میں پہلے یا اوپر بیان ہوئے ہیں۔ اسی طرح وہ بات یا نکات جو تحریر میں آگے آرہے ہوں ان کے لئے مندرجہ ذیل یعنی جو نیچے یا آگے لکھا جائے آتا ہے۔ اوپر اور نیچے صفحے پر بیان کی جگہ کو بتانے کےلئے کہا جاتا ہے۔
علی الاتصال: لگاتار، مسلسل consecutively۔
تلطفات: تلطف کی جمع یعنی مہربانی، عنایت، لطف و کرم۔ Favoring۔
تفضلات: عنایت، مہربانی، بخشش، فضل۔
وارد کرنا: نازل کرنا، عطا کرنا۔
صافی: صاف، پاک، کھرا، بے ریا، بے داغ۔ صافی نگاہ یعنی افراط وتفریط سے پاک، جن میں کوئی تعصب، حسد یا جانبداری نہ ہو۔impartial, unbiased, pure
منظورانِ نظر احدیت: خدائے واحد کی نگاہوں میں پیارے اور محبوب ہیں۔
لطفِ ربانی: خدا تعالیٰ کا کرم، تائید حق، ربانی خد اتعالیٰ کی صفت رب کی طرف منسوب ہونا۔
فضل یزدانی: کرم، فضیلت، احسان۔ یزدانی یعنی خدا تعالیٰ۔
جلیل القدر پیرایہ: بڑے مرتبے ولا انداز، روش۔
صریح: صاف، واضح، ظاہر و باہر۔
انعامات خارق عادت: غیر معمولی انعامات جو عام انسانوں کو نہیں ملتے۔
سرفراز: معزز کرنا۔
کرامات عجیب وغریب: کرامت یعنی معجزہ کی جمع ایسے کام جو انسان کی طاقت سے باہر ہوں اور خدا تعالیٰ کی طرف سے تائید یافتہ ہوں جو لوگوں کو بہت حیران کردیں۔
(عاطف وقاص۔ ٹورنٹو کینیڈا)