حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
اللہ تعالیٰ کا اپنے بندوں پریہ احسان عظیم ہے کہ اس نے اپنی عبادت کی طرف توجہ دلا کر شیطان کے پنجے سے بچنے اور رہائی دلانے کے سامان مہیا فرما دئیے اور قرآن کریم میں ہمیں مختلف طریقوں سے اس طرف توجہ دلائی ہے۔ یہ آیت جو مَیں نے تلاوت کی ہے اس میں بھی اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اے لوگو! تم عبادت کرو اپنے رب کی، جس نے تمہیں پیدا کیا اور ان کو بھی جو تم سے پہلے تھے تاکہ تم تقویٰ اختیار کرو۔ یعنی تمہیں پیدا کرنے والی وہ ہستی ہے جو تمہارا رب ہے۔ تمہیں پیدا کرکے چھوڑ نہیں دیا بلکہ تمہاری پیدائش کے ساتھ تمہاری پرورش کے بھی سامان پیدا فرمائے۔ تمہاری خوراک کے لئے تمہارے دودھ کا انتظام کیا۔ موسم کی سختیوں سے بچانے کے لئے تمہارے لئے لباس کا انتظام کیا۔ تمہاری نگہداشت کے لئے تمہاری ماں کے دل میں تمہارے لئے وہ محبت پیدا کی جس کی مثال نہیں۔ وہ کسی اجر کے بغیر تمہاری اس وقت خدمت کرتی ہے جب تم کسی قابل نہیں تھے۔ تو یہ سب انتظامات اس خدا کی مرضی سے ہی ہو رہے ہیں جو تمہارا رب ہے۔ اور جب تم ایسے حالات میں پہنچ گئے تمہارے اعضاء مضبوط ہو گئے تو اب بھی وہی ہے جو تمہاری ضروریات پوری کر رہا ہے تو یہ تمہارا پیدا کرنے والا، تمہارا پالنے والا، تمہارا مالک اس بات کا حق دار ہے کہ تم اس کی عبادت کرو، شکر گزار بندے بنو۔ اس نے جو نعمتیں تم پر اتاری ہیں ان کویاد کرکے اس کے آگے جھکو اور یہی ایک انسان کی بندگی کی معراج ہے۔
پس یاد رکھو کہ تمام مخلوق اس کی پیدا کردہ ہے۔ تمام انسان اسی کے پیدا کئے ہوئے ہیں اس لئے ہر انسان جو ناشکرا کہلانا پسند نہیں کرتا، جو شیطان کا چیلا کہلانا پسند نہیں کرتا، اس کا کام ہے کہ تقویٰ سے کام لے۔ اس کی خشیت، اس کی محبت، اس کے پیار کو دل میں جگہ دے اور اس کی عبادت کرے۔ اس کے بتائے ہوئے حکموں پر عمل کرے۔ تو تبھی ایک خدا کا بندہ کہلانے والا، اپنی پیدائش کے مقصد کو حاصل کرنے والا کہلا سکتا ہے۔ پس ایک احمدی جس کا یہ دعویٰ ہے کہ مَیں نے حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئیوں کو سچا ثابت ہوتے دیکھا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے دی گئی خبروں کو پورا ہوتے دیکھ کر مسیح موعود کو مانا ہے۔ اُس احمدی کا دوسروں کی نسبت زیادہ فرض بنتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے اس انعام کی بھی قدر کرتے ہوئے، اپنے رب کے آگے دوسروں سے زیادہ جھکے اور اپنی عبادتوں کے معیار اونچے سے اونچا کرتا چلا جائے۔ اگر کاموں کی زیادتی یا دوسری مصروفیات نے اللہ تعالیٰ کا عبادت گزار بندہ بننے میں روک ڈال دی تو پھر احمدی کا یہ دعویٰ غلط ثابت ہو گا کہ اس نے اللہ کو، اللہ کے وعدوں کو پورا ہونے سے پہچانا۔ سچی پہچان کو تو اس کے اندر ایک انقلاب پیدا کر دینا چاہئے تھا۔ اس کو نمازوں میں یہ دعا مانگنی چاہئے تھی جو ہمیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے سکھائی ہے۔
ایک روایت میں آتا ہے، حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا ہاتھ پکڑا اور فرمایا اے معاذ! اللہ کی قسم یقینا میں تجھ سے محبت رکھتا ہوں۔ پھر آپؐ نے فرمایا، اے معاذ! میں تجھے وصیت کرتا ہوں کہ تو ہر نماز کے بعد یہ دعا کرنا نہ بھولنا کہ اَللّٰھُمَّ اَعِنِّیْ عَلٰی ذِکْرِکَ وَشُکْرِکَ وَحُسْنِ عِبَادَتِکَ۔ اے اللہ تعالیٰ مجھے توفیق عطا کر کہ مَیں تیرا ذکر، تیرا شکر اور اچھے انداز میں تیری عبادت کر سکوں۔ آپؐ نے یہ فرمایا کہ جو مجھے محبت تم سے ہے اس کا تقاضا یہ ہے کہ مَیں تجھے اللہ تعالیٰ کا شکر گزار اور عبادت گزار بندہ دیکھوں۔
(سنن ابی داؤدکتاب الصلوٰۃ باب فی الاستغفار)
پس ہر احمدی کو بھی جس کو اللہ تعالیٰ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کا دعویٰ ہے اس کو بھی یہ ذکر، شکر اور عبادتوں کے طریق اپنانے ہوں گے۔ اور عبادتوں کے معیار حاصل کرنے کے لئے نمازوں کی طرف توجہ دینی ہو گی، نمازیں پڑھنی ہوں گی۔ اس لئے ہر احمدی کو چاہئے کہ اپنی نمازوں کی طرف توجہ دے، تبھی وہ شکر گزاربندہ بن سکتا ہے۔
بادت کی وضاحت کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ ’’مخالفت نفس بھی ایک عبادت ہے۔ انسان سویا ہوا ہوتا ہے جی چاہتا ہے کہ اور سو لے مگر وہ مخالفت نفس کرکے مسجد چلا جاتا ہے تو اس مخالفت کا بھی ایک ثواب ہے۔ اور ثواب نفس کی مخالفت تک ہی محدود ہوتا ہے، ورنہ جب انسان عارف ہو جاتا ہے تو پھر ثواب نہیں۔ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ جب آدمی عارف ہو جاتا ہے تو اس کی عبادت کا ثواب ضائع ہو جاتا ہے۔ کیونکہ جب نفس مطمئنہ ہو گیا تو ثواب کیسے رہا۔ نفس کی مخالفت کرنے سے ثواب تھا، وہ اب رہی نہیں‘‘۔
(ملفوظات جلد دوم صفحہ 553-552جدید ایڈیشن) (البدر، مورخہ 12؍ دسمبر 1902ء صفحہ 50۔51)
تو یہ جبر کرکے بستر سے اٹھنا اور مسجد باجماعت نماز کے لئے جانا، اپنے کام کا حرج کرکے نمازوں کی طرف توجہ کرنا۔ یہی چیز ہے جو ثواب کمانے کا ذریعہ بنتی ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ جب انسان کو خدا کے ساتھ اس حد تک تعلق ہو جائے کہ دنیا کی اس کے نزدیک کوئی حیثیت نہ رہے تو پھر ثواب نہیں رہتا پھر تو یہ ایک معمول بن جاتا ہے، ایک غذا ہے۔
پھر جوانی کی عمر کی عبادت کی طرف توجہ دلاتے ہوئے آپؑ فرماتے ہیں کہ: ’’اگر اُس نے یہ زمانہ خدا کی بندگی، اپنے نفس کی آراستگی اور خدا کی اطاعت میں گزارا ہو گا تو اس کا اسے یہ پھل ملے گا کہ پیرانہ سالی میں جبکہ وہ کسی قسم کی عبادت وغیرہ کے قابل نہ رہے گا اور کسل اور کاہلی اسے لاحق حال ہو جاوے گی تو فرشتے اس کے نامہ ٔ اعمال میں وہی نماز روزہ تہجد وغیرہ لکھتے رہیں گے جو کہ وہ جوانی کے ایام میں بجا لاتا تھا۔ اور یہ خداتعالیٰ کا فضل ہوتا ہے کہ اس کی ذات پاک اپنے بندہ کو معذور جان کر باوجود اس کے کہ وہ عمل بجا نہیں لاتاپھر بھی وہی اعمال اس کے نام درج ہوتے رہتے ہیں‘‘۔
(ملفوظات جلد 4صفحہ 199حاشیہ۔ جدید ایڈیشن)(البدر مورخہ یکم جنوری 1905ء صفحہ10)
پس ہر احمدی کو صحت کی حالت میں یہ کوشش کرنی چاہئے کہ وہ اپنی نمازوں میں باقاعدگی اختیار کرے اور نہ صرف باقاعدگی اختیار کرے بلکہ باجماعت نمازوں کی طرف بھی توجہ دے۔ اسے جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کہ بڑھاپے میں جب انسان کمزورہو جاتا ہے، اس طرح محنت نہیں کر سکتا جس طرح جوانی میں کر سکتا ہے کیونکہ نمازیں بھی ایک طرح کی محنت چاہتی ہیں۔ ان کی ادائیگی بھی جو نمازیں ادا کرنے کا حق ہے اس محنت سے مشکل ہو جاتی ہے جس طرح جوانی میں ادا کی جا سکتی ہیں۔ لیکن اللہ تعالیٰ کیونکہ اپنے بندوں پر بخشش اور رحم کی نظر رکھنے والا ہے اس لئے وہ بڑھاپے اور کمزوری کے وقت کی جو کم عبادتیں ہیں ان کو بھی جوانی میں کی گئی عبادتوں کے ذریعے پورا کر دیتا ہے۔ تو یہ ہیں اللہ تعالیٰ کے اپنے بندوں کو نوازنے کے طریقے۔ پس ہر وہ انسان جو اللہ تعالیٰ کا عبادت گزار بندہ بننا چاہتا ہے، اس کا قرب حاصل کرنا چاہتا ہے، اپنے آپ کو اور اپنی نسلوں کو پاک رکھنا چاہتا ہے، شیطان کے حملوں سے بچانا چاہتا ہے تو اس کے لئے ایک ہی ذریعہ ہے کہ اللہ کی عبادت کی طرف توجہ دے۔ اور اس کے لئے سب سے ضروری چیز نماز باجماعت کی ادائیگی ہے۔
(خطبہ جمعہ 14؍ جنوری 2005ء بحوالہ الاسلام ویب سائٹ)