• 25 اپریل, 2024

’’لباس التقویٰ‘‘

اللہ تعالیٰ نے سورۃ الاعراف آیت 27 میں مومنوں کو ’’لباس التقویٰ‘‘ یعنی تقویٰ کا لباس پہننے کی تلقین فرمائی ہے۔ اس آیت میں بھی اللہ تعالیٰ نے مادی اور روحانی نظام کو ساتھ ساتھ بیان فرمایا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اے آدم کی اولاد! ہم نے یقیناً تمہارے لئے لباس اُتارا ہے تاتم اپنے جسم کے عیوب چھپاؤ یعنی ننگ چھپاؤ اور تمہاری زینت کا باعث ہو۔ ساتھ ہی فرمایا کہ ’’لباس التقویٰ‘‘ اختیار کرو جو تمہارے لئے بہتر ہے۔ یعنی اپنی بُرائیوں اور گناہوں کو چھپانے کے لئے تقویٰ کا لباس اختیار کرو اور یہ تمہارے لئے روحانی طور پر بہتر بھی ہے اور زینت کا باعث بھی ہے۔

حضرت خلیفۃ المسیح الاول رضی اللہ عنہ نے اس آیت کے ترجمہ کرتے وقت فٹ نوٹ میں تحریر فرمایا ہے۔

لباس التقویٰ۔ اَلتَّعْظِیْمُ لِاَمْرِ اللّٰہِ وَ الشَّفَقَۃُ عَلَی خَلْقِ اللّٰہِ

(ترجمہ قرآن از درس القرآن حضرت خلیفۃ المسیح الاول زیر آیت 27 سورۃ الاعراف صفحہ 319)

یعنی لباس التقویٰ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے اوامر و نواہی کو عزت کی نگاہ سے دیکھنا اور اس کی مخلوق سے شفقت سے پیش آنا۔

مخلوق سے شفقت کے حوالہ سے میرا ایک آرٹیکل حال ہی میں اخبار میں بطور اداریہ زینت بنا ہے۔ جہاں تک اوامر و نواہی کو قدر کی نگاہ سے دیکھنے کا تعلق ہے۔ اس کاذکر اور اس کی اہمیت و برکات قرآن کریم، احادیث، ارشادات حضرت مسیح موعودؑ و خلفاء عظام میں کثرت سے بیان ہوئی ہے۔

اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے

خُذُوۡا مَاۤ اٰتَیۡنٰکُمۡ بِقُوَّۃٍ وَّ اذۡکُرُوۡا مَا فِیۡہِ لَعَلَّکُمۡ تَتَّقُوۡنَ

(البقرہ:64)

اسے مضبوطی سے پکڑلو جو ہم نے تمہیں دیا ہے اور اسے یاد رکھو جو اس میں ہے تاکہ تم (ہلاکت سے) بچ سکو۔

اس آیت میں احکام الہٰی پر عمل کرنے کا نتیجہ یہ قرار دیا ہے کہ تا تم تقویٰ اختیار کرو۔ یہی وہ ’’لباس تقویٰ‘‘ ہے جس کا ذکر حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ سورۃ الاعراف کی آیت 27 میں بیان فرما رہے ہیں۔

آنحضورﷺ نے فرمایا:
’’میں تم میں دو چیزیں ایسی چھوڑے جاتا ہوں کہ جب تک تم ان پر عمل پیرا ہوگے کبھی ناکام و نامراد نہ رہو گے اور وہ اللہ تعالیٰ کی کتاب اور اس کے رسولؐ کی سنت ہے۔‘‘

(مؤطاامام مالک، کتاب القدر)

حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:
’’جو شخص قرآن کے سات سو حکم میں سے ایک چھوٹے سے حکم کو بھی ٹالتا ہے وہ نجات کا دروازہ اپنے ہاتھ سے اپنے پر بند کرتا ہے۔‘‘

(کشتی نوح روحانی خزائن جلد19 صفحہ26)

پھر فرمایا:
’’قرآن شریف میں اول سے آخر تک اوامر اور نواہی اور احکام الہٰی کی تفصیل موجود ہے اور کئی سو شاخیں مختلف قسم کے احکام کی بیان کی ہیں۔‘‘

(ملفوظات جلد4 صفحہ655)

ہمارے پیارے امام ہمام حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ نے احکام الہٰی پر عمل پیرا ہونے کی نصیحت کرتے ہوئے فرمایا:
’’جس کام کو کرنے یا نہ کرنے کا حکم اللہ تعالیٰ نے ہمیں دیا ہے…اور جن اوامر و نواہی کے بارہ میں آنحضرتﷺ ہمیں کو بتا چکے ہیں… احمدیت کی ترقی اسی کے ساتھ وابستہ ہے۔‘‘

(خطبہ جمعہ 30 جنوری 2004ء)

حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:
’’یاد رکھو کہ قرآن کریم میں پانسو کے قریب حکم ہیں اور اس نے تمہارے ہر یک عضو اور ہر یک قوت اور ہریک وضع اور ہر یک حالت اور ہرایک عمر اور ہر یک مرتبہ فہم اور مرتبہ فطرت اور مرتبہ سلوک او رمرتبہ انفراد اور اجتماع کے لحاظ سے ایک نورانی دعوت تمہاری کی ہے سو تم اس دعوت کو شکر کے ساتھ قبول کرو اور جس قدر کھانے تمہارے لئے تیار کئے گئے ہیں وہ سارے کھاؤ اور سب سے فائدہ حاصل کرو۔ جو شخص ان سب حکموں میں سے ایک کو بھی ٹالتا ہے میں سچ سچ کہتا ہوں کہ وہ عدالت کے دن مواخذہ کے لائق ہو گا۔

اگر نجات چاہتے ہو تو دین العجائز اختیار کرو اور مسکینی سے قرآن کریم کا جؤا اپنی گردنوں پر اٹھاؤ کہ شریر ہلاک ہوگا اور سرکش جہنم میں گرایا جائے گا۔ پر جو غریبی سے گردن جھکاتا ہے وہ موت سے بچ جائے گا۔‘‘

(ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 548)

خاکسار جب 700 احکام خداوندی مرتب کررہا تھا۔ میری ملاقات مکرم مولانا نسیم احمد باجوہ مبلغ لندن سے ہوگئی۔ انہوں نے تحریراً مجھے لکھ کردیا۔

’’خاکسار نے خود حضور (حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ) کا ارشاد سنا تھا جس کا خلاصہ یہ تھا کہ قرآن شریف میں احکامات کے حوالے سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کہیں 700 اور کہیں 500 کی تعداد لکھی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ بعض دفعہ ایک حکم کے اندر کئی کئی حکم ہوتے ہیں۔ اسے ایک پہلو سے دیکھیں تو ایک حکم ہوتا ہے اور دوسرے پہلو سے دیکھیں تو ایک سے زیادہ احکام ہوتے ہیں۔‘‘

صحابہ رسولؐ اس حد تک احکام قرآن پر عمل پیرا ہونے کے شائق تھے کہ لکھا ہے۔

ایک مہاجر صحابیؓ نے قرآنی احکام کی فہرست تیار کر رکھی تھی اور اُن کی کوشش رہتی کہ کوئی ایسا حکم قرآن کا نہ رہ جائے جس پر وہ عمل پیرا نہ ہوں۔ وہ بیان کرتے ہیں کہ قرآنی حکم ’’اگر تمہیں کہا جائے کہ لوٹ جاؤ تو لوٹ آیا کرو‘‘ پر تعمیل کی غرض سے میں ساری عمر کوشاں رہا۔ مدینہ کے ہر گھر کا دروازہ کھٹکھٹا یا کہ کوئی کہہ دے کہ میں اس وقت ملاقات نہیں کرنا چاہتا تم واپس لوٹ جاؤ تو میں واپس لوٹ آؤں۔ مگر مجھے ایسی آواز سنائی نہ دی۔ اور یہ حکم بغیر عمل کے رہ گیا۔

(جامع البیان فی تفسیر القرآن از ابو جعفر محمد بن حریر الطبری جلد17، زیر آیت سورۃ النور29)

حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں

کلام اللہ میں سب کچھ بھرا ہے
یہ سب بیماریوں کی اِک دوا ہے
جو ہے اس سے الگ، حق سے الگ ہے
جو ہے اس سے جُدا ،حق سے جُدا ہے

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 1 جنوری 2021

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 2 جنوری 2021