یادرفتگان
میری والدہ – مکرمہ امۃ الحفیظ بھٹی صاحبہ
6دسمبر 2018ء کا دن خاکسار کی زندگی میں ایک خلا پیدا کرگیا جس کے لئے شاید نعم البدل کی دعا بھی نہیں کی جاسکتی۔ میری پیاری والدہ مکرمہ امۃ الحفیظ بھٹی صاحبہ دنیا کو چھوڑ کر اپنے مالک حقیقی کے حضور تو حاضر ہو گئیں مگر یقیناً میرے دل و دماغ کو کبھی الوداع نہ کہہ سکیں گی۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔ آپ کی یادوں، تربیت اور اخلاقیات کا ایسا انبوہ کثیر ہر لمحہ سایہ کی طرح محو سفر ہے گویا آپ سے محو گفتگو رہتا ہوں اور رہنا بھی چاہتا ہوں۔ آپ کی یادوں کو آپ کی آخری بیماری کے وقت سے سپرد قرطاس کرنے کا ارادہ ہے۔ وباللہ التوفیق۔
امی جان کو 7 نومبر 2018ء کی صبح 11بجے سرائے مسرور میں ناصرات کے ایک پروگرام کی تقریب کے آغاز سے چند لمحے قبل اٹیک اور ساتھ میں عارضۂ قلب بھی ہوا۔ فوری طور پر طاہر ہارٹ لے کر گیا تو پتہ چلا کہ دماغ میں کلاٹ آنے کی وجہ سے آپ کے دماغ پر سخت اثر ہوا ہے اور فارسی میں بات کر رہی تھیں اور بار بار ’’آب آمد، آب آمد‘‘ فرماتی تھیں یعنی آپ کو پانی پینا تھا۔ ابتدائی علاج کے بعد خدا کا شکر کہ شام تک آپ نے خاکسار کو پہچاننا اور نام سے پکارنا شروع کردیا تو میرے بھی کچھ ہوش درست ہوئے۔ اگلے روز عزیز فاطمہ ہسپتال فیصل آباد میں ڈاکٹر مقصود عاطف صاحب نے بتایا کہ امی جان کا دماغ بری طرح سے متاثر ہوا ہے اور اب وہ بالکل بچوں کی طرح حرکات و سکنات کریں گی جس کو صبر اور حوصلہ سے برداشت کرنا ہوگا۔ربوہ واپسی کا سفر بہت کٹھن اور بوجھل تھا۔ دل یہ بات تسلیم کرنے کو تیار ہی نہ تھا کہ ایسی شفیق، ملنسار اور وجیہ شخصیت مرور زمانہ سے اس حالت تک پہنچ گئی ہیں۔ خاکسار کی اہلیہ جو شاید میرے دل کے طلاطم سے کچھ باخبر تھیں مجھے حوصلہ دینے کے بعد یہ عہد و پیمان کرنے لگیں کہ ہم دونوں امی جان کے کسی احسان کا ہزارواں حصہ بھی نہیں چکا سکتے مگر اپنے بچوں کی طرح امی جان کا خیال رکھیں گے۔ میں نے اپنی اہلیہ کا ہاتھ تھام کر لفظی عہد تو ضرور باندھا مگر خدا میری اہلیہ کو جزائے خیر دے کہ اس نے اپنے عہد کو اگلے ایک ماہ میں خوب نبھایا۔
امی جان کی بیماری کی نوعیت ایسی تھی کہ آپ کی کیفیت کو دیکھ کر بھی یقین نہیں آتا تھا کہ ایسی پر حکمت اور دل کش انداز میں گفتگو کرنے والا چمن اب الفاظ کی ادائیگی میں بھی دقت محسوس کر رہا تھا۔ خیر چند دنوں میں ہی آپ نے الفاظ اور پھر جملے بولنے شروع کئے تو ایسی کیفیت میں بھی اخلاقیات کی برسات برسنے لگی ۔ کبھی میری پھوپھی زاد بہن کو رات بھر یہی تاکید کرتی رہتیں کہ آرام کرلو تھک گئی ہو گی ۔کبھی ملنے آنے والے پیاروں کو اپنے ساتھ کھانے میں ضد کر کے شامل کرتیں اور کبھی مجھ سے بار بار بچوں کے بارے میں دریافت فرماتیں۔
ایک روز ایسا ہوا کہ امی جان پرہیزی کھانا نہیں کھا رہی تھیں تو میں نے بہلاواہ طفل کے طور پر اپنی اہلیہ کے ہاتھ سے کھانا لے سختی سے کہا کہ کیوں میری امی کو تنگ کرتی ہو؟ یہ دیکھو ابھی میرے ہاتھ سے امی کھانا کھائیں گی۔ بس کیا تھا کہ یہ بہلاوا مجھے مہنگا پڑ گیا اور کھانا کھانے کی بجائے امی جان مجھے غصے سے دیکھ کر کہنے لگیں کہ خبردار!میری بیٹی سے اونچی آواز میں بات کی تو۔ ہم شریف لوگ ہیں۔ اونچی آواز میں بات نہیں کرتے۔ ایسی دماغی کیفیت میں آپ کے یہ الفاظ اور وہ بھی ایسی پر شوکت آواز میں میرے دل و دماغ پر گویا نقش ہو گئے۔
خاکسار کو گزشتہ دو سے تین سال مجلس خدام الاحمدیہ پاکستان کی مرکزی عاملہ اطفال میں خدمت کا موقع ملا اور یہ خدمت خدام الاحمدیہ کا ایک اور احسان ثابت ہوئی۔ رات کو عشاء کی نماز کے بعد دفتر جانا اور ہمیشہ واپسی پر امی جان کو اپنا منتظر دیکھنا اور گھر کے دروازے پر استقبال نے ایک غیر معمولی محبت کا رشتہ قائم کردیا تھا۔ کئی بار امی جان نے نم آنکھوں سے توجہ دلائی کہ میرے لئے تمہارے پاس وقت بہت کم ہوتا ہے۔ آج اس بات کا خیال آتے ہی آنکھوں سے آنسوؤں کی برسات یوں برستی ہے گویا آشوب چشم کا مرض لاحق ہو گیا ہو کیونکہ اب وقت تو بہت ہے مگر مادر شفیق کا سایہ میسر نہیں۔
امی جان کو 2008ء میں یو کے کا دس سال کا ویزہ ملا تھا جو مئی 2018ء میں ختم ہوا۔ امی جان نے بار بار مجھے کہا کہ میرا کیس اچھا سا تیار کرنا۔ خیر فائل جمع ہوئی اور غالبا ًستمبر کے پہلے ہفتے میں مجھے فون آیا کہ آکر اپنا پاسپورٹ وصول کرلیں۔ بس کیا تھا میں اور امی جان اگلے ہی دن لاہور فیڈیکس آفس پہنچے اور ایک لمبے انتظار کے بعد جب پاسپورٹ ملا تو 2028ء تک کا ویزا لگا ہوا تھا۔ امی جان کی دل کو موہ لینے والی مسکراہٹ اور سر کو نیچے جھکا کر جیسے خدا کا شکر بجا لا رہی ہوں۔ میں نے بے ساختہ گلے لگایا تو فورا ًکہنے لگیں کہ اب میں تب خوش ہوں گی جب تم میرے ساتھ پنجاب یونیورسٹی اولڈ کیمپس چلو۔ میری خوش نصیبی کہ اس روز نہایت شرح صدر سے امی جان کے ہمراہ ان کی یونیورسٹی کی یادوں کو تازہ کرنے پر بدل و جان راضی ہو گیا۔ اولڈ کیمپس کے گیٹ پر پہنچے تو اولاً انکار ہوا پھر میں نے گیٹ کیپر کو منا ہی لیا کہ میری بزرگ والدہ 1963-64ء میں یہاں پڑھتی رہی ہیں اور آج اپنی یادیں تازہ کرنے آئی ہیں لہٰذا مہربانی فرمائیں۔ خیر! یونیورسٹی میں داخل ہوتے ہی وہی ہوا جس کی مادر علمی سے برسوں بعد ملاقات میں توقع کی جا سکتی ہے۔ امی جان میں جیسے ایک نئی روح آگئی ہو اور تیز تیز قدم بڑھانے لگیں اور پرانے وقت یاد کرنے لگیں جن دنوں آپ اسی یونیورسٹی کی روح رواں ہوا کرتی تھیں۔ بار بار مجھے ہاتھ سے پکڑ کر مختلف جگہوں کی نشان دہی کرتی رہیں اور سب سے زیادہ لطف ہم نے برگد کے درخت کے نیچے کھڑے ہوکر اٹھایا جس کے بارے میں آپ نے بتایا کہ یہاں بیٹھ کر ہم سہیلیاں نوٹس بنایا کرتی تھیںاور سخت گرمیوں میں یہی جگہ ہم سہیلیوں کی من پسند جگہ تھی۔ اس کے بعد لائبریری کی باری آئی تو مقفل دروازے پر کھڑے کھڑے اپنی کئی سہیلیوں کے نام گنوائے جن کے ساتھ آپ کے شب و روز اس مکتب میں گزرتے۔ اس کے بعد کہنے لگیں کہ تمہارے چاچو مکرم مجیب اللہ صاحب (میرے والد صاحب کے قریبی دوست ) بھی سامنے والے بلاک میں پڑھتے تھے۔ اور پھر ہم نے اس بلاک کا رخ کیا۔ آخر پر باری آئی کیفے کی جہاں داخل ہوتے ہی امی جان نے اپنے مزاج کے خلاف تیز مرچوں والا چکن رول شیزان کی بوتل کے ساتھ مزے لے لے کر کھایا۔ شاید ایک لمبے عرصے کے بعد اپنی مادر علمی سے ملاقات نے آپ کو اتنا جذباتی کردیا تھا کہ اس کی خوشی آپ کے چہرے پر عیاں تھی اور وہ تلملاتا ہوا چہرہ میری زندگی کی حسین ترین یادوں میں سے ہے۔ یہ سب دلکش مناظر مَیں کیمرے میں محفوظ کرنے سے اس لئے قاصر رہا کہ یہ سب کچھ ایسی سرعت سے ہوا اور امی جان نے اس تیزی سے قدم آگے بڑھائے کہ میں آپ کی رو میں بہتا گیا اور نہ کچھ پوچھا اور نہ بولا بلکہ خاموشی سے ایک معلمۂ اخلاق کی اپنی مادر علمی سے ایک حسین ملاقات کا شاہد بنتا رہا۔ اللہ تعالیٰ جو بہت رحیم و کریم ہے امی جان کی علم سے محبت اور لگاؤ کے سبب آپ کے درجات جنت الفردوس میں بڑھاتا جائے اور آپ کو کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے۔ آمین
رمضان 2019ء کی پہلی افطاری
جب سے ہوش سنبھالی ہے میں نے اپنی امی جان کو سارا سال اور بالخصوص رمضان میں نہایت پر اہتمام سحری اور افطاری کے پکوان اپنے مخصوص طریقے اور سلیقے سے بناتے دیکھا ہے اور مَیںحسب توفیق ہاتھ بھی بٹاتا رہا ہوں۔ ویسے ہر خوش نصیب گھرانے میں جہاں ماں جیسی ہستی ہو کھانوں کا ذائقہ ہی ماں کے ہاتھوں سے ملتا ہے مگر میری امی جان کیونکہ جامعہ نصرت گرلز کالج کی اردو کی پروفیسر تھیں اس لئے دن بھر کالج کی مصروفیات کے بعد گھر آتے ہی گھر داری پر کمر ہمت کس لینا شاید آپ کے غیر معمولی حوصلہ اور ظرف کا کمال تھا۔ نہایت خوشی سے کھانے تیار کرنے اور پھر بار بار ہر فرد کو کھانا پیش کرنا اور باقاعدہ ضد کرکے کھلانا کہ تھوڑا اور کھا لو تو مجھے اچھا لگے گا۔ اس بات کا ذکر کئے بغیر شاید یہ مضمون تشنہ رہے کہ امی جان کے ہاتھ کا زردہ ہمارے گھر، خاندان اور دیگر عزیز و اقارب میں بے حد مقبول تھا اور کئی بار تو آنے والے یہ فرمائش کرکے آتے کہ ان کے لئے زردہ تیار کیا جائے۔
امی جان کی وفات کے بعد یہ پہلا رمضان اور پہلی افطاری تھی۔ امی جان کی کمی کا احساس تو سحری کے لئے اٹھتے ہی شدت سے ہوا کیونکہ اب دوگانہ ادا کرنے اور سحری کے لئے اٹھانے کے لئے کوئی آواز سنائی نہ دی تھی اور یہ فکر رات سوتے ہوئے بھی دامن گیر تھی کہ اب خود ہی فکر سے یہ سب کام کرنے ہوں گے۔
پھر بیگم نے سحری کا دسترخوان لگایا تو آنکھیں امی جان کو ڈھونڈتی رہیں۔ خیر! دفتر کی مصروفیات کے بعد گھر واپسی ہوئی اور پھر قیلولہ کے بعد عصر کی نماز پڑھی تو دل میں ایک بار پھر افطاری کے دسترخوان پر امی جان کی کمی کا خیال آتے ہی بےقراری بڑھنے لگی۔ اس بے قراری کا ایک فائدہ تو یہ ہوا کہ ہروقت زیر لب رَبِّ ارْحَمْھُمَا کَمَا رَبَّیَانِیْ صَغِیْراً کی دعا کا ورد کثرت سے رہا ۔ اپنی بڑی بیٹی عزیزہ تہمینہ کوشام 6 بجے سکول سے لیا تو بےساختہ قبرستان کا رخ کیا۔ امی جان کی قبر پر جاتے ہی سحر و افطار کے کئی دسترخوان نظروں کے سامنے پھرنے لگے اور بے ساختہ کئی مادرانہ شفقتوں کی یادیں آنسوؤں میں ڈھل کر بہنے لگیں۔ اے میرے پرودگار! میرے والدین سے رحم کا سلوک فرما جیساکہ انہوں نے بچپن میں میری ربوبیت کی۔ آمین اللّٰھم آمین
میری والدہ سے جڑی حسین یادیں
شاید میری زندگی کا یہ سب سے بڑا مان ہے کہ میری والدہ کا میری ذات سے باقی بچوں کی نسبت ایک خاص رشتہ تھا۔ حسن و احسان کا ایک وسیع سمندر ہے کہ اس کا کنارہ ملنا مشکل ہے۔ رَبِّ ارْحَمْھُمَا کَمَا رَبَّیَانِیْ صَغِیْراً۔ آمین
بچپن کی یادوں میں سے ایک سب سے حسین یاد اس کھلونے کی ہے جو ایک سرخ رنگ کی جیپ تھی۔ آج بروقت تحریر یوں لگتا ہے کہ جیسے وہ جیپ پھر سے میرے ہاتھ میں تھما دی گئی ہو اور اس جیپ کے چلنے کی آواز میرے کانوں میں محفوظ ہے۔ اس جیپ کی بہت سے خصوصیات تھیں۔ پہلی تو یہ کہ شاید یہ پہلا باقاعدہ کھلونا تھا جو میری والدہ نے اپنے کسی بچے کے لئے خریدا تھا۔ گو میں اپنے بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹا ہوں مگر امی جان کا مزاج ایسا تھا کہ اول تو فضول خرچی کا سوال ہی پیدا نہ ہوتا تھا۔ دوسرا محض کھلونا خرید کر بچوں کو دینا تو جیسے محالات میں سے تھا کیونکہ آپ کا مزاج نہایت ادبی تھا اور آپ کوکتابوں سے ایک خاص شغف تھا اس لئے کتابوں وغیرہ کے لئے تو بے حساب پیسے خرچ ہو سکتے تھے مگر کھلونا خود خرید کر شاید مجھے ہی دیا گیا اور وہ بھی سب سے چھوٹا اور لاڈلہ ہونے کی وجہ سے۔ پھر اس جیپ کی ہیڈ لائٹیں اور سپرنگ پر لگی سرخ لائٹ کے ساتھ ساتھ ایک اور خوبی یہ تھی کہ وہ جیپ کسی بھی رکاوٹ سے ٹکرا کر اپنا رخ بدل لیتی تھی۔ لطف کی بات یہ ہے کہ بچپن کی باتوں کا جب بھی تذکرہ ہوا کئی بار امی جان نے دل کو موہ لینی والی مسکراہٹ کے ساتھ استفسار کیا کہ تمہیں وہ سرخ جیپ یاد ہے نا؟ اوریہ سلسلہ میری شادی کےدس سال بعد تک بھی جاری رہا۔ مزید احسان در احسان یہ کہ میری یہ بھی خوش قسمتی رہی کہ اپنی شادی کے بعد بھی جو 2009ء میں ہوئی تھی، سب بچوں میں امی کےساتھ زیادہ عرصہ میںنےہی گزرا اور یوں کھلونوں کا سلسلہ میرے بچوں تک ممتد ہو گیا۔ رَبِّ اَحْسِنْ مَثْوَاھَا فِیْ الْجَنّٰتِ النَّعِیْم آمین۔
شادی کے بعد میری سالگرہ کے نو مواقع آئے اور ہر مرتبہ رات کے کھانے کے بعد آپ مجھے اور میری اہلیہ کو نہایت پرتپاک لہجہ سے میری پیدائش کے دن یعنی 22 دسمبر 1986ء کی سخت ٹھنڈی رات اور بارش کی داستان سناتیں اور ہر سال بڑی باقاعدگی سے یہ داستان پہلے ہم دونوں میاں بیوی سنتے رہے بعد میں ایک ایک کر کے ہمارے تینوں بچے بھی سامعین میں شامل ہو گئے۔ شاید ہی کسی دوسرے بچے کی پیدائش، موسم، صحت کی خرابی، ڈاکٹر کے پاس راتوں کو بار بار جانے کا اتنا تذکرہ امی جان نےکیا ہوگا جتنا میرے نصیب میں آیا۔
پھر سکول کے دور میں نصرت جہاں اکیڈمی کے جتنے بھی تفریحی پروگرام بنے سب میں شامل ہوا کیونکہ امی جان کو شاید ہر موقع پر میری خوشی عزیز تھی۔ جامعہ داخل ہوا تو ان احسانات نے گویا حصول ثواب کی شکل دھار لی یعنی آپ نیکی سمجھ کر پہلے سے بھی زیادہ میری ہر خوشی اور ضرورت کا خیال رکھنے لگیں۔ جامعہ داخل ہوتے ہی مجھے جیسے اچھے سے اچھا پرفیوم لگانے کا شوق ہو گیا۔ تقریباً ہر دوسرے ماہ ایک اچھی خاصی رقم تو خوشبو خریدنے کو مل جاتی اور ساتھ ساتھ ایک مستقل بھاری رقم سات سال جامعہ کی کینٹین پر ہر ماہ ادا ہوتی اور وجہ میرے دوستوں کی ضیافت ہوتی تھی۔
پھر جامعہ کے دوسرے سال غالبا ً2003ء میں روحانی خزائن کا نیا ایڈیشن شائع ہوا تو چند دن قبل ہی میں نے ایک اچھی خاصی رقم کینٹین، پرفیوم اور چند دیگر اشیاء کی خریداری کے لیے لی تھی۔ مجھے آج بھی وہ شام یاد ہے کہ کس اضطراب سے میں نے روحانی خزائن کے طبع ہونے کا ذکر کیا تو بے ساختہ آپ نے 3000 روپے میرے ہاتھ پر رکھے کہ میں خود بھی خوشی سے نہال ہوگیا۔ اگلے ہی دن23 جلدوں کا سیٹ خرید کر لایا تو یہ خیال گزرا کہ ہر جلد کی لیمینیشن ضرور کروانی چاہیئے چنانچہ یہ خرچ بھی بخوشی ادا کردیا۔ کچھ عرصہ بعد خیال آیا کہ کافی کتابیں خرید لی ہیں اس لئےاپنی ذاتی لائبریری کے لئے ایک الماری ہونی چاہیئے چنانچہ منہ سے بات نکالنے کی دیر تھی کہ وہ الماری بھی تیار ہو گئی اور کتابوں پر مٹی نہ پڑے اس لئے اس الماری کو شیشے سے مزین بھی کروادیا۔ کتابوں کی خریداری کا سلسلہ بھی جامعہ کےسات سالوںتک مسلسل امی جان کی شفقتوں کی بدولت جاری رہا اور بعد میں NUML اسلام آباد سے ایم اے انگریزی کرتے ہوئے بھی کئی کلاسیکل ناول اور دیگر کتب کی خریداری بھی اسی کڑی کا ایک سلسلہ رہا جو اب خاکسار کی عادت بن گئی ہے اور در حقیقت امی جان کی کتابوں سے بے پناہ محبت تھی جو گویا مجھ میں سرایت کر گئی ہو۔ اَللَّھُمَّ اغْفِرْ لَھَا وَارْحمھَا وَ نَّورْ مَرْقَدَھَا وَلْرفَعْ دَرَجَاتِھَا فِیْ جَنَّاتِ النَّعِیْمِ
پھر ایک اور مستقل اور گرانقدر خرچ جامعہ کے سات سال گرمیوں کی چھٹیوں میں ہائیکنگ کا تھا۔ مری، سوات، نیلم، سیرن ویلی، سکردو اور گلگت سے لے کر خنجراب پاس تک تقریباً سارے شمالی علاقہ کی ہائیکنگ آپ کی خاص توجہ اور شفقت کی بدولت ممکن ہوئی۔ میں شاید جامعہ میں اپنی کلاس کا واحد طالب علم ہوں جس نےجامعہ کے سات سال مسلسل ہائیکنگ کی ہے اور یہ سب امی جان کی محبت اور شفقت سے نصیب ہوا۔ فالحمد للہ علیٰ ذالک
اسکے ساتھ ساتھ ہر سال جامعہ سے گرمیوں کی چھٹیوں میں وقف عارضی پر جاتے ہوئے بھی اتنا وافر خرچ دے کر بھجواتیں کہ اگر کوئی ضرورت مند ہو تو اس کی مدد بھی کر دینا اور کبھی کسی سے اپنی ضرورت کے لئے سوال نہ کرنا۔ ایک سال غالبا 2007ء میں گرمیوں کی چھٹیوں میں وقف عارضی، ہائیکنگ اور دوستوں کے ساتھ کراچی کی سیر کو بھی گیا اور کبھی بھی آپ نے مجھ سے اس قدر مالی بوجھ ڈالنے کی شکایت تو درکنار ، آپ کے ماتھے پر بل تک نہ آیا۔
امی جان کےساتھ یادوں کا ایک ایسا بحر بے کنار بہہ رہاہے کہ زندگی کی آخری سانس تک ہر لمحہ آپ کی یاد ایک شفیق ماں، ایک بے لوث محبت کرنے والے وجود ، ایک بہترین مشورہ دینے والے وجود کے طور پر دمکتی رہے گی اور سب سے بڑھ کر دعاؤں کےایک خزانے کی کمی ہمیشہ محسوس ہوتی رہے گی۔ والدین کا سایہ اس دنیا میں جنت کی نعماء میں سے ایک عظیم نعمت ہے۔ اس لئے خاکسار اس مضمون کو پڑھنے والے ہر قاری سے التماس کرتا ہے کہ اس نعمت کی قدر کریں اور جو میری طرح اپنے والدین کو یا ان دونوں میں سے کسی ایک کو خدا کے سپرد کر چکے ہیں وہ اپنی دعاؤں میں رَبِّ ارْحَمْھُمَا کَمَا رَبَّیَانِیْ صَغِیْراً کثرت سے پڑھا کریں ۔ و باللہ التوفیق
گزشتہ دنوں امی جان کے بارے میں اپنے جذبات چند اشعار میں ڈھالے تھے وہ بھی ہدیہ قارئین ہیں۔ ؎
احساس ِ نور ہے آج بھی میرے در و دیوار پر
وقت رخصت، میری ماں چراغ بجھا کر نہیں گئی
میں محو گفتگو ہوں ہر لحظہ اس کے ساتھ
لوٹ آئے گی جلد جیسے، بتا کر نہیں گئی
ہر موڑ پر زندگی کے تو ہی مشیر تھی
قصص زندگی کے سب تو سنا کر نہیں گئی
بے خود سا ہو گیا ہوں ، کچھ ریختہ ہوں میں
ہوں منتظر کہ میری ماں بتا کرنہیں گئی
(مرسلہ: ابو سلطان)