• 1 مئی, 2024

کاوان کو آزادی مبارک ہو

کاوان 1986ء میں اس وقت کے پاکستانی صدر ضیاءالحق کے دورہ سری لنکا کے موقع پر یہ ان کو تحفہ میں دیا گیا تھا،اس وقت اس کی عمر ایک برس کی تھی پاکستان پہنچنے پر وہ مرغزار چڑیا گھر اسلام آباد کے حوالے کردیا گیا تھا دھیرے دھیرے وقت گزرتا رہا ۔ اس وقت کوئی نہیں جانتا تھا کہ دو ملکوں کے درمیان دوستی کی فضا قائم رکھنے کی قیمت ایک سالہ میل ہاتھی بچہ کو اس قدر بھاری ادا کرنی پڑے گی اور ’’دنیا کا تنہا ترین ہاتھی‘‘ کے عنوان سے عالمی شہرت پائے گا۔ پینتیس سال کی قید اور زنجیروں میں جکڑا ہاتھی واحد ایشیائی ’’کاوان‘‘ کو اس ماہ بالآخر اسلام آباد کے چڑیا گھر سے رہائی مل گئی اور آج وہ کمبوڈیا کے ہاتھیوں کے ساتھ نیشنل پارک میں آزادی کے مزے لوٹ رہا ہے ۔ کاوان قید سے رہائی تک عالمی میڈیا کی بھرپور توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے اور اس بارے لوگ خبریں بھی دلچسپی سے پڑھ رہے ہیں ۔ شاید یہ واحد ایشین جانور ہے جس نے اس قدر شہرت پائی ہے ۔ پاکستان سے باہر کی دنیا میں انسانوں کے ساتھ ساتھ جانوروں کے بھی حقوق ہیں، باقاعدہ قوانین موجود ہیں جو جانوروں کو مکمل تحفظ دیتے ہیں ، ہزاروں کی تعداد میں جانوروں کے تحفظ کرنے والی این جی اوز موجود ہیں جو جانوروں کی فلاح و بہبود کے لئے کام کرتی ہیں ، اسی لئے کہیں بھی جانور کے ساتھ تشدد یا غیرقانونی سلوک ہوتا ہے تو اس پر شدید ردعمل کیا جاتا ہے ۔ کاوان گزشتہ 35 برسوں سے زنجیروں کے ساتھ جکڑا اسلام آباد کے چڑیا گھر میں رہ رہا تھا، پانچ سال کی تنہائی کے بعد 1990 میں بنگلہ دیش سے ایک ہتھنی کو لایا گیا جس کا نام سہیلی رکھا گیا تھا ۔ اس کی ساتھی ’’سہیلی‘‘ ہتھنی کا 2012 میں انتقال ہوگیا تھا اور کاوان کے سامنے کئی دن تک اس کا مردہ جسم وہیں پڑا رہا تھا اور کاوان کو اس کو دیکھتے رہنے کے عذاب سے بھی گزرنا پڑا تھا، کاوان اور سہیلی کا تعلق بیس سال تک رہا تھا ۔ مزید المیہ یہ تھا کہ ہتھنی کی وفات مہلک انفیکشن سے ہوئی تھی جس سے اس کا جسم گل سڑگیا تھا اور اس نے کاوان پر گہرانفسیاتی اثر ڈالا تھا اور اس کا رویہ دن بدن جارہانہ ہوتا گیا اور بالاخر انتظامیہ نے اس کے پاؤں میں زنجیریں ڈال دیں۔ کاوان کا علاج کرنے والے ڈاکٹر عامر خلیل کا کہنا تھا 2016 میں ان کے دورہ پاکستان کے دوران انہیں علم ہوا کہ اس کو شراب اور سوڈا بھی پلایا جاتا رہا ہے، اب2020 میں جب انہوں نے اس کا علاج شروع کیا تو اس وقت وہ انتہائی بیمار اور نفسیاتی طور پر کمزور ہو چکا تھا، انہوں نے کاوان کے متعدد زخموں کا بھی علاج کیا تھا ۔ کاوان کو کمبوڈیا منتقل کرنے والے خصوصی چارٹرڈ طیارے کے تمام اخراجات غیر ملکی ڈونرز نے برداشت کئے ہیں اور پاکستان کی سول ایویشن اتھارٹی نے خصوصی انتظامات کئے اور اجازت نامہ جاری کیا تھا ۔ کمبوڈیا کی روانگی سے قبل35 برس تک کاوان چڑیا گھر کو پیسے کما کر دیتا رہا تھا، بچوں بڑوں کو سونڈ ہلا ہلا کر اور اٹھا اٹھا کر سلام کیا کرتا تھا، بچوں نے اس کی سواری کا لطف اٹھا اور یادگار تصاویر بنوائیں ،راولپنڈی اور اسلام آباد کا شاید ہی کوئی ایسا رہائشی ہو جس کے بچوں نے اس کو نہ دیکھا ہو، لیکن افسوس کہ اس کو مطلوبہ خوراک مہیا کرنے اور دیکھ بھال کی طرف کسی نے توجہ نہ دی، حکومتوں نے تو انسانوں کے معاملات پر آنکھیں اور کان بند کر رکھے ہیں ، جانوروں کی کس نے سننی ہے؟ اس کی رہائی میں اسلام آباد ہائی کورٹ کا بھی اہم کردار ہے جس کے جون 2020 کے احکامات کی بدولت رہائی ممکن اور یقینی ہوئی ہے۔ انٹرنیشنل ویب سائٹ میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق2015 میں پہلی بار ایک پاکستانی طالب علم نے کاوان کی حالت دیکھتے ہوئے اس کی رہائی کی آن لائن اپیل کرکے دنیا کی توجہ اس طرف مبذول کرائی تھی اور یہ اپیل چڑیاگھر کی انتظامیہ اور اس وقت کے وزیر اعظم کو بھیج دی گئی تھی۔ اگلے سال میڈیا رپورٹروں نے اس بارے مزید خبریں دینا شروع کیں اور یوں جلد دنیا کو اس بارے آگاہی ہونے لگی تھی لیکن سب سے زیادہ جس چیز نے دنیا کو متوجہ کیا وہ کاوان کی زنجیروں میں جکڑی تصاویر تھیں اور اس کی لمبا عرصہ کی تنہائی کا ذکر تھا ، ایک امریکی اداکار ہ اور گلوکارہ چئیر بھی شامل ہے جو جانوروں کے حقوق سے متعلق ایک چیریٹی بھی چلاتی ہیں ،نے ان تصاویر کو دیکھ کر اور خبروں کو پڑھ کر کاوان کی رہائی کی مہم شروع کی اور باقاعدہ طور پر ’’کاوان کو رہا کرو‘‘ کے عنوان سے آن لائن مہم شروع کردی اور اس کی رہائی کے لئے وکیلوں کو فیس بھی ادا کی، پاکستان کے دورہ میں وزیر اعظم عمران خان سے بھی ملاقات کی ۔ لیکن حقیقی معنوں میں اس کی رہائی میں اہم کردار اسلام آباد کی ہائی کورٹ اور جانوروں کے حقوق پر کام کرنے والی تنظیم ’’فور پاز‘‘ نے کیا ہے جس کے ڈاکٹر نے بیمار ہاتھی کاعلاج بھی کیا تھا، اس ڈاکٹر کے علاج کی بدولت ہی کاوان کا کمبوڈیا کا سفر ممکن ہوا ہے کیونکہ اس وقت ماہرین کو دو بنیادی مسائل کا سامنا تھا، پہلا یہ کہ36 سالہ کاوان کا وزن انتہائی زیادہ تھا اور دوسرا یہ کہ اس کا مزاج جارحانہ تھا، ان دونوں مسائل کے ساتھ اس کو چڑیا گھر سے نکالنا اور لےجانا ممکن نہ تھا ۔ ’’فور پاز‘‘ کے ماہرین اور ڈاکٹر عامر خلیل جن کا تعلق مصر سے ہے، نے تین ماہ کی سخت محنت کے بعد ہاتھی کا نو سو نوے پونڈ یعنی 450 کلو گرام وزن کرنے میں کامیابی حاصل کی اور گانوں کے ذریعے اس کا رویہ دوستانہ کیا گیا،اس کے علاوہ ایک ماہ ان کو ایک خصوصی کیبن میں کاوان کو ڈالنے کی مشق بھی کرنی پڑی تھی۔ عالمی جریدہ کو انٹرویو دیتے ہوئے ڈاکٹر عامر خلیل نے بتایا کہ انہوں نے پاکستان اور کمبوڈیا کے سرکاری حکام کے ساتھ مسلسل رابطے کے ساتھ اس کی دیکھ بھال اور کمبوڈیا منتقلی کا کام کیا ہے اور مکمل اخراجات چار لاکھ امریکی ڈالرز ایک فیملی فاؤنڈیشن نے ادا کئے ہیں۔ اسلام آباد سے روانگی سے پہلے صدر پاکستان نے اس سے الوداعی ملاقات کی اور روانگی کے انتظامات کا جائزہ لیا تھا اور بالآخر سات گھنٹے کی طویل فلائٹ کے بعد کاوان اپنے نئے گھر کمبوڈیا پہنچ گیا جہاں پہلے سے موجود تین ہتھنیاں اور80 ہاتھی اس کے استقبال اور اس سے دوستی کے لئے وہاں موجود تھے ۔

(مرسلہ: منور علی شاہد ( جرمنی))

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 1 جنوری 2021

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 2 جنوری 2021