• 4 مئی, 2024

پس بیوی کے حقوق کی ادائیگی بڑی ذمہ داری ہے

پس بیوی کے حقوق کی ادائیگی اتنی بڑی ذمہ داری ہے کہ انہیں ادا نہ کرکے انسان ابتلاء میں پڑ جاتا ہے یا پڑ سکتا ہے اور خداتعالیٰ کی ناراضگی کا مورد بن جاتا ہے۔ مَیں نے آنحضرتﷺ کی ایک د عا کا ذکر کیا تھا کہ آپؐ اللہ تعالیٰ سے یہ دعا عرض کرتے تھے کہ میں ظاہری طور پر تو ہر ایک کے حق ادا کرنے کی کوشش کرتا ہوں لیکن کسی بیوی کی کسی خوبی کی وجہ سے بعض باتوں کا اظہارہو جائے جو میرے اختیار میں نہیں تو ایسی صورت میں مجھے معاف فرما۔ اور یہ ایک ایسی بات ہے جو انسانی فطرت کے عین مطابق ہے اور خداتعالیٰ جس نے انسان کو پیدا کیا اور پھر ایک سے زیادہ شادیوں کی اجازت بھی دی، جو بندے کے دل کا حال بھی جانتا ہے جس کی پاتال تک سے وہ واقف ہے، غیب کا علم رکھتا ہے۔ اس نے اس بارہ میں قرآن کریم میں واضح فرما دیا ہے کہ ایسی صورت حال پیدا ہو سکتی ہے کہ بعض حالات کی وجہ سے تم کسی طرف زیادہ جھکاؤ کر جاؤ۔ تو ایسی صورت میں یہ بہرحال ضروری ہے کہ جو اس کے ظاہری حقوق ہیں، وہ مکمل طور پر ادا کرو۔ جیسا کہ سورۃ نساء میں فرماتا ہے کہ وَ لَنۡ تَسۡتَطِیۡعُوۡۤا اَنۡ تَعۡدِلُوۡا بَیۡنَ النِّسَآءِ وَ لَوۡ حَرَصۡتُمۡ فَلَا تَمِیۡلُوۡا کُلَّ الۡمَیۡلِ فَتَذَرُوۡہَا کَالۡمُعَلَّقَۃِ ؕ وَ اِنۡ تُصۡلِحُوۡا وَ تَتَّقُوۡا فَاِنَّ اللّٰہَ کَانَ غَفُوۡرًا رَّحِیۡمًا (النساء: 130) اور اب تم یہ توفیق نہیں پا سکو گے کہ عورتوں کے درمیان کامل عدل کا معاملہ کرو خواہ تم کتنا ہی چاہو۔ اس لئے یہ تو کرو کہ کسی ایک کی طرف کلیۃً نہ جھک جاؤ کہ اس دوسری کو گویا لٹکتا ہوا چھوڑ دو۔ اگر تم اصلاح کرو اور تقویٰ اختیار کرو تو یقیناً اللہ تعالیٰ بہت بخشنے والا اور بار بار رحم کرنے والا ہے۔

تو ایسے معاملات جن میں انسان کو اختیار نہ ہو اس میں کامل عدل تو ممکن نہیں لیکن جو انسان کے اختیار میں ہے اس میں انصاف بہرحال ضروری ہے۔ اور ظاہری انصاف جیسا کہ مَیں بتا آیا ہوں کہ کھانا، پینا، کپڑے، رہائش اور وقت وغیرہ سب شامل ہیں۔ اگر صرف خرچ دیا اور وقت نہ دیا تو یہ بھی درست نہیں اور صرف رہائش کا انتظام کر دیا اور گھریلو اخراجات کے لئے چھوڑ دیا کہ عورت لوگوں کے آگے ہاتھ پھیلاتی پھرے تو یہ بھی درست نہیں ہے۔ پس ظاہری لحاظ سے مکمل ذمہ داری مرد کا فرض ہے۔

(خطبہ جمعہ فرمودہ 8مئی 2009ء بحوالہ الاسلام ویب سائٹ)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 1 مارچ 2022

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ