استعاروں میں جو بتائی ہے
بات ان کی سمجھ میں آئی ہے
جو گرجتے ہیں وہ برستے نہیں
ہم نے یہ بات آزمائی ہے
تجھ کو کھونے کے بعد جانِ جہاں
زندگی کرب میں بتائی ہے
آرزو کے گلاب کھل نہ سکے
’’یوں بھی اکثر بہار آئی ہے‘‘
غیر کو دوش دیں بھلا کیسے
آگ اپنوں نے جب لگائی ہے
فیصلے سارے اس کے ہاتھ میں ہیں
جس نے محفل یہ سب سجائی ہے
خود محافظ ہے اور ناصر بھی
جس کے قبضے میں کل خدائی ہے
تیرے بندے پکارتے ہیں تجھے
سُن مرے مالکا! دہائی ہے
نازؔ! زیبا نہیں ہمیں ہرگز
ذاتِ باری کو سب بڑائی ہے
(طاہرہ زرتشت ناؔز۔ ناروے)