• 2 مئی, 2024

تبلیغ میں پریس اور میڈیا سے کس طرح کام لیا جاسکتا ہے (قسط 37)

تبلیغ میں پریس اور میڈیا سے کس طرح کام لیا جاسکتا ہے
ذاتی تجربات کی روشنی میں
(قسط 37)

انڈیا پوسٹ نے اپنی اشاعت 3اگست 2007ء صفحہ 24 پر ہماری خبر شائع کی ہے۔ یہ خبریں جماعت احمدیہ برطانیہ کے جلسہ سالانہ کی ہے۔ ایک خبر کا عنوان ہے۔

UK Ahmadiyya Convention
Watched in Chino

’’جلسہ سالانہ برطانیہ چینو میں دیکھا گیا‘‘

اس خبر کے ساتھ 4 تصاویر بھی شائع ہوئی ہیں۔ ایک تصویر حضرت امیر المومنین خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے خطاب کرتے ہوئے ہے۔ ایک تصویر میں غیر مسلم مہمانان کرام ہیں۔ اور ایک تیسری فوٹو میں حضور حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز انگلینڈ کے آرچ بشپ سے مصافحہ فرما رہے ہیں۔ اور ایک تصویر بھرپور سامعین کی جلسہ گاہ کی ہے۔ اخبار نے خبر دیتے ہوئے انڈیا پوسٹ نیوز سروس کے حوالہ سے لکھا: جماعت احمدیہ مسلمہ کے افراد چینو کی مسجدمیں برطانیہ کے 41 ویں جلسہ سالانہ کو دیکھنے اور سننے کے لئے 29 جولائی کو جمع ہوئے۔ جماعت احمدیہ کے روحانی پیشوا حضرت مرزا مسرور احمد نے جلسہ کے اختتامی سیشن میں خطاب کیا اور دعا پر یہ جلسہ اختتام کو پہنچا۔

اخبار نے لکھا کہ برطانیہ میں موسم شدید خراب تھا مگر اس کے باوجود 25 ہزار سے زائد لوگ جلسہ میں شریک ہوئے۔ جو لوگ جلسہ میں شامل ہوئے وہ یورپین ممالک کے علاوہ دیگر ممالک مثلاً امریکہ سے جلسہ میں شامل ہونے کے لئے گئے۔ بعض مندوبین لاس اینجلس اور چینو سے بھی جلسہ سالانہ میں شامل ہونے کے لئے گئے تھے۔

اخبار نے اس بات کو ہائی لائٹ کیا کہ یوکے کا جلسہ 1984ء کے بعد بہت اہمیت اختیار کر گیا ہے کیونکہ گورنمنٹ آف پاکستان نے ایک آرڈیننس کے ذریعہ احمدیوں کو مسلمان کہلانے پر مجرم قرار دیا ہے۔ اور انہیں قانونی طور پر مسلمان کہلانے سے روک دیا گیا ہے۔اس قانون کی وجہ سے جماعت احمدیہ کے چوتھے روحانی پیشوا حضرت مرزا طاہر احمد صاحب کو پاکستان سے ہجرت کرنا پڑی۔اور وہ لندن تشریف لے آئے۔ اس جلسہ سالانہ میں حضرت مرزا مسرور احمد نے جو جماعت کے پانچویں خلیفہ ہیں۔ حضرت بانیٔ جماعت احمدیہ کے پیغام کو دینا میں پھیلانے کے لئے کہا۔ اور جہاد کی صحیح تعریف کی طرف توجہ دلائی۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنا چاہئے کہ ہمیں اس زمانے کے امام کی صداقت کو پہچاننے کی توفیق ملی۔ ہمیں اس لئے اللہ تعالیٰ کے ساتھ اپنے پختہ تعلق قائم کرنا چاہئے اور یہی اس وقت کا صحیح جہاد ہے۔
اخبار نے لکھا کہ جلسہ سالانہ کے اجلاس میں مرزا مسرور احمد نے دوران سال ہونے والی جماعت کی ترقیات کو یہاں بیان کیا۔ انہوں نے کہا کہ اس سال دو لاکھ 75 ہزار سے زائد لوگوں کو احمدیت میں شامل ہونے کی توفیق ملی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ یہ ترقی خدا تعالیٰ کے فضل سے جاری ہے اور جماعت احمدیہ افریقہ کے ممالک میں سکول، ہسپتال اور پینے کا صاف پانی بھی مہیا کرنے کے لئے وہاں کام کر رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ بانیٔ جماعت احمدیہ کے ارشادات اور تعلیمات کی روشنی میں ہمیں اسلام کے پیغام کو ہر ایک تک پہنچانے کے لئے بلا امتیاز وسلوک محبت اور انس اور پیار کے ساتھ کام کرنا ہوگا۔

الاخبار نے اپنی انگریزی سیکشن کی اشاعت 16 اگست 2007ء صفحہ 29 پر بڑی تفصیل کے ساتھ کیتھولک عیسائی فرقہ کے پادری اور ان کے لوگوں کی مسجد بیت الحمید میں آمد پر پروگرام اور سوال و جواب کی 3 تصاویر کے ساتھ اچھی خبر شائع کی ہے۔ تصاویر میں خاکسار پادری فادر کیری بلیو کو اسلامی کتب تحفہ پیش کر رہا ہے۔ ایک ہیڈ ٹیبل کی ہے جس میں خاکسار حاضرین کے سوالوں کے جواب دے رہا ہے اور تیسری تصویر سامعین کی ہے۔ خبر کے آخر میں جماعت کا فون نمبر معلومات کے لئے درج ہے۔

نیوز ایشیاء نے اپنی اشاعت 8 تا 14 اگست 2007ء صفحہ B-2, 4پر جلسہ سالانہ برطانیہ کی خبر دو تصاویر کے ساتھ شائع کی ہے۔ خبر کا عنوان ہے۔

41st Convention of
Ahmadiyya Muslim Convention of UK

’’احمدیہ مسلم کمیونٹی برطانیہ کا 41 واں جلسہ سالانہ‘‘

اس ہیڈ لائن کے بعد اخبار نے لکھا کہ جماعت احمدیہ مسلمہ اس وقت دنیا کے 189 ممالک میں پائی جاتی ہے۔ اور اس سال 262,000 لوگ جماعت احمدیہ میں داخل ہوئے ہیں۔ (حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح)

ایک تصویر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کے جلسہ سالانہ کے خطاب کی ہے۔ جب کہ دوسری تصویر میں انگلینڈ کے آرچ بشپ حضور انور سے مصافحہ کی سعادت حاصل کر رہے ہیں۔

خبر کا متن وہی ہے جو اس سے قبل دوسرے اخبار کے حوالہ سے گذر چکا ہے۔ خبر کے آخر میں مزید معلومات کے لئے ہماری مسجد کا ٹول فری نمبر دیا گیا ہے۔

انڈیا ویسٹ نے اپنی اشاعت 10 اگست 2007ء صفحہ B-38پر جلسہ سالانہ برطانیہ کی مختصراً خبر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی تصویر کے ساتھ شائع کی ہے۔ خبر اخبار کے سٹاف رائٹر کے حوالہ سے ہے۔ جس میں بتایا گیا ہے کہ جماعت احمدیہ برطانیہ کے 41واں جلسہ سالانہ یوکے میں ہوا۔ اور 29 جولائی کو جماعت احمدیہ کے روحانی پیشوا مرزا مسرور احمد نے خطاب کیا جس میں جماعت کی ترقیات کے بارے میں بیان کیا گیا۔ نیز آپ نے ممبران جماعت احمدیہ کو تلقین کی کہ وہ اللہ تعالیٰ سے سچا اور روحانی تعلق قائم کریں۔ جو اس وقت کا بہت بڑا جہاد ہے۔ آپ نے یہ بھی کہا کہ اسلام کے پیغام کو محبت اور پیار اور امن سے ہمیشہ پھیلاتے چلے جائیں۔

چینو چیمپئن نے اپنی اشاعت 4 تا 10 اگست 2007ء صفحہ C5پر ایک تصویر کے ساتھ جماعت احمدیہ برطانیہ کے جلسہ سالانہ کی خبر یوں دی ہے۔

Muslims Gather

یعنی مسلمان اکٹھے ہوئے ہیں۔

تصویر میں حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز عالمگیر بیعت لے رہے ہیں۔ خبر میں بتایا گیا ہے کہ جماعت احمدیہ کی مسجد بیت الحمید میں جماعت احمدیہ کے افراد چینو ، لاس اینجلس اور اورنج کونٹی نیز سین برناڈنیو سے جمع ہو کر جلسہ سالانہ برطانیہ میں سیٹلائٹ کے ذریعہ شامل ہوئے۔ اس موقع پر برطانیہ میں 25 ہزار سے زائد جلسہ میں شامل ہوئے۔

الاخبار نے اپنے انگریزی سیکشن میں 16 اگست 2007ء صفحہ29 کی اشاعت میں 4 بڑی تصاویر کے ساتھ جلسہ سالانہ برطانیہ کی خبر شائع کی ہے۔

ایک تصویر حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے جلسہ سالانہ کے خطاب کی ہے۔ جب کہ دوسری تصویر میں انگلینڈ کے آرچ بشپ حضور انور سے مصافحہ کی سعادت حاصل کر رہے ہیں۔ تیسری تصویر سامعین جلسہ سالانہ کی ہے۔اور ایک اور تصویر میں مہمانان کرام (غیر مسلم) تشریف رکھتے ہیں۔

خبر کا متن قریباً بالکل وہی ہے جو اس سے قبل گذر چکا ہے۔ جماعت پر ہونے والے افضال اور ترقیات کا ذکر ہے۔ اور اس وقت کا جہاد یہ ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ سے زندہ تعلق پیدا کریں۔ اور اس امن کے پیغام کو ہر کسی تک پہنچائیں۔

الاخبار نے اپنی عربی سیکشن میں 16اگست 2007ء صفحہ 19 کی اشاعت میں حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا خطبہ جمعہ کا خلاصہ حضور انور کی تصویر کے ساتھ شائع کیا۔ حضور انور نے یہ خطبہ جمعہ 29 جون 2007ء کو ارشاد فرمایا تھا۔

اخبار نے خطبہ جمعہ کا عنوان لکھا:

’’تَعَالِیْمُ الْاِسْلَامِ ھِیَ لِنَشْرِ الْاِسْلَامِ وَ الْاَمْن فِی الْعَالَمِ‘‘

’’اسلام کی تعلیمات کو دنیا میں پھیلانے کے لئے۔
اسلام کی امن کی تعلیم‘‘

اخبار لکھتا ہے کہ مرزا مسرور احمد امام جماعت احمدیہ نے خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا جس میں ’’جنگ‘‘ کے بارے میں اسلامی تعلیمات کا ذکر کیا۔ آپ نے فرمایا کہ انصاف کے تقاضے پورے کرنے سے ہی دنیا میں صلح اور سلامتی کی بنیاد رکھی جاسکتی ہے اور اس کی بنیاد تقویٰ پر منحصر ہے۔ اور قرآن کریم میں تقویٰ پر قائم رہنے کا ایک مسلمان کو اس قدر تاکیدی حکم ہے کہ ایک مومن سے یہ توقع ہی نہیں کی جاسکتی کہ وہ دنیا کی بدامنی میں کوئی کردار ادا کر سکتا ہے۔

آپ نے فرمایا کہ اس وقت قتال کی اجازت دینا، دنیا کے امن و سلامتی کے لئے تھی۔ نہ کہ دنیا میں فتنہ و فساد پیدا کرنے کے لئے جیسا کہ آج کل اسلام مخالف پروپیگنڈا کرنے والے شور مچا رہے ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ آنحضرت ﷺاور خلفائے راشدین کے زمانے میں جو جنگیں لڑی گئیں حضرت مسیح موعودؑ نے ان کی 3 وجوہات بھی بیان فرمائی ہیں۔

(1) دفاعی طور پر، اپنی حفاظت اور دفاع کے لئے ۔
(2) بطور سزا، یعنی جب مسلمانوں پر حملے کئے گئے تو دشمن کو سزا دینے کے لئے ان سے جنگ کی گئی۔
(3) بطور آزادی قائم کرنے کے لئے۔

حضرت امام جماعت احمدیہ نے اس ضمن میں قرآن کریم کی سورة الحج کی آیت 41 بھی پڑھی۔ اس آیت کی تشریح میں آپ نے فرمایا جنگ کی اجازت اس لئے دی گئی کہ ان پر ظلم کیا گیا۔ انہیں بلاوجہ قتل کیا جارہا تھا۔ پھر اس لئے بھی اجازت دی گئی کہ انہیں ان کے گھروں سے بلاوجہ نکالا گیا۔

حضور نے فرمایا کہ پس یہ اصولی حکم آگیا کہ جب کوئی قوم دیر تک مسلسل دوسری قوم کے ظلموں کا تختہ مشق بنی رہے تو یہ اجازت دی جاتی ہے لیکن اس کا مقصد ظلم کا خاتمہ ہو نہ کہ ظلموں کا بدلہ لینے کے لئے۔ اس پرحکمت ارشاد نے دوسرے مذاہب کا بھی تحفظ کیا ہے۔ یعنی یہ کہ اگر یہ اجازت نہ دی جاتی تو ہر مذہب کی عبادت گاہ ظالموں کے ہاتھوں تباہ و برباد ہوجاتی۔ جس سے نفرتیں اور بڑھتی ہیں اور دنیا سے سلامتی اٹھ جاتی ہے۔ فرمایا کہ آج کل بدقسمتی سے بعض مسلمان عیسائیوں کو بھی نوٹس دے رہے ہیں۔ فرمایا پچھلے دنوں اخباروں میں آرہا تھا چارسدہ میں نوٹس دیا گیا کہ مسلمان ہوجاؤ ورنہ قتل کر دیئے جاؤ گے اور تمہارا گرجا گرا دیا جائے گا۔ چند سال پہلے گرائے بھی گئے تھے تو یہ چیز ہے جس نے اسلام کو بدنام کیا ہے۔ اور مخالفین اسلام کو اسلام پر انگلی اٹھانے کا موقع دیا ہے۔ آج مسلمانوں کی ان وجوہات کی بناء پر ہر جگہ سبکی ہورہی ہے اور وہ اس وجہ سے ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے حکموں کی خلاف ورزی کر رہے ہیں ورنہ اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ اگر فساد اور شر کو ختم کرنے کے لئے عمل کرو گے تو اللہ تعالیٰ تمہاری مدد کرے گا۔

فرمایا: آج ہم دیکھتے ہیں بظاہر کہیں بھی اللہ تعالیٰ کی مدد اور نصرت مسلمانوں کے شامل حال نہیں ہے وہ بہت ہی بری حالت میں ہیں۔ پھر احمدیوں پر جو ظلم ہو رہے ہیں ان کی مسجدیں گرانے کی کوشش کرتے ہیں تو یہ اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کر رہے ہیں اس وجہ سے برکت اٹھ رہی ہے۔ پس جہاں تک احمدی کا سوال ہے احمدی تو حضرت مسیح موعودؑ کی تعلیم پر عمل کرنے کی وجہ سے سختی کا جواب سختی سے نہیں دیتے کیوں کہ جس حکومت میں وہ رہے ہیں اس کے قانون کی پابندی کی وجہ سے ٹھیک ظلم سہہ لیتے ہیں، صبر کر رہے ہیں اور یوں بھی اب مسیح موعودؑ کے زمانے میں توپ و تفنگ کی جو ظاہری جنگ ہے اس کی ممانعت ہے۔ احمدیوں نے تو اینٹ کا جواب اینٹ یا پتھر سے نہیں دینا لیکن خدا تعالیٰ اپنے وعدے کے مطابق حضرت مسیح موعودؑ کی مدد کو آئے گا۔

آپ نے فرمایا کہ اللہ کرے مسلمانوں کو عقل آجائے اور اس حکم کے تحت ہر مظلوم کا دفاع کرنے والے ہوں اور ہرظالم کو ظلم سے روکنے والے بنیں کیونکہ مسلمانوں کی سلامتی اسی سے وابستہ ہے۔

حضور نے فرمایا کہ اگلی آیت میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے (الحج: 42) پس یہ ان لوگوں کا کام ہے کہ جب ان کے پاس طاقت آجاتی ہے تو پھر اپنے جائزے لیں اور سوچیں کہ یہ سب کچھ جو ملا ہے یہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے ملا ہے۔

پس ان سب باتوں کا مقصد یہ بنتا ہے کہ ایک اسلامی حکومت طاقت آنے کے بعد صرف اپنی طاقت کو غلط ذرائع سے بڑھانے میں مصروف نہ ہوجائے۔ بلکہ بلا امتیاز مذہب و نسل ہر شہری کے حقوق کی حفاظت، غریبوں کو ان کا مقام دینا، یہ اس کا کام ہے تاکہ معاشرے اور ملک میں امن و سلامتی پیدا ہو۔ اور خاص طور پر ہر شہری کے اس کے ضمیر کے مطابق مذہب اختیار کرنے اور اس کے مطابق عبادت کرنے اور اس کی عبادت گاہوں کی حفاظت کی ضمانت دینا یہ ایک اسلامی حکومت کا کام ہے۔ کیونکہ یہی چیز ہے جو امن و سلامتی کی بھی ضمانت ہے۔

حضور نے سورۃ بقرہ کی آیات 191تا 194 بھی پڑھیں۔ فرمایا کہ اگر جنگ کرنا ٹھہر جائے تو جنگ کو بھی محدود رکھو یہ نہیں کہ دشمن کو سبق دینے کے لئے جنگ کے میدان وسیع کرتے چلے جاؤ۔ پھر عبادت گاہوں کے قریب بھی جنگ سے منع کیا ہے۔ اس لئے آنحضرت ﷺاپنے لشکروں کو خاص طور پر ہمیشہ یہ ہدایت فرماتے تھے کہ معبدوں اور گرجوں کی حفاظت کرنی ہے ان کو نہیں گرانا اور مسجد حرام کے اردگرد تو جنگ کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔

پس اللہ تعالیٰ نے یہ اعلان آنحضرت ﷺ کے ذریعہ کرایا کہ ہم یہ جنگ ظلم کی وجہ سے نہیں کر رہے۔ بلکہ یہ تم ہو جنہوں نے ہمیں ظلم کا نشانہ بنایا۔ جنگ بدر کے بعد کفار سے کہا جارہا ہے کہ انہوں نے مسلمانوں کو جس طرح ظلم کا نشانہ بنایا اور پھر خود آنحضرت ﷺ کو جو دکھ اور تکالیف دی گئیں۔ اسی بدر کی جنگ میں کفار کو شکست کا سامنا ہوا۔

حضور نے فرمایا کہ آنحضرت ﷺ کی ذات پر یہ الزام لگایا جاتا ہے کہ آپؐ نَعُوْذُ بِاللّٰہِ زبردستی لشکر کشی کیا کرتے تھے۔ زبردستی مسلمان بناتے تھے اور اسی وجہ سے یہ جنگیں لڑی ہیں۔ اور کہا جاتا ہے کہ جب آپؐ بادشاہوں کو خط لکھتے تھے تو فرماتے تھے کہ اَسْلِمْ تُسْلَمْ یا اَسْلِمُوْا تُسْلَمُوْا۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ اسلام قبول کر لو ورنہ ہم طاقت کے زور سے منوائیں گے۔

حضور نے فرمایا کہ آنحضرت ﷺ خالصۃ تبلیغی نقطہ نظر سے یہ فرماتے تھے کہ اسلام کا پیغام ہی ہے جو سلامتی کا ہے اس لئے اس کی فرمانبرداری کرو اور اس کے سائے تلے آجاؤ۔

حضور ﷺ نے اس وقت کی ساری بڑی طاقتوں کو خط لکھے تھے، تو کیا اس کا مطلب یہ تھا کہ تم سب کے ساتھ میں جنگ کے لئے تیار ہوں۔ کوئی بھی عقل مند آدمی ایسا نہیں کرسکتا کہ سب بڑی بڑی طاقتوں کے ساتھ جنگ کا اعلان کر دے حالانکہ اس وقت اسلام کی طاقت خود محدود تھی۔ آپؐ انسانی ہمدردی چاہتے تھے۔ آپؐ کو یقین تھا کہ یہ دین ہے جو امن اور سلامتی پھیلانے والا ہے اس لئے دنیا کو اسے تسلیم کرنا چاہئے۔ اور اسی نیت سے آپ نے بادشاہوں کو یہ پیغامات بھجوائے۔

حضور انور نے فرمایا کہ تاریخ شاہد ہے کہ آپ جنگوں میں کس طرح محکوم قوم کا خیال رکھتے تھے۔ یہاں تک فرمایا کہ جنگ میں بھی کوئی دھوکے بازی نہیں کرنی۔ آپ کے حملے بھی دن کی روشنی میں ہوا کرتے تھے، حکم تھا کہ کسی بچے کو نہیں مارنا، کسی عورت کو نہیں مارنا اور مذہبی راہنماؤں کو قتل نہیں کرنا، بوڑھوں کو نہیں مارنا بلکہ جو تلوار نہیں اٹھاتا اسے بھی کچھ نہیں کہنا چاہئے خواہ وہ نوجوان ہو، پھر دشمن ملک کے اندر خود دہشت پیدا نہیں کرنی۔ چنانچہ فرمایا کہ تمہارا ہر کام صرف اور صرف خدا ہی کے لئے ہو۔ پھر دیکھیں انسانی ہمدردی کی انتہاء آپؐ نے فرمایا دشمن کے منہ پر زخم نہیں لگانا، دشمن کو کم سے کم نقصان پہنچانا، قیدیوں کے آرام کا خیال رکھنا۔

فرمایا: تو یہ ہے اسلام کی خوبصورت تعلیم جو ہر پہلو سے ہر طبقے پر سلامتی بکھیرنے والی ہے۔ ہر ایک کو آزادی دلوانے والی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہر احمدی کو توفیق دے کہ اللہ تعالیٰ کی اس خوبصورت تعلیم کے جو مختلف پہلو ہیں ان کو دنیا کے سامنے پیش کرتے ہوئے اسلام کی روشن اور حسین تعلیم سے دنیا کو روشناس کرائیں۔ آمین

ہفت روزہ ایشیاء ٹربیون نے اپنی اشاعت 12 ستمبر 2007ء صفحہ6 پر خاکسار کی تصویر کے ساتھ خاکسار کا مضمون بعنوان‘‘رمضان المبارک کے فضائل و برکات ’’ شائع کیا۔ جس کی ہیڈ لائن قرآن کریم کی آیت کریمہ کا ترجمہ ہے۔

بے شک اللہ تعالیٰ کے نزدیک دین اسلام ہے۔ (القرآن)

امریکہ اور ساری دنیا میں رمضان المبارک کی آمد آمد تھی۔ اس پر یہ مضمون لکھا گیا جس میں بتایا گیا کہ اسلامی عبادت کا ایک اہم رکن روزہ ہے۔ اور اس کا مطلب شرعی اصطلاح میں یہ ہے کہ طلوع فجر یعنی صبح صادق سے لے کر غروب آفتاب تک عبادت کی نیت سے کھانے پینے، لغو کاموں سے پرہیز اور جماع سے رکنے کا نام صوم یا روزہ ہے۔

اس کے بعد روزہ کی غرض اصلاح نفس کا ذکر ہے۔ اور اس ضمن میں قرآن کریم کی سورة البقرة کی آیت184کا بیان ہے۔ پس روزے سے انسان ہر بدی، ہر لغو کام، جھوٹ، خیانت، بے ایمانی سے بچے اور تقویٰ اختیار کرے۔ تقویٰ کے معنی ہی بچنے کے ہیں۔جو شخص گندے کام کرے، لغو کام کرے، اس کا روزہ بے معنی ہے۔

خاکسار نے اس مضمون میں چند احادیث بھی درج کی ہیں جن میں روزے کی فضیلت اور برکات ہیں جیسے یہ کہ رمضان کے آنے سے جنت کے دروازے کھل جاتے ہیں دوزخ کے دروازے بند ہوجاتے ہیں۔ اور شیطان کو زنجیروں میں جکڑ دیا جاتا ہے۔

ڈیلی بلٹن نے اپنی اشاعت 13 ستمبر 2007ء سیکشن Bمیں صفحہ اول پر اس عنوان سے خبر دی ہے۔

Muslims Begin Month of Prayer, Fasting

’’یعنی مسلمانوں کا عبادت اور روزے کا مہینہ شروع ہے‘‘

یہ خبر ڈیلی بلٹن کے سٹاف رائٹر Andrea Bennett نے دی ہے جس کے شروع میں لکھا ہے کہ رمضان روحانیت، عبادت اور امن کی تجدید کے لئے آیا ہے۔ امریکہ میں اس دن 13ستمبر کو رمضان کے چاند نظر آیا تھا۔ اس لئے اخبار نے یہ لکھا کہ آج رات سے مسلمانوں کی فیملیز روزہ رکھیں گی اور شام کو افطار کریں گی۔ اس کے بعد کچھ مسلمان لیڈروں کے انٹرویوز ہیں۔ اس کے بعد خاکسار کا انٹرویو ہے۔ اخبار نے خاکسار کےحوالہ سے لکھا کہ: امام شمشاد نے بتایا کہ یہاں جماعت احمدیہ کی مسجد بیت الحمید میں روزانہ 5 وقت کی نمازیں ہوں گی۔ اس کے علاوہ روزانہ شام کو 7 بجے سے 9 بجےتک قرآن کریم کی تعلیمات (درس القرآن) کا اور آنحضرتؐ کی احادیث سے بیان ہوا کریں گی۔

امام شمشاد نے کہا کہ ہماری طرف سے ہر ایک کو رمضان کے پروگراموں میں شامل ہونے کی دعوت ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ رمضان کے دنوں میں ہمارے ہمسائے، دوست، عیسائی اور دیگر لوگ افطاری اور درس میں بھی شامل ہوتے ہیں۔ امام نے کہا کہ 13 اکتوبر کو رمضان کے اختتام پر عید الفطر بھی منائی جائے گی۔ ہم تمام مذاہب کے لوگوں کو شامل ہونے کی دعوت دیتے ہیں۔ امام شمشاد ناصر نے مزید بتایا کہ اس وقت تمام دنیا میں ’’انسانیت‘‘ کو مشکلات درپیش ہیں اس لئے ہم چاہتے ہیں کہ لوگ آئیں اور ہمارے ساتھ مل کر انسانیت کی فلاح و بہبود کے لئے دعا کریں۔ رمضان کے لئے ہمارا یہی سب کو پیغام ہے۔

اخبار نے آخر میں مسجد بیت الحمید کا فون نمبر بھی معلومات کے لئے دیا ہے۔

نوٹ: جیسا کہ خاکسار لکھ چکا ہے کہ یہ یہاں کا دوسرا بڑا اخبار ہے۔ دیگر 3-4 مسلمان لیڈروں کے بیانات بھی اس خبر میں ہیں۔ لیکن اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہماری مسجد کا ہی فون نمبر دیا ہے۔ اور خاکسار کا بیان زیادہ ہے بہ نسبت دوسرے تمام لیڈروں کے بیانات کے مدمقابل پر۔ یہ اللہ تعالیٰ کا فضل اور احسان ہے۔ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ عَلیٰ ذَالِکَ

ہفت روزہ پاکستان پوسٹ نے اپنی 13ستمبر 2007ء کی اشاعت میں صفحہ 9-10پر خاکسار کا مضمون بعنوان ’’رمضان المبارک کے فضائل و برکات‘‘ پر شائع کیا۔جس میں روزہ کی فلاسفی اور رمضان اور روزوں کی فرضیت کے بارے میں آیت کریمہ 2:188 کے استدلال اور رمضان کی فضیلت احادیث نبویہ سے درج کی گئی ہے۔

ہفت روزہ پاکستان ٹائمز نے بھی اپنی 13 ستمبر2007ء کی اشاعت میں صفحہ 13 پر خاکسار کا مضمون ’’رمضان المبارک کے فضائل و برکات‘‘ پر خاکسار کی تصویر کے ساتھ شائع کیا۔

ہفت روزہ پاکستان جرنل نے بھی اپنی اشاعت 14ستمبر 2007ء صفحہ 3 پر خاکسار کا مضمون بعنوان ’’رمضان المبارک کے فضائل و برکات‘‘ پر خاکسار کی تصویر کے ساتھ شائع کیا۔اس مضمون کا متن وہی ہے جو دیگر اخبارات نے شائع کیا۔ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ۔

ایک ضروری وضاحت: امریکہ کے مختلف شہروں میں خصوصاً بڑے بڑے شہروں میں جہاں پاکستانی، انڈین آبادی بھی کثرت سے پائی جاتی ہے۔ اردو میں اخبارات شائع کرتی ہے۔ اور یہاں کے لوکل پڑھے لکھے طبقہ کے لوگ بھی اخبارات میں اپنے مضامین اور کالم لکھتے ہیں۔ بعض اخبارات میں دینی مسائل اور بعض فقہی مسائل کے عنوان سے بھی عوام الناس کے سوالوں کے جواب دیتے ہیں۔

چنانچہ پاکستان جرنل اخبار میں بھی اس قسم کا ایک سلسلہ وار پروگرام شروع تھا جس میں ’’عالم دین‘‘ سوالوں کے جواب دیتے ہیں۔ خاکسار یہ صفحہ بھی شوق سے پڑھتا ہے تاکہ پتہ چل سکے کہ کہاں کہاں درست جواب دیا گیا ہے وغیرہ چنانچہ پاکستان جرنل میں ایک دفعہ ایک سوال شائع ہوا کہ آیا قبر کو بوسہ دیا جاسکتا ہے یا نہیں۔ جب خاکسار نے اس کا جواب پڑھا تو مجھے وہ اسلامی شریعت اور آنحضرت ﷺ کی تعلیمات کے خلاف محسوس ہوا۔ خاکسار نے اسی وقت ایک خط ایڈیٹر پاکستان جرنل کو تصحیح کے لئے لکھا۔ تصحیح تو شائع نہیں ہوئی۔ ہوسکتا ہے کہ خاکسار کا خط اُن کے عالم صاحب کی خدمت میں انہوں نے بھجوایا ہو۔ افادہ عام کے لئے خاکسار وہ خط بھی یہاں نقل کرتا ہے۔ کیوں کہ یہ بھی جماعت احمدیہ کی ذمہ داری ہے کہ اسلام اور آنحضرت ﷺکی تعلیمات کا پوری طرح دفاع کرے۔ بے شک اسے آج پذیرائی حاصل نہ ہوگی۔ لیکن ہم اپنی ذمہ داری کو ادا کرنے والے ہوجائیں گے۔ اس لئے جب بھی جہاں بھی کہیں اس قسم کی کوئی بات سامنے آئے جو اسلام کی تعلیمات کے خلاف ہو اس کا نوٹس لینا چاہئے اور متعلقہ ادارہ یا پریس یا اخبار کو ضرور اس کی وضاحت نرمی اور پیار کے ساتھ بھیج دینی چاہیئے۔ باقی ان کا کام ہے۔ وہ خط جو لکھا گیا یہ ہے:

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلیٰ رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ
خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ
ھُوَ النَّاصِرُ

مکرم محترم جناب ایڈیٹر صاحب پاکستان جرنل۔

اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ وَرَحْمَةُ اللّٰہِ وَبَرَکَاتُہٗ

خدا کرے آپ ہمیشہ خیریت سے اور خوش و خرم رہیں۔ آمین۔ کل خاکسار کو ایک پاکستانی ریستورانٹ پر جانے کا موقع ملا تو وہاں پر پاکستان جرنل نظر آیا۔ خاکسار نے بڑے شوق سے اٹھایا اور گھر آکر اس کا مطالعہ کیا۔ سب سے پہلے تو میں آپ کو مبارکباد پیش کرتا ہوں کہ آپ نے اس علاقہ میں یعنی کیلیفورنیا کے علاقہ میں اور پھر خصوصیت کے ساتھ لاس اینجلس کے علاقہ میں اس مؤقر اخبار کو شائع کرنے اور تقسیم کرنے کا سہرا اپنے سر باندھا ہے۔ جَزَاکَ اللّٰہُ۔ اللہ تعالیٰ آپ کو اس کی احسن جزا دے۔ آمین۔

اخبار مجھے بہت پسند آیا۔ خبریں تو قریباً قریباً ہر ایک اخبار کی وہی ہوتی ہیں لیکن مضامین ہر اخبار کے الگ الگ علمی ذوق کو پورا کرنے والے ہوتے ہیں۔

اخبار پاکستان جرنل کے مضامین بھی عمدہ تھے۔ ایک بات کی طرف خاکسار آپ کی توجہ دلانا چاہتا ہے۔ اور وہ یہ کہ اس ہفتہ کے پرچہ کے صفحہ 8 پر ’’اسلام‘‘ کے عنوان سے صفحہ کے آخری حصہ میں فقہی اور دینی مسائل کے جواب مفتی منیب الرحمان صاحب کی طرف سے لکھے گئے ہیں۔ پہلا سوال قبر کی زیارت اور قبر کو بوسہ دینے کے بارے میں تھا۔ محترم مفتی صاحب نے اس کے جواب میں لکھا ’’کہ ویسے تو ٹھیک نہیں ہے لیکن ماں باپ کی قبر کو بوسہ دینا ٹھیک ہے۔‘‘

میرے خیال میں یہ جواب اسلامی شریعت اور تقاضے کے بالکل خلاف ہے۔ پاکستان اور ہندوستان میں یہی کچھ تو ہو رہا ہے۔ پیر پرستی اور قبر پرستی۔ ایک علامہ کے حوالہ سے یہ جواب لکھا گیا ہے۔ اگر جواب قرآن، سنت نبوی ﷺ یا حدیث نبوی ﷺ سے دیا جاتا تو ٹھیک تھا۔ اور جن علامہ کا ذکر کیا گیا ہے حیرت ہے کہ انہیں بھی پھر قرآن و حدیث و سنت پر پورا عبور حاصل نہیں ہے۔

میرے خیال میں کسی قبر کو بوسہ دینے کی اجازت نہیں ہے خواہ وہ ماں کی ہو یا باپ کی۔ دنیا میں قریباً 80 فیصد سے زائد لوگ ماں باپ بنتے ہیں تو گویا کم و بیش اتنے فی صد لوگ قبروں کو بوسہ دے سکتے ہیں۔ اس سے قبر پرستی کی بنیاد ڈال دی گئی ہے۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا ہے۔ برا ہو یہود و نصاریٰ کا (بلکہ فرمایا لَعَنَ اللّٰہُ) یعنی لعنت ہو ان پرکہ انہوں نے اپنے نبیوں کی قبروں کو سجدہ گاہ بنا لیا۔

میرے خیال میں اس جواب کی تصحیح شائع ہونی چاہیئے۔ اسلام کی صحیح تصویر پیش ہونی چاہئے۔ اور اس کے لئے آنحضرت ﷺ کو مشعل راہ بنایا جائے۔

ہاں فقہی مسائل میں اختلاف کی گنجائش ضرور ہے لیکن یہ ایسا مسئلہ ہے جہاں توحید پر زد پڑتی ہے اور قبر پرستی کا دروازہ کھل جاتا ہے۔ جَزَاکَ اللّٰہُ اَحْسَنَ الْجَزَآء۔ وَاللّٰہُ اَعْلَمُ۔ خاکسار۔ (امام سید شمشاد احمد ناصر مسجد بیت الحمید چینو کیلیفورنیا لاس اینجلس)

چینو چیمپئن نے اپنی اشاعت 15 تا 21 ستمبر2007ء صفحہ B-3پر اس عنوان سے مختصراً خبر دی۔

Holy Days for Muslims
’’مسلمانوں کے مقدس ایام‘‘

اخبار نے لکھا کہ مسلمانوں کے مقدس ایام یعنی روزے رکھنے کے دن شروع ہوگئے ہیں۔ جس میں وہ قرآن کریم سیکھیں گے اور قرآن کریم کو پڑھیں گے اور اس سلسلہ میں قرآن کی کلاسز (درس القرآن) ہوں گی۔ اور یہاں پر مسجد بیت الحمید جو جماعت احمدیہ کی مسجد ہے اور رامونا ایونیو پر واقع ہے۔ امام شمشاد رمضان کی عبادات کروائیں گے۔ مسجد کا فون نمبر بھی ہے۔

ایشیاء ٹربیون نے اپنی اشاعت 19 ستمبر 2007ء صفحہ 16 پر خاکسار کا ایک مضمون بعنوان رمضان المبارک سے کس طرح فائدہ اٹھایا جائے، خاکسار کی تصویر کے ساتھ شائع کیا۔

اس مضمون میں خاکسار نے 11 باتیں لکھیں۔

(1) نماز باجماعت کا قیام کریں۔ قرآن و حدیث سے نماز باجماعت کی اہمیت بیان کی گئی ہے۔

(2) قیام اللیل۔ رمضان میں نماز تہجد کی طرف، قرآن و حدیث سے توجہ دلائی گئی ہے اور اہمیت بیان کی گئی ہے۔ جس میں قبولیت دعا خاص طور پر ہے۔ آنحضرت ﷺکا طریق تہجد بھی بیان کیا گیا ہے۔

(3) نماز تراویح کے بارے میں اور نوافل کے بارے میں اہمیت و برکات بیان کی گئی ہے۔

(4) تلاوت قرآن کریم کی طرف توجہ دلائی گئی ہے۔

(5) دعائیں کریں۔ دعائیں کریں۔ دعائیں کریں۔ دعاؤں کی طرف خصوصی توجہ اور رمضان میں خاص طور پر افطاری کے وقت کو باتوں میں ضائع کرنے کی بجائے اس وقت کو دعاؤں میں گذارنے کی تلقین اور احادیث سے اس کی اہمیت بیان ہے۔ آنحضرت ﷺ کی یہ حدیث بھی درج ہے کہ رمضان میں ذکر کرنے والا بخشا جاتا ہے اور اس ماہ اللہ سے مانگنے والا کبھی نامراد نہیں رہتا۔

(6) ذکر الٰہی، توبہ و استغفار اور درود شریف کے ورد، کی طرف رمضان میں خاص توجہ دلائی گئی ہے۔ دعاؤں کی قبولیت میں اول خدا تعالیٰ کی حمد و ستائش اور پھر درود شریف قبولیت دعا کا باعث ہوتا ہے۔ نیز انسان کی توبہ سے اللہ تعالیٰ خوش ہوتا ہے اور اس کے گناہ بخشتا ہے۔ استغفار سے انسان گذشتہ گناہوں کی تلافی اور آئندہ سے بچنے کے لئے ڈھال ہے۔ ان سب کی اہمیت اور فضیلت احادیث نبویہ ﷺ سے بیان کی گئی ہے۔ اور چند قرآنی دعائیں بھی درج کی گئی ہیں۔

(7) صدقہ و خیرات کرنے کی طرف بھی خصوصی توجہ دلائی گئی ہے۔ آنحضرت ﷺ کی سخاوت رمضان میں تیز آندھی سے بھی زیادہ ہوتی تھی۔ اس کے علاوہ چندوں کی ادائیگی کی طرف بھی توجہ دلائی گئی ہے۔

(8) فطرانہ کی اہمیت اور ادائیگی کی طرف توجہ احادیث کی روشنی میں۔

(9) رمضان کے آخری عشرہ میں اعتکاف کی اہمیت اور مسائل بیان کئے گئے ہیں۔

(10) لیلۃ القدر کی تلاش و اہمیت کے بارے میں ہے۔

(11) عید الفطر مسلمانوں کی خوشی کا دن اور یہ دن کیوں منایا جاتا ہے۔ مسلمانوں کو کیسے منانا چاہیئے۔ اور احادیث میں اس کی کیا اہمیت ہے۔ یہ سب 11 امور اس مضمون میں بیان کئے گئے ہیں۔

الاخبار نے عربی سیکشن میں 19 ستمبر 2007ء کی اشاعت میں صفحہ 12 پر اس عنوان پر خاکسار کا مضمون شائع کیا ہے۔

کَیْفَ یُمْکِنُ اَنْ نَّسْتَفِیْدَ مِنْ شَھْرِ رَمَضَانَ الْمُبَارَکِ

یعنی ہم کس طرح رمضان المبارک کے مہینہ سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔

یہ دراصل وہی اردو والا مضمون ہے جس کے بارے میں اوپر گذر چکا ہے۔ مکرم عابد ادلبی صاحب نے اس کا عربی میں ترجمہ کیا تھا۔ اور اس اخبار نے اسے شائع کیا.

پاکستان پوسٹ نے اپنی اشاعت 20تا 26 ستمبر 2007ء صفحہ 9-10 پر خاکسار کا ایک اور مضمون بعنوان ’’رمضان المبارک اور قبولیت دعا‘‘ خاکسار کی تصویر کے ساتھ شائع کیا۔

خاکسار نے اس مضمون میں رمضان المبارک کی اہمیت و برکات کے علاوہ اس مہینہ میں کثرت سے دعائیں کرنے کی طرف توجہ دلائی ہے۔ سورۃ البقرہ کی آیت اِنِّیْ قَرِیْبٌ سے قبولیت دعا کا استدلال حضرت مصلح موعودؓ کی تفسیر کبیر سے لکھا گیا ہے۔ پھر آنحضرت ﷺ کی احادیث نبویہ میں دعا کے طریق اور قبولیت دعا کے لئے جن چیزوں کا کرنا ضروری ہے وہ درج کی گئی ہیں۔ خاکسار نے اس طرف بھی توجہ دلائی ہے کہ حضرت مسیح موعودؑ نے فرمایا ہے کہ انسان نماز میں کثرت کے ساتھ دعا کرے اور حدیث نبوی بھی درج کی گئی ہے۔ کہ انسان خدا کے زیادہ قریب سجدہ کی حالت میں ہوتا ہے۔ اس لئے اس وقت بہت دعا کرنی چاہیئے۔

خاکسار نے اس طرف بھی توجہ دلائی ہے کہ انسان اپنی دعاؤں میں قرآنی دعائیں اور احادیث نبویہؐ کی دعائیں بھی کثرت سے پڑھے۔ لیکن سجدہ اور رکوع کی حالت میں قرآنی دعائیں نہ پڑھی جائیں۔

حضرت مصلح موعودؓ نے جو قبولیتِ دعا کے طریق بیان فرمائے ہیں اُن کا بھی ذکر کیا گیا ہے۔ اُن مواقع کو بھی لکھا گیا ہے جو قبولیت دعا کے اوقات ہیں اور احادیث میں اُن کا ذکر ملتا ہے مثلاً تہجد کا وقت، افطاری سے قبل، اذان اور اقامت کے درمیان کا وقت بھی قبولیت دعا کا ہے۔ تین اشخاص کی دعائیں عنداللہ مقبول ہوتی ہیں۔ امام عادل کی دعا، روزہ دار کی دعا یہاں تک کہ وہ افطار کرے، تیسرے مظلوم کی دعا۔
پھر والدین کی دعائیں اولاد کے لئے، جمعہ کے دن ایک گھڑی آتی ہے جس میں دعا قبول ہوتی ہے۔

خاکسار نے یہ بھی لکھا ہے کہ بعض لوگ کہتے ہیں ہماری دعائیں قبول نہیں ہوئیں۔ اس کی کیا وجہ ہے۔ اس سلسلہ میں خاکسار نے حضرت ابراہیم ادھم کا واقعہ بھی لکھا ہے کسی نے آپ سے دعا کے قبول نہ ہونے کی شکایت کی اس پر انہوں نے فرمایا کہ خدا تعالیٰ کو جانتے ہو مگر اس عبادت نہیں کرتے۔ رسول کو برحق جانتے ہو مگر آپؐ کی سنت کی پیروی نہیں کرتے، قرآن پڑھتے ہو مگر اس پر عمل نہیں کرتے، خدا تعالیٰ کی نعمتوں کو کھاتے ہو مگر اس کا شکر ادا نہیں کرتے، شیطان کو کہتے ہو کہ وہ دشمن ہے مگر اس کے ساتھ عداوت کی بجائے دوستی رکھتے ہو۔ موت کو جانتے ہو ضرور آئے گی مگر عبرت حاصل نہیں کرتے۔ پس پھر ایسے لوگوں کی دعائیں کس طرح قبول کا درجہ پائیں گی۔

خاکسار نے حضرت مسیح موعودؑ کا برکات الدعا سے یہ حوالہ بھی لکھا ہے کہ ’’مبارک وہ قیدی جو دعا کرتے ہیں تھکتے نہیں کیوں کہ ایک دن رہائی پائیں گے……‘‘ حضرت میر محمد اسماعیل صاحب ؓ کی کتاب سے بھی اللہ تعالیٰ کی صفت ’’اَلصَّبُوْرُ‘‘ کے معانی لکھے گئے جس کا مطلب ہے کہ سائلوں سے تنگ نہ آنے والا، اور نہ ان سے اکتانے والا، بلکہ ہر پیچھے پڑنے والے کی بار بار کی پکار کو سہنے والا، عالی حوصلہ خداوند۔

مضمون کے آخر میں سُبْحَانَ اللّٰہِ وَ بِحَمْدِہٖ سُبْحَانَ اللّٰہِ الْعَظِیْمِ اور درود شریف اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلیٰ مُحَمَّدٍ وَّ بَارِکْ وَسَلِّمْ۔ نیز مسجد کا فون نمبر درج ہے۔

(باقی آئندہ بدھ ان شاء اللہ)

(مولانا سید شمشاد احمد ناصر۔ امریکہ)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 1 مارچ 2022

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ