• 23 اپریل, 2024

مغفرت کی چادر

کیڈٹ کالج پٹارو کے زمانہ طالب علمی میں ایک بھرپور ڈسپلن زندگی گزارنے کا موقعہ ملا۔ صبح وقت پر جاگنے سے لے کر رات کو سونے تک کی تمام روٹین گھڑی کی ٹک ٹک سے بندھی ہوئی تھی۔ رات کو جب سونے کا وقت ہوتا تو عین دس بجے ہاسٹل کے تمام کمروں کی لائٹ آف کرنے کی صدا بلند ہونے کے ساتھ ہی کمروں میں اندھیرا چھا جاتا اور ہم دن بھر کے تھکے ہارے بستر میں جاتے ہی خواب آغوش کے مزے لوٹنے لگتے۔ جب بھی امتحانات کے دن نزدیک آتے تو ہمیں اپنے پرچوں کی تیاری کی غرض سے اپنی مرضی کے وقت پر سونے کی سہولت میسر آجاتی۔تمام ہاسٹلز (جن کو کیڈٹ کالج میں ہاؤسز کہا جاتا ہے) روشنیوں سے جگمگا رہے ہوتے جس سے یہ ظاہرہوتا تھا کہ ہر کیڈٹ امتحان کی تیاری میں جاگ رہا ہے۔ ہر روم میٹ میں یہ مقابلہ ہوتا اور وہ اس کے لئے جان مارتا کہ میں نے دوسرے سے بڑھ کر دیر تک جاگنا ہے اور اس سے بہتر تیاری کرنی ہے۔اس مقابلہ کی دوڑ میں جب مجھ جیسوں کو نیند کے غلبہ سے اونگھ آجاتی اور تھوڑی دیر کے لئے کرسی پر بیٹھے وہیں میز پر سر رکھ کےسوجاتے تو اچانک جب ہڑ بڑا کے اٹھتے تواس خیال سے فکر مند ہوتے کہ دوسرے ہم سے آگے نکل گئے ہیں اور ہم سوتے ہی رہ گئے ہیں۔اور پھر یہ فکر ہمیں ہر روز رات کو اونگنے اور جاگنے کی کشمکش کے دوران لاحق رہتی۔

قرآن کریم کی ایک آیت کے ترجمہ پر غور کرنے کے دوران اپنی ماضی کی یادوں میں کچھ اس طرح کھویا کہ اپنی آدھی سے زیادہ گزری ہوئی زندگی ایک فلم کی طرح چلتی ہوئی دکھائی دی۔اکثر اعمال کھوکھلے، بظاہر نیک اعمال بھی کچھ کچھ نظر آئے مگر ہاتھ پلے کچھ بھی نہیں تھا۔مگرزیر غور آیت نے یہ تسلی دی کہ یہ نہ سمجھنا کہ تم اپنے اعمال کے زور پرکچھ حاصل کرلو گے۔مغفرت ہی ہے جس کے نتیجے میں اعمال نظر انداز ہو جائیں گے۔ مغفرت کی چادر یہ نہیں دیکھا کرتی کہ اعمال کیسے ہیں۔ جب ڈھانپ لے گی تو ہر کمزوری کو ڈھانپ لے گی۔ جس کی وسعت کو قرآن کریم زمین اور آسمان کی وسعتوں پر محیط کرتا ہے۔یہاں جہاں مجھ جیسے چھوٹے سے چھوٹے اور بد سے بد انسان کو خوشخبری اور تسلی کا پیغام دیا گیا ہے وہاں نیک سے نیک انسان کو بھی انکساری کا عظیم سبق سکھایا گیا ہے۔ کہ محض انسان اپنے اعمال پر اکتفا نہ کرے بلکہ خدا کی مغفرت کا طالب رہے۔

قران کریم کی وہ آیت جو اس مضمون کی تمہید کی بنیاد بنی اس میں ا للہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ:

سَابِقُوۡۤا اِلٰی مَغۡفِرَۃٍ مِّنۡ رَّبِّکُمۡ وَجَنَّۃٍ عَرۡضُہَا کَعَرۡضِ السَّمَآءِ وَالۡاَرۡضِ ۙ اُعِدَّتۡ لِلَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا بِاللّٰہِ وَرُسُلِہٖ ؕ ذٰلِکَ فَضۡلُ اللّٰہِ یُؤۡتِیۡہِ مَنۡ یَّشَآءُ ؕ وَاللّٰہُ ذُو الۡفَضۡلِ الۡعَظِیۡمِ

(الحدید:22)

اپنے ربّ کی مغفرت کی طرف ایک دوسرے سے آگے بڑھو اور اس جنت کی طرف بھی جس کی وسعت آسمان اور زمین کی وسعت کی طرح ہے جو اُن لوگوں کے لئے تیار کی گئی ہے جو اللہ اور اس کے رسولوں پر ایمان لاتے ہیں۔ یہ اللہ کا فضل ہے وہ اِس کو جسے چاہتا ہے دیتا ہے اور اللہ عظیم فضل والا ہے۔

یہاں مغفرت کے حصول کے لئے ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی طرف توجہ دلائی گئی ہے۔ اگرمغفرت کے میدان میں ہمیں اپنے سے زیادہ بڑھتے ہوئے نظر آئیں تو کوشش کرتے ہوئے مقابلہ کرے کہ سب سے آگے بڑھ جائے۔ کیونکہ یہ معلوم نہیں کہ ہمارا واپسی کا وقت کب آتا ہے۔ اگر ہمارے ساتھی نے مغفرت کے حصول میں زیادہ کمائیاں کرلی ہوں اور ہمارا بلاوا جلد آجائے جبکہ ہم مغفرت کے میدان میں پیچھے بھی ہوں۔جلدی کرو ایسی حالت میں واپسی نہ ہو کہ ابھی مغفرت نصیب نہ ہوئی ہو اگر ایسا ہوا تو اس دنیا فانی سے خالی ہاتھ کوچ کرنا پڑے گا۔ خدا بہتر جانتا ہے کہ اپنے آپ کو سنبھالنے کے دن کتنے ہیں۔ جہاں آنکھیں بند ہوئیں اسی لمحے مغفرت کی چادر کاتصور بھی جاتا رہےگا۔اس وقت کی حسرتیں کسی کام نہیں آئیں گی۔ اس سے پہلے پہلے حاصل کرلواور اس معاملے میں تیز رفتاری سے ایک دوسرے سے بڑھ کر مغفرت کے لئے کوششیں کرلو۔اور یہ مغفرت کا حصول محض اپنے اعمال سے حاصل نہیں ہوسکتابلکہ یہ سراسر خدا تعالیٰ کا فضل واحسان ہے۔چنانچہ مسلسل اپنی برائیوں سے نجات پانے اور نیکیوں میں آگے بڑھنے کی سعی بلکہ سبقت لے جانے کی سعی ہی ہے جو خدا تعالیٰ کے فضل کو جذب کرنے کا موجب بنے گی۔ اگر نیک اعمال کی کے راستےپر چلتے چلتے موت بھی آجاتی ہے تو یہ خداتعالیٰ کا وعدہ ہے کہ وہ اپنےفضل سے ضرور ایسے شخص کو اپنی مغفرت کی چادرمیں لپیٹ لے گا۔

اسلام کا خدا کتنا بخشنہار ہے اس کی وضاحت اس روایت سے ہوتی ہے۔ حضرت ابوسعید رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بنی اسرائیل میں ایک شخص تھا جس نے ننانوے قتل کئے تھے۔ اب یہ مثالیں اس لئے دی جا رہی ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت کے متعلق بھی بتایا جائے کہ وہ ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گی۔ فرمایا کہ اس نے ننانوے قتل کئے تھے پھر وہ توبہ کے متعلق پوچھنے کے لئے نکلا۔ ایک راہب کے پاس آ کر اس نے پوچھا کہ اب توبہ ہو سکتی ہے۔ اس راہب نے کہا:نہیں اب کوئی رستہ نہیں۔ اس نے اس کو بھی قتل کر دیا۔ وہ مسلسل اس کے بارے میں پوچھتا رہا کہ کیا توبہ قبول ہوسکتی ہے یا نہیں تو اسے ایک شخص نے کہا کہ فلاں بستی میں جاؤ۔ جب وہ جا رہا تھا تو اس کو راستے میں موت آ گئی۔ اس نے اپنے سینے کو اس بستی کی طرف کر دیا۔ جب مر کے گرا تو اس طرف گرا۔ رحمت کے فرشتے اور عذاب کے فرشتے آ گئے۔ اس کے متعلق جھگڑنے لگے۔ اللہ تعالیٰ نے اس بستی کو جس میں وہ جا رہا تھا حکم دیا کہ اس کے قریب ہو جا اور جس بستی سے وہ دُور جا رہا تھا اسے حکم دیا کہ اس سے دُور ہو جا۔ پھر فرشتوں کو حکم دیا کہ ان دونوں بستیوں کے درمیان فاصلہ کی پیمائش کرو تو وہ اس بستی سے جس کی طرف وہ گناہ بخشوانے کے لئے جا رہا تھا ایک بالشت قریب تھا۔ اللہ تعالیٰ نے اس بات پر اسے بخش دیا۔

(صحیح البخاری کتاب احادیث الانبیاء باب 52/54حدیث نمبر:3470)

پھر ایک اور حدیث ہے کہ حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے اپنے رب عزّ وجل کے بارے میں فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:اے ابن آدم! تو مجھ سے دعا نہیں کرتا اور مجھ سے امید بھی وابستہ کرتا ہے۔ پس میں اس شرط کے ساتھ کہ تُو شرک نہ کرے تجھے تیری خطائیں بخش دوں گا اگرچہ تیری خطائیں زمین کے برابر ہی کیوں نہ ہوں۔ میں تجھے اپنی زمین بھر مغفرت کے ساتھ ملوں گا۔ اور اگر تو نے آسمان کی انتہاؤں تک غلطیاں کی ہوں اور پھر تُو مجھ سے میری بخشش طلب کرے تو میں تجھے وہ بھی بخش دوں گا اور میں ذرّہ برابر بھی پرواہ نہیں کروں گا۔

(مسند احمد بن حنبل جلد 7 صفحہ 208 مسند ابو ذر الغفاری حدیث 21837 عالم الکتب بیروت 1998ء)

مغفرت کی حقیقت

ایک مومن کے لئے مغفرت کی حقیقت کیا ہے اور اسے حاصل کرنے کے لئے کیا طریق اختیار کرنا چاہئے اور کس طرح استغفار کرنی چاہئے اس بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ایک جگہ فرماتے ہیں کہ:
’’استغفار کے حقیقی اور اصلی معنی یہ ہیں کہ خدا سے درخواست کرنا کہ بشریّت کی کوئی کمزوری ظاہر نہ ہواور خدا فطرت کو اپنی طاقت کا سہارا دے اور اپنی حمایت اور نصرت کے حلقہ کے اندر لے لے۔ یہ لفظ غَفْر سے لیا گیا ہے جو ڈھانکنے کو کہتے ہیں۔ سو اس کے یہ معنی ہیں کہ خدا اپنی قوت کے ساتھ شخص مُستَغْفِر کی فطرتی کمزوری کو ڈھانک لے’’۔ جو استغفار کرنے والا ہے اس کی جو فطرتی کمزوریاں ہیں ان کو ڈھانک لے اور مستقل استغفار سے پھر اللہ تعالیٰ ڈھانک بھی لیتا ہے۔ فرمایا کہ ‘‘لیکن اصل اور حقیقی معنی یہی ہیں کہ خدا اپنی خدائی کی طاقت کے ساتھ مستغفر کو جو استغفار کرتا ہے فطرتی کمزوری سے بچاوے اور اپنی طاقت سے طاقت بخشے اور اپنے علم سے علم عطا کرے اور اپنی روشنی سے روشنی دے کیونکہ خدا انسان کو پیدا کر کے اس سے الگ نہیں ہوا بلکہ وہ جیسا کہ انسان کا خالق ہے اور اس کے تمام قویٰ اندرونی اور بیرونی کا پیدا کرنے والا ہے ویسا ہی وہ انسان کا قیوم بھی ہے۔ یعنی جو کچھ بنایا ہے اس کو خاص اپنے سہارے سے محفوظ رکھنے والا ہے’’۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے جو کچھ پیدا کیا اور جس طرح بنایا اس کو اپنے خاص سہارے سے محفوظ رکھنے والا بھی ہے۔ وہ قیوم بھی ہے۔ ‘‘پس جب خدا کا نام قیوم بھی ہے یعنی اپنے سہارے سے مخلوق کو قائم رکھنے والا۔ اس لئے انسان کے لئے لازم ہے جیسا کہ وہ خدا کی خالقیت سے پیدا ہوا ہے ایسا ہی وہ اپنی پیدا ئش کے نقش کو خدا کی قیومیت کے ذریعہ بگڑنے سے بچاوے‘‘۔

(عصمت انبیاء، روحانی خزائن جلد18 صفحہ671)

پس انسان کے لئے ایک طبعی ضرورت تھی جس کے لئے استغفار کی ہدایت ہے۔ اس بگڑنے سے بچانے کے لئے، اللہ تعالیٰ کی قیومیت سے حصہ لینے کے لئے اپنی روحانی حالتوں کو ہمیشہ قائم رکھنے کے لئے کیا کرنا چاہئے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ استغفار کرو۔

برائی سے بچنا اور توبہ کا حصول

ایسی سچی توبہ کس طرح حاصل ہو جو برائیوں سے دور رکھے اس بارے میں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں کہ:
’’ توبہ کرنے اور برائیوں سے بچنے کے لئے کچھ ضروری باتیں ہیں کچھ عمل ہیں کچھ محنت ہے کچھ طریقے ہیں جن پر عمل کرنا ہو گا۔ ان کو کریں گے تو تبھی نتیجہ حاصل ہو گا اور برائیوں سے بچنے کے لئے دعا بھی تبھی قبول ہو گی جب کچھ عملی اقدام بھی اٹھائیں گے۔ عملی قدم کچھ نہ اٹھانا اور صرف سرسری دعا کر کے کہہ دینا کہ خدا تعالیٰ نے قبول نہیں کی اس لئے شاید یہی مرضی ہے کہ میں گناہگار ہی رہوں تو یہ غلط ہے۔ برے اعمال اور اخلاق کو اگر بہتر کرنا ہے تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ تین باتیں پہلے خود انسان کرے پھر دعا کرے تو یہ دعا مددگار ہوتی ہے اور برائیاں پھر چھوٹ جاتی ہیں۔ اور سچی توبہ کے لئے جیسا کہ میں نے حوالے میں پڑھا، آپ نے فرمایا کہ پہلی بات یہ ہے کہ گندے اور برے خیالات سے اپنے دماغ کو پہلے صاف کرو۔ کسی بھی برائی کی لذت کا تصور پہلے دماغ میں پیدا ہوتا ہے تب انسان اس برائی کو کرتا ہے۔ اگر دماغ میں برائی کا یا اس کی اچھائی کا یا لذت کا تصور پیدا نہ ہو اور کراہت ہو تو کبھی وہ برائی کرتا ہی نہیں۔ اور پہلے کسی بھی برائی کی لذّت کا تصور پیدا ہوتا ہے، احساس پیدا ہوتا ہے پھر انسان اس برائی کی طرف راغب ہوتا ہے۔ پس پہلا عملی قدم جو انسان کو برائیوں سے بچنے کے لئے اٹھانا ہے وہ یہ ہے کہ اپنے ذہن کو گندے تصورات یا عارضی لذات کے تصور سے پاک کرے۔ اس کی مثال آپ نے یہ دی کہ جس طرح مثلاً کسی عورت سے ناجائز تعلقات ہوتے ہیں۔ دوستیاں قائم ہو جاتی ہیں تو ایسی عورت کا اچھا تصور دماغ میں قائم کرنے کے بجائے بدصورت تصور قائم کرو۔ بجائے یہ دیکھو کہ اس میں خوبصورتی کیا ہے اور کیا کچھ خوبیاں ہیں اس کا بدصورت ترین تصور جو قائم کر سکتے ہو وہ قائم کرو۔ اس کے جو برے خصائل ہیں جو اس کی برائیاں ہیں ان کو سامنے لاؤ اور ایک ایسی شکل تصور میں قائم کرو جو سخت قسم کی مکروہ اور کریہہ شکل ہو تو تبھی اس برائی سے تم دور ہو سکو گے۔ پھر دوسری شرط یہ بتائی کہ اپنے نیک کانشنس کو بیدار کرو اور سوچو کہ میں کن برائیوں میں مبتلا ہو رہا ہوں۔ اپنے حالات پر پشیمانی اور شرمندگی کا احساس دل میں پیدا کرو۔ اگر یہ حالت ہو گی تو پھر ہی برائی سے بچ سکو گے۔ پھر فرمایا تیسری بات یہ ہے کہ ایک پکا اور مصمم ارادہ ہو کہ میں نے اب اس برائی کے قریب بھی نہیں جانا۔ اور جب اس ارادے پر قائم رہنے کی ہر وقت کوشش کر رہے ہو گے تو پھر خدا تعالیٰ سچی توبہ کی توفیق دیتا ہے اور برائیوں سے بچنے کے لئے کی گئی دعاؤں کو بھی پھر سنتا ہے۔ دعاؤں کے قبول ہونے سے پہلے یہ عمل کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ نہیں کہ صبح سے شام تک اور رات سے صبح تک غلط کاموں اور برائیوں میں ملوث رہے اور ایک وقت یا کسی وقت اللہ تعالیٰ سے دعا کر لی کہ مجھے اس برائی سے بچا لے۔ یہ عمل ظاہر کر رہا ہے کہ دعا سنجیدگی سے نہیں کی گئی۔ وہ نیک فطرت جو کانشنس ہے جو اندر چھپا ہوا ہے اس نے کسی وقت یہ کچوکا لگا دیا کہ تمہاری یہ کیا حالت ہے کہ برائیوں میں ڈوبے ہوئے ہو۔ اس عارضی احساس سے دعا کی طرف وقتی توجہ پیدا ہو جائے اور پھر جب برائی کو سامنے دیکھے تو اس کی چاہت اس عارضی احساس کو ختم کر دے، ندامت پر حاوی ہو جائے۔ ایسی حالت تو نہ برائیوں سے مستقل بچاتی ہے نہ دعا کا حق ادا کرنے والی بناتی ہے بلکہ یہ تو دعا کے ساتھ بھی مذاق ہے اور خدا تعالیٰ کو پابند کرنے کی کوشش ہے۔ خدا تعالیٰ کسی بندے کا پابندنہیں ہے۔ پس ایسے لوگوں کو یاد رکھنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کی بخشش سے حقیقی فیض اگر اٹھانا ہے، اس کے انعاموں کا وارث بننا ہے، اپنی دعاؤں کی قبولیت کو دیکھنا ہے تو پھر اپنی حالتوں کی طرف توجہ کرنے کی بھی ضرورت ہے۔ جیسا کہ میں نے کہا اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر ایسا مہربان ہے کہ ہر وقت اس کی رحمت کی چادر اپنے بندوں کو اپنی لپیٹ میں لینے کے لئے تیار ہے۔ کیا یہ بات ہم سے اس بات کا تقاضا نہیں کرتی کہ ہم خود بھی اللہ تعالیٰ کے بتائے ہوئے حکموں پر چل کر اس کی بخشش اور رحمت کو حاصل کرنے والے بنیں۔ ہم اس رحمت کو حاصل کرنے والے بنیں جو حقیقی مومنوں کو حاصل ہوتی ہے، جو اس کے پیاروں کو حاصل ہوتی ہے۔‘‘

(خطبہ جمعہ 18؍ جولائی 2014ء بحوالہ الاسلام ویب سائٹ)

اللہ کرے کہ ہم سب کو اپنی آخرت کو محفوظ کرنے یعنی مغفرت کی چادر میں لپٹنے کی توفیق عطا فرمائے بلکہ مغفرت مانگنے میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش کرتے رہیں۔آمین

(خالد محمود شرما۔کینیڈا)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 2 مارچ 2023

اگلا پڑھیں

اللہ کی نعمتیں مومنوں کے لئے جائز ذریعہ سے ہوں