• 12 مئی, 2025

آؤ! اُردو سیکھیں (سبق 77)

آؤ! اُردو سیکھیں
سبق 77

مرکب صفات
Compound adjectives

اس سبق کا پہلا لاحقہ ہے گو۔ جب یہ لفظ بطور لاحقہ استعمال ہوتا ہے تو اس کے معنی ہوتے ہیں ’’ہنے والا‘‘ اس کا تعلق لفظ گویائی سے ہے یعنی بولنا، گفتگو کرنا، کلام کرنا وغیرہ۔ اس لاحقے سے بننے والی مرکب صفات کی مثالیں ملاحظہ ہوں:راست گو یعنی سچ بولنے والا، سچا انسان۔ راست یعنی سچی، سیدھی اور کھری بات کرنے والا۔ راست کا ستعمال آبرو شاہ مبارک کے اس شعر میں دیکھیئے :

غم کے پیچھو راست کہتے ہیں کہ شادی ہووے ہے
حضرت رمضان گئے تشریف لے، اب عید ہے

یعنی سچ کہتے ہیں کہ غم کے بعد خوشی آتی ہے۔ دیکھو رمضان المبارک کا اختتام ہوا جو کہ صبر اور مجاہدے کا مہینہ ہے اور اب عید آئی ہے۔

دروغ گو یعنی عادتاً، ارادۃً اورجان بوجھ کر جھوٹ بولنے والا، کاذب۔ کم گو یعنی کم بولنے والا، خاموشی کو پسند کرنے والا۔ کلمہ گو یعنی کلمہ پڑھنے والا۔ ایک مسلمان۔ ہجو گو:یعنی کسی کی برائی اور مذمت میں شعر کہنے والا یہاں ہجو عربی لفظ ہے۔ عیب گو یعنی برائی بیان کرنے والا، یہاں عیب عربی لفظ ہے۔ بیہودہ گو یعنی گندی، غیر مہذب، غیر میعاری گفتگو کرنے والا، گالیاں دینے والا foul-mouthed۔ یاوہ گو یعنی بیہودہ اور نامعقول باتیں کرنے والا اس صفت میں لفظ (یاوہ) ترکی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی ہیں بے اصل بات یا شے، لغو بات، انہیں معنوں میں فضول گو، بد گو، پوچ گو وغیرہ بھی استعمال ہوتے ہیں۔ قصیدہ گو یعنی شعر یا نثر poetry/ prose میں کسی کی تعریف کرنے والا اس عمل کو مدح سرائی بھی کہا جاتا ہے اور اسی سے حمد ہے جس میں اللہ تعالیٰ کی تعریف بیان کی جائے۔ داستان گو یعنی ایسا شخص جس کا پیشہ یا مشغلہ قصے کہانیاں سنانا ہو۔ عام طور پر ایسے لوگوں نے بہت سے قصے یاد کیے ہوئے ہوتے ہیں البتہ بعض داستان گو اپنے حافظے یعنی یاد دواشت کے ساتھ ساتھ تخلیقی صلاحیتوں سے بھی کام لیتے ہیں اور کہانی کو اس طرح بیان کرتے ہیں گویا منظر کشی کررہے ہوں اور سننے والا لاشعوری طور پر وہ مناظر دیکھنے لگتا ہے۔ بادشاہت، جاگیرداری اور نوابیت کے دور میں ایسے لوگ باقاعدہ اجرت پر ملازم رکھے جاتے تھے اور ان کا کام حکمرانوں اور امرا کے اعصابی تناؤ کو کم کرکے انہیں نیند کی وادیوں میں دھکیلنا ہوتا تھا جس میں وہ بہت کامیاب تھے۔ دعا گو یعنی دعا کرنے والا، دعا دینے والا، بھلائی چاہنے والا well-wisher یہ مرکب صفت خط و کتابت میں کثرت سے استعمال ہوتی ہے۔

جُو :مرکب صفات میں جزو آخر کے طور پر آتا ہے اور اس کے معنی ہیں :تلاش کرنے والا۔ اس سے بننی والی صفات دیکھتے ہیں۔

بہانہ جُو یہ صفت برے معنوں میں استعمال ہوتی ہے یعنی دھوکے باز جو محض جھوٹے بہانے بناتا ہو seeking pretext۔ نکتہ جُو یعنی علمی اور گہری باتیں تلاش کرکے بیان کرنے والا، لطیف اور عمدہ کلام کرنے والا۔ مہم جُو مشکل کام کر گزرنے والا مشکل پسند، خطرات سے کھیلنے والا adventurer چارہ جُو تکلیف یا مشکل سے نکلنے کی تدبیر کرنے والا، طبیب، معالج healer/ one who knows cure

عزیز لکھنوی اپنے اس شعر میں چارہ جو کا استعمال کرتے ہیں:

یہ مشورہ بہم اٹھے ہیں چارہ جو کرتے
کہ اب مریض کو اچھا تھا قبلہ رو کرتے

یعنی مریض قابل علاج نہیں رہا پس علاج کرنے والے طبیب یا ڈاکٹرز آپس میں یہ مشورہ کررہے ہیں کہ اب اس مریض کو حوالہ با خدا کیا جانا ہی بہتر ہے۔ مسلمان میت کو جب قبر میں لٹاتے ہیں تو اس کا منہ قبلے کی طرف کرتے ہیں۔

(فقہ احمدیہ جلد 1صفحہ 241)

حیلہ جُو اسے حیلہ باز اور تدبیر ساز بھی کہتے ہیں اور اس کے معنی ہیں مکاّر، فریبی، دغا باز وغیرہ البتہ حیلہ کرنا اچھے معنوں میں بھی استعمال ہوتا ہے اور اس کے معنی ہوتے ہیں دنیا کے کاموں میں کوشش کرنا، ترکیب استعمال کرنا وغیرہ۔ عیب جُو یعنی چیزوں اور انسانوں کی کمزوریا ں اور نقائص کی تلاش کرکے انہیں بڑھا چڑھا کر بیان کرنا۔ خدا جُو یعنی خدا تعالیٰ کی تلاش کرنے والا طالب حق، محقق۔ حق جُو یعنی سچائی کی تلاش کرنے والا، نیکی اور راستی کی کھوج کرنے والا۔ د ل جُویعنی دِلداری کرنے والا، پیارا، محبوب، مرغوب، دل آویز، دل پزیرحسین، خوبصورت، دلکش۔ صلح جُو یعنی میل جول سے رہنے والا، لڑائی جھگڑا کو ناپسند کرنے والا، صلح پسند۔ جست جُو یعنی تلاش کرنا، ڈھونڈھنے کا عمل، تحقیقات، کھوئی ہوئی شے کی تلاش کرنا Quest/curiosity۔

فیض احمد فیض جستجو کا استعمال اپنے اس شعر میں کرتے ہیں:

نہیں نگاہ میں منزل تو جستجو ہی سہی
نہیں وصال میسر تو آرزو ہی سہی

یعنی اگر منزل یا مراد تک پہنچنا ممکن نہیں ہے تو بھی کوشش کرتے رہنا چاہئے کیونکہ ملاقات کی سچی خواہش بھی گویا ملاقات ہی ہے۔ یہ ہمارے رسول کریم ﷺ سے ملاقات کی آرزو ہی تھی جس نے حضرت اویس کرنیؓ کو اسلامی تاریخ میں ایک اعلیٰ مقام عطا کیا۔

حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں:
الہام الٰہی کی برکتیں اور وحی اللہ کے آفتاب کی شعاعیں ہیں جنہوں نے خدا کی ہستی کو شہرہ آفاق کردیا ہے اور جن کی متواتر بارشوں نے اقرار ہستی الٰہی کو لاکھوں خدا ترس روحوں میں مضبوطی سے جمادیا ہے اور کروڑہا دلوں پر ایک بزرگ اثر ڈال رکھا ہے پس چونکہ اسی کی مستحکم اور قدیمی شہادتوں کی بلند آوازوں سے ہر یک انسان کی قوت سامعہ بھر گئی ہے اور ہریک عصبہ سماعت کی تمام تاروپود میں وہ دلربا آوازیں ایسی سرایت کرگئی ہیں کہ ایک نادان اور اُمّی آدمی کہ جو عقل کے نام سے بھی واقف نہیں اور نہ یہ جانتا ہے کہ دلائل کیا چیز ہیں اگر خدا کی ہستی کے بارہ میں سوال کیا جائے کہ آیا وہ موجود ہے یا نہیں تو ایسے سائل کو وہ نہایت درجہ کا احمق جانتا ہے اور خدا کی ہستی پر ایسا پختہ اعتقاد رکھتا ہے کہ اگر تمام مجرد عقل پرست ایک طرف رکھے جائیں اور دوسری طرف اس کو رکھا جائے تو اس کے یقین کا پلہ بھاری ہو اور لطف یہ کہ معقولیوں اور فلسفیوں کی طرح ایک دلیل بھی اسے یاد نہیں ہوتی بلکہ اس کی بلا کو بھی خبر نہیں ہوتی کہ برہان اور دلیل اور حجت اور قیاس کسے کہتے ہیں غرض انہیں برکتوں کے سہارے سے برہمو سماج والے بھی باوجود سخت بیراہی اختیار کرنے کے اب تک کسی قدر خدا کی ہستی کے قائل ہیں اور خد اکے موجود ہونے کی بزرگ شہرت نے ان کے خیالات کو بھی آوارہ گردی سے تھام رکھا ہے۔ پس اگرچہ کوئی اپنے خبث باطن سے الہام الٰہی کا شکر گزار نہ ہو مگر درحقیقت اسی کے قوی ہاتھ اور پرزور بازو سے یقین اور صدق کی کشتی چل رہی ہے اور وہی خدادانی کے دریا کا ناخدا ہے اور اگر دہریہ اس کے آثار فیض سے بے بہرہ رہے ہیں تو یہ اس کا قصور نہیں بلکہ خود دہریہ اس شخص کی طرح ہیں کہ جو اپنی فطرت سے اندھا اور بہرہ ہو یا اس عضو کی طرح ہیں جو فاسد اور جذام خوردہ ہوگیا ہو۔

(براہین احمدیہ حصہ چہارم، روحانی خزائن جلد 1 صفحہ 348-350)

اقتباس کے مشکل الفاظ اور نکات کے معنی

الہام الٰہی کی برکتیں اور وحی اللہ کے آفتاب کی شعاعیں:خدا تعالیٰ کے انبیاء، خلفاء اور اولیا ء کا ہر زمانے اور ہر دور میں انسان کی رہنمائی کرنا۔

شہرہ آفاق:دنیا میں مشہور، ہر مذہب، ثقافت اور معاشرے میں خدا تعالیٰ کا تصور موجود ہونا۔

متواتر:مسلسل، بلا توقف، لگاتار، پیہم۔Continuously/ successively

خدا ترس :خدا سے ڈرنے والا، متقی۔God-fearing

خدا ترس روحوں میں مضبوطی سے جمادیا ہے اور کروڑہا دلوں پر ایک بزرگ اثر ڈال رکھا ہے :یعنی ہر نیک انسان لاشعوری طور پر خدا تعالیٰ کی طرف کھینچا چلا جاتا ہے کیونکہ انبیا ء کی تعلیمات کا اثر نسل در نسل انسانی دل و دماغ پر رہتا ہے گویا وہ اس کے خون میں ہو، چاہے وہ شعوری ہو یا لاشعوری اور یہی وجہ ہے کہ خدا تعالیٰ کا تصور دنیا کے ہر اس گوشے میں کسی نہ کسی شکل میں موجود ہے جہاں کوئی انسانی گروہ آباد ہے۔

مستحکم اور قدیمی شہادتوں کی بلند آوازیں:یعنی تاریخی اعتبار سے سلسلہ وار الہامی تعلیمات اور ان کی تصدیق کرنے والے گواہان موجود ہیں اس لئے خدا تعالیٰ کی ہستی کا تصور انسان کے وجود کا لازمی حصہ بن گیا ہے۔

قوت سامعہ بھر گئی ہے:یعنی انسان میں جینیاتی، جبلتی اعتبار سے خدا تعالیٰ کی آواز موجود ہے۔

عصبہ سماعت:انسانی جسم کے وہ پٹھے جو آواز سننے کے عمل میں کام آتے ہیں۔

تاروپود :تانا بانا، نظام structure

مجرّد عقل پرست:rationalists

پلہ:ترازو کا ایک حصہ scale pan

معقولی اور فلسفی:rationalist and Philosopher معقولی وہ لوگ جو سچائی تک پہنچنے کا واحد ذریعہ عقل انسانی Human Intelligence کو ہی سمجھتے ہیں۔ فلسفی وہ شخص جو علم فلسفہ کا ماہر ہو۔ فلسفہ یونانی زبان کا لفظ ہے اور اس کے معنی ہیں علم سے محبت۔ فلسفہ اپنی ذات میں برا نہیں ہے لیکن جیسے کسی بھی شے کو حرف آخر سمجھ لینا انسان کو ہمیشہ تباہ کرتا آیا ہے اسی طرح فلسفہ، سائنس اور عقل انسان کے دشمن بن جاتے ہیں جب وہ صرف انہی کو تمام سچائیوں تک پہنچنے کا ذریعہ اور انہیں کو تمام سچائیوں کا مجموعہ سمجھ لیتا ہے۔ تاہم اگر انسان حضرت مسیح موعودؑ پر ایمان لاکر اس سچائی کو سمجھ لے کہ یہ تمام علوم سچائی تک پہنچنے میں محض مددگار ہیں تو وہ ان سے بہت فائدہ اٹھا سکتا ہے۔

اس کی بلا کو :یعنی کسی بات یا صلاحیت کا کسی شخص میں ہونے کا امکان صفر ہونا۔

برہان اور دلیل اور حجت اور قیاس:argument/evidence/reasoning

بیراہی:گمراہی، بے راہ، بد چلنی وغیرہ۔

بزرگ شہرت :universally known concept

خبث باطن :اندرونی ناپاکی جو کثرت گناہ، باغیانہ روش اور تکبر سے پیدا ہوجاتی ہے۔

خدادانی کے دریا کا ناخدا:یعنی وہ علوم جن کے ذریعے خد اتعالیٰ تک پہنچا جاسکتا ہے ان علوم کی کنجی الہام یعنی سلسلہ ٔ نبوت و خلافت ہے۔ ناخدا یعنی ملاح اور خدا دانی یعنی ہستی باری تعالیٰ کا عرفان۔ سادہ الفاظ میں یہ سمجھ کہ اللہ تعالیٰ کو کیسے پایا جاسکتا ہے۔

آثار فیض سے بے بہرہ:یعنی خدا تعالیٰ کی صفات جس طرح سے نظام دنیا میں کام کررہی ہیں وہ اللہ تعالیٰ کی ہستی کا بہترین ثبوت ہیں مگر نبوت و خلافت کے بغیر ان صفات کی نظام دنیا میں کاریگری اور عمل دخل یقین کی حد تک دکھائی نہیں دیتا۔

فاسد اور جذام خوردہ:بیمار اور تباہ حال۔ جذام ایک خطرناک متعدی بیماری ہے، کوڑھ leprosy

(عاطف وقاص۔ ٹورنٹو کینیڈا)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 1 مارچ 2023

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالی