• 22 اکتوبر, 2024

آداب معاشرت (امام الصلوٰۃ کی پیروی کی اہمیت ) (قسط 4)

آداب معاشرت
امام الصلوٰۃ کی پیروی کی اہمیت
قسط 4

امام اِسی لیے بنایا گیا ہے تاکہ اس کی اتباع کی جائے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :وَجَعَلۡنٰہُمۡ اَئِمَّۃً یَّہۡدُوۡنَ بِاَمۡرِنَا وَاَوۡحَیۡنَاۤ اِلَیۡہِمۡ فِعۡلَ الۡخَیۡرٰتِ وَاِقَامَ الصَّلٰوۃِ وَاِیۡتَآءَ الزَّکٰوۃِ ۚ وَکَانُوۡا لَنَا عٰبِدِیۡنَ (الانبیاء: 74) اور ہم نے انہیں ایسے امام بنایا جو ہمارے حکم سے ہدایت دیتے تھے اور ہم انہیں اچھی باتیں کرنے اور نماز قائم کرنے اور زکوٰۃ دینے کی وحی کرتے تھے اور وہ ہماری عبادت کرنے والے تھے۔ ہمارے پیارے آقا حضرت محمد مصطفیٰﷺفرماتے ہیں إِذَا أَتَی أَحَدُکُمْ الصَّلَاۃ…جب تم میں سے کوئی شخص نماز پڑھنے آئے تو امام کو جس (قیام، رکوع یا سجدہ)کی حالت میں دیکھے تووہ اسی حالت میں امام کے ساتھ شریک ہو جائے۔(سنن الترمذی، کتاب الجمعۃ عن رسول اللہ،باب ما ذکر فی الرجل)روایت میں آتا ہے کہ جب تک امام نماز پڑھانے کے لئے کھڑا نہ ہو اس وقت تک مقتدی کھڑے نہ ہوں جیسا کہ آپﷺفرماتے ہیں إِذَا أُقِیْمَتِ الصَّلَاۃُ … جب تک نماز کی اقامت کے وقت مجھے نہ دیکھ لو اس وقت تک کھڑے نہ ہوا کرو۔

(صحیح البخاری،کتاب الأذان)

آپؐ فرماتے ہیں:کیا تم میں سے وہ جو امام سے پہلے اپنا سراٹھاتا ہے اس بات سے نہیں ڈرتا کہ أَنْ یَّجْعَلَ اللّٰہُ رَأْسَہُ …اللہ تعالیٰ اس کا سر گدھے کا سر بنا دے یا اس کی صورت گدھے کی سی بنا دے۔(صحیح البخاری، کتاب الأذان) آپؐ فرماتے ہیں إِنَّمَا جُعِلَ الْإِمَامُ لِیُؤْتَمَّ بِہِ…امام اسی لیے بنایا گیا ہے تاکہ اس کی اتباع کی جائے، لہٰذا جب وہ اللّٰہ اکبر کہے تو اللّٰہ اکبر کہو اور جب رکوع کرے تو رکوع کرو اور جب سجدہ کرے تو سجدہ کرو۔

(صحیح البخاری، کتاب الصلاۃ)

احادیث سے ثابت ہے کہ امام کا انتظار کرلینا چاہئے۔صحابہؓ بھی آنحضرتﷺکا نماز میں انتظار کرتے تھے۔حضرت ابو سعید خدریؓ سے روایت ہے آپؐ نے ہمیں مغرب کی نماز پڑھائی پھر گھر سے باہر نہ نکلے جب آدھی رات ہوگئی تو آپؐ باہر تشریف لائے اور فرمایا یقیناًکچھ لوگوں نے نماز پڑھ لی اور سو گئے اور تم نماز کے انتظار میں رہے،وَلَوْلَا الضَّعِیْفُ وَالسَّقِیم… اگر مجھے بیماروں،بوڑھوں کی فکر نہ ہوتی تو میں عشاء کی نماز کو آدھی رات تک موخر کر دیتا۔

(سنن ابن ماجہ،کتاب الصلاۃ)

اسی مضمون کی حدیث حضرت انس بن مالک ؓسے بھی مروی ہے کہ صحابہؓ آپؐ کا نماز کے لئے انتظار فرماتے تھے۔لیکن اگر امام کے آنے میں کافی دیر ہوجائے اور نماز کاوقت نکلنےکا اندیشہ ہوتو اِنَّ الصَّلٰوۃَ کَانَتۡ عَلَی الۡمُؤۡمِنِیۡنَ کِتٰبًا مَّوۡقُوۡتًا (النساء: 104) کے حکم کے مطابق بروقت نماز ادا کر لینی چاہئے۔ جیسا کہ حدیث میں ہے کہ آپؐ قبیلہ بنی عمرو بن عوف کے درمیان صلح کرانے گئے، تو آپؐ کی عدم موجودگی میں نماز کا وقت ہو گیا، موٴذن حضرت ابوبکر ؓ کے پاس آیا اورپوچھا آپ نماز پڑھائیں گے؟آپؓ نے اقرار کیا اور نماز پڑھانا شروع کر دی۔لیکن اس دوران آپؐ واپس تشریف لے آئے اور حضرت ابو بکرؓ کے پیچھے نماز پڑھنے کے لئے کھڑے ہو گئے، حضرت ابو بکر ؓ کو جب اس کا احساس ہوا تو آپؓ فورًا ہٹ گئے، حالانکہ رسول اللہ ﷺنے آپؓ کو اپنی جگہ کھڑا رہنے کا اشارہ کیا۔ بہرحال آپؐ نے نماز مکمل کروائی اور حضرت ابو بکرؓ سے کہا کہ جب میں نے اشارہ کیا تو تم اپنی جگہ پر کیوں کھڑے نہیں رہے؟حضرت ابو بکرؓ نے عرض کی کہ ابن ابی قحافہ کی کیا مجال کہ وہ رسول اللہ ﷺکے سامنے کھڑا ہو جائے۔(صحیح البخاری،کتاب الأذان)ان تمام احادیث سے معلوم ہوتاہے کہ مقتدی امام کی مکمل پیروی کریں،امام کے نماز پڑھانے کے لئے کھڑے ہونے کاانتظار کریں،بوقت ضرورت امام کا انتظار کرنا بھی ثابت ہے۔اگر امام نہیں آتا، یا اس کے آنے کا امکان نہیں تو نائب امام یا کوئی ذمہ دارشخص نماز پڑھاسکتا ہے۔

(حنیف محمود کے قلم سے)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 1 مارچ 2023

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالی