• 9 جولائی, 2025

فرشتہ صفت چہرہ سچائی کا مظہر ہوتا ہے

ایک تحقیق اور چار ایمان افروز واقعات

ایک تحقیق کے حوالہ سےمحتلف اخبارات میں ایک مختصر رپورٹ شائع ہوئی ہے جن میں سے ایک درج ذیل ہے:

’’چہرے کے تاثرات انسان کے اندر کی حقیقت عیاں کرتے ہیں اور سائنس دان بھی اب اس سے متفق ہیں۔ریسرچرز نے انسانی چہرے کے پانچ مسلز کا تجزیہ کیا جس میں لوگوں کے مختلف ردّ عمل اور غم وغیرہ کو بھی جانچا گیا ۔ جھوٹ بولنے والوں کے چہرے کے تأثرات دوسروں سے مختلف تھے۔ ماہرین نفسیات نے مختلف ملکوں کے ٹیلی وژن پر آنے والے 52 افراد کے چہروں کی حرکات کا باریک بینی سے تجزیہ کیا جن میں برطانیہ کے لوگ بھی شامل تھے۔ یہ افراد لاپتہ لوگوں کی واپسی کی اپیل کر رہے تھے ان میں سے نصف جھوٹ بول رہے تھے جن کو بعد میں قتل کے جرم میں سزائیں ہوئیں۔ریسرچرز کا کہنا ہے کہ ان میں 26 جھوٹے اور 26 سچے لوگ تھے اوریہ آسٹریلیا،کینیڈا، امریکہ ،برطانیہ سے تعلق رکھتے تھے۔ تمام جھوٹے افراد کو ان کے جسمانی (بشمول ڈی این اے شواہد) پر سزائیں ہوئیں۔ اس ریسرچ سے یہ ثابت ہوا کہ فرشتہ صفت چہرہ سچائی کا مظہر ہوتا ہے۔ جھوٹے اپنے چہرے کے تأثرات کو کنٹرول نہیں کر سکتے۔‘‘

(روزنامہ جنگ، لندن، مارچ 2012)

اس تحقیق کالب لباب ، مرکزی نکتہ اور ماحصل یہ فقرہ ہے:

’’فرشتہ صفت چہرہ سچائی کا مظہر ہوتا ہے۔‘‘

یہ رپورٹ پڑھ کر مجھے سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی بابرکت زندگی کے چار واقعات یاد آگئے جو آپؑ کی مقدس سیرت کے تابندہ گواہ بھی ہیں اور جن سے اس تحقیق کی تائید بھی ہوتی ہے ۔ یہ واقعات احباب جماعت کے از دیادایمان کے لئے،درج ذیل تحریرکرتا ہوں۔ دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ دوسرے پڑھنے والوں کو بھی بصیرت اور فہم عطاء فرمائے۔ آمین

واقعہ نمبر 1

جناب ابو سعید عرب اوّل اوّل ایک بڑے آزاد مشرب اور نیچریت کے رنگ میں رنگے ہوئے تھے۔ حضرت اقدسؑ کی کتاب ’’آئینہ کمالات اسلام‘‘ نے انہیں سلسلہ کی طرف متوجہ کیا اور حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی محبت کا تخم آپ کے دل میں جمادیا۔ ان کی حضرت اقدسؑ سے ایک گفتگو کا ذکر ملفوظات جلد نمبر 4 میں کچھ یوں ملتاہے۔

’’عرب صاحب نے بیان کیا کہ ایک دفعہ ایک چینی آدمی کے روبرو میں نے آپؑ کی تصویر کو پیش کیا۔ وہ بہت دیر تک دیکھتا رہا۔ آخر بولا کہ یہ شخص کبھی جھوٹ بولنے والا نہیں ہے پھر میں نے اور تصاویر بعض سلاطین کی پیش کیں۔ مگر ان کی نسبت اس نے کوئی مدح کاکلمہ نہ نکالا اور بار بار آپ کی تصویر کو دیکھ کر کہتا رہا کہ یہ شخص ہر گز جھوٹ بولنے والا نہیں۔‘‘

(ملفوظات جلد دوم صفحہ579۔580)

واقعہ نمبر 2

حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمدؓ بیان کرتے ہیں:

’’بیان کیا مجھ سے حضرت والدہ صاحبہ نے کہ ان سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بیان فرمایا کہ ایک دفعہ کسی مقدمے کے واسطے میں ڈلہوزی پہاڑ پر جارہا تھا راستہ میں بارش آگئی۔ میں اور میرا ساتھی یکہ سے اُتر آئے اور ایک پہاڑی آدمی کے مکان کی طرف گئے جو راستہ کے پاس تھا۔ میرے ساتھی نے آگے بڑھ کر مالکِ مکان سے اندر آنے کی اجازت چاہی مگر اس نے روکا اس پر ان کی باہم تکرار ہوگئی اور مالک مکان تیز ہوگیا اور گالیاں دینے لگا۔ حضرت صاحب نے فرمایا کہ میں یہ تکرار سن کر آگے بڑھا ۔ جونہی میری اور مالک مکان کی آنکھیں ملیں تو پیشتر اس کے کہ میں کچھ بولوں اس نے اپنا سر نیچے ڈال لیا اور کہا کہ اصل میں بات یہ ہے کہ میری ایک جوان لڑکی ہے۔ اس لئے میں اجنبی آدمی کو گھر میں نہیں گھسنے دیتا مگر آپ بے شک اندر آجائیں۔ حضرت صاحبؑ فرماتے تھے کہ وہ ایک اجنبی آدمی تھا۔ نہ میں اسے جانتا تھا اور نہ وہ مجھے جانتا تھا۔‘‘

(سیرت المہدی حصہ اول صفحہ 6)

واقعہ نمبر 3

حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد ؓ اپنی تقاریر کے مجموعہ ’’سیرت طیبہ‘‘ میں تحریر فرماتے ہیں:

“غالباً 1915ء۔1916ء کی بات ہے کہ قادیان میں آل انڈیا ینگ مین کرسچین ایسوسی ایشن کے سیکرٹری مسٹر ایچ۔اے والٹر تشریف لائے ۔ ان کے ساتھ لاہور کے ایف سی کالج کے وائس پرنسپل مسٹر لوکاس بھی تھے۔ مسٹر والٹر ایک کٹر مسیحی تھے اور سلسلہ احمدیہ کے متعلق ایک کتاب لکھ کر شائع کرنا چاہتے تھے۔ جب وہ قادیان آئے تو حضرت خلیفۃ المسیح الثانی( ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز) سے ملے اور تحریک احمدیت کے متعلق بہت سے سوالات کرتے رہے اور دوران گفتگو کچھ بحث کاسا رنگ بھی پیدا ہوگیا تھا۔ اس کے بعد انہوں نے قادیان کے مختلف ادارہ جات کا معائنہ کیا اور بالآخر مسٹر والٹر نے خواہش ظاہر کی کہ میں بانیٔ سلسلہ احمدیہ کے کسی پُرانےصحبت یافتہ عقیدت مند کو دیکھنا چاہتا ہوں ۔ چنانچہ قادیان کی مسجد مبارک میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ایک قدیم اور فدائی صحابی منشی محمد اروڑا صاحب سے ان کی ملاقات کرائی گئی۔ اس وقت منشی صاحب مرحوم نماز کے انتظار میں مسجد میں تشریف رکھتے تھے ۔ رسمی تعارف کےبعد مسٹر والٹر نے منشی صاحب موصوف سے دریافت کیا کہ : ’’آپ مرزا صاحب کو کب سے جانتے ہیں اور آپ نے ان کو کس دلیل سے مانا اور ان کی کس بات نے آپ پر زیادہ اثر کیا؟‘‘ منشی صاحب نے جواب میں بڑی سادگی سے فرمایا: ’’میں حضرت مرزا صاحب کو ان کے دعویٰ سے پہلے کا جانتا ہوں میں نے ایسا پاک اور نورانی انسان کوئی نہیں دیکھا۔ ان کا نور اور ان کی مقناطیسی شخصیت ہی میرےلئے ان کی سب سے بڑی دلیل تھی۔ ہم تو ان کے منہ کے بھوکے تھے۔‘‘

یہ کہہ کر حضرت منشی صاحب حضرت مسیح موعودؑ کی یاد میں بے چین ہو کر اس طرح رونے لگے کہ جیسے ایک بچہ اپنی ماں کی جدائی میں بلک بلک کر روتا ہے۔ اس وقت مسٹر والٹر کا یہ حال تھا کہ یہ نظارہ دیکھ کر ان کا رنگ سفید پڑ گیاتھا اور وہ محوِ حیرت ہوکر منشی صاحب موصوف کی طرف ٹکٹکی باندھ کر دیکھتے رہے اور ان کے دل میں منشی صاحب کی اس سادہ سی بات کا اتنا اثر تھا کہ بعد میں انہوں نے اپنی کتاب ‘احمدیہ موومنٹ’ میں اس واقعہ کا خاص طور پر ذکر کیا اور لکھا کہ :. ’’مرزا صاحب کو ہم غلطی خوردہ کہہ سکتے ہیں مگر جس شخص کی صحبت نے اپنے مریدوں پر ایسا گہرا اثر پیدا کیا ہے اسے ہم دھوکے باز ہر گز نہیں کہہ سکتے ۔‘‘

(’’احمدیہ موومنٹ‘‘ مصنفہ مسٹر ایچ۔اے والٹر)

(سیرت طیبہ صفحہ128۔129)

واقعہ نمبر 4

حضرت مولوی سید محمد سرور شاہؓ کی روایت سے ایک اور ایمان افراز واقعہ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد ؓ نے اپنی کتاب ’’سیرت طیبہ‘‘ میں صفحہ130 ،131 پر ان الفاظ میں بیان فرمایا ہے:

’’حضرت مولوی سرور شاہ جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ایک بزرگ صحابی اور جماعت احمدیہ کے ایک جید عالم تھے فرمایا کرتے تھے ایک دفعہ مردان کا ایک شخص حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں حضرت مولوی نورالدین صاحب خلیفہ اول ؓ کی طب کا شہرہ سن کر آپ سے علاج کرانے کی غرض سے قادیان آیا۔ یہ شخص حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا سخت ترین دشمن تھا اور بمشکل قادیان آنے پر رضامند ہوا تھا اور اس نے قادیان آ کر اپنی رہائش کے لئے مکان بھی احمدی محلہ سے باہر لیا۔

جب حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ کے علاج سے اسے خدا کے فضل سے افاقہ ہوگیا اور وہ اپنے وطن واپس جانے کے لئے تیار ہوا تو اس کے ایک احمدی دوست نے اسے کہا کہ تم نے حضرت مسیح موعود کو تودیکھنا پسند نہیں کیا مگر ہماری مسجد تو دیکھتے جاؤ۔ وہ اس بات کے لئے رضامند ہوگیا مگر یہ شرط رکھی کہ مجھے ایسے وقت میں مسجد دکھاؤ جب مرزا صاحب مسجد میں نہ ہوں چنانچہ یہ صاحب اسے ایسے وقت میں قادیان کی مسجد مبارک دکھانے کے لئے لے گئے جب نماز کا وقت نہیں تھا اور مسجد خالی تھی۔ مگر قدرت خدا کا کرنا یہ ہوا کہ اِدھر یہ شخص مسجد میں داخل ہوا اور اُدھر حضرت مسیح موعودؑ کے مکان کی کھڑکی کھلی اور حضور کسی کام کے تعلق میں اچانک مسجد میں تشریف لے آئے۔ جب اس شخص کی نظر حضرت مسیح موعودؑ پر پڑی تو وہ حضور کا نورانی چہرہ دیکھتے ہی بے تاب ہوکر حضور کے قدموں میں آگرا اور اسی وقت بیعت کر لی۔‘‘

(سیرۃ المہدی حصہ اول روایت:73)

حق تو یہ ہے کہ جیسے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے ایک عارفانہ شعر میں فرمایا ہے :

صاف دل کو کثرتِ اعجاز کی حاجت نہیں
اک نشاں کافی ہے گر دل میں ہو خوف کردگار


(مولاناعطاءالمجیب راشد۔لندن)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 31 مارچ 2020

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 2 اپریل 2020