• 20 اپریل, 2024

دبستانِ حیات (قسط دہم)

دبستانِ حیات
قسط دہم

انمول ہیرا۔پروفیسر ڈاکٹر عبدالسلام صاحب

مکرم ڈاکٹر عبدالسلام صاحب ایک ایسا انمول ہیرا تھے۔ جس کی روشنی چار دانگ عالم میں پھیل گئی اور ہر قوم ،ملک، اور خطہ ِارضی کے لئے پاکستان کی نیک نامی اور تعارف کا سبب بنے۔

سینیگال پاکستان سے بہت دور دراز مقام ہے۔ وہاں سے ڈاکٹر صاحب کی نیک نامی کے چند واقعات پیش خدمت ہیں جو بظاہر ڈاکٹر صاحب کی شان و مرتبہ کے لحاظ سے کچھ بھی حیثیت نہیں رکھتے۔ کیونکہ آپ کے علمی کارناموں کے بارے میں بڑی بڑی ضخیم کتب لکھی گئیں ۔یہ کتابیں دنیا بھر کی لائبریریوں کی زینت بن چکی ہیں ۔ ان کے سامنے یہ واقعات بہت معمولی نوعیت کے ہیں ۔سورج کے آگے ایک چھوٹی سی شمع جلانے کے مترادف ہے۔

بہرحال اس ملک کے لحاظ سے ان واقعات کی اہمیت سے انکار بھی ممکن نہیں ،کس طرح آپ کی شہرت اور نیک نامی اللہ تعالیٰ نے دنیا کے کناروں تک پہنچائی ۔

(1) ایک روز سینیگال کے کولخ نامی شہر میں خاکسار ایک ڈاکٹر صاحب کے پاس بغرض علاج گیا۔ ڈاکٹر صاحب کو اپنا تعارف کرایا کہ میں پاکستانی ہوں اور جماعت احمدیہ کا مبلغ ہوں۔ ڈاکٹر صاحب فوراً بولے پاکستان ایک عظیم ملک ہے وہاں کے لوگ بہت عالم اور ذہین ہیں۔

میں نے پوچھا آپ یہ بات آپ کس حوالہ سے کر رہے ہیں۔ ان کے سامنے ایک فرانسیسی زبان میں رسالہ پڑا ہوا تھا جس پر ڈاکٹر سلام صاحب کی تصویر تھی اور ساتھ ہی آپ کے نوبل پرائز حاصل کرنے کی تفاصیل تھیں۔ انہوں نے فوراً مجھے وہ رسالہ دکھایا اور کہنے لگے ہم سب مسلمانوں کو اسلام کے اس بطل جلیل پر فخر ہے۔

(2)ایک دفعہ خاکسار ڈاکار سے تقریباً 250کلومیٹر کے فاصلہ پر کسی کام کے سلسلہ میں گیا ہوا تھا۔ وہاں ایک پاکستانی دوست بھی مل گئے۔ ہم لوگ ایک ریستوران میں چائے پینے کے لئے چلے گئے۔ ہمارے ساتھ والی میز پر ایک یورپین چائے پی رہا تھا۔ اس سے باتیں شروع ہو گئیں اس نے پوچھا کہ ہمارا تعلق کس ملک سے ہے۔ ہم نے اسے بتایا کہ ہم پاکستانی ہیں ۔ وہ شخص فوراً بوالا ڈاکٹر عبدالسلام کے ملک سے۔ خدا جانتا ہے۔ مجھے کس قدر خوشی اور مسرت ہوئی کہ اس دور دراز علاقہ میں بھی ڈاکٹر صاحب کا نام نامی گونج رہا ہے۔ (اس شخص کا تعلق اٹلی سے تھا)

(3) سینیگال میں جماعت کے ایک مخلص اور فدائی ممبرآنرایبل کابنے کا با صاحب ایک روز اپنے ایک کزن کے ساتھ میرے گھر تشریف لائے۔ اتفاق سے ان کے کزن کا نام بھی کابنے کابا ہی تھا۔

یہ دوست ڈاکار یونیورسٹی میں فزکس کے پروفیسر ہیں۔ سیاست سے بھی ان کا تعلق ہے۔ آجکل اپنے شہر کے میئر بھی ہیں ۔ جب یہ دونوں عزیز میرے گھر تشریف لائے (اول الذکر تو احمدی ہیں مگر موخرالذکر احمدی نہیں ہے۔)

جب باتیں شروع ہوئیں اور انہوں نے بتایا کہ وہ فزکس کے پروفیسر ہیں۔ میں نے انہیں پوچھا کیا آپ نے ڈاکٹر عبدالسلام صاحب کا نام سنا ہے۔ وہ کہنے لگے آپ نے عجیب سوال کیا ہے۔ میرے نزدیک اس صدی میں کوئی آدمی انسان کہلانے کا مستحق نہیں ہے جو ڈاکٹر عبدالسلام جیسی عظیم المرتبت شخصیت کے اسم گرامی سے ناآشنا ہو۔

یہ شخص تو ایسے لگتا تھا کہ ڈاکٹر سلام صاحب کا بہت بڑا عاشق ہے۔ اور تقریباً سارا وقت وہ ڈاکٹر صاحب کے علم ، معرفت اور خدمات کا اس رنگ میں ذکر کرتا رہا جس طرح کوئی ڈاکٹر صاحب کابہت ہی قریبی عزیز باتیں کر رہا ہو۔ اور یہ باتیں دل کی گہرائیوں سے کر رہے تھے انہوں نے یہ بھی بتایا کہ ڈاکٹر صاحب نے افریقن ممالک کی بے حد خدمت کی ہے۔ اور نیز بتایا کہ ڈاکار یونیورسٹی کا ایک شعبہ آج تک ڈاکٹر صاحب کے اٹلی میں قائم کردہ ادارہ سے استفادہ کر رہا ہے۔ ذلک فضل اللّٰہ یعطیہ من یشاء۔

ذکرخیر آنرایبل کابینے کابا جاکاٹے صاحب

مرحوم کابنے کابا صاحب سینیگال بھر میں بہت مقبول سیاسی اور انتظامی شخصیت تھے۔ان کا تعلق سینیگال کے معروف شہرتانبا کنڈا سے تھا۔آپ کا خاندان سیاسی اعتبار سےعلاقہ بھر میں بہت ہی معروف و مقبول ہے۔ جس زمانہ میں،مَیں سینیگال میں تھا۔اس دور میں تین ممبرز آف پارلیمنٹ ان کے اپنے گھرانہ میں سےتھے۔

بنیادی طور پر شعبہ تعلیم سے وابستہ تھے، بعد میں سیاسی میدان میں آگئے پھر مسلسل تین دہائیوں تک بطور ممبر آف پارلیمنٹ ،میئر اور دیگر اعلیٰ عہدوں پر خدمت کی توفیق پائی۔

قبول حق کی سعادَت

1995 میں آنرایبل نجیک جینگ ڈپٹی سپیکر نیشنل اسمبلی کے ذریعہ جماعت کا پیغام پہنچا۔پھر جلد ہی اللہ تعالیٰ نے دل کی گرہ کھول دی،جس کے بعد بشاشتِ قلبی اورانشراح ِصدر کے ساتھ بیعت کرکے لشکرِ احمدیت میں شامل ہوگئے۔دراصل گیمبیا میں ان کے ایک عزیز رہتے تھے۔جو احمدی تھے۔ جن کے ذریعہ سے کابنے صاحب کسی حد تک جماعت احمدیہ سے متعارف تھے۔

انفاق فی سبیل اللہ

سینیگال میں اوائل میں بیعت کرنے والے زیادہ تر دوست مزدور پیشہ یا زمیندار تھے جو حسبِ توفیق مالی قربانی کرتے تھے۔ جب آپ نے بیعت کی تو بفضلِ تعالیٰ دل کھول کر مالی قربانی پیش کرنے کی توفیق پائی،ان دنوں سینیگال بھر میں سب سے زیادہ مالی قربانی کرنے والے تھے۔

چندہ کی برکت۔ کیا خوب سودا نقد ہے

ابتدا میں ملک بھر میں کوئی مشن ہاؤس نہیں تھا۔جماعتیں بھی نئی نئی بننی شروع ہوئی تھیں ۔اکثرزمیندار دوست تھے۔جو گھاس پھونس کے چھوٹے چھوٹے گھرانوں میں رہتے تھے جو مشکل سےان کے اہل خانہ کے سر چھپانے کے لئے ہی کافی ہوتے تھے۔اس لئے دورانِ سفر رات گزارنے کا مرحلہ بہت کٹھن ہوتا تھا۔

جب کابنے کابا صاحب نے بیعت کرلی ،تو اس کے بعد اکثرمیرے گھر تشریف لاتے۔ایک بار میں نے ان کے علاقہ میں تبلیغی دورہ پر جانے کا پروگرام بنایا۔میں نے انہیں اطلاع دی کہ فلاں دن میں تانبا کنڈا کے علاقہ میں آنا چاہتا ہوں۔بڑے خوش ہوئے اور ہمارے لئے ایک ہوٹل میں دو کمرے بک کرادئے۔جب ہم لوگ وہاں پہنچے ،ہمیں بڑے تپاک کے ساتھ خوش آمدید کہا اور پھرہمیں ایک ہوٹل میں لے گئے۔میں نے کہا ۔مبلغ تو ہوٹل میں نہیں رہتے ،ہم تو کہیں بھی رات گزار سکتے ہیں ۔ کہنے لگے، یہ میں نے اپنی محبت سے کیا ہے۔میں نے کہا ۔کیا ہی اچھا ہوتا ،اگرآپ یہ رقم چندہ میں دے دیتے۔نو مبایع تھے۔اس لئے مالی قربانی کے نظام کے بارے میں ابھی تک پوری طرح نہیں جانتے تھے۔اس پر میں نے ان کی خواہش پر مالی نظام کے بارے میں تفصیل کے ساتھ بتایا۔کہنے لگے ان شا اللہ میں اب چندہ جات ادا کیا کروں گا۔

ابھی چند دن ہی گزرے تھے کہ ان کا مجھے فون آیا۔کہنے لگے میں میں ڈاکار میں ایم پی ہاسٹل میں ہوں اور میری گاڑی خراب ہے۔اس لئے اگر ممکن ہو تو میرے پاس ہاسٹل میں آجائیں۔ میں ہاسٹل پہنچ گیا۔علیک سلیک کے بعد انہوں نے اپنا بریف کیس کھولا اور اس میں سے چار سو ڈالر نکال کر مجھے تھما دئے اور کہا کہ یہ میرا چندہ ہے۔اس سے قبل کبھی بھی کسی احمدی نے سینیگال میں اتنی بڑی مالی قربانی نہ کی تھی۔

چندہ کی برکت

اگلے روز مجھے ان کا تانبا کنڈاسے فون آیا۔کہنے لگے جزاکم اللہ امیر۔میں نے کہا کہ کس بات کا جزاکم اللہ ۔کہنے لگے ،میں نے چندہ کی برکت دیکھ لی ہے۔بتانے لگے۔جب میں ڈاکار سے واپس اپنے شہر جارہاتھا۔شام کے وقت میں نے ایک ویران علاقہ میں برلبِ سڑک نماز اداکی اور کچھ کھایا پیا۔اس کے بعد اپنی منزل کو رواں دواں ہوگئے۔رستہ میں مجھے اپنے بریف کیس کی ضرورت پیش آئی۔دیکھا تو،بریف کیس نہیں تھا،علم ہوا جہاں رکے تھے ،ادھر ہی رہ گیا ہے،پریشانی میں واپس گئے ،لیکن وہاں تو کچھ بھی نہ ملا،مایوس ہو کر واپس چل پڑے۔سخت پریشانی تھی،لیکن کیا کر سکتے تھے۔کہنے لگے ،علی الصبح کسی نامعلوم شخص کا فون آیا اور پوچھا،آپ کون صاحب ہیں ۔میں نے بتایا کہ میں کابنے بول رہا ہوں۔دوسری جانب سے آواز آئی کیاآپ کا کوئی سامان گم ہوا ہے۔میں نے بتایا میرا بریف کیس کل راستہ میں گم گیا ہے اور بتایا کہ اس میں کچھ کرنسی ہے ، چار پاسپورٹس اور ائرٹکٹس ہیں۔کہنے لگے۔آپ فکر نہ کریں وہ میرے پاس ہے۔میں فلاں ہوٹل میں ہوں، آکر لے جائیں۔ یہ دوست ایک نیک دل انجینئر تھے جنہوں نے کمال ایمان داری کےساتھ سب کچھ واپس دے دیا۔درحقیقت بریف کیس میں خاصی کرنسی کے علاوہ سعودی عرب کے ویزہ شدہ پاسپورٹ اور ٹکٹیں تھیں۔

غیر ممکن کو ممکن میں بدل دیتا ہے۔خلیفہ کے الفاظ

یہ مالی قربانی کا واقعہ ،ان دنوں کی بات ہے ۔جب ان کی سیاسی پارٹی کے سر براہ نے انہیں آئندہ انتخابات میں ٹکٹ دینے سے معذرت کردی تھی۔بعد میں ایک اور وعدہ کیا مگر پھر مایوس کیا۔میں نے حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ کی خدمت میں ان کی مالی قربانی اورسیاسی حالات کی پریشانی کے بارے میں بذریعہ فیکس اطلاع کی نیز دعا کی درخواست بھی کی۔چند ایّام کے بعد حضورِ انور کا خط ملا ۔فرمایا۔انہیں بتائیں کہ فکر نہ کریں اللہ تعالی ان کو پہلے سے بہتر مقام عطا کرے گا۔پھر ایسا ہی ہوا۔صدرمملکت نے انہیں وزیر کے برابر عہدہ پر متعین کردیا۔یہ ایک بہت ہی ایمان افروز واقعہ ہے۔

ایمان داری

بہت ہی قابل اعتماد اور ایمان دار انسان تھے۔جب سینیگال میں ،خاکسار نے جماعتی ضروریات کے لئے کچھ رقبہ خریدا ،ملکی حالات کے تحت ،اسے جماعت کے نام پر خرید نہیں سکتے تھے۔ یہ ایک ایکڑ رقبہ مرحوم کے نام پر خریدا گیا۔ بعدازاں کافی سالوں کے بعد جماعت کے نام پر منتقل کیا گیا۔آجکل اسی رقبہ میں جماعت کے دفاتر ،گیسٹ ہاؤسز اور جلسہ گاہ ہے۔الحمدللہ

مہمان نوازی

خاکسارکو بہت دفعہ ان کے گھر میں شب بسری کا موقع ملتا رہا۔بہت ہی محبت اور پیارسے پیش آتے اور میری ادنیٰ ادنیٰ ضرویات کا خیال رکھتے۔ایک دفعہ گنی بساؤمیں ملکی حالات بگڑنے کی وجہ سے مرکزی کارکنان، مکرم حمیداللہ ظفر صاحب امیر جماعت گنی بساؤکی قیادت میں سینیگال میں ہجرت کرنی پڑی۔ گنی بساؤاور سینیگال کے بارڈر کے قریبی شہر میں ان کی رہائش کا انتظام کیا گیا۔انہی ایام میں پردیس در پردیس کی حالت میں عید آگئی۔ہم نے کابنے کابا صاحب کے شہر میں عید پر اکٹھے ہونے کا فیصلہ کیا۔مکرم موصوف نے ایک سرائے جوبیرون شہر تھی ،اس میں ہمارے قیام کا انتظام کیا۔اس دوران انہوں نے ہم سب کا اسقدرخیال رکھا کہ جوبہت ہی قابل ِستائش ہے۔عید کے روزکھانا بن رہا تھا۔اس دوران کسی دوست نے کہا کہ لیموں ہونے چاہیے۔موصوف ادھر ہی تھے،فوری طور بن بتائےاپنی گاڑی پر کہیں چلے گئے۔ہم نے سوچا کسی کام کے لئے گئے ہیں ۔ گھنٹہ بھرکے بعدواپس تشریف لائے اور کہا یہ لیموں حاضر ہیں۔اس موسم میں لیموں ناپید تھے۔ تلاشِ بسیار کے بعد کہیں سے لے ہی آئے۔یہ مختصر سا واقعہ ان کے اخلاقِ حسنہ کا مظہر ہے۔

ہمدرد اور باوفا دوست

سینیگال میں قیام کے دنوں میں میری والدہ محترمہ کا پاکستان میں انتقال ہوا۔آنرایبل کسی دور دراز علاقے میں دورہ پر گئے ہوئے تھے۔جب انہیں والدہ کی رحلت کاعلم ہوا تو فوری طور دورہ ملتوی کرکے بذریعہ ہوائی جہاز تعزیت کے لئے ڈاکار تشریف لے آئے۔

خلافت سے عشق

جب حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ کا انتقال ہوا۔ فوری طور میرے گھر تشریف لائے۔ اسی دوران مرکز سے ارشاد موصول ہواکہ میں بھی انگلستان پہنچوں۔ حسبِ ارشاد مرکز لندن جانے کے لئے میں ان کے ہمراہ ائر پورٹ پہنچا۔ لیکن کوئی جہاز نہ مل سکا۔ سارا دن ہم لو گ ادھر ہی محوِ انتظار رہے، شاید کوئی جہاز مل جائے۔لیکن سوائے مایوسی کے کچھ نہ مل پایا۔ اگلے روز پھر علی الصبح ائر پورٹ پرپہنچ گئے۔ اب ایک ایئر لائن سے ٹکٹ ملنے کی کچھ امید پیدا ہوئی، لیکن اس کی قیمت عام ٹکٹ سے تین گنا زیادہ تھی۔جوجماعتی مالی صورتِ حال کے پیش نظر میری سکت سے بہت بالا تھی۔میں اب مایوسی کی کیفیت میں تھا۔ کابنے صاحب کہنے لگے، دیکھو زندگی میں ایسے مواقع بہت کم ملتے ہیں۔تم پیسوں کی فکر نہ کرو ،یہ رقم میں ادا کردوں گا۔ میں نے کہا کہ پیسے آپ کے ہوں یا جماعت کے ،بات توایک ہی ہے۔ لیکن ان کی خلافت اور جماعت کی خاطر محبت سے لبریز جذبات آج تک میرے دل میں نقش ہیں۔ افریقہ میں اللہ کے فضل سے بہت احمدیت کے شیدائی ہیں جوجان ومال وآبرو کی قربانی کرنے کے لئے ہرآن صف بستہ تیار رہتے ہیں، لیکن میں نے اپنے جاننے والے احباب میں سے اسقدر جماعت کی خاطر وسیع القلب سعید روح نہیں دیکھی۔بعد ازاں بفضلِ تعالیٰ معجزانہ طور بڑے ہی مناسب داموں ٹکٹ کا انتظام ہوگیا۔

جلسہ سا لانہ انگلستان میں کئی بار اپنے ذاتی اخراجات پر تشریف لائے۔ایک دفعہ جلسہ کے موقع پر حضورِانورکی جانب سے غیرملکی وفود کو کچھ چیزبطورِتحفہ پیش کی گئی ،تو کہنے لگے یہ تو ہمارا فرض بنتا ہے کہ اشاعت ِدین ِحق کے لئے ہم حضورِ اقدس کی خدمت میں کچھ پیش کریں۔میرا ان کے ساتھ ہمیشہ ہی ٹیلی فونک رابطہ رہتا تھا۔ جب بھی بات ہوتی ،علیک سلیک کے بعد ہمیشہ پوچھتےکہ حضور کیسے ہیں؟

دعوت الی اللہ

بہت ہی نڈر اور بہادراحمدی تھے۔دعوت الی اللہ ایک جنون تھا۔ ہر ملنے والے کو دعوتِ حق دیتے۔یہاں تک کہ سربراہِ مملکت کو بھی جماعت کا تعارف کرانے کی توفیق ملی۔ مرحوم کا حلقہ اِحباب بہت وسیع تھا۔ہر ملنے والے تک پیغام حِق پہنچانے کی کوشش کرتے۔ہر وقت انکی گاڑی میں جماعتی لٹریچر اور بیعت فارم دستیاب ہوتے۔

سپین میں موصوف کو شجر احمدیت کی تخم ریزی کی توفیق

گذشتہ سال خاکسار پیارے آقا کے ارشاد کی تعمیل میں تبلیغ کی غرض سے سپین میں تھا۔ایک روز میں نے انہیں سینیگال فون کیا اور بتایا کہ میں آجکل سپین میں تبلیغی مشن پر ہوں۔بہت خوش ہوئے اور کہنے لگے وہاں میرے بھی کچھ عزیز ہیں ۔اور بتایا کہ میں ان کو آپ کے بارے میں فون کرکے بتادیتا ہوں۔ اور آپ کوان کے فون نمبر بھیجتا ہوں۔ ان سے رابطہ کریں۔ اندھے کو کیا چاہیے۔ دوآنکھیں ،میں نے ان لوگوں کو کابنے کابا کے حوالہ سے اپنا تعارف کرایا۔ وہ دوست بہت خوش ہوئے اس طرح اللہ تعالی نے ایک اور بابِ رحمت واکر دیا۔ بعدازاں ان میں سے چند گھرانے بیعت کرکے احمدیت کی آغوش میں آگئے۔جن کا اب جماعت سے گہرا رشتہ ہےالحمدللہ

یہ چند سطورمیں نے اپنے مخلص دوست کے ذکرِ خیر میں رقم کی ہیں، تا کسی رنگ میں تو میں مرحوم دوست کا کسی حد تک حق ادا کرسکوں۔ گر قبول افتد زہے عزوشرف اور قارئین کرام سے بھی التماس ہے کہ اس سعید روح کی مغفرت اور جنت الفردوس میں ارفع مقام کے لئے دعا کریں ۔آمین یا رب العلمین۔

حضرت میاں عبدا لکریم صاحب رضی اللہ تعالی عنہ

صرف اللہ تعالی کی ذاتِ اقدس «اَلصَّمَدْ» ہے۔ اس کے علاوہ سب مخلوقات کسی نہ کسی شکل اور رنگ میں اللہ تعالیٰ کے بعد ایک دوسرے کی محتاج ہے۔ ہر انسان کسی دوسرے انسان کے زیرِاحسان ہے۔

اس لیئے اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ ارشاد فرمایاہے۔ کہ مَنْ لَّا یَشْکُرِ النَّاسَ لَا یَشْکُرُاللّٰہ۔ جو بندہ لوگوں کے احسانات کا شکر ادا نہیں کرتا ۔وہ اللہ کا بھی شکر ادانہیں کرتا۔ اسی جذبہ ِشکرو امتنان کے تحت آج میں اپنے بزرگ، اپنے دادا، حضرت میاں عبدالکریم صاحب کا ذکر ِخیر کرنا چاہتا ہوں۔ وہ ہمارے خاندان کے ایک بزرگ اور محسن ہیں ۔

ہمارے محسن

ہمارے دادا جان کا ہم سب افرادِخاندان پراس قدر عظیم احسان ہے کہ ہم لوگ ہمیشہ ان کے احسان مند ہیں اور رہیں گے۔کیونکہ انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو مان کر ،ہمیں وراثت میں احمدیت کی نعمت عطا کردی اورہمارے لئے رشدوھدایت کی راہیں آسان کردیں۔ اگر وہ یہ نورِاحمدیت قبول نہ کرتے تو خدا جانے آج ہم ظلمت میں کہاں سے کہاں بھٹک رہے ہوتے۔اور ہماراکیا حال ہوتا۔

ایں سعادت بزور بازو نیست گر نہ بخشد خدائے بخشندہ
تعارف

آپ کا نام عبدا لکریم صاحب تھا۔ آپ محتر م علی احمد صاحب کے ہاں1880ء کے قریب فتح پور ضلع گجرات میں پیدا ہوئے۔ابتدائی تعلیم اپنے گاؤں سے ہی حاصل کی۔اس زمانہ میں اپنے گھریلوحالات اور وسائل کے مطابق پرائمری تک تعلیم حاصل کی۔اورکچھ عرصہ تک اپنے علاقہ کےایک قریبی گاؤں کے سکول میں بطور معلّم تعلیم وتدریس کی توفیق پائی۔بہر حال اپنے اس زمانہ کے ماحول اور معیار کے مطابق پڑھے لکھے لوگوں میں شمار ہوتے تھے ۔اس لئے لوگ آپ کو منشی صاحب یامیاں صاحب کہہ کر مخاطب ہوتے تھے۔

صحبتِ صالحین

آپ بچپن سے ہی نہایت نیک طبع اور سعید فطرت کے حامل تھے۔ اوائل سے ہی قرآنی ارشاد کُوْنُوْامَعَ الصَّادِقِیْن کی اتباع میں نیک اور بزرگوں کی صحبت میں رہتے۔

ہمارے ہمسایہ میں ایک خدا رسیدہ ،عالم وفاضل اور ولی اللہ بزرگ رہتے تھے۔ جن کا نام مکّرم سیّد محمود احمد صاحب تھا۔ اس دور میں ہمارے علاقہ میں ان کے علم وفضل اور تقویٰ وطہارت کی بہت شہرت تھی۔ یہ بزرگ اپنے محلے کی مسجد کے امام الصلوٰۃ تھے۔ اس کے علاوہ ان کے ہاں قرآن پاک کی درس وتدریس کا سلسلہ بھی جاری و ساری رہتا تھا۔ جس میں علاقہ بھر سے طلبہ کی ایک کثیر تعداد دینی تعلیم حاصل کرتی تھی۔

مکرم حضرت میاں صاحب کی یہ خوش بختی تھی، کہ اس ہمسائیگی کے باعث ،آپ کو شاہ صاحب جیسے عالی مرتبت بزرگ کی نیک صحبت بچپن سے ہی نصیب ہو گئی ۔ پھر شاہ صاحب کی نیکی اور اخلاق فاضلہ سے متأثر ہو کر ان کے حلقہ معتقدین میں شامل ہو گئے۔ اور اکثر اوقات ان کی روحانی اور علمی مجالس میں جاکر بیٹھے رہتے ۔

حضرت سیّد محمود شاہ صاحب جب حلقہ آغوشِ احمدیت میں آگئے۔ تو انہوں نے اپنے معتقدین کو بھی اس نورِ ھدایت کے بارے میں بتایا۔ جس پر چند ایک نے احمدیت کو قبول کرلیا۔

میاں صاحب کی بیعت

میاں صاحب نے اگرچہ اپنے احمدی ہونے کا اعلان تو پہلے ہی کردیا تھا۔اور نماز یں بھی شاہ صاحب کی اقتداء میں باقی احمدی بھائیوں کے ساتھ ادا ہی کرتے تھے۔ لیکن دستی بیعت کی سعادت سے تا حال محروم تھے۔

حضرت مسیح ِپاک کا سفر جہلم

یہ 1903ء کی بات ہے۔ ایک روز شاہ صاحب نے برسبیلِ تذکرہ احبابِ جماعت کو بتایا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کےایک معاند ِاحمدیت کرم دین کی طرف سے دائرکردہ مقدمہ کے سلسلہ میں، جہلم کی ایک عدالت میں تشریف لارہے ہیں۔ (جہلم شہر ہمارے گاؤں سےتقریباً چالیس میل کی مسافت پر ہے)

حضرت میاں صاحب نے اپنے چند دوستوں کے ساتھ اس موقعہ پر حاضر ہونے کا پروگرام بنایا۔ تاکہ حضرت اقدس کی زیارت اور دستی بیعت سے شرف یاب ہو سکیں۔ اللہ تعالیٰ کے فضل اور اس کی عطا کردہ توفیق سے جہلم پہنچ کر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے۔ جہلم شہر میں حضور پر نور کی زیارت کرنے والوں کا ایک جم غفیر تھا۔ اس بات سے اندازہ لگا یا جا سکتا ہے، کہ وہاں پر صرف ایک دن میں بارہ سو بیعت ہوئی تھی۔ اوران بیعت کرنے والے خوش نصیبوں میں حضرت میاں صاحب بھی شامل تھے۔

(جاری ہے)

(منو راحمد خورشید ۔واقفِ زندگی)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 1 اپریل 2021

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 2 اپریل 2021