• 16 اپریل, 2024

مکرم و محترم طالب یعقوب صاحب مبلغ سلسلہ ٹرینیڈاڈ کا ذکر خیر

تعارف

آپ 20 جون 1957ء کو پیدا ہوئے۔ والد کا نام مکرم طیب یعقوب صاحب تھا اور والدہ کا نام محترمہ حشیفہ یعقوب صاحبہ تھا۔ آپ کا تعلق ایک مذہبی گھرانے سے تھا۔ آپ کے دو بھائی اور تین بہنیں تھیں۔ بچپن سے ہی آپ کی طبیعت میں حیاء موجود تھی۔آپ نہایت سادہ اور شفیق مزاج شخص تھے۔ آپ کی طبیعت کا میلان دین کی خدمت کی طرف شروع سے ہی تھا۔

آپ نے چھوٹی عمر میں ہی جماعتی کاموں میں حصہ لینا شروع کیا ۔ آپ اپنے چچا مکرم مولوی محمد حنیف یعقوب صاحب مربی سلسلہ کو دیکھ کر بڑے ہوئے اور آپ کے اندر خدمت دین کا جذبہ پیدا ہوا۔ خدام الاحمدیہ میں قدم رکھا تو بطور قائد مجلس خدام الاحمدیہ خدمت کی توفیق پائی۔ سکول کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد آپ کو مرکز ی جامعہ احمدیہ ربوہ میں تعلیم کی غرض سے بھجوا دیا گیا۔

اس سفر میں مکرم مولوی محمد یعقوب حنیف صاحب آپ کے ہمراہ تھے۔ ربوہ کے نئے ماحول میں ایڈجسٹ کرنا آپ کے لئے بہت بڑا امتحان تھا۔ آپ نے کوئی شکایت زبان پر نہ لائی بلکہ بڑے بہترین طریق سے اپنے آپ کو اس ماحول میں ڈھال لیا۔

آپکی اہلیہ کا نام محترمہ ساجدہ شاہین مرزا صاحبہ ہے۔ آپ مکرم مرزا منور احمد صاحب درویش قادیان کی بیٹی ہیں اور حضرت مرزا برکت علی بیگ صاحبؓ صحابی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پوتی ہیں۔ مکرم طالب یعقوب صاحب سے ان کی شادی 1987ء میں ہوئی۔ مکرم طالب یعقوب صاحب کی شادی ربوہ میں ہوئی۔ آپ ان دنوں جامعہ احمدیہ ربوہ میں زیر تعلیم تھے۔

آپ کی پاکستان آمد مؤرخہ 22 دسمبر 1978ء کو Trinidad & Tobago سے ہوئی اور جنوری 1979ء سے آپ نے جامعہ احمدیہ ربوہ میں اپنے تعلیمی سلسلہ کا آغاز کر دیا۔ آپ نے جامعہ کی تدریس کا اختتا م1988ء میں کیا اور 24 جولائی 1989ء کو پاکستان سے رخصت ہوگئے۔

27دسمبر 1989ء کو آپ کی تقرری Zaire (موجودہ نام Congo) میں بطور مبلغ سلسلہ ہوئی۔ آپ نے وہاں دو سال خدمت کی توفیق پائی۔ 14 دسمبر 1991ء کو ذائر سے واپس قادیان تشریف لے آئے اور اس سال منعقدہ جلسہ سالانہ قادیان میں شمولیت اختیار کی اور پھر 1992 ء میں Trinidad تشریف لے آئے۔

24 اپریل 1993 ء کو آپ کی تقرری Guyana میں ہوئی جہاں آپ نے 4سال خدمت کی توفیق پائی۔ 23 جولائی 1997ء کو آپ کی تقرری Ghana میں ہوئی جہاں آپ نے تقریبا ً 11سال بطور مربی سلسلہ خدمات سر انجام دیں ۔ 24 اپریل 2008ء کو آپ گھانا سے واپس اپنے ملک Trinidad روانہ ہوئے اور یکم جون 2008ء سے بطور مربی سلسلہ اپنی ڈیوٹی سرانجام دینا شروع کردی۔ یہ خدمت دین کا سلسلہ تادم آخر یعنی 8 ستمبر 2020ء تک جاری رہا۔ Trinidad میں آپ کی خدمات کا سلسلہ 12 سال بنتا ہے۔

پسماندگان

آپ نے اپنے پیچھے اپنی اہلیہ کے علاوہ تین بچے سوگوار چھوڑے ہیں۔

1۔ عزیزم ناصر یعقوب صاحب یہ ان دنوں Optometry کا کورس کررہے ہیں۔

2۔ عزیزہ آمنہ یعقوب صاحبہ یہ آجکل Phlebotomy کا کورس کررہی ہیں۔آپ شادی شدہ ہیں۔

3۔ عزیزہ عدیلہ یعقوب صاحبہ یہ Medicine کا کورس کررہی ہیں۔

گھانا میں قیام

آپ 1997ء تا 2003ء کو فوریڈوا- ایسٹرن ریجن میں رہے پھر 2003تا 2008ء کماسی اشانتی ریجن میں رہے۔

آپ کی اہلیہ صاحبہ کوفوریڈوا میں قیام کے بارہ میں کہتی ہیں :
آپ تہجد اور نوافل کی ادائیگی میں بڑے باقاعدہ تھے۔ فجر اور عشاء کے بعد درس دیتے ۔ درس کے بعد احباب کے ساتھ بیٹھتے اور ان کے حالات دریافت کرتے اور پھر جمعہ کو نماز عشاء کے بعد احباب سے مجلس سوال و جواب کرتے ۔

یوکے جلسہ کے دوران احباب گھر آتے اور ٹی وی پر خطبات وخطابات حضور انور ایدہ اللہ بنصرہ العزیز دیکھتے ۔ انٹرنیشنل بیعت کے دن کھانا وغیرہ بھی گھر میں تیار کرکے انہیں دیا جاتا ۔

عید کے دنوں میں لجنہ کی مدد سے ہر آنے والے اوراحمدی ممبر کے لئے کھانا تیار کیا جاتا اور انہیں عید کے بعد پیش کیا جاتا ۔ الوداعی تقریب پر احباب نے ان سے بے حد محبت کا اظہار کیا۔ ہر ایک کے ساتھ ذاتی تعلقات، شکایت کی بجائے ان کے لئے دعا کی تحریکاور ہر آنے والے مہمان کی خاطرتواضع کرنے کی عادت کو سراہا گیا۔

کماسی-گھانا میں تقرری

انکی اہلیہ صاحبہ کہتی ہیں:
کماسی میں آپ کا احباب جماعت اور مربیان اور صدران کے ساتھ محبت والا تعلق تھا۔ ایک بار خدام نے ٹیبل ٹینس کھیلنے کے لئے میز بنوایا۔ آپ اور مکرم لطف الرحمٰن صاحب معلم سلسلہ کو اس کا افتتاح کرنے کے لئے بلایا۔ معلم صاحب نے مولوی طالب صاحب کو یہ سمجھتے ہوئے کہ وہ انہیں آسانی سے ہرا دیں گے میچ کھیلنے کی دعوت دی۔ مکرم طالب یعقوب صاحب نے بآسانی مکرم لطف الرحمٰن صاحب کو ٹیبل ٹینس کے نمائشی میچ میں ہرا کر سب کو حیران کر دیا۔ دراصل آپ کرکٹ اور ٹیبل ٹینس کے بہت اچھے کھلاڑی تھے۔

کماسی کے قیام کے دوران پہلی بار نماز تراویح میں ایک حافظ قرآن نے مکمل قرآن کریم کی تلاوت کی تو آپ نے جماعتی طور پر کلوجمیعا ترتیب دیا۔ سب احمدی احباب اپنا اپنا کھانا لائے اور سب نے مل کر کھایا اور اس پر بڑی خوشی کا اظہار کیا۔

کماسی شہر میں جو ایک لحاظ سے جماعت احمدیہ گھانا کے لئے مرکز کی حیثیت رکھتا ہے وہاں مہمانوں کی آمد و رفت کافی زیادہ ہوتی تھی۔ آئے دن مہمان آتے۔ شمالی علاقہ جات سے آنے والے یہاں ٹھہرتے۔ اسی طرح اکرا سے آنے والے یہاں رہ کر اگلے روز شمالی علاقہ جات میں چلے جاتے ۔ آپ بڑی خوش اخلاقی سے ان کے ساتھ پیش آتے ۔ ان کی خدمت کرتے اور ان کی خیریت دریافت کرتے رہتے۔

ہمارے وقت میں شعبہ وقف نو بہت متحرک تھا۔ ان کے اکثر پروگرام وقف نو کے کماسی میں ہی ہوتے اور آپ ان میں شریک ہوا کرتے اور رہنمائی دیا کرتے تھے۔ لوگ ان سے بے حد محبت کرتے تھے اور ہر گز نہ چاہتے تھے کہ وہ واپس اپنے ملک جائیں۔

مکرمہ عدیلہ صاحبہ دختر مکرم طالب یعقوب صاحب بیان کرتی ہیں:
گیانا میں قیام کے دوران آپ کے پاس ایک سائیکل ہوتا یا عام پبلک ٹرانسپورٹ کے ذریعہ سفر کرتے تھےاور جماعتوں سے رابطے میں رہتے تھے۔ ان دنوں حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کے خطبات و خطابات آڈیو کیسٹ کی صورت میں ملتے تھے۔ آپ ان خطبات کے تمام نوٹس لیتے اور ان میں موجود نکات احباب جماعت کو پہنچاتے اور احباب کو مالی قربانی کی تحریک کرتے ۔ ایک بار تحریک جدید اور وقف جدید کی مالی تحریکات پر غیر معمولی قربانی کرنے والوں میں خلافت رابعہ کے دوران گیانا جماعت کا بھی نام لیا گیا تھا جو چھوٹی جماعتوں میں نمایاں قربانی کرنے والوں میں شمار کی گئی تھی۔

Trinidad میں آپ کی تقرری Free port جماعت میں ہوئی۔ آپ کا ہر فرد جماعت سے گہرا اور ذاتی تعلق تھا۔ کرونا وائرس کی وباء سے قبل آپ ہر فرد جماعت سے خود جا کر ملتے ۔ حال دریافت کرتے اور جماعتی امور پر نصیحت کرتے۔ غیر احمدی احبا ب کے ساتھ بھی آپ کے بڑے اچھے تعلقات تھے۔

جب آپ کی بیمار ی نے شدت اختیار کی اور Dialysis شروع ہوا تو ہسپتال سٹاف کہا کرتا تھا کہ آپ کا شمار بہترین مریضوں میں ہوتا ہے۔ آپ تکلیف کے باوجود کسی قسم کی پریشانی کا اظہار نہیں کرتے تھے۔

بیماری کے باوجود کلاسز، دروس اور اجلاسات میں شریک ہوتے اور احباب جماعت کی رہنمائی کرتے تھے۔کرونا کی وباء کے دوران آپ احباب جماعت کو نماز باجماعت اور کتب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مطالعہ کی تحریک کرتے تھے۔

میرے والد صاحب کی عادت تھی کہ رات کو سونے سے قبل نفل ادا کرتے اور تلاوت قرآن کریم کرتے۔ میرے سکول اور یونیورسٹی کی تعلیم کے دوران آپ کی بھرپورکوشش ہوتی کہ ہم نماز فجر اہتمام کے ساتھ ادا کریں اور ہمیں مندرجہ ذیل دعائیں سکھاتے۔

اَللّٰھُمَّ اَعِنِّيْ عَلٰی ذِکْرِکَ وَ شُکْرِکَ وَ حُسْنِ عِبَادَتِکَ

اَللّٰھُمَّ اَنْتَ السَّلَامُ وَمِنْكَ السَّلَامُ، تَبَارَكْتَ یَا ذَاالْجَلَالِ وَالْإِكْرَامِ

لَا حَوْلَ وَ لَا قُوَّةَ اِلَّا بِاللّٰہ ِ

ہمارے امتحان کے دوران ہمیں تاکید کرتے کہ کم از کم دو نفل ضرور پڑھنے ہیں۔ گھر میں چھوٹے ہونے کے ناطے میری ہر جائزخواہش پوری کرتے ۔ میری ہر ضرورت کا خیال رکھتے ۔ کالج کے دوران مجھے دانتوں کو سیدھا کرنے کے لئے Braces لگانے کی ضرورت تھی۔ آپ نے کافی تگ و دو کے بعد بہت سا روپیہ میرے اس مسئلہ کے حل پر خرچ کیا۔ ہمیشہ امتحان سے قبل اور امتحان کے رزلٹ کے بعد حضور پر نور کو خط لکھنے کی تلقین کرتے۔ آپ گھر کا کام بھی کرتے اور امی جان کی کھانا پکانے میں بھی مدد کرتے تھے۔ آپ بالوں کر رنگ کرتے۔ایک بار آپ نے اپنے ایک غیر از جماعت دوست کو ہسپتال فون کیا۔ وہ ہسپتال میں داخل تھے۔ آپ کو باتوں باتوں میں پتہ چلا کہ اس نے کھانا نہیں کھایا ۔ آپ نے فوری طور پر مجھے اور میری امی جان کو ان کےلئے کھانا بناکر بھجوانے کا کہا۔

جب بھی کوئی آپ سے کچھ رقم مانگنے آیا تو اسے کچھ نہ کچھ ضرور دیتے۔ آپ ہمیشہ ہمیں کہتے کہ صدقہ تو اس پانی کی طرح ہے جو آگ بجھاتاہے (یعنی گناہ کی تپش کم کرتا ہے)۔

مکرمہ ثمینہ نسرین صاحبہ اہلیہ مکرم حماد رضا صاحب مربی سلسلہ ساؤتومے (آپ ان دنوں کماسی گھانا میں تھیں) لکھتی ہیں:
مربی صاحب بڑے عاجز، نرم مزاج ، محبت کرنے والے، متقی اور نرم گفتگو کرنے والے تھے۔ میں سکول کے بعد آپ کے گھر جاتی تو ہمیشہ آپ مجھ سے بڑے اچھے طریقہ سے پیش آتے تھے۔ مشن ہاؤس میرا اپنا گھر ہی تھا۔ آپ نے مجھے مسرور کلاس آرگنائز کرنے کا کہا۔ کلاس کا مقصد بچوں کو نماز ، اسلام احمدیت کا بنیادی علم دینا اور نظموں کی تیاری تھا۔ اس سلسلہ میں آپ نے ہر طرح سے مدد کی ۔ یہ وہی کلاس ہے جس نے 2004ء میں حضرت خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی کماسی آمد پر نظمیں پیش کیں۔ اسی طرح 2008ء میں بھی حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کی آمد پر اردو نظمیں پڑھیں۔ یہ کلاس مشن ہاؤس میں ہوتی۔

کبھی کبھی یہ کلاس رات کے آٹھ یا نو بجے تک جاری رہتی تھی۔ بچے شور کرتے مگر مربی صاحب نے کبھی تھکان یا غصہ کا اظہار نہیں کیا۔ ہمیشہ مسکرا کر ہی ملا کرتے تھے۔

اگر کلاس کے دوران تقریر یا خطبہ کا وقت ہوتا تو سب بچوں کو اپنے بیڈ روم میں بلا کر حضور انور کا خطبہ سننے کے لئے کہتے ۔ ان کے پاس ایک ڈائری ہوا کرتی تھی جس میں ہمیشہ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے خطبہ کے نوٹس لکھے ہوئے ہوتے تھے۔ آپ اسی امر کی ہم سب کو بھی نصیحت کرتے تھے۔ کہتے تھے کہ اس طرح حضور پر نور کی ہدایات یاد رہتی ہیں اور ان پر عمل کرنے کا موقع بھی ملتا ہے۔ آپ ہم بچوں کے لئے باپ کے طور پر تھے۔ ہمیشہ ہر معاملہ پر ہماری رہنمائی کرتے تھے۔

آپ کے بیٹے مکرم ناصر یعقوب صاحب لکھتے ہیں:
ہم نے اپنے والد صاحب کو ہمیشہ پیار کرنے والا اور احساس کرنے والا پایا۔ انہیں ہمیشہ جماعت کے کاموں میں بے حد مصروف پایا۔ تبلیغ میں مشغول رہتے ۔ بڑے بڑے مالز میں تبلیغی لٹریچر تقسیم کرتے ۔

آپ کسی پروگرام میں بھی جاتے تو ہمیشہ وقت پر پہنچ جاتے ۔ کسی موقع پر تقریر کرنا ہو تو ہمیشہ اس کی پہلے خوب تیاری کرتے۔ آپ کی تقریر پُرجوش اور قوت سے بھرپور ہوتی۔ اکثر لوگ کہتے کہ جب مولوی طالب صاحب کی تقریر کی باری آتی ہے تو ہر شخص جاگ جاتا ہے اور متوجہ ہو جاتا ہے اور تقریر خوب توجہ سے سنتا ہے۔آپ نمازوں پر بڑے باقاعدہ تھے اور نماز تہجد کا اہتمام نیز تلاوت بڑی باقاعدگی سے کرتے۔ اس کے ساتھ حضور انور کا خطبہ بڑی باقاعدگی سے ہمیں ساتھ بٹھا کر سنتے۔

آپ بہترین باپ تھے اور ہمیشہ ہمیں بہترین احمدی مسلمان بننے کی تلقین کرتے ۔ امی جان کا بہت خیال کرتے ۔ گھر میں ہوتے تو امی جان کے بالوں کو رنگ لگاتے۔

آپ جماعت کے معاملات پر پیدا ہونے والے منفی خیالات یا رجحان کو کبھی پنپنے نہ دیتے ہمیشہ اس کو فوراً جھٹک دیتے ۔ جماعتی ترقی کے لئے کسی بھی تجویز کو رد نہ کرتے بلکہ بے حد خوش ہوتے تھے۔ ان کی وفات سے قبل گزرنے والی رات کو ابو جان نے واٹس ایپ کے ذریعہ حضور انور ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کے خطبہ کا خلاصہ بھیجا اور مجھ سے خدام الاحمدیہ کی کارکردگی کی تازہ رپورٹ لی۔ گویا اللہ کےفضل سے آپ اپنے آخری وقت تک اپنے فرائض بخوبی ادا کرتے رہے۔ الحمد للہ علیٰ ذالک

ہومیو ڈاکٹر مکرم شبیر حسین بھٹی صاحب کہتے ہیں کہ:
مکرم طالب یعقوب صاحب کو غیبت سے پاک پایا ۔ میں نے کبھی نہیں دیکھا کہ کسی کے خلاف بات کی ہو۔ لوکل دوستوں کے ساتھ بڑا پیارکا تعلق تھا۔ میرے دیکھتے ہی دیکھتے ہمارے ریجن کے لوگوں کو اپنے پیار و محبت سے یکجا کر دیا اور گویا ان میں ایک جان ڈال دی ۔ آپ نے جماعت کو مضبوطی سے جوڑ دیا۔

برادرم طالب صاحب خاکسار (راقم الحروف) کے جامعہ احمدیہ کے کلاس فیلو تھے۔ گھانا آیا تو انہیں یہاں پا کر بے حد خوشی ہوئی۔ ذاتی یا جماعتی طور پر کئی بار کماسی یا Koforidua جانے کا موقع ملا۔ آپ نے ہمیشہ میرا خوشی سے کھلے بازوؤں استقبال کیا۔ انہوں نے ہمیشہ بڑی گرمجوشی سے استقبال کیا۔ مہمان نوازی کی اور کام کے حوالہ سے بے حد تعاون کیا۔ آپ ہمیشہ امید کی بات کرتے ۔ ہمیشہ کسی شخص کے اچھے اچھے پہلوؤں اور خوبیوں کو اجاگر کرتے۔

ہمارے کلاس فیلو مکرم منصور احمد زاہد صاحب مربی سلسلہ جنوبی افریقہ لکھتے ہیں کہ آپ وفات تک مستعد رہے۔ وفات سے ایک روز قبل انہوں نے مکرم طالب یعقوب صاحب سے درخواست کی کہ جامعہ احمدیہ کے طالب علمی کے زمانہ کی تصاویر ہوں تو بھیجیں ۔ دو گھنٹے کے اندر طالب صاحب نے تصاویر بھیج دیں۔

ایک معلم مکرم لطف الرحمان صاحب جنہو ں نے آپ کے ماتحت رہ کر دو ریجنز میں کام کیا، آپ کے بارہ میں لکھتے ہیں کہ:
میرا ان سے Korforidua سے تعلق ہے۔ وہ میرے ریجن کے مبلغ تھے۔ بے حد شفیق ، شائستہ مزاج ، مسکرا کر بولنا اور آپ ایک سادہ لیڈر تھے ۔ آپ کا طریق یہ تھا کہ جو بھی ان کے پاس ہو آسانی کے ساتھ دوسروں سے شیئر کرتے تھے۔ کئی بار ہوا کہ ہاؤس بوائے نے یام (ایک لوکل سبزی آلو یا شکر گندی کی طرح) کو ابالا اور Garden eggs کے ساتھ stew تیار کیا۔ ہم مربیان آئے ہوئےہیں تو ہم سب کے سامنے رکھا۔ آپ نے ہمارے ساتھ زمین پر بیٹھ کر مل کر کھایا ۔ آپ ہمیشہ نچلے لیول پر جا کر دوستانہ طریق سے ملے۔

کماسی میں آیا تو پھر وہ میرے ریجنل مبلغ بنے۔ دوستانہ تعلق تھا۔ میری بچی نے Fomena کے احمدیہ سیکنڈری سکول میں داخلہ لیا۔ ان کے پاس گیا کہ میرے پاس اتنے پیسے نہیں کہ سپیشل گاڑی لے سکوں ۔ اگر آپ کی گاڑی مل جائے تو اپنی بچی کو سامان سمیت سکول چھوڑ سکتا ہوں۔آپ نے فوراً کہا کوئی مسئلہ نہیں ڈرائیور کو بلایا ۔ Fuel کے پیسے دئیے اور کہا kکہ لطف الرحمٰن کو Fomena چھوڑ آؤ۔ خاکسار آپ کے اس حسن سلوک سے بے حد متاثر ہوا۔

خاکسار نے انہیں عام گھانین کی طرح پایا جو کسی آنے جانے والے کے ساتھ گھل مل سکتا تھا اور اس کے ساتھ آرام سے بات کرسکتا تھا۔ آپ کے اکثر کہے جانے والے فقرات یہ تھے۔ ’’ہر چیز بہتر ہوجائے گی‘‘ ’’پریشان نہیں ہونا‘‘

مکرم مولانا صدیق احمد منور صاحب مبلغ انچارج فرینچ گیانا لکھتے ہیں:
میں زائر (موجودہ Congo) میں تھا جب مکرم طالب یعقوب صاحب نے میرے ساتھ کام کیا ہے۔ آپ اپنی نیکی ،تقویٰ ، سادہ اور عاجزانہ طبیعت سے ہر ایک کو متاثر کرتے تھے۔ کبھی ایسا نہیں ہوا کہ انہیں کوئی کام دیا گیا ہو اور انہوں نے اسے کرنے میں کسی قسم کی ہچکچاہٹ کا اظہار کیا ہو۔ اگر کسی وقت میری طر ف سے کسی غلطی پر ناراضگی کا اظہار ہوا ہو تو انہو ں نے خاموشی سے صورتحال کو قبول کیا۔ ان دنوں ملک میں فسادات ہورہے تھے۔ قتل و غارت کا بازار گرم تھا۔ غیر ملکیوں کی اکثریت ملک چھوڑ چکی تھی۔ ہمیں بھی ملک چھوڑنے کی ہدایت مل چکی تھی۔ مگر بعض وجوہات کی بناء پر ایسا ممکن نہ تھا۔ ایسے وقت میں مکرم طالب یعقوب صاحب کسی گھبراہٹ کا شکار نہیں ہوئے۔ انہیں یقین تھا کہ ہم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے نمائندہ ہیں۔ اللہ تعالیٰ حفاظت کرے گا۔

مکرم عبدالرحمٰن صاحب آف (ریپبلک آف گیانا) جو انکے جامعہ احمدیہ ربوہ کے کلاس فیلو ہیں، آپ کے متعلق بتاتے ہیں :
آپ بڑی نرم طیبعت کے مالک تھے۔ غصہ بہت کم تھا۔ آپکو صدقہ دینے کا شوق تھا۔ جو بھی پاس ہوتا دے دیتے تھے۔ ہم ربوہ میں تھے ۔ مجھے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کے پیچھے مسجد مبارک میں نماز پڑھنے کاشوق تھا۔ میں اکثر مختلف طلباء سے سائیکل عاریةً لیا کرتا تھا۔ اس وقت مکرم طالب یعقوب صاحب میرے سینئر تھے۔ انہوں نے میرے لئے ایک پرانا سائیکل خریدا اور مجھے تحفہ میں دیا۔ یہ بہت بڑا تحفہ تھا۔ وہ میری طرح ہی ایک طالب علم تھے۔ میں نے جتنی مرتبہ بھی وہاں نمازیں پڑھیں یقیناً ان کی برکتیں اور ثواب ان کو ملتا ہوگا۔

مکرم جمال الدین ڈونکو صاحب معلم سلسلہ کوفو ریڈوا۔ ایسٹرن ریجن جنہوں نے مکرم طالب یعقوب صاحب کے ساتھ کام کیا، آپ ان کے بارہ میں اس طرح رطب اللسان ہیں :
آپ ہمیشہ مسکراتے اور لوگوں کو قریب لاتے۔ بسا اوقات اپنے گھر میں کھانا بناتے۔ کسی جماعت میں، کسی گاؤں میں جاتے تو افراد جماعت کے ساتھ مل کر کھاتے۔ وہاں کے بچوں، بیوگان اور بڑی عمر کے لوگوں کے ساتھ مل کر کھانا کھاتے۔

میں ان کے ساتھ ایک ہی جگہ پر اکیلا رہا۔ رمضان کے دن آئے۔ آپ نے مجھے کہا کہ کھانا خود نہ بنانا۔ آپ خود بناتے۔ میرے دروازے پر آکر آواز دیتے کہ آکر کھانا لے لو۔ صبح و شام ایسا ہی ہوتا۔ میں کہتا کہ میں خود کھانا لے لیتا ہوں مگر یہی کہتے کہ میرے لئے کوئی مشکل نہیں۔ میں خود کھانا لے آؤں گا۔

میں ان کے ساتھ دورہ کرتا۔ سفر میں ساتھ رہتا۔ دورہ کے دوران جماعت کے افراد بسا اوقات کوئی تحفہ دیتے ۔ کوئی رقم یاکوئی چیز۔ واپسی ہوتی تو کہتے ۔ چلو یہ سب اشیاءتقسم کر لیتے ہیں۔ دراصل یہ تحفہ یا اشیاء ان کو دی گئی تھیں لیکن وہ برابر تقسیم کر کے مجھے بھی میرا حصہ دیتے۔

میں نے ان سے بچوں کی تربیت کا ایک خاص رنگ سیکھا ہے۔ یہاں مشن ہاؤس اونچی جگہ پر ہے ۔ چڑھائی ہے۔ آپ کو شوگر اور بلڈ پریشر کی تکلیف تھی۔ میں نے ایک بار آپ کو دیکھا آپ اوپر سے نیچے کی طرف اپنی بیٹی عدیلہ اور آمنہ کے ساتھ دوڑ رہے تھے۔ میں نے پوچھا کیا مسئلہ ہے کیوں بھاگے؟ کہنے لگے بچیوں نے کہا کہ دوڑو ! اس لئے ساتھ دوڑا۔ جب میں ان سے کوئی بات کہتا ہوں تو توقع رکھتا ہوں کہ وہ اس پر عمل کریں۔ جب کبھی یہ مجھے کچھ کہیں مجھے بھی چاہئے کہ میں اس پر عمل کروں ۔

میں نے بالعموم انہیں کبھی غصہ میں نہیں دیکھا۔ ایک بار جب کسی نے جماعت کی زمین کو دھوکہ سے لینے کی کوشش کی تو بے حد غصہ ہوئے گویا جماعت کے لئے غصہ کرتے تھے۔ میں ان کے ساتھ ایک لمبا عرصہ رہا۔ بلکہ ایک ہی کمپاؤنڈ میں رہا۔ آپ نےہمیشہ کام کرنے پر میری حوصلہ افزائی کی۔ تھوڑا کام ہی کیا تو بے حد حوصلہ بڑھایا۔ میرا ان کے ساتھ باپ اور بیٹے کا تعلق تھا۔

میں دفتر میں کام کرتا تھا۔ بعض اوقات بینک جا کر تنخواہیں نکلوانی پڑتی ہیں۔ بعض اوقات شدید گرمی ہوتی آپ اچانک پوچھتے کہاں جا رہے ہو؟ میں نے کہا بینک تک آپ نے کہا ٹھہرو۔ پھر اپنی گاڑی نکالتے اور بینک لے جاتے۔ میں چندہ جمع کرواتا اور آ پ بڑے صبر کے ساتھ میرا انتظار کرتے۔ جزاہ اللہ احسن الجزاء۔

ETO CROM جماعت ایسٹرن ریجن کے ایک احمدی دوست ISSA FOSO کہتے ہیں ۔ ایک بار جلسہ سالانہ گھانا سے واپسی آتے ہوئے ان کی گاڑی کا ایکسیڈنٹ ہوگیا۔ بعض افراد اکرا میں Korle Bu ہسپتال میں داخل ہوئے۔ مکرم مربی صاحب سب کو فون کرتے ۔ احوال دریافت کرتے ۔ اگر علاج کے لئے اکرا جانا پڑتا تو اس کا انتظام کرتے۔ ان دنوں جب ایک بار آپ اپنے بیوی بچوں سمیت ہمارے گاؤں آئے ۔ آپ نے اپنے بچوں کو ساتھ لیا۔ گاؤں جا کر انہوں نے خود ممبران جماعت کےلئے ایک لوکل کھانا تیار کیا۔ میرے بیٹے کا عقیقہ ہوا تو مکرم مولوی صاحب کا کھانا ایک الگ پلیٹ میں ڈال کر دیا گیا تو فرمانے لگے۔ نہیں ۔ میں تو سب کے ساتھ مل کر کھانا کھاؤں گا۔

حضرت خلیفتہ المسیح الخامس ایدہ اللہ بنصرہ العزیز نے اپنےخطبہ فرمودہ 25 ستمبر 2021 میں آپ کا ذکر خیر فرمایا اور خطبہ کے بعد آپ کی نماز جنازہ بھی پڑھائی۔ حضور انور کےالفاظ ذیل میں تحریر ہیں: آپ نے ان کے بارہ میں فرمایا
’’دنیا کے مختلف ممالک میں نہایت اخلاص کے ساتھ خدمت کرنے کے علاوہ اپنے علم اور تجربے سے اسلامی تعلیم لوگوں میں بانٹتے رہے۔ جہاں بھی گئے جماعت کے ہر فرد کے ساتھ آپ کا ذاتی رابطہ ہوتا تھا۔ جماعتی افراد ان سے خاص محبت کا تعلق رکھتے تھے اور یہ ان سے محبت کا تعلق رکھتے تھے۔ گذشتہ کئی سال سے ان کو گردے کی تکلیف تھی۔ ڈائیا لیسز (dialysis) کی وجہ سے ہفتے میں تین مرتبہ ٹریٹمنٹ (treatment) کے لیے ہسپتال جانا پڑتا تھا لیکن آپ نے جماعتی پروگراموں میں کوئی روک نہیں آنے دی۔ نہایت متقی تھے، عاجز تھے، منکسر المزاج تھے، نرم خو تھے، صابر تھے، اطاعت گزار تھے، حلیم طبع شخصیت کے مالک تھے، ہر ایک کو ہمیشہ مسکراتے ہوئے ملتے۔ نمازوں کے علاوہ باقاعدگی سے نماز تہجد، قرآن کریم کی تلاوت، رات سونے سے پہلے آٹھ رکعت نفل پڑھنا آپ کا معمول تھا۔ جماعتی روایات کی سختی سے پابندی کرتے تھے۔ اپنی فیملی کو بھی ان سب نیکیوں کی تلقین کرتے تھے۔ اپنے خاندان میں بہت ہر دلعزیز تھے۔ پسماندگان میں ان کی اہلیہ کے علاوہ ایک بیٹا ناصر یعقوب اور دو بیٹیاں امینہ یعقوب اور عدیلہ یعقوب شامل ہیں۔ آپ کے دو بھائی بھی ہیں۔ تین بہنیں ہیں۔ کچھ بھائی بہنیں وہاں ٹرینی ڈاڈ میں ہیں کچھ آسٹریلیا میں ہیں۔

ان کی ایک بھابھی ہیلن یعقوب ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ مَیں نے تیس سال قبل بیعت کی تھی اور مولانا صاحب ٹرینی ڈاڈ تشریف لائے تو مجھے ہر وقت بڑے پیار سے دین کی نئی نئی باتیں سکھاتے اور اس کی وجہ سے میرا دین سیکھنے کا جذبہ زیادہ پیدا ہوا۔ اس پہ بہت خوش ہوتے تھے اور طالب یعقوب صاحب کے اس رویہ کی وجہ ہی ہے میرے بیٹے طیب یعقوب نے اللہ تعالیٰ کے فضل سے مربی بننے کی نیت کی ہے اور اب جامعہ احمدیہ کینیڈا کے دوسرے سال میں تعلیم حاصل کر رہا ہے۔ پھر وہاں ایک احمدی ڈاکٹر تھیں جب یہ بیمار تھے۔ وہ کہتی ہیں کہ بہت اعلیٰ اخلاق کے مالک تھے اور ہر ڈاکٹر اور نرس جنہوں نے ان کا علاج کیا وہ ان کے اخلاق سے بڑا متاثر تھا۔ مریض تھے اور کہیں بیٹھے ہوتے اگر ہسپتال میں کم جگہ ہے اور کوئی آ گیا ہے تو خود کھڑے ہو جاتے اوردوسروں کو جگہ دیتے۔ مریضوں کے لیے بھی ، ڈاکٹروں کے لیے بھی ایک نمونہ تھے۔ لوگوں کے لیے بھی ایک نمونہ تھے۔ مشنری انچارج صاحب ٹرینی ڈاڈ اور ٹوباگو لکھتے ہیں کہ حقیقی رنگ میں ایک مربی اور مبلغ کی خصوصیات اور خصائل کو اپنائے ہوئے تھے۔ خلافت کی اطاعت میں آپ ہمیشہ آگے آگے رہتے تھے۔ اپنے نگرانوں کی ہر بات مانتے اور جو کام آپ کے سپرد کیا جاتا اسے بھرپور طور پر سرانجام دینے کی پوری کوشش کرتے۔ آپ اللہ تعالیٰ، اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے بے انتہا محبت کرتے تھے۔ قرآن کریم کی تلاوت اور نماز تہجد کی ادائیگی میں باقاعدہ تھے۔

قاصد وڑائچ صاحب وہاں ٹرینی ڈاڈ کے مربی سلسلہ ہیں۔ یہ کہتے ہیں میری پوسٹنگ ٹرینی ڈاڈ ہوئی تو اس وقت مولاناصاحب کی صحت کمزور تھی اور عمر بھی بڑی تھی۔ یہ نوجوان ہیں ابھی دو تین سال پہلے کینیڈا جامعہ سے فارغ ہو کے گئے ہیں۔ تو کہتے ہیں کچھ دن ہی ہوئے تھے کہ مولانا صاحب پچاس منٹ کا سفر طے کر کے اپنی اہلیہ اور بیٹے کے ساتھ مجھے ملنے کے لیے تشریف لائے اور بڑی شفقت کا سلوک فرمایا اور پھر ہر دوسرے دن، تیسرے دن میسج (message) کر کے یا کال کر کے حال معلوم کر لیا کرتے کہ نئے نئے آئے ہو تمہاری ضروریات بھی ہوں گی ۔اورپھر نصیحتیں بھی کرتے ہوں گے، سمجھاتے بھی ہوں گے۔ ہر بڑے چھوٹے سے پیار اور محبت سے پیش آتے تھے۔ ہمیشہ خلافت سے تعلق رکھنے کی تلقین کرتے اور خلیفہ وقت کے لیے دعا کرنے کی تلقین کرتے۔ ان کی بیٹی نے بھی لکھا ہے کہ مجھے ہمیشہ یہ کہا کرتے تھے کہ امتحانوں سے پہلے بھی اور ہمیشہ ہر کام کے لیے خلیفہ وقت کو لکھو، دعا کے لیے کہو۔ وہاں ایک احمدی منیر ابراہیم ہیں کہتے ہیں کہ جب ہم تبلیغ کے لیے کسی جگہ جاتے تو مولانا ہمیشہ حاضر ہوتے تھے اور پھر تبلیغ کے لیے علاقے بانٹ لیتے تھے ۔کسی کو کہتے تھے کہ تم شمال میں جاؤ مَیں جنوب میں جاتا ہوں تا کہ زیادہ سے زیادہ لوگوں میں احمدیت کا پیغام پہنچے۔ اور ہمیشہ مسکراتے رہتے۔ ان کے ساتھ کام کرنے والے اَور نوجوان مربیان بھی ہیں اور دوسرے لوگ بھی، انہوں نے بھی یہی بتایا ہے کہ جماعت کی ترقی کے لیے اور تبلیغ کے لیے چھوٹا سا کام بھی کوئی کرتا تو بہت خوش ہوتے اور اس کی بڑی حوصلہ افزائی کرتے۔ اور یہ تو ہر ایک نے لکھا ہے کہ ہر وقت مسکراتے رہتے تھے۔ صلح جُو تھے۔ زمانہ طالب علمی میں بھی اگر دوستوں میں کوئی ناراضگی ہو جاتی تو ہمیشہ صلح کرواتے اور یہ کہتے کہ احمدی ہیں اور کسی بھائی کے لیے دل میں رنجش نہیں ہونی چاہیے۔ میں نے بھی ہمیشہ انہیں مسکراتے دیکھا ہے۔ خلافت سے بھی بے انتہا وفا کا تعلق تھا اور جیسا کہ میں نے بتایا ان کے بچے بھی یہی بتاتے ہیں کہ ہمیں بھی یہی کہتے تھے خلافت سے تعلق رکھو اور خط لکھتے رہا کرو۔

ایک نو مبائع ناریش صاحب کہتے ہیں کہ مَیں مختلف غیر احمدی مسجدوں میں جا کر حقیقی اسلام کی تلاش کیا کرتا تھا۔ جب میں مولانا طالب سے ملا تو اسی وقت دلیلیں سننے سے پہلے میرے ذہن پر ایک بہت اچھا اثر پڑنا شروع ہو گیا اور اسی وجہ سے پھر انہوں نے بیعت بھی کر لی۔ بہرحال طالب یعقوب صاحب نے وقف کو بھی کامل شرح صدر کے ساتھ نبھایا اورکبھی کوئی عذر نہیں کیا۔ یہی کہتے تھے کہ خلیفہ وقت جہاں بھی لگائیں کام کرنا ہے اور اگر مجھے کہیں گے کہ پاکستان میں رہو، پاکستان میں کہیں پوسٹنگ ہوتی ہے تو پھر اپنے ملک واپس نہیں جانا تو اس کے لیے بھی تیار ہوں۔ اور پھر عملی طور پر اس تیاری کے لیے پاکستان کے عرصے میں یہ پنجابی بھی سیکھنے کی کوشش کرتے رہے کہ اگر یہاں لگا دیا تو پنجابی لوگوں سے بھی واسطہ پڑ سکتا ہے تو پنجابی سیکھتے رہے۔ اللہ تعالیٰ ان سے مغفرت اور رحم کا سلوک فرمائے اور درجات بلند کرے۔ ان کے بیوی بچوں کی حفاظت فرمائے اور ان کویہ نیکیاں جاری رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔‘‘

اللہ تعالی سے دعا ہے کہ حضور انور ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کی مکرم طالب یعقوب صاحب مرحوم اور ان کے اہل وعیال کے بارہ میں کی جانے والی دعائیں قبول فرمائے۔ آمین

(فہیم احمد خادم –گھانا)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 1 اپریل 2021

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 2 اپریل 2021