• 25 اپریل, 2024

When it’s gone, it’s gone

امسال رمضان میں مجھے لند ن کے دو میگا سپر اسٹورز پر خریداری کے لئے جانا پڑا۔ ایک میں تو جا بجا ’’رمضان اسپیشل پیکج‘‘ کے نمایاں بورڈز آویزاں نظر آئے۔ جہاں روزمرّہ کی اشیاء سستے داموں مسلمانوں کے لئے دستیا ب تھیں تا وہ روزے اچھے طریق پر رکھ سکیں۔ گو اس پیکج سے غیر مسلم بھی فائدہ اُٹھارہے تھے۔ ایک دوست نے اسٹور کی انتظامیہ سے پوچھا کہ اتنے Large Scale پرارزاں قیمت پرفروخت سےآپ کونقصان نہیں ہوتا۔ جواب ملا کہ نہیں۔ جب Large Scale پر ایک ہی دن میں فروخت ہوتی ہے تو منافع برابر ہو جاتا ہے اور دوسرا روحانی طور پر سستے داموں فروخت سے لوگوں کی ہمدردیاں (دُعائیں) ملتی ہیں۔ یہی وہ فلسفہ ہے جو حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ نے ربوہ بننے کے شروع کے دنوں میں احمدی تاجروں کو سمجھایا تھا کہ کم منافع پر جب آپ اشیا ء فروخت کریں گے اور وہ زیادہ تعداد میں بکیں گی تو منافع برابرہی ملے گا۔

دوسری طرف مسلمان ممالک میں مہنگائی کی ایک خطرناک لہر آجاتی ہے۔ بلکہ آج کل اشیاء ذخیرہ کرنے کا رواج بھی پا چکا ہے۔ اس رمضان میں گرمیوں کی شدت میں روزہ دار ایک کلو چینی کے لئے گھنٹوں لائن میں لگا رہتا ہے۔ بازار میں چینی نایاب ہے۔ دیگر ضروری اشیاء کی قیمتیں بھی آسمانوں سے باتیں کر رہی ہیں۔ اور یہ ایک مسلم ملک میں ہو رہا ہے جہاں روزہ رکھنےوالوں کی اکثریت پائی جاتی ہے۔

دوسرے میگا سپراسٹور پر مختلف ریکس کے کناروں پرجلی حروف میں لکھا تھا When it’s gone, it’s gone کہ جب اشیاء کسٹمرز کے ہاتھوں چلی جائیں گی تو چلی جائیں گی۔ پھر آپ ہاتھ ملتے رہ جائیں گے۔ اس لئے جلدی کریں اور اس نادر موقع سے فائدہ اُٹھائیں۔

اس مختصر سے فقرہ نے میرے دل و دماغ پر ایسا گہرا اثر کیا کہ میں اپنے بیٹے سے الگ ہو کر اس فقرہ پر غور کرنے لگا اور فوراً رمضان کا روحانی مفہوم اور فلسفہ ذہن میں اُبھر ا کہ رمضان کے تمام روحانی لمحات اتنے قیمتی ہیں کہ اگر ایک لمحہ گزر گیا اور اس سے فائدہ نہ اُٹھایا تو وہ لمحہ گزر گیا۔ پھر انسان کو دوبارہ نہ ملے گا۔

اس لئے رمضان میں ایک ایک لمحہ کو یہ سمجھ کر گزاریں کہ

When it’s gone it’s gone.

اس سے فائدہ اُٹھائیں اور اسے قیمتی متاع سمجھ کر محفوظ کر لیں۔ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒ اپنے رمضان کے خطبات میں ایک واقعہ کثر ت سے سنایا کرتے تھے کہ:۔
ایک بادشاہ نے ایک دفعہ دربار لگوایا اور درباریوں سے کہا کہ تمہارے پاس پانچ گھنٹے ہیں ان پانچ گھنٹوں میں آپ کو محل میں سے جو چیز پسند آئے لے جائیں۔ ایک درباری محل میں داخل ہو کر بیش بہا قیمتی چیزوں کو دیکھ کر پریشان ہو گیا۔ اور بادشاہ کے بیڈ روم کے مخملی نرم و نازک چادروں (bed sheets) کو دیکھ کر اس نے سوچا کہ پانچ گھنٹے بہت زیادہ ہیں میں پہلے اس نرم و نازک چادروں پر کچھ عرصہ سو لوں۔ باقی وقت میں قیمتی اشیاء لے کر نکل جاؤں گا۔ وہ بیڈ شیٹ اتنی نرم تھیں کہ اُسے بہت گہری نیند آگئی اور پانچ گھنٹے مکمل ہونے پر محل کے پہرے دارآپہنچے اور اسے بیدار کروا کر محل سے یہ کہتے ہوئے باہر نکال دیا کہ جو پانچ گھنٹے آپ کو دئیے گئے تھے وہ مکمل ہو چکے ہیں۔ رمضان بھی چند روزہ ہو تا ہے۔ اس سے بھر پور مستفیض ہونا ضروری ہے۔ آنحضور ﷺ نے بھی فرمایا ہے۔ اِذَا سَلِمَ الرَّمَضَانُ سَلِمَتَ السَّنَۃُ کہ اگر رمضان بخیریت گزر گیا تو سمجھو کہ سارا سال بخیریت گزرا۔

رمضان تو گزر گیا اس پر مزید گفتگو تو موقع محل کے مطابق ہو گی۔ یہاں میں When it’s gone, it’s gone

کو اپنی پوری زندگی پر لاگو کرنے کی درخواست کرنا چاہ رہا ہوں۔ اللہ تعالیٰ نے جو زندگی ایک انسان کو دی وہ ایک نعمت عظمیٰ سے کم نہیں۔ جو محدود سالوں پر محیط ہے۔ اس کے لمحہ لمحہ کو اسلامی تعلیم کا پہناوا پہنانا اولین ذمہ داری ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو پیدا کر کے دو راستے بتا دئیے ایک نیکی اور ایک بدی و بُرائی کا۔ اور دونوں کے حُسن و قبح بھی بتا کر انسان کو مطلع کر دیا کہ وہ جس کو چاہے اختیار کرے۔ اگر نیکی کا راستہ اختیار کرے گا تو جنت ملے گی اور اگر بدی کا راستہ اپنایا تو جہنم کی راہ دیکھے گا۔

لہٰذا ہر مسلمان کو اپنی اس محدود زندگی میں ہر لمحہ قیمتی جانتے ہوئے نیکی کے کام کرنے ہیں۔ انسان اپنی اولاد کی نشو ونما کے لئے اس دنیا میں بینک بیلنس تیار کر تا ہے۔ تا اس کی موت کے بعد وہ اولاد کے کام آسکے۔ روحانی دنیا میں بھی ایک مومن کو آئندہ زندگی کے لئے، عاقبت سنوارنے کے لئے اِسی دنیا میں نیکیوں کا ذخیرہ جمع کرنا ہے۔ اپنی زندگی کو مشکل میں ڈال کر نیکیاں جمع کرنی ہیں۔ جب کہ آنحضور ﷺ نے فرمایا اَلدُّنْیَا سِجْنٌ لِلْمُؤمِنِ وَ جَنَّۃٌ لِلْکَافِرِ کہ مومن کو اپنی یہ دنیا قید خانہ تصور کرتے ہوئے بدیوں سے دُور رہنا ہے اور نیکوں کے سرمایہ کو اپنی اس زندگی میں سمیٹنا ہے۔ ویسے ہی جیسے بادشاہ نے اپنے محل سے قیمتی اشیاء لے جانے کے لئے درباریوں کو پانچ گھنٹے دیئے تھے۔ ویسے ہی اس محدود زندگی میں نیکیوں کی متاع اکٹھی کرنی ہے۔

حضرت مسیح موعودعلیہ السلام فرماتے ہیں۔
’’دنیا ایک ریل گاڑی ہے اور ہم سب کو عمر کے ٹکٹ دیئے گئے ہیں۔ جہاں جہاں کسی کا اسٹیشن آتا جاتا ہے اس کو اُتار دیا جاتا ہے یعنی وہ مر جاتا ہے۔ پھر انسان کس زندگی پر خیالی پلاؤ پکا تا اور لمبی امیدیں باندھتا ہے۔‘‘

(ملفوظات جلد دوم ص21)

پھر آپ ؑ فرماتے ہیں کہ
قرآن شریف سے ثابت ہوتا ہے کہ جیسے بہشتی زندگی اِس دنیا سے شروع ہو جاتی ہے جہنم کی زندگی بھی یہاں ہی سے شروع ہو جاتی ہے۔ جب انسان حسرت کے ساتھ مرتا ہے تو بہت بڑے جہنم میں ہوتا ہے۔

(ملفوظات جلد دوم ص67)

بعض لو گ اپنی زندگی دنیا کے جھمیلوں میں گزار دیتے ہیں اور آخری وقت کا انتظار کرتے ہیں اور سوچتے ہیں کہ ابھی کافی زندگی پڑی ہے۔ نیکیاں کما لیں گے۔ حضرت مسیح موعو دؑ فرماتے ہیں۔
’’زندگی تو برف کے ٹکڑے کی مثال رکھتی ہے۔ ہزاروں پردوں میں رکھو پگھلتی جاوے گی۔‘‘

(ملفوظات جلد سوم ص223)

پھر فرماتے ہیں۔
’’نجات اورمکتی یہی ہے کہ لذت ہو دکھ نہ ہو۔ دُکھ والی زندگی تو نہ اس جہان کی اچھی ہوتی ہے اور نہ اُس جہان کی۔ جو لوگ محنت کرتے ہیں اور اپنے دلوں کو صاف کرتے ہیں وہ گویا اپنی کھال آپ اُتارتے ہیں۔ اس لئے کہ یہ زندگی تو بہرحال ختم ہو جائے گی۔ کیونکہ یہ برف کے ٹکڑہ کی طرح ہے خواہ اس کو کیسے ہی صندوقوں اور کپڑوں میں لپیٹ کر رکھو لیکن وہ پگھلتی ہی جاتی ہے۔ اسی طرح پر خواہ زندگی کےقائم رکھنے کی کچھ تدبیریں کی جاویں لیکن یہ سچی بات ہے کہ وہ ختم ہو تی جاتی ہیں۔‘‘

(ملفوظات جلد سوم ص 217-216)

اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی زندگیوں کو خدا کے فضلوں، رحمتوں سے آراستہ کرنے کی توفیق عطا ء فرمائے۔ آمین

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 1 جون 2021

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 2 جون 2021