• 8 مئی, 2024

تبلیغ میں پریس اور میڈیا سے کس طرح کام لیا جاسکتا ہے (قسط 27)

تبلیغ میں پریس اور میڈیا سے کس طرح کام لیا جاسکتا ہے
ذاتی تجربات کی روشنی میں (قسط 27)

’’پاکستان ٹوڈے‘‘ اپنی اشاعت 19مئی 2006ء صفحہ17 پر حضرت امیرالمومنین خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ایک خطبہ جمعہ کا خلاصہ شائع کرتا ہے یہ خطبہ جمعہ حضور انور نے 12 مئی 2006ء کو ناگویا جاپان میں ارشاد فرمایا تھا۔ اس خطبہ جمعہ کا عنوان یہ ہے: ’’اللہ تعالیٰ کے فضل کو جذب کرنے کے لئے سب سے پہلا کام اس کے آگے جھکنا، اس کی عبادت کرنا، اس کی طرف توجہ کرنا ہے اور یہ تعلق جوڑنے کے لئے سب سے اہم بات اپنی عبادتوں کی طرف توجہ اور اپنی نمازوں کی حفاظت ہے۔ پاکستان سے آنے والے احمدیوں کو ہر وقت یہ پیش نظر رکھنا چاہئے کہ وہ یہاں اسلام اور احمدیت کے نمائندہ ہیں۔‘‘

اخبار نے جو عنوان لگایا ہے وہ یہ ہے:
(حضرت) مرزا مسرور احمد (صاحب) نے مسلمانوں کو کہا ہے کہ وہ اپنی تمام توجہ عبادات/ نماز کی ادائیگی کی طرف کریں۔

اخبار نے لکھا ہے کہ عالمگیر جماعت احمدیہ مسلمہ کے روحانی لیڈر (حضرت) مرزا مسرور احمد (صاحب) نے جاپان کے شہر ناگویا سے خطبہ جمعہ دیا جو اس ملک کے احمدیہ مسلم جماعت کے جلسہ سالانہ کا موقع تھا۔

اس موقع پر (حضرت) مرزا مسرور احمد (صاحب) نے بانی جماعت احمدیہ (حضرت) مرزا غلام احمد (صاحب) کی خواہش کے مطابق کہا کہ اس ملک میں مذہب کے متلاشی لوگوں کے لئے لٹریچر اور کتب تیار کرنا ہوں گی اور ان تک پہنچانا ہوں گی۔ 1935ء میں اس وقت کے خلیفہ مرزا بشیر الدین محمود احمد نے یہاں جاپان میں مبلغ بھجوائے۔ انہوں نے اپنے وسائل کے لحاظ سے خوب کام کیا۔ پھر جنگ کی وجہ سے حالات بدلے اور جنگ عظیم دوم کی وجہ سے کچھ مشکلات اور روکیں بھی پیدا ہوئیں۔ جنگ کی وجہ سے اس ملک کو بہت نقصان پہنچا۔ لیکن اس باہمت قوم نے اپنے آپ کو سنبھالا اور اقتصادی لحاظ سے انہوں نے پھر بہت ترقی بھی کی۔ دوسری قوموں کی طرح یہاں بھی مادیت کی طرف کافی رجحان بڑھ گیا لیکن اس کے باوجود ان میں مذہب کا احترام بھی پایا جاتا ہے اور پھر اسلام کے بارے میں دلچسپی بھی پائی جاتی ہے۔ (حضرت) مرزا مسرور احمد (صاحب) ن ے مجمع سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ آپ جو احمدی میرے سامنے بیٹھے ہیں ان میں اکثریت پاکستانی احمدیوں کی ہے جنہیں یہاں آکر اس ملک میں کام یا کاروبار کرنے کا موقع ملا۔ چند ایک نے یہاں جاپانی خواتین سے شادیاں بھی کیں۔ بعض نے پاکستانی عورتوں سے بھی شادیاں کیں اکثر جاپانی مرد اور عورتیں جو احمدی ہوئے ہیں وہ خود بھی اور ان کی اولادیں بھی ماشاء اللہ جماعت سے تعلق اور وفا رکھتے ہیں اور اپنے عہد بیعت پر پختگی سے قائم ہیں۔ پھر جب ان کی اولادیں ان شاء اللہ پھیلیں گی تو پھر مزید جڑیں مضبوط ہوں گی۔

حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: پس ہر احمدی کو چاہئے کہ صرف اس بات پر ہی نہ انحصار کریں کہ مبلغین یہ کام کریں گے بلکہ خود اپنے آپ کو اس کام میں ڈالیں۔ فرمایا: آپ لوگ پاکستان سے آنے والے احمدی ہیں جن کے خاندانوں میں احمدیت ایک عرصہ سے آئی ہوئی ہے اور بعض صحابہ کی اولاد میں سے ہیں۔ ان کو ہر وقت یہ پیش نظر رکھنا چاہئے کہ وہ یہاں اسلام اور احمدیت کے نمائندے ہیں۔ آپ میں سے ہر ایک کو حضرت مسیح موعودؑ کی خواہش کو مدنظر رکھنا چاہئے کہ اس قوم کے ہر فرد تک اسلام احمدیت کا پیغام پہنچائے۔ ان لوگوں میں سعید روحیں ہیں جو اس پیغام کو قبول کریں گی۔

حضور نے فرمایا: اپنے آپ کو تبلیغ کے کام میں ڈالنے سے پہلے خود اپنے جائزے بھی لیں کہ کس حد تک خود اس تعلیم پر عمل کر رہے ہیں۔ اپنی اصلاح کی طرف توجہ دیں اللہ تعالیٰ کے ساتھ اپنا تعلق پیدا کریں۔ اپنی زندگیاں اسلام کی تعلیم کے مطابق ڈھالیں۔ آپ لوگوں کےعملی نمونے ہی ان لوگوں کی توجہ اسلام کی طرف کھینچیں گے اور یہ سارا کام نمازوں اور عبادت کے ذریعہ ہی ہو گا۔ اس لئے سب سے پہلا کام آپ لوگوں کایہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے آگے جھکیں اور توجہ کے ساتھ اس کی عبادت کریں اور اللہ تعالیٰ کے ساتھ تعلق جوڑیں۔ پس اپنی نمازوں میں باقاعدگی اختیار کریں اور اس کے مقابلہ میں ہر چیز کو ہیچ سمجھیں اور یہی اللہ تعالیٰ کا حکم ہے اور یہ سب کچھ تبھی ہو سکتا ہے کہ جب آپ خداتعالیٰ کےاحسانوں کو یاد کریںگے اور اللہ تعالیٰ کے شکر گزار بندے بنیں گے۔

آپ نے مزید فرمایا کہ: پس یہ حکم بہت اہمیت کا حامل ہے کہ آپ اللہ تعالیٰ کی عبادت اور نماز کو اس کی شرائط کے ساتھ ادا کرنے والے ہوں اور اس کی تعلیم ہمیں آنحضرت ﷺ کی سنت میں ملتی ہے۔ یہی وہ چیز ہے جو دین و دنیا کی حسنات لانے کا باعث بنیں گی۔

پس یاد رکھیں کہ اب اللہ تعالیٰ ہے جو تمام چیزوں کا مہیا کرنے والا ہے۔ ہر چیز کا وہ مالک ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ میں جس طرح دوسری مخلوق کو رزق دیتا ہوں تمہیں بھی اسی طرح رزق مہیا کرتا ہوں۔ پس ایک احمدی کا یہ کام ہے کہ وہ مستقل مزاجی سے اس کے فضل کو حاصل کرنے کے لئے اس کی عبادت کرتا رہے اس کے آگے جھکا رہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میری عبادت کرو اور اس کے لئے نماز قائم کرو۔ پس اپنی نمازوں کی حفاظت کرنا ہر احمدی کا کام ہے اور یہ ہمارے ہی فائدہ کے لئے ہے۔ (حضرت) مرزا مسرور احمد (صاحب) نے کہا۔

آپ نے احادیث نبویہ ﷺ اور بانی جماعت احمدیہ (حضرت) مرزا غلام احمد (صاحب) کی تحریرات سے اس بات کی طرف مزید توجہ دلائی کہ نماز اور عبادت کا قیام بہت ضروری ہے اس سے تم شیطانی خیالات اور دنیاداری سے بچے رہو گے جو تمہیں ذکرِ الٰہی سے دور رکھتی ہے۔ آپ نے آنحضرت ﷺ کی یہ حدیث پڑھی کہ نماز چھوڑنا کفر کے نزدیک کر دیتا ہے۔ اور نماز چھوڑنے سے نہ انسان صرف کفر کے نزدیک ہو جاتا ہے بلکہ یہ ایک قسم کا شرک بھی بن جاتا ہے۔

آپ نے جماعت احمدیہ کے لوگوں کو اس بات کی طرف توجہ دلاتے ہوئے مزید فرمایا کہ اس کے لئے اپنے بچوں کے دلوں میں خداتعالیٰ کی محبت پیدا کرنی ہوگی اور انہیں نماز باجماعت کا عادی بنانا ہو گا اور یہ سب کچھ آپ تب کر سکتے ہیں جب خود اپنا عملی نمونہ دکھاؤ گے اور خداتعالیٰ سے اگر تمہارا پختہ تعلق نہیں ہے تو پھر یہ بھی مشکل ہو جائے گا۔

نماز اور عبادت کی اہمیت کے بعد آپ نے مالی قربانی کی طرف بھی توجہ دلائی کہ اس زمانے میں جو حضرت مسیح موعود بانی جماعت (حضرت) مرزا غلام احمد (صاحب) قادیانیؑ کا زمانہ ہے، میں مالی قربانی کی اہمیت اور بڑھ جاتی ہے کیونکہ اس کے ذریعہ اصلاح نفس اور تزکیہ ہوتا ہے۔

آپ نے آنحضرت ﷺ کی یہ حدیث بھی سنائی کہ ایک شخص نے آپؐ سے سوال کیا کہ مجھے کوئی ایسی نیکی بتائیں جس کے کرنے سے میں جنت میں چلا جاؤں اور آگ سے دور رہوں۔ آپؐ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کر، اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک مت بناؤ۔ نماز پڑھو اور زکوٰۃ دو، صلہ رحمی کرو یعنی اپنے رشتہ داروں سے حسن سلوک کرو۔

آپ نے فرمایا کہ اوپر جو حدیث بیان کی گئی ہے اس میں نماز، عبادت اور مالی قربانی کی طرف توجہ دینے کے علاوہ ایک اور بات کی طرف بھی آپ نے توجہ دلائی ہے اور وہ یہ کہ صلہ رحمی کرو یعنی اپنے قریبیوں سے، رحمی رشتہ داروں سے نیک اور اچھا سلوک کرو۔ ان رحمی رشتہ داروں میں میاں بیوی کے ایک دوسرے کے رحمی رشتہ دار بھی شامل ہیں۔ ان کا بھی خیال رکھناچا ہئے۔ خاص طور پر جن لوگوں نے یہاں شادیاں کی ہوئی ہیں وہ اس بات کو خاص اہمیت دیں۔ا یک دوسرے کا خیال رکھنے سے، اپنے عملی نمونے قائم کرنے سے تبلیغ کے میدان بھی وسیع ہوں گے اور آپ کا آپس میں پیار و محبت بھی بڑھے گا اور صحیح طور پر نئی نسلوں کی تربیت بھی ہو گی۔ حضور نے آخر میں دعا کی کہ خدا کرے ہم میںسے ہر ایک حضرت مسیح موعودؑ کی اس خواہش اور دعا سے حصہ پانے والا ہو اور اگر کوئی کمزوری ہے تو دعا کرے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اسے دور کرنے کی توفیق دے اور ان جلسہ کے دنوں میں خدا سے خاص مدد مانگیں۔

’’انڈیا ویسٹ‘‘ کی اشاعت 5 مئی 2006ء صفحہ C40 پر ہماری ¼ صفحہ کی ایک تصویر کے ساتھ خبر شائع ہوئی ہے جس کا عنوان ہے ’’احمدی نوجوان اجتماع میں شریک ہوئے ہیں‘‘ تصویر میں خاکسار ایک طفل کو انعام دے رہا ہے اور اس تصویر کے نیچے اخبار نے لکھا ہے کہ ایک طفل امام شمشاد ناصر سے اجتماع میں شمولیت پر اپنا انعام حاصل کرتے ہوئے۔ اخبار لکھتا ہے کہ حال ہی میں احمدی نوجوانوں نے اپنا سالانہ اجتماع لاس اینجلس میں منعقد کیا۔ نوجوانوں نے علمی اور ورزشی مقابلہ جات میں بھی حصہ لیا۔ علمی مقابلہ جات میں تلاوت قرآن، تقارریر تھیں جبکہ ایک سیشن سوال و جواب کا بھی تھا۔ امام شمشاد ناصر نے نوجوانوں کو نصیحت کرتے ہوئے کہا کہ وہ سوسائٹی میں پیار محبت، نرمی اور برداشت جیسے اخلاق کو اپناتے ہوئے ہر ایک کے ساتھ بلاامتیاز مذہب و قومیت کے رہیں۔ سوال وجواب کے سیشن میں جہاد، نماز اور تلاوت جیسے موضوع پر گفتگو ہوئی۔ ورزشی مقابلہ جات میں والی بال اور نظموں کا مقابلہ بھی ہوا۔

چینو ہل چیمپئن نے 27 مئی 2006ء صفحہ B-5 پر مختصراً ایک خبر دی ہے جس کا عنوان تھا:

’’مسلم لیڈر نے سمپوزیم میں حصہ لیا‘‘

اخبار لکھتا ہے کہ احمدی مسلم ساؤتھ کیلیفورنیا کے امام سید شمشاد احمد ناصر نے UC اروائن۔

(یونیورسٹی آف کیلیفورنیا جو اروائن میں واقع ہے) میں گزشتہ ہفتے ایک سیمینار میں شرکت کی۔ اس سیمینار کا مرکزی نقطہ یہ تھا کہ ’’کیا مذہب اور امن اکٹھے چل سکتے ہیں؟‘‘

نوٹ: عوام کا خیال ہے کہ یہ سارا شورشرابا، دہشت گردی، لوٹ کھسوٹ، ماردھاڑ، جنگ وغیرہ مذہب کی وجہ سے ہو رہا ہے۔ اس وجہ سے اکثر لوگ مذہب سے بیزاری کا یہاں اظہار کر رہے تھے کیونکہ ہم جہاں بھی تبلیغ کے لئے گئے ہیں خصوصاً پڑھے لکھے طبقے میں، مثلاً سکول، کالج، یونیورسٹی میں، لوگ یہی سوال کرتے ہیں کہ اگر اسلام امن سکھاتا ہے تو پھر جہاں جہاں اسلامی حکومتیں ہیں اور وہ خود مسلمان ہیں تو پھر وہاں کیوں امن قائم نہیں ہے؟ جب وہ خود اسلام پر عمل کرکے امن حاصل نہیں کر سکتے تو ہمیں کیا تبلیغ کی جاتی ہے؟ اس سلسلے میں ہمیشہ افغانستان، پاکستان، ایران، سعودی عرب، شام، عراق، لیبیا کی مثالیں دی جاتی رہی ہیں۔ کیونکہ یہ سب اسلامی ملک ہیں۔ یہاں پر اسلامی حکومتیں ہیں اور سب مسلمان ہیں۔ یہ ایک دوسرے کو قتل کر رہے ہیں اس وجہ سے لوگ ایسے سوال کرتے ہیں۔ اوراس سیمینار کی بھی یہی وجہ تھی ۔ چنانچہ اخبار نے لکھا کہ دنیا کے معروف مذاہب میں یہودی مذہب کے عالم Rabbi Yonahg نے اور عیسائی پادری چارلس ڈورسی نے عیسائی مذہب سے اپنے اپنے نظریات پیش کئے۔ خاکسار نے جماعت احمدیہ کا نظریہ پیش کیا۔

نیوز ایشیا نے اپنی اشاعت صفحہ 1B-2B سیکشن B میں ایک تصویر کے ساتھ یہ خبر دی:

احمدی مسلم سٹوڈنٹ ایسوسی ایشن نے یونیورسٹی آف کیلیفورنیا میں سمپوزیم کیا۔

تصویر میں خاکسار تقریر کر رہا ہے اور سامعین (طلباء) اور دیگر یونیورسٹی کے منتظمین سن رہے ہیں۔

اخبار لکھتا ہے کہ احمدیہ طلباء نے یونیورسٹی کے سوشل سائنس پلازہ آڈیٹوریم میں سمپوزیم کیا جس کا عنوان تھا کہ کیا مذہب اور امن دونوں ایک ساتھ چل سکتے ہیں؟ مکرم اعجاز سید صاحب جو کہ احمدیہ مسلم سٹوڈنٹ کے صدر تھے، نے اس بات پر زور دیا کہ تمام مذاہب میں امن کی تعلیم ہے جس سے یہ کہا جا سکتا ہے کہ مذہب امن کی تعلیم دیتا ہے۔ اس موقعہ پر سمپوزیم کے شروع میں تلاوت قرآن کریم سے آغاز کیا گیا جو مکرم نعمان مبشرصاحب نے کی۔ مکرم نعیم محمدصاحب جو کہ خدام الاحمدیہ میں طلباء کے مہتمم تھے نے سب مہمانوں کو خوش آمدید کہا۔ اس موقعہ پر 100 سے زائد حاضری تھی۔

مکرم نعیم محمدصاحب نے مزید کہا کہ احمدیہ سٹوڈنٹ ایسوسی ایشن اپنی ذات میں ایک منفرد تنظیم ہے جسے مجلس خدام الاحمدیہ کا نام دیا جاتا ہے۔ اس کا مقصد یہ ہے کہ وہ لوگوں میں مذہب کی امن کی تعلیم کو زیادہ سے زیادہ روشناس کرائے۔ انہوں نے کہا کہ ہمارا مشن اور وژن ایک ہی ہے اور وہ ہے بھی بہت سادہ اور آسان جو کہ یہ ہے کہ محبت سب کے لئے نفرت کسی سے نہیں۔

اس کے بعد ربائی یوناہ آف لانگ بیچ نے مذہب یہودیت میں اپنی امن کے بارے میں تعلیمات کو پیش کیا اور بتایا کہ ہاں امن اور مذہب ایک ساتھ چلتے ہیں اور آپ سب کے ساتھ مل کر ہم یہ حاصل کر سکتے ہیں۔ یہودی ہونے کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ ہمیں کم از کم دن میں 3 مرتبہ عبادت اور دعا کرنی چاہئے۔ ان کے بعد منسٹر چارلس ڈورسی نے عیسائیت کی طرف سے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ انہوں نے کہا کہ اگر ہم امن حاصل کرنا چاہتے ہیں تو پہلے ہمیں ایک دوسرے کو سمجھنے کی بھی کوشش کرنی چاہئے اور امن کا سفر طے کرنے کے لئے آپس میں مل جل کر گفتگو کی بھی ضرورت ہے۔

احمدیہ مسلم کمیونٹی کے امام شمشاد ناصر نے کہا کہ اسلام کے تو معانی ہی ’’امن‘‘ کے ہیں اور جب ایک مسلمان دوسرے کو مل کر السلام علیکم کہتا ہے تو وہ اس بات کی گارنٹی دے رہا ہوتا ہے کہ میری طرف سے آ پ کو سوائے امن کے اور کوئی پیغام نہیں ہے۔ ہمارا مذہب اسلام ہمیں امن ہی سکھاتا ہے۔ جہاں دوسرے مذاہب امن کی تعلیم دیتے ہیں وہاں اسلام امن کی تعلیم دینے کے ساتھ ساتھ عملی پہلو کی طرف بھی توجہ دلاتا ہے اور وہ یہ کہ خدا کے حقوق ادا کرنے کے ساتھ ساتھ بنی نوع کے حقوق بھی ادا کریں۔

امام شمشاد نے تقریر جاری رکھتے ہوئے مزید کہا کہ ہر شخص کو جہاں یہ حکم ہے کہ امن کو پھیلائے وہاں اسے یہ بھی حکم ہے کہ وہ اپنے نفس سے اس بات کو یقینی بنائے کہ وہ خود اس تعلیم پر عمل کر رہا ہے۔ امن کے لئے دعا بھی کرنی چاہئے اور پانچ نمازوں میں مسلمان امن کی دعا کرتا ہے۔ اسے دوسروں کے حقوق بھی ادا کرنا چاہئیں۔ امن تب قائم ہو گا جب انسان خود عمل کرے۔ پھر ماں باپ، بہن بھائیوں، بیوی بچوں، ہمسایوں اور کمیونٹی کے لوگوں کے ساتھ امن کے ساتھ رہے اور اس طرح عالمی امن کے قیام میں مدد ہو سکتی ہے۔

تینوں تقاریر کے اختتام پر سوال و جواب کا سیشن بھی ہوا۔ دعا پر سمپوزیم کا اختتام ہوا جو امام شمشاد ناصر نے کروائی۔

ڈیلی بلٹن نے 25 مئی 2006ء صفحہ A3 پر ہمارے مختصراً خبر دی ہے۔ اور خبر کا عنوان یہ لگایا:

’’مذہبی لیڈر اروائن کی یونیورسٹی آف کیلیفورنیا میں امن کے قیام پر متفق‘‘

اخبار نے لکھا کہ جماعت احمدیہ بیت الحمید مسجد کے امام سید شمشاد احمد ناصر آف چینو نے حال ہی میں ایک سمپوزیم میں شرکت کی جو اروائن کی یونیورسٹی میں ہوا تھا۔ اس کا مرکزی خیال ’’امن اور مذہب اکٹھے ہو سکتے ہیں‘‘ تھا۔ اس سمپوزیم کا انتظام احمدیہ مسلم طلباء نے کیا تھا۔ اس موقعہ پر ربائی یونا اور منسٹر چارلس ڈورسی نے تقاریر کیں۔ امام شمشاد ناصر نے کہا کہ ہمیشہ امن اور مذہب اکٹھے چلتے ہیں اس کے لئے چاہئے کہ ہم بھی اکٹھے رہیں اور امید کو ہاتھ سے نہ چھوڑیں اور اس قسم کے سمپوزیم مزید کرتے رہنا چاہئے تا لوگوں کے اندر بیداری اور احساس ذمہ داری پیدا ہو۔ یہ خبر میسن سٹاک سٹل نے دی۔

دی مسلم ورلڈ ٹوڈے نے اپنی اشاعت 26 مئی 2006ء میں صفحہ 17 پر حضرت امیرالمومنین خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے خطبۂ جمعہ فرمودہ 19 مئی 2006ء کا خلاصہ شائع کیا ہے۔ یہ خطبۂ جمعہ حضور انورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے سنگاپور، آسٹریلیا، جاپان، فجی اور نیوزی لینڈ کے تاریخی دورہ کے بعد مسجد بیت الفتوح میں ارشاد فرمایا تھا۔

اخبار نے خطبہ کے شروع میں یہ لکھا کہ حضرت مرزا مسرور احمد صاحب نے فرمایا کہ اگر مسلمان کا عمل چاہے وہ اسلام کے نام پر کرے یا ذاتی حیثیت سے کرے اگر اس کا کوئی بھی فعل معاشرے کے امن کو نقصان پہنچانے والا ہو تو تم لوگ فوراً اسے اسلام کے کھاتے میں ڈال دیتے ہو۔ لیکن وہی حرکت اگر دوسرے مذاہب والے کریں تو اس کو اس کے مذاہب کے نام سے منسوب نہیں کیا جاتا۔ اس وجہ سے اخبار نے اپنی ہیڈنگ میں لکھا کہ ’’تضاد‘‘

اخبار نے مندرجہ بالا ہیڈ لائن دینے کے بعد لکھا کہ حضرت مرزا مسرور احمدصاحب احمدیہ مسلم کمیونٹی کے عالمگیر روحانی پیشوا نے خطبۂ جمعہ میں اپنے دورہ ٔآسٹریلیا اور جاپان اور دیگر ممالک کے دورہ جات کے بارہ میں مختصراً خاکہ پیش کیا۔

آپ نے فرمایا کہ ہمارے سفر کی پہلی منزل سنگا پور تھی۔ یہاں پر ایک چھوٹی جماعت مگر مخلص جماعت ہے۔ آپ نے فرمایا کہ انڈونیشیا میں بھی حالات آجکل خراب ہیں اس لئے وہاں جانا مشکل تھا لیکن انڈونیشیا سے کافی تعداد میں احمدی یہاں آگئے ہیں اور اس بات پر ان کی کیفیت بھی جذباتی تھی کہ وہاں دورہ پر میں نہیں جا سکا۔ انڈونیشیا کے احمدی بھی اخلاص و وفا میں خداتعالیٰ کے فضل سے بڑھے ہوئے ہیں اور خداتعالیٰ کے فضل سے اخلاص و وفا کے یہ نمونے حضرت مرزا غلام احمدؑ کی جماعت ہی میں دیکھے جا سکتے ہیں۔ یہ سب آج مسیح محمدیؐ کی قوت قدسی کا اثر ہے جو اس نے اپنے آقا و مطاع حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کی پیروی سے پائی ہے کہ ہر ملک میں مختلف قومیتوں اور قبیلوں سے تعلق رکھنے والے لوگ حضرت مسیح موعودؑ اور آپ کے بعد خلافت سے سچی وفا کا تعلق رکھتے ہیں۔

اخبار لکھتا ہے کہ حضرت مرزا مسرور احمدصاحب نے اپنے خطبہ میں حضرت مرزا غلام احمد علیہ السلام کی تحریرات سے یہ اقتباس پڑھا :
’’تیرہ سو برس میں ایسا زمانہ منہاج نبوت کا اور کس نے پایا؟ اس زمانے میں جس میں ہماری جماعت پیدا کی گئی ہے کئی وجوہ سے یہ صحابہ سے مشابہت رکھتی ہے۔ وہ خدا کے کھلے کھلے نشانوں اور آسمانی مددوں اور حکمت کی تعلیم سے پاک زندگی حاصل کرتے ہیں جیسا کہ صحابہؓ نے حاصل کی۔ بہتیرے ان میں سے ایسے ہیں کہ نماز میں روتے اور سجدہ گاہوں کو آنسوؤں سے تر کرتے ہیں جیسا کہ صحابہ رضی اللہ عنہم روتے تھے بہتیرے ان میں سے ایسے ہیں کہ اپنی محنت سے کمائے ہوئے مالوں کو محض خداتعالیٰ کی مرضات کے لئے ہمارے سلسلہ کے لئے خرچ کرتے ہیں جیسا کہ صحابہ رضی اللہ عنہم خرچ کرتے تھے ان میں سے ایسے لوگ پاؤ گے جو دلوں کے نرم سچی تقویٰ پر قدم مارتے ہیں جیسا کہ صحابہؓ کی سیرت تھی وہ خدا کا گروہ ہے جن کو خدا آپ سنبھال رہا ہے اور دن بدن ان کے دلوں کو پاک کر رہا ہے اور ان کے سینوں کو ایمانی حکمتوں سے بھر رہا ہے۔ غرض اس جماعت میں وہ ساری علامتیں پائی جاتی ہیں جو آخری زمانے میں ان میں پائی جانی ضروری تھیں۔

انڈونیشا کے احمدیوں کا ذکر کرتے ہوئے آپ نے فرمایا کہ ان کے سینوں کو اللہ تعالیٰ ایمانی حکمتوں سے بھر رہا ہے اور ہر جگہ یہی نظارے دیکھنے میں آئے۔ آپ نے فرمایا کہ بعض دوسرے ممالک سے بھی لوگ آئے ہوئے تھے۔ فلپائن، کمبوڈیا، پاپوانیوگنی، تھائی لینڈ اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے سب اخلاص و وفا کے نمونے دکھانے والے تھے۔ بعض چند سال پہلے احمدی ہوئےتھے لیکن خلافت سے تعلق اور وفا کا جو اظہار تھا وہ دیکھ کر حیرت ہوتی تھی ان کو دیکھ کر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ان الفاظ کی سچائی ثابت ہوتی ہے کہ وہ خدا کا گروہ ہیں جن کو خدا آپ سنبھال رہا ہے۔

حضورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے آسٹریلیا کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ یہاں پر دو ہفتے کا پروگرام تھا لیکن محسوس ہوتا تھا کہ دو ہفتے بھی کم ہیں۔ کیونکہ یہ ایک بڑا ملک ہے اور کئی جگہ کا وزٹ بھی نہیں ہو سکا۔ سڈنی میں حضورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزکا خطاب تھا جس کا عنوان تھا:

’’اسلام امن کا مذہب‘‘

اسے لوگوں نے بہت پسند کیا۔

کینبرا میں جو استقبالیہ تھا اس میں بہت سے سیاسی عمائدین اور حکومت کے وزراء اور پڑھے لکھے تعلیم یافتہ طبقہ کے لوگ شامل ہوئے۔ یہاں پر بھی اسلام میں امن کے بارے میں تعلیمات کو بیان کیا گیا۔

اس موقع پر حضور نے یہ بھی بیان کیا کہ اگر کوئی مسلمان غلط حرکت کرتا ہے تو آپ اسے مذہب اسلام کی طرف منسوب کر دیتے ہو حالانکہ اگر وہی کام دوسرے لوگ کریں تو آپ ان کے مذہب کی طرف اسے منسوب نہیں کرتے۔ یہ آپ لوگوں کا تضاد ہے۔

اخبار لکھتا ہے کہ ایک اسلامی ملک کے سفیر نے آسٹریلیا کے امیر کو بتایا کہ یہ بڑی سچی بات تھی جو حضور نے کی ہے۔ لیکن ایسے بڑے مجمع میں جہاں بڑے بڑے ملکوں کے نمائندے ہوں تم لوگ ہی یہ کہہ سکتے ہو۔ ہم میں تو اتنی جرأت نہیں۔

حضور نے فرمایا کہ اگر یہ لوگ بھی آنحضرت ﷺ کے غلام صادق کو مان لیں تو ان کے اندر بھی ایسی جرأت پیدا ہو جائے گی۔

حضور نے فرمایا کہ اس لیکچر کے دوران پادری بھی آئے ہوئے تھے۔ وہ وہاں کے بڑے چرچوں کے نمائندے تھے۔ انہوں نے بھی مجھے بعد میں کہا کہ بات تو تم نے ٹھیک کی ہے کہ مسلمانوں کی ہر غلط حرکت اسلام کے کھاتے میں ڈال دی جاتی ہے اور باقی مذہب والوں سے ایسا سلوک نہیں ہوتا۔ ان کے دلوں پر کیا بیتی ہے یہ تو اللہ بہتر جانتا ہے لیکن کافی دیر تک اچھے دوستانہ ماحول میں باتیں ہوتی رہیں۔

اخبار مزید لکھتا ہے کہ حضرت مرزا مسرور احمدصاحب نے تاوے یونی جگہ کا وزٹ بھی کیا جہاں سے ڈیٹ لائن گزرتی ہے۔

فجی میں صووا جو ان کا دارالحکومت ہے، اس میں بھی ایک پڑھے لکھے طبقہ میں جس میں سرکاری افسران بھی تھے اور بعض ملکوں کے سفراء بھی استقبالیہ پر بلایا ہوا تھا بلکہ اس ملک کے نائب صدر جو ان دنوں قائمقام صدر تھے، وہ بھی اس میں آئے۔ یہاں پر بھائی چارے کے متعلق اسلام کی خوبصورت تعلیم بیان کی گئی۔

اخبار نے لکھا کہ حضرت مرزا مسرور احمد صاحب جب کہ فجی ہی میں تھے آپ نے سونامی کے بارے میں وارننگ سنی اور اس وقت صبح کی نماز کا وقت تھا۔ اس دن نیوزی لینڈ بھی جانا تھا۔ خبروں میں جو بی بی سی کے ذریعہ سے میں تفصیل سن رہا تھا اس سے پتہ لگتا تھا کہ ٹونگا، جس کے قریب یہ زلزلہ آیا تھا، وہ صفحہ ہستی سے مٹ جائے گا۔ اس سےبہت فکر پیدا ہوئی کیونکہ یہ بالکل پلین جگہ ہے اور پہاڑی جگہ بالکل نہیں ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے فضل فرمایا۔ نماز پڑھ کر جب واپس آئے تو خبر تھی کہ سب محفوظ ہے اور خطرہ ٹل گیا ہے۔ (الحمد للہ)

اخبار نے لکھا کہ آپ خداتعالیٰ کے شکرگزار تھے کہ یہ خطرہ ٹل گیا کیونکہ اس سے بہت زیادہ تباہی آنی تھی۔ اللہ کرے کہ دنیا امام وقت کو پہچان لے اور ان آفات سے محفوظ ہو جائے۔ ورنہ یہ طوفان اور تباہیاں جو یہاں آرہی ہیں یہ صرف ابھی وارننگ کے طور پر ہیں۔ اگر آج بھی خدا کو نہ پہچانا تو یہ تباہیاں دوبارہ آسکتی ہیں کیونکہ بانیٔ جماعت احمدیہ نے فرمایا ہے کہ نہ جزائر محفوظ رہیں گے، نہ یورپ محفوظ رہے گا۔ نہ امریکہ محفوظ رہےگا، نہ ایشیا محفوظ رہے گا۔ خدا ان لوگوں کو عقل دے اور سمجھ دے اور وہ اپنے خدا کو پہچاننے والے ہوں۔

فجی کے بعد نیوزی لینڈ کا دورہ تھا۔ یہاں پر بھی جماعت خداتعالیٰ کے فضل سے بڑھ رہی ہے اور اکثریت فجین احمدیوں کی ہے۔ یہاں ابھی کوئی مبلغ نہیں ہے مگر انہوں نے اپنے آپ کو سنبھالا ہوا ہے۔ یہاں پر ½ 2 ایکڑ زمین خریدی ہوئی ہے جس پر دو ہال ہیں۔ دفتر لائبریری ہے اور یہاں پر نمازیں بھی پڑھی جاتی ہیں۔ یہاں پر بھی استقبالیہ ہوا تھا جس میں حکومتی سطح کے نمائندے شامل ہوئے۔ ایک حکومتی نمائندہ نے کہا ہے کہ وہ یہاں پر مسجد بنوانے میں تعاون کرے گا۔ خدا کرے کہ ان وزیر کو اپنا وعدہ یاد رہے۔ یہاں پر مشنری آجائے تو پھر کام بہتر رنگ میں ہو سکتا ہے۔

آپ نے فرمایا کہ نیوزی لینڈ میں ڈاکٹر کلیمنٹ ریگ کے پوتے اور پوتی سے بھی ملنے کا موقع ملا۔ یہ ڈاکٹر 1908ء میں ہندوستان آئے تھے۔ یہ وہاں اسٹرانومی پر لیکچر دیتے تھے۔ پھر یہ حضرت مسیح موعودؑ سے ملے اور اللہ تعالیٰ، روح اور کائنات سے متعلق انہوں نے آپؑ سے سوالات کئے۔

اس گفتگو کے بعد ڈاکٹر صاحب نے حضورؑ کو عرض کیا کہ میں تو سمجھتا تھا کہ سائنس اور مذہب میں بڑا تضاد ہے مگر آپ نے تو اس تضاد کو بالکل اٹھا دیا ہے۔ا س پر حضرت مسیح موعودؑ نے فرمایا کہ یہی تو ہمارا کام ہے اور یہی تو ہم ثابت کر رہے ہیں کہ سائنس اور مذہب میں بالکل اختلاف نہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ملاقات کا ان پر بہت اثر تھا اور وہ پھر مسلمان ہو گئے تھے۔ ان کی پوتی نے بتایا کہ ہندوستان سے واپس آکر انہوں نے دوسری شادی کی کیونکہ پہلی بیوی نے علیحدگی لے لی تھی۔ اور ہم ان کی دوسری بیوی کی نسل سے ہیں۔ حضور نے ان سے دریافت فرمایاکہ وہ کس طرح مسلمان ہوئےکب بیعت کی؟ انہوں نے بتایا کہ ان کے بہت سارے کاغذات تھے لیکن وہ سب جل گئے ہیں سارا ریکارڈ ضائع ہو گیا تھااور خط و کتابت محفوظ نہیں ہے۔ بہرحال انہیں بھی لٹریچر دیا گیا اور جماعت کو بھی ان سے رابطہ رکھنے کی ہدایت کی گئی۔ اخبار نے لکھا کہ آپ کے سفر کا آخری ملک جاپان تھا یہاں پر لوکل جماعت کی تربیت اور روحانیت کی طرف توجہ دلائی گئی۔ آپ نے فرمایا کہ آپ نےلوکل جاپانی احمدیوں میں خدا تعالیٰ کے فضل سے کافی تبدیلی محسوس کی اللہ کرے یہ لوگ بھی اپنی قوم میں حقیقی اسلام پہنچانے کا ذریعہ بن جائیں اور حضرت مسیح موعودؑ کی خواہش پوری ہو کہ ان لوگوں کا رجحان مذہب کی طرف ہے۔

جاپان میں بھی ایک استقبالیہ ہوا جس میں ممبرز آف پارلیمنٹ شامل ہوتے تھے۔ انہوں نے بتایا کہ ہم اسلام کے بارے میں کچھ زیادہ نہیں جانتے جس کی وجہ سے بعض اوقات مغرب کے لوگوں کے زیر اثر آجاتے ہیں۔ اللہ کرے وہاں کی جماعت اپنی اس ذمہ داری کو سمجھے اور اسلام کا پیغام پہنچانے کا حق ادا کرنے والی بنے۔

الاخبار نے اپنی اشاعت 25 مئی 2006ء کے صفحہ21 پر حضرت امیرالمومنین خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے خطبۂ جمعہ کا خلاصہ عربی میں حضور کی تصویروں کے ساتھ نصف سے زائد صفحہ پر پیش کیا۔ اور اس کے ساتھ ہی ¼ صفحہ پر ہماری طرف سے مسجدبیت الحمید کی تصویر اور دیگر معلومات پر مبنی اشتہار بھی شائع کیا۔ حضور انور کے خطبۂ جمعہ کا عنوان تھا: ’’انسان کی پیدائش کا مقصد‘‘

آپ نے یہ خطبہ 7 اپریل 2006ء کو مسجد طٰہٰ سنگاپور میں ارشاد فرمایا تھا۔

حضور نے فرمایا اور اخبار نے لکھا:
آج کل دنیا میں ہم قسم ہا قسم کی ایجادیں دیکھ رہے ہیں۔ دنیا کا ایک بہت بڑا حصہ اپنے پیدا کرنے والے رب کو بھول چکا ہے حالانکہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو اس لئے تو پیدا نہیں کیا تھا کہ وہ صرف دنیا کی خوبصورتیوں اور آرام اور ایجادات کے پیچھے پڑا رہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کی پیدائش کا مقصد تویہ بیان فرمایا تھا وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ (الذاريات 57) اس آیت کی تشریح میں حضرت مسیح موعودؑ نے فرمایا ہے:
میں نے جن اور انسان کو اسی لئے پیدا کیا ہے کہ وہ مجھے پہچانیں اور میری پرستش کریں۔

حضور نے فرمایا کہ ہر انسان کو براہ راست تو اللہ تعالیٰ حکم نہیں دیتا بلکہ اپنی سنت کے مطابق انبیاء بھیجتا ہے جو مختلف قوموں میں آتے رہے اور اللہ تعالیٰ کی عبادت کی تعلیم دیتے رہے۔ جب اللہ تعالیٰ نے دیکھا کہ انسان اپنی استعدادوں کے لحاظ سے اس قابل ہو گیا ہے کہ وہ روحانیت کے اعلیٰ معیار حاصل کر سکے تو آنحضرت ﷺ کو آخری شریعت کے ساتھ بھیجا۔ اور دین مکمل کرنے اور اپنی نعمتوں کو انتہاء تک پہنچنے کا اعلان فرمایا۔ لیکن آنحضرت ﷺ نے یہ اعلان بھی فرمایا کہ کچھ عرصہ بعد امت مسلمہ پر اندھیرا زمانہ آئے گا پھر آنحضرت ﷺ کے ایک عاشق صادق کو اللہ تعالیٰ دنیا میں بھیجے گا جو مسیح و مہدی ہو گا جو ایسا نبی ہو گا جو آپ کی پیروی میں آنے والا نبی ہو گا اور پھر وہ امت مسلمہ میں روحانیت کے نور کی کرنیں بکھیرے گا اور تمام مذاہب اور اقوام کو ایک ہاتھ پر جمع کر دے گا۔ اور وہ اس زمانے میں جب مادیت کا دور دورہ ہو گا بندے کو خدا سے ملانے کی طرف توجہ دلائے گا اور آنحضرت ﷺ نے بھی مسلمانوں کو ایک حدیث شریف میں اس بات کی طرف توجہ دلائی ہے کہ جب وہ (امام مہدی۔ مسیح موعود) آئے تو چاہے برف پر گھٹنوں کے بل بھی جانا پڑے۔ اسے جا کر میرا سلام کہنا کیونکہ وہی اللہ کا پہلوان ہے جو دنیا کو خدا سے ملائے گا۔ آپ نے فرمایا پس ہم احمدی خوش قسمت ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں توفیق دی کہ ہم نے آنحضرت ﷺ کے عاشق صادق اور خدا کے پہلون کو پہچانا۔ اور اس کی جماعت میں شامل ہوئے لیکن ہمارا اس جماعت میں شامل ہونا تبھی فائدہ دے گا جب ہم اپنے اندر پاک تبدیلیاں پیدا کریں گے اور اپنے مہربان رحمان اور رحیم خدا کے آگے جھکیں گے آجکل اس مادی دنیا میں بے شمار ایسی چیزیں ہیں جو ہمیں خدا سے دور لے جارہی ہیں۔ حضورانور نے فرمایا۔

آپ نے مزید فرمایا کہ آج کل دنیا میں، معاشرے میں ہر جگہ اور ہر ملک میں بے حیائی زیادہ پھیل رہی ہے۔ عورت مرد کو حدود کا احساس بالکل مٹ گیا ہے۔ مکس پارٹیاں ہو رہی ہیں۔ مغرب کی نقل میں بدن بھی پورا ڈھکا نہیں ہوتا یہ ساری اس زمانے کی بیہودگیاں ہیں جو معاشرے میں راہ پارہی ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ یہی حیاء کی کمی پھر آہستہ آہستہ انسان کے دل سے مسلمان ہونے کے احساس کو ختم کر دیتی ہے اور جب انسان خدا تعالیٰ کے چھوٹے سے حکم کو ٹالتا ہے تو پھر دوسرے احکامات کو بھی تخفیف کی نظر سے دیکھتا ہے آپ نے اس کی مثال میں فرمایا کہ اب آہستہ آہستہ حجاب ختم ہوتا جارہا ہے۔ اور اس طرح آہستہ آہستہ اللہ تعالیٰ کی عبادت سے بھی دوری ہوتی چلی جارہی ہے۔ اس لئے اس زمانے میں آپ نے فرمایا: ’’خاص طور پر نوجوان نسل کو بہت احتیاط کرنی چاہئے۔ ہر وقت دل میں یہ احساس رکھنا چاہئے کہ ہم اس شخص کی جماعت میں شمار ہوتے ہیں جو آنحضرت ﷺ کی پیشگوئیوں کے مطابق بندے کو خدا کے قریب کرنے کا ذریعہ بن کر آیا تھا۔ پس اگر اسے منسوب ہونا ہے تو پھر اس کی تعلیم پر بھی عمل کرنا ہو گا اور وہ تعلیم ہے کہ قرآن کریم کے چھوٹے سے چھوٹے حکم کی بھی تعمیل کرنی ہے۔‘‘

حضورانور نے حضرت مسیح موعودؑ کی اپنے خطبہ میں یہ تحریر بھی پیش فرمائی اور اخبار نے لکھا :
’’یاد رکھو نری بیعت سے کچھ نہیں ہوتا۔ اللہ تعالیٰ اس رسم سے راضی نہیں ہوتا جب تک کہ حقیقی بیعت کے مفہوم کو ادا نہ کرے اور اس وقت تک یہ بیعت، بیعت نہیں نری رسم ہے اس لئے ضروری ہے کہ بیعت کے حقیقی منشاء کو پورا کرنے کی کوشش یعنی تقویٰ اختیار کرو۔ قرآن شریف کو خوب غور سے پڑھو اور اس پر تدبر کرو اور پھر عمل کرو کیونکہ سنت اللہ یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ نرے اقوال اور باتوں سے کبھی خوش نہیں ہوتا۔ بلکہ اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے واسطے ضروری ہے کہ اس کے احکام کی پیروی کی جاوے۔ اور اس کے نواہی سے بچتے رہو اور یہ ایک ایسی صاف بات ہے کہ ہم دیکھتے ہیں کہ انسان بھی نری باتوں سے خوش نہیں ہوتا بلکہ وہ بھی خدمت ہی سے خوش ہوتا ہے۔ سچے مسلمان اور جھوٹے مسلمان میں یہی فرق ہوتا ہے کہ جھوٹا مسلمان باتیں بناتا ہے کرتا کچھ نہیں۔ اور اس کے مقابلہ میں حقیقی مسلمان عمل کر کے دکھاتا ہے باتیں نہیں بناتا پس جب اللہ تعالیٰ دیکھتا ہے کہ میرا بندہ میرے لئے عبادت کر رہا ہے اور میرے لئے میری مخلوق پر شفقت کر رہا ہے تو اس وقت اپنے فرشتے اس پر نازل کرتا ہے اور سچے اور جھوٹے مسلمان میں جیسا کہ اس کا وعدہ ہے فرقان رکھ دیتا ہے۔‘‘

حضورانور نے مزید فرمایا کہ: پس ہر احمدی کا فرض ہے کہ وہ سچا مسلمان بننے کی کوشش کرے۔

نوٹ: خاکسار نے شروع میں لکھا تھا کہ اخبار کی اس اشاعت اور اس صفحہ پر ہمارا ایک اشتہار بھی عربی زبان میں مسجد بیت الحمید کی تصویر اور پتہ اور فون نمبرز کے ساتھ شائع ہوا ہے۔ اس اشتہار کا عنوان یہ ہے کہ اسلام اور عصر حاضر کے بارہ میں مسائل کا حل اور مکمل معلومات۔

مسجد میں روزانہ پانچ نمازیں، جمعہ، بچوں کی سنڈے کلاس، درس القرآن بعد نماز مغرب ہم تمام مسلمانوں کو مسجد میں خوش آمدید کرتے ہیں۔ اسی طرح تمام مذاہب کے لیڈرز اور ماننے والوں کو بھی مسجد بیت الحمید وزٹ کرنے کی دعوت دیتے ہیں۔

بعض کتب بھی دستیاب ہیں مثلاً تفسیر کبیر، سورۃ فاتحہ، سورۃ بقرہ، سورۃ یوسف، سورۃ ہود، عربی زبان میں دستیاب ہیں۔ مذہب کے نام پر خون، بڑی عظیم الشان خبر، مسلمانوں کے کارنامے، درثمین، القول الصریح فی ظہور المہدی، اسراء اور معراج کی حقیقت، خلیج کی جنگ پر خطبات، جہاد کے بارے میں اور مسیح موعودؑ کی آمد ثانی کے بارے میں مسلمانوں کے عقائد، امام مہدی کا اسلام میں تصور کے صحیح معانی۔ ان سب امور کے بارے میں مسجد بیت الحمید میں تشریف لائیں اور ہماری ویب سائٹ الاسلام ڈاٹ آرگ کو وزٹ کریں۔ نیز ہمیں ہمارے فونز پر بھی کال کر کے معلومات حاصل کر سکتے ہیں۔ ٹول فری فون نمبر بھی I-800-Why-Islam بھی دیا گیا ہے۔

(باقی آئندہ بدھ ان شاء اللہ)

(مولانا سید شمشاد احمد ناصر۔ امریکہ)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 1 جون 2021

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 2 جون 2021