• 11 جولائی, 2025

آؤ! اُردو سیکھیں (سبق نمبر46)

آؤ! اُردو سیکھیں
سبق نمبر46

گزشتہ سبق میں ہم زمانہ مستقبل پر بات کررہے تھے۔ اسی سلسلے کو آگے بڑھاتے ہیں۔

ماضی جب مستقبل کا معنی دے

بعض اوقات فعل ماضی یعنی Past Tense مستقبل کے معنی دیتا ہے۔ جیسے اگر وہ آگیا، تو ضرور جاؤں گا۔ یہاں یہ سمجھنا ضروری ہے کہ آنا سے تو ماضی بنتا ہے آیا تو پھر آگیا کیا ہے۔ یہاں ہم انگریزی زبان کا سہارا لیتے ہیں۔ آیا کا مطلب ہے Came اور آگیا کا مطلب ہے has/have come/reached/arrived تو اس طرح آپ سمجھ گئے ہوں گے کہ آیا کی بجائے آگیا کب اور کیوں استعمال ہوتا ہے۔ دوسری وضاحت یہ ہے کہ گیا فعل جانا کی ہندی شکل ہے۔

پس اگر وہ آگیا کا مطلب بنے گا

If he comes, I will leave.

حال جو مستقبل کے معنی دے

بعض اوقات حال بھی مستقبل کے معنی دیتا ہے جیسے، میں کچھ سوچتا ہوں، اور کل وہاں جاتا ہوں۔ اس طرح آپ فکر نہ کریں، میں انھیں اپنے دفتر میں بلاتا ہوں۔ اسی طرح اگر مصدر کے بعد والا کا اضافہ کردیں تو بھی وہ مستقبل کے معنی دیتا ہے۔ جیسے میں ایک کتاب لکھنے والا ہوں۔ وہ اب جانے والاہے۔ بارش ہونے والی ہے۔ اس سے مستقبل قریب یعنی Near Future ظاہر کیا جاتا ہے۔

علامت مستقبل: گا

یہ علامت بعد کے زمانے میں اختیار کی گئی ہے۔ قدیم ہندی میں یہ استعمال نہیں ہوتی تھی۔ گا دراصل سنسکرت کے مصدر گام سے نکلا ہے۔ جیسا کہ پہلے بھی بتایا تھا ہندی میں مصدر جانا کی ماضی شکل گیا ہے۔بعد کے زمانے میں شعرا نے گیا کو مختصر کرکے گا کردیا اور مونث گائ سے گی بن گئی۔

مصدر کے بعد کا، کی، کے

مصدر کے بعد کا، کی، کے لانے سے بھی مستقبل مطلق کے معنی پیدا ہوتے ہیں۔ لیکن یہ ہمیشہ نفی کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ جیسے وہ نہیں آنے کا۔ یعنی وہ ہرگز نہیں آئے گا یا بہت مشکل ہے کہ وہ آئے۔ اسی طرح، یہ جو فساد ڈال دیا گیا ہے یہ نہیں جانے کا۔

شکل مجہول Passive Voice

جس فعل یعنی verb کا فاعل subject معلوم نہیں ہوتا اسے مجہول کہتے ہیں۔ شکل مجہول عموماً افعال متعدی Transitive Verbs کا ہوتا ہے۔ افعال متعدی ایسے فعل کو کہتے ہیں جسے فاعل Subject اور مفعول Object دونوں کی ضرورت ہو۔ یعنی ایسا فعل جس کا اثر فاعل سے نکل کر مفعول تک پہنچے۔

Transitive Verb: A transitive verb is a verb that requires a direct object, which is a noun, pronoun, or noun phrase that follows the verb and completes the sentence’s meaning by indicating the person or thing that receives the action of the verb.

اب مجہول اور افعال متعدی کی تعریف کے بعد ہم واپس فعل کی شکل مجہول کی طرف لوٹتے ہیں۔ جس فعل متعدی Transitive verb کا مجہول Passive Voice بنانا ہو اس کے ماضی مطلق یعنی Past Indefinite کے آگے مصدر جانا سے جو زمانہ Tense بنانا ہو وہی زمانہ بنا کر لگا دیا جاتا ہے۔ مثلاً اگر فعل ہے کھانا تو اس کی ماضی مطلق Past indefinite شکل ہوگی کھایا اب اگر فعل کھانا سے حال مطلق مجہول یعنی present indefinite passive voice بنانا ہے تو فعل کھانا کے ماضی مطلق یعنی کھایا کے آگے فعل جانا کا حال مطلق یعنی present indefinite form of the verb لگادی جائے گی۔ پس یہ ہوگا کھایا جاتا ہے، اسی طرح کھایا جائے گامستقبل مطلق یعنی Future Indefinite، کھایا گیا ماضی مطلق اور کھایا جاتا تھا ماضی ناتمام

ابھی ہم نے یہ پڑھا ہے کہ اردو زبان میں مختلف زمانوں میں فعل کی مجہول شکل یعنی Passive voice کیسے بنتی ہے۔ چند مثالوں سے مزید وضاحت کرتے ہیں۔

ہم سرِ شام کھانا کھاتے ہیں۔ )معروفActive Voice ہمارے گھر سرِ شام کھانا کھایا جاتا ہے۔

مجہول (Passive Voice)

کسان مویشیوں کو پچھلے پہر(Afternoon/ Close to evening) گھروں کو لاتے ہیں۔ (معروف Active Voice)

مویشیوں کو پچھلے پہر گھروں کو لایا جاتا ہے۔ )مجہول (Passive Voice

ہم صبح کو قرآن شریف پڑھیں گے۔ (معروف Active Voice) قرآن شریف ہمیں صبح کو پڑھایا جائے گا۔(مجہول Passive Voice)

میں نے کل مرغیوں کو دانہ ڈالا۔ (معروف Active Voice)، کل مرغیوں کو دانہ ڈالا گیا۔ (مجہول Passive Voice)

وہ کھیتوں کو پانی سے سیراب کرتا تھا۔ (معروف Active Voice)، کھیتوں کو پانی سے سیراب کیا جاتا تھا۔(مجہول Passive Voice)

امید ہے ان چند مثالوں سے آپ پر واضح ہوجائے گا کہ اردو زبان میں فعل کی معروف اور مجہول شکل میں کیا فرق ہے۔ نیز اسے بنانے کا کیا اصول ہے۔

حضرت مسیح موعود ؑ فرماتے ہیں

میرا انکار میرا انکار نہیں ہے بلکہ یہ اللہ اور اس کے رسولﷺ کا انکار ہے کیونکہ جو میری تکذیب کرتا ہے وہ میری تکذیب سے پہلے معاذاللہ، اللہ تعالیٰ کو جھوٹا ٹھہرا لیتا ہے۔ جبکہ وہ دیکھتا ہے کہ اندرونی اور بیرونی فساد حد سے بڑھے ہوئے ہیں اور خدا تعالیٰ نے باوجود وعدہ اِنَّا نَحۡنُ نَزَّلۡنَا الذِّکۡرَ وَاِنَّا لَہٗ لَحٰفِظُوۡنَ (الحجر: 10) کے ان کی اصلاح کا کوئی انتظام نہ کیا۔ جب کہ وہ اس امر پر بظاہر ایمان لاتا ہے کہ خداتعالیٰ نے آیت استخلاف میں وعدہ کیا تھا کہ موسوی سلسلہ کی طرح محمدی سلسلہ میں بھی خلفاء کا سلسلہ قائم کرے گا۔ مگر اس نے معاذاللہ اس وعدہ کو پورا نہیں کیا اور اس وقت کوئی خلیفہ اس امت میں نہیں اور نہ صرف یہاں تک ہی بلکہ اس بات سے بھی انکار کرنا پرے گا کہ قرآن شریف نے جو آنحضرتﷺ کو مثیل موسیٰ قرار دیا ہے یہ بھی صحیح نہیں ہے معاذاللہ۔ کیونکہ اس سلسلہ کی اتم مشابہت اور مماثلت کے لئے ضروری تھا کہ اس چودھویں صدی پر اس امت میں ایک مسیح پیدا ہوتا اسی طرح پر جیسے موسوی سلسلہ میں چودھویں صدی پر ایک مسیح آیا۔

(ملفوظات جلد2 صفحہ242-243 ایڈیشن2016)

اقتباس کے مشکل الفاظ کے معنی

انکار: منع کرنا، انحراف، نامنظور۔

اندرونی: Internal/domestic کسی ادارے، قوم، گروہ وغیرہ کے اندر کے معاملات

بیرونی: External/foreign کسی ادارے، قوم، گروہ وغیرہ پر دوسرے ادارے، قوم یا گروہ کے اثرات۔

فساد: Disorder/chaos ملکی، قومی، مذہبی اصولوں سے دور ہوجانا۔

اصلاح کا انتظام: Plan/strategy of reformation

امر: معاملہ

سلسلہ: نظام، دور، وقت۔

مثیل: کسی کے جیسا۔

اتم مشابہت اور مماثلت: پوری طرح سے یا بہت حد تک کسی کے جیسا ہونا۔

(عاطف وقاص۔ ٹورانٹو، کینیڈا)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 1 جون 2022

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ