• 4 مئی, 2024

حضرت مرزا طاہر احمد خلیفة المسیح الرابع ؒ کی کچھ یادیں

حضرت مرزا طاہر احمد خلیفة المسیح الرابع ؒ کی کچھ یادیں
اور ملاقات کا دلنشیں تذکرہ

حضرت مرزا طاہر احمدؒسے تعارف اور وابستگی خلافت سے پہلے کی ہے وہ اس طرح کہ جب کبھی بیمار ہوتے تو امی جان کے ساتھ فضل عمر ہسپتال دوائی لینے جاتے ایک دفعہ میرا چھوٹا بھائی بہت بیمار تھا اور کڑوی دوائی نہ لیتا تھا وقف جدید سے دوائی لی جو کہ میٹھی گولیوں کی صورت میں تھی بس پھر کیا تھا جب بھی ہسپتال جانا ہوتا تو وقف جدید کی عمارت کے سامنے ضد کرتے کہ ہم نے میٹھی دوائی ہی کھانی ہے اور اللہ کے فضل سے شفاء بھی ہو جاتی امی جان کے ساتھ جاتے اور دوائی لیتے۔

میرے دادا جان کے دو بھائی محترم سید محمد اور دین محمد میری پردادی جان سمیت کشمیر سے ربوہ آکر آباد ہو چکے تھے ایک دفعہ ہم اپنی پردادی جان کے ساتھ جن کا نام چاند بی بی تھا وقف جدید دوائی لینے گئے تو میاں صاحب یعنی)حضرت مرزا طاہراحمد )نے میری پردادی جان کو فورا پہچان لیا اور کہا آپ چرنا ڑی والے یعنی کہ کشمیر میں دادا جان کے گاؤں کا نا م لیا کیونکہ خلافت سے پہلے آپ چرناڑی جہاں اللہ کے فضل سے ہماری جماعت ہے دورہ کر چکے تھے اس طرح آپ سے یہ ہمارا پہلا تعارف تھا

پھر میں ا کثر سکول اور پھر کالج اپنے ابا جان کے ساتھ سائیکل پر جایا کرتی تھی تو اکثر خلافت لائبریری کے سامنے سے حضرت میاں صاحب آرہے ہوتے تو ابا جان نے کئی مرتبہ کوشش کی کہ آج میں پہلے سلام کروں گا لیکن ایسا ہوتا کہ حضرت میاں صاحب ذرا فاصلے سے ہی مسکراتے چہرے سے سب کو جو گذر رہے ہوتے اونچی آواز میں سلا م کہتے تیزی سے گذر جاتے۔

محترم ابا جان مسکرا کر جواب دیتے لیکن پہلے سلام کرنے میں کامیاب نہیں ہوئے صبح کا سہاونا وقت اور ہر طرف سے سلام (یعنی سلامتی کی دعا) فضا کو اور محصور کر دیتی اور یہ وقت میری زندگی کی ایک حسین یاد ہے جس سے میں آج بھی محظوظ ہوتی ہوں۔

8 اور 9 کی درمیانی شب حضرت خلیفہ المسح الثالث رحمہ اللہ تعالی کا وصال ہوا اور 10 جون 1982ء کو حضرت مرزا طاہر احمدکو خلیفہ المسیح الرابع منتخب کیا گیا خلیفہ بننے کے بعد آپ کی مصروفیات میں بے پناہ اضافہ ہو گیا گو کہ پہلے ہی آپ بہت فعال زندگی گزار رہے تھے آپ کروڑوں دلوں کی ڈھڑکن تھےجب آپ خلیفہ بنے تو پہلی نماز جمعہ مسجد اقصی میں اور پھر مسلسل ہر جمعہ کو گریہ وزاری کا عجیب عالم ہوتا تھا اور مسجد اقصی میں نماز جمعہ کے دوران سجدوں میں حضور انور کی سسکیاں کے ساتھ سب احباب جماعت کی سسکییوں سے ساری فضاسوگوارہو جاتی اور ایک بہت ہی روحانی ماحول ہوتا بہت رونا آتا آپ رحمہ اللہ تعالی کا ایک فقرہ مجھے آج بھی یاد ہے کہ خلیفہ بننے کے کچھ ہی عرصہ بعد آپ نے ایک خطبہ میں بڑے جوش اور جلال کے ساتھ فرمایا کہ لوگ مجھے کہتے کہ آپ ہر کام میں بہت تیزی یا جلدی کر رہے ہیں میں کہتا ہوں کہ اب تیزی سے چلنے کا وقت نہیں بلکہ دوڑنے کا وقت ہے آپ نے اس جلال سے کہا کہ ہم ڈر گئے تھے کیونکہ حضرت خلیفہ الثالث رحمہ اللہ تعالی بڑے دھیمے انداز میں خطبہ دیاکرتے تھے اسی طرح جلسہ سالانہ میں آپ کی پرجوش تقریریں جن میں اکثر کوئی واقعہ بیان کرتے کرتے ان کی آواز بھرا جاتی تو ساری فضا میں ایک عجیب روحانی ماحول پیدا ہو جاتا وہ لمحات آج بھی یاد آتے ہیں اور روح کو سرشار کرتے ہیں۔

ہمیں فخر ہے کہ ہم نے آپ کا بابرکت عہد پایا آپ کو دیکھا اور احمدیت کے پیغام کو سمجھا آپ کے دور خلافت میں ایک آمر اپنے انجام کو پہنچا اور آپ اقدس کی دعا سے اللہ تعالی کا روشن نشان دیکھا اور اس زمانے میں آپ کی یہ نظم بچے بچے کی زبان پر تھی:

دو گھڑی صبر سے کام لو ساتھیو
آفت ظلمت جور ٹل جائے گی

جب یہ واقعہ ہوا تو مغرب کی نماز کے بعد مسجد برکت سے واپس آکر ابا جان نے ریڈیو آن کیا خبروں کا وقت ہوا چاہتا تھا کہ اچانک نشریات آنا بند ہو گئیں اور آگے پیچھے لوگ بھی تبصرہ کر رہے تھے کہ پتہ نہیں کیا وجہ ہے خیر اگلے دن پیارے حضور کا خطاب تھاجس میں آپ نے پنجابی کا یہ شعر پڑھا کہ

دشمن مرے تے خوشی نہ کرئیے سجناں وی مر جانا

پھر آپ نے اس خطاب میں مباہلے کے چیلینج اور دشمن کی ہٹ دھرمی پر دکھ اور افسوس کا اظہار کیا تھا۔

قدرت ثانیہ کے مظہر چہارم سیدنا حضرت خلیفہ المسیح الرابع کروڑوں دلوں کی دھڑ کن تھے دنیا کے ہر احمدی نے آپ کی محبت اور پیار سے حصہ پایا آپ کی محبت کے یہ انداز ہمیں انفرادی اور اجتماعی ملاقاتوں میں خوب چھلکتے نظر آتے ہیں اس محبت کا اظہار آپ نے تقریر میں بھی کیا تحریر میں بھی کیا اور نظم میں بھی۔

پیارے خلیفہ سے ملاقات کے دلنشیں تاٴثرات

خلافت کے بعد ربوہ میں اجتماعی اور فیملی کی ملاقاتوں کا سلسلہ شروع ہو چکا تھا ابا جان نے درخواست دی ہوئی تھی مجھے تاریخ تو یاد نہیں لیکن انداذ ایک سال یا اس سے کچھ عرصہ بعد ہماری فیملی ملاقات تھی اس دفعہ بھی ایک کھر کا پالا ھوا بکرا ہمارے ساتھ تھا جو کہ میرے چھوٹے بھائی رشید احمد بے بڑے لاڈ اور پیار سے پالا تھا وہ خود اسے چارہ ڈالتا اور روزانہ چرانے بھی لے کر جاتا اس کا ذکر در خواست میں کر دیا تھا اور ہمیں خوشی اس بات کی تھی کہ از راہ شفقت حضور انور نے اس نذرانے کو قبول بھی کر لیا تھا ہم صبح کے وقت قصر خلافت پہنچے پہلے ہمیں ایک ہال کمرے میں بٹھایا گیا پھر باری آنے پر ملاقات والے کمرے میں، ابھی ہم بیٹھے بھی نہیں تھے اور دل میں کچھ ڈر کی سی کیفیت بھی کہ اچانک حضور انور اپنے نورانی چہرے؛ پیار بھری مسکراہٹ کے ساتھ قدرے اونچی آواز میں اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ وَرَحْمَةُ اللّٰہِ کہتے ہوئے ایک شیر کی سی تیزی کے ساتھ کمرے میںداخل ہوئے آتے ہی میرے چھوٹے بھائی رشید احمد کو دونوں ہاتھوں سے اٹھا کر ماتھا پر بڑی شفقت سے بوسہ دیا (شائید یہ اس بچے کے عجیب سا نذرانہ پیش کرنے پر) اور ابا جان کو پہچان کر کہ اچھا آپ کشمیر چرناڑی سے کہ کر مصافحہ کیا آپ کی شفقت اور محبت دیکھ کر ہم بہن بھائیوں کی ساری پریشانی دور ہو گئی تھی اور ہم خوشی سے ایک دوسرے کو دیکھ کر مسکرا رہے تھے اور اپنی قسمت پر نازاں کہ اپنے پیارے آقا سے مل رہے ہیں حضور انور کا پرنور چہرہ، قابل رشک صحت، سرخی مائل سفید رنگت اور محبت بھری گفتگو ہمارے دلوں کو محصورکر رہی تھی آپ کی شخصیت کا گہرا اور ان مٹ نقش آج بھی جب یاد آتا ہے تو طبیعت باغ و بہار ہو جاتی ہے آپ اقدس نے باری باری سب بچوں کے نام اور جماعت کے بارے میں پوچھا میرے میٹرک میں اچھے نمبر حاصل کرنے پر اظہار خوشنودی فرمایا اور میرے بھائیوں کی تعلیمی حالت تسلی بخش نہ ہونے پر مجھے تاکید کی کہ آپ ان کی ٹیچر بن جاؤ اور آپ کی یہ بات اس رنگ میں بھی پوری ہوئی کہ بعد میں حقیقی طور پر بھی ٹیچر کے شعبے سے منسلک ہو گئی الحمد للّٰہ۔

میں اکثر اپنے بھائی کو یاد دلاتی ہوں کہ تم بہت خوش قسمت ہو کہ خلیفہ وقت کے مبارک ہاتھ اور مبارک لب تم سے مس ہوئے ہوئے ہیں اللہ تعالی اس پر اور اس کے بچوں پر اس برکت سے کامیا بیاں اور کامرانیاں عطا فرمائے آمین۔

اس ملاقات کے بعد خلیف وقت کے ساتھ محبت اور وفا میں بہت اضافہ ہوا اب میں پہلے سے زیادہ محنت سے پڑھتی اور بہن بھائیوں کی بھی پڑھائی میں مدد کرتی اور شام کو رپورٹ ابا جان کی خدمت میں پیش کرتی

پیارے آقا کا احمدی بچوں اور نوجوانوں سے قلبی لگاؤ تھا آپ علم کا ایک سمندر تھے پھر اللہ تعالی نے آپ کو جو قوت بیان عطا فرمائی تھی وہ بھی ایک معجزہ ہے آپ کی سوال و جواب کی مجلسیں نہ صرف علم میں اضافے کا باعث ہوتی ہیں بلکہ آپ کا اچھوتا اور بر جستہ جواب ماحول میں باغ وبہار کی کیفیت پیدا کر دیتا ہے۔

کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ

محبت کی گہرائی کا اندازہ جدائی کے لمحوں میں ہوتا ہے

حضرت خلیفة المسیح ہم سے دو بار جدا ہوئے ایک بار جب آپ نے پاکستان سے ہجرت کی اور معجزانہ طور پر خدائی حفاظت میں لندن پہنچے اور پھر دوسری بار جب آپ اس دنیا فانی کو چھوڑ کر اپنے خالق حقیقی سے جا ملے آپ کو ہم سے جدا ہوئے بھی کئی سال ہو گئے لیکن شمع خلافت فروزاں ہے اور آج خلافت خامسہ کی شکل حضرت مرزا مسرور احمد ایدہ اللہ تعالی بنصر العزیز ہمارے درمیان موجود ہیں اللہ تعالی ہر دم ہمارے پیارے خلیفہ حضرت اقدس کی تائید و نصرت فرماتا چلا جائے آمین۔

(رضیہ بیگم)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 1 جون 2022

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ