اسلام کا پیش کردہ نظام بہترین نظام ہے
تبرکات: (غیر مطبوعہ)
تحریر فرمودہ حضرت ابو العطاء جالندھری مرحوم و مغفور
اسلام ایک کامل اور محفوظ دین ہے۔ اس دین میں انسانوں کی سب ضرورتوں کے لئے، وہ تمدنی ہوں یا سیاسی، قومی ہوں یا بین الاقوامی، ایسا حل پیش کیا گیا ہے جس سے بہتر حل ممکن نہیں۔ اور انسانی معاشرہ کے لئے ایسا نظام مقرر کیا گیا ہے، جو سب نظاموں سے بہتر اور اپنی ذات میں کامل ترنظام ہے۔ کامل نظام کی پہلی علامت یہ ہے کہ اس میں ہر فرد کو عقیدہ اور عمل کی آزادی حاصل ہو۔ دوسری علامت یہ ہے کہ اس میں ہر شخص کو ترقی کرنے کے لئے پورے مواقع میسر ہوں۔ تیسری علامت یہ ہے کہ اس میں ہر فرد بشر کی جان، مال اور عزت محفوظ ہو۔ چوتھی علامت یہ ہے کہ اس میں محتاجوں اور ضرورتمندوں کی ضرورتوں کو پورا کرنے کا انتظام موجود ہو۔
نظام ِکامل کی یہ چاروں علامتیں صحیح طور پر صرف اسلام کے نظام میں پائی جاتی ہیں۔ دوسرے نظاموں میں خواہ اشتراکیت کا نظام ہو، خواہ سرمایہ داری کا نظام ہو، یہ علامتیں پورے طور پر موجود نہیں ہیں۔
(1) میں نے کہا ہے کہ کامل نظام وہ ہے جس میں انسان کو عقیدہ اور عمل کی پوری آ زادی حاصل ہو۔ سو اسلام نے کامل حریتِ فکر کا اعلان فرمایا ہےاور ہر قسم کے جبرو اکراہ کو ناجائز ٹھہرایا ہے۔ اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتا ہے،
لَاۤ اِکۡرَاہَ فِی الدِّیۡنِ ۟ۙ قَدۡ تَّبَیَّنَ الرُّشۡدُ مِنَ الۡغَیِّ ۚ فَمَنۡ یَّکۡفُرۡ
(البقرہ: 257)
کہ عقیدہ کے معاملہ میں کسی قسم کا جبر جائز نہیں ہے۔ پھر فرمایا:
قُلِ الۡحَقُّ مِنۡ رَّبِّکُمۡ ۟ فَمَنۡ شَآء َ فَلۡیُؤۡمِنۡ وَّمَنۡ شَآء َ فَلۡیَکۡفُرۡ
(الکہف: 30)
کہ یہ دین اللہ تعالیٰ کی طرف سے حق ہے۔ہر ایک کو اختیار ہے کہ چاہے ایمان لائےاور چاہے انکار کرے۔ گویا اسلام میں فکر اور عقیدہ پر کوئی قدغن نہیں ہے۔
ایک تیسری آیت میں فرمایا،
لَکُمۡ دِیۡنُکُمۡ وَلِیَ دِیۡنِ
(الکافرون: 7)
کہ اے منکرو! تم کو اپنے دین کے بارے میں عمل کی آزادی ہے اور میرے لئے میرا دین ہے۔
دوسرے میں نے کامل نظام کی یہ علامت بتائی ہے کہ اس میں ہر شخص کو ترقی کرنے کے لئے پورے مواقع میسر ہوں۔ اسلام کا نظام ہی وہ نظام ہے جس میں ہر انسان کو بحیثیت انسان مساوی حقوق حاصل ہیں۔ سیاہ وسفید کا کوئی امتیاز نہیں۔ مشرقی اور مغربی میں کوئی فرق نہیں ہے، ذات پات کا کوئی امتیاز نہیں۔ اس انسانی مساوات کی بنیاد پر اسلام نے ہر شخص کو ترقی کے لئے پورا پورا موقع دیا ہے اِسی کا نتیجہ ہے کہ اسلام میں ہر شخص کو حقِ ملکیت دیا گیا ہے۔ کسی کی جائز ذرائع سے کمائی پر کوئی پابندی نہیں۔ اور کسی فرد یا حکومت کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ اس کی ملکیت کو اس کی مرضی کے خلاف اس سے چھین لے۔
اسلامی نظام میں ہر فرد کو اپنے اپنے دائرہ عمل میں ذمہ وار قرار دیا گیاہے۔ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا ہے،
اَلَا کُلُّکُمْ رَاعٍ وَ کُلُّکُمْ مَسْئُولُ عَنْ رَعِیَّتِہِ (بخاری)
کہ ہر شخص اپنے حلقہ میں نگران ہے اور ہر شخص اپنی ذمہ داری کے لئے جواب دہ ہے۔
اسلام کا تمدنی اور سیاسی نظام گھریلو زندگی سے لیکر بڑی سے بڑی حکومت کے نظام کے لئے احسن ترین اصول بیان کرتا ہے۔ ماں باپ کے حقوق کا بھی بیان ہے، بچوں کے حقوق بھی قائم ہیں، بیویوں کے حقوق بھی مقرر ہیں اور خاوندوں کے حقوق بھی واضح کردئے گئے ہیں۔
روحانی نظام کی بنیاد نبوت پر ہوتی ہے۔ نبی کا تقرر اللہ تعالیٰ براہ راست فرماتا ہے۔ مگر اس کی وفات کے بعد اسلام میں نظامِ خلافت انتخابی مقرر ہے جو قوم کے نمائندہ اور اہل الرائے افراد کے ذریعہ سے قائم ہوتا ہے۔ اسلام نے حقِ رائے دہی ہر فرد کو دیا ہے اور حکومت کی بنیاد عوام کے ووٹوں پر رکھی ہے۔ دیکھئے اللہ تعالیٰ کس لطیف پیرایہ میں فرماتا ہے۔
اِنَّ اللّٰہَ یَاۡمُرُکُمۡ اَنۡ تُؤَدُّوا الۡاَمٰنٰتِ اِلٰۤی اَہۡلِہَا ۙ وَاِذَا حَکَمۡتُمۡ بَیۡنَ النَّاسِ اَنۡ تَحۡکُمُوۡا بِالۡعَدۡلِ
(النساء: 59)
کہ اے لوگو! اللہ تعالیٰ تم کو حکم دیتا ہے کہ امانتیں ان کے اہل کے سپرد کرو۔ حکومت کو ایک امانت سمجھو اور حکومت کی زمام ایسے لوگوں کے ہاتھ میں دوجو اسکے لئے اہل اور موزوں ہوں۔ پھر فرمایا کہ اے حاکمو! جب تم کو امانتِ حکومت سونپی جائے اور تمہیں اقتدار مل جائے تو لوگوں کے درمیان عدل اور انصاف کے ساتھ فیصلہ کیا کرو۔
اس آیت کریمہ میں ووٹ دینے والے عوام کو انتخاب کی ذمہ داری کی طرف بھی توجہ دلا دی اور منتخب ہونے والے حکام کو بھی ان کی ذمہ داری سے آگاہ کردیا۔ یہی اسلامی نظام ہے جس میں رعایا کے حقوق اور فرائض بھی مذکور ہیں اور حاکموں کی ذمہ داریاںاور اختیارات کا بھی مکمل بیان ہے۔ ہر انسان کو دینی اور دنیوی مناصب کے حصول کے لئے جدوجہد میں پوری حریّت حاصل ہے۔ قوم، نسل، رنگت اور زبان وغیرہ کی کوئی پابندی نہیں۔
کامل نظام کی تیسری علامت یہ ہے کہ اس میں ہر فرد کی جان، مال اور عزت محفوظ ہے۔ اسلام نے اس بارے میں آدمیت کا پورا احترام مقرر فرمایا ہے۔ کسی شخص کو دوسرے کی جان، مال اور عزت پر کسی قسم کا حملہ کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ ہر مجرم، خواہ کوئی ہو، بلا رُورعائت سزا پائے گا۔ اور ہر قاتل، مرد ہو یا عورت، غلام ہو یا آزاد، قتل کیا جائے گا۔ سب انسانوں کی جانیں یکساں طور پر محفوظ قرار دی گئی ہیں۔ سب کے اموال محفوظ ٹھہرائے گئے ہیں۔ناجائز طور پر دھوکہ، فریب سےکسی کا مال لے لینا جائز نہیں ہے۔ خریدو فروخت کے لئے اسلام نے واضح ضابطہ مقرر فرمایا۔ تجارت کے لئے مکمل ہدایات دیں۔ رشوت، سود خوری اور ظلم کی راہ سے مال حاصل کرنا حرام قرار دیا۔
عزتوں کی حفاظت کے بارے میں اسلام کا ضابطہ اتنا مکمل ہے کہ انسانی عقل دنگ رہ جاتی ہے۔غیبت ناجائز ہے، تجسس کی اجازت نہیں۔اتہام اور الزام لگانا جرم ہے۔ کسی کے عیب کو بھی اس کی تذلیل کے لئے بیان کرنے کی اجازت نہیں، ہاں اصلاح کی خاطر مناسب اور ذمہ دار افراد کو کہا جا سکتا ہے۔ اسلامی نظام میں جب تک کسی کا جرم ثابت نہ ہو جائے وہ بری اور بے گناہ ہے۔ گویا اسلامی نظام ہر شخص کی جان، مال اور عزت کا محافظ ہے۔
کامل نظام کی چوتھی علامت یہ ہے کہ وہ محتاجوں اور ضرورتمندوں کی احتیاج کو پورا کرنے والا ہو۔ اسلامی نظام میں جائز طریقوں سے مال کمانے کی تو اجازت ہے۔ مگر اسے محض اپنی ذات پر خرچ کرنے کی اجازت نہیں۔اللہ تعالیٰ نے ہر مالدار کے مال میں غریبوں، مسکینوں اور یتیموں وغیرہ کو حقدار قرار دیا ہے۔ فرمایا:
وَفِیۡۤ اَمۡوَالِہِمۡ حَقٌّ لِّلسَّآئِلِ وَالۡمَحۡرُوۡمِ
(الذاریات: 20)
کہ مومنوں کے مالوں میں سب کا حق ہے۔ طوعی طور پر صدقہ و خیرات کی ترغیب دی۔ اور فرض کے طور پر نظامِ زکٰوۃ کو قائم فرمایا۔ جس کے ذریعہ مالداروں کے مال کا چالیسواں حصّہ لازمی طور پر بیت المال میں آکر قوم کے ضرورتمندوں کی ضرورتوں کو پورا کرنے کا ذریعہ بنے گا۔ اسلامی نظام میں ہر فرد کو کھانے کے لئے روٹی، پہننے کے لئےکپڑے اور رہنے کے لئے مکان کی ذمہ داری حکومت پر ہے۔ گویا کوئی بھوکا نہ رہے، کوئی ننگا نہ رہے اور کوئی سر چھپانے کی جگہ سے محروم نہ ہو۔
انسانوں کے باہمی رہنے سہنے میں جو طبعی تفاوت ہے اور جو معاشرہ کے کاروبار کو چلانے کے لئے ناگزیر ہے، اسلام نے ذہنی طور پر اسے بے ضرر بنا دیا ہے اور اقتصادی طور پر اس کی خلیج کو پاٹ دیا ہے اور مذہبی طور پر تو اس کو بالکل بے بنیاد ٹھہرایا ہے۔
کامل نظام کی یہ چاروں علامتیں اسلام کے نظام کے سوا کسی اور نظام میں موجود نہیں۔ پس اسلام کا پیش کردہ نظام ہی بہترین نظام ہے۔
وَمَا عَلَیۡنَاۤ اِلَّا الۡبَلٰغُ الۡمُبِیۡنُ
(یس: 18)
(مرسلہ: مولانا عطاء المجیب راشد۔ امام مسجد فضل۔ لندن)