استاداور شاگرد کے رشتے اور تعلق پر خاکسار اس سے قبل قلم آزمائی کر چکا ہے۔ جس میں خاکسار نے تحریر کیا تھاکه ایک تو اسکولز، کالجز اور یونیورسٹیز میں پڑھانے والے اساتذہ، ٹیچرز اور پروفیسرز ہوتے ہیں جن سے طلبہ باقاعدہ تعلیم حاصل کرتے ہیں اوران کی تعظیم مسلم ہے۔ دوسرے ہم میں سے ہر ایک، ایک دوسرے سے شاگرد اور استاد کا تعلق رکھتا ہے۔ ہم معاشرہ میں، گھروں میں ایک دوسرے سے خاموش تعلیم حاصل کرتے رہتے ہیں حتی کہ ہم گھروں میں بچوں کی نئی اداؤں، حرکتوں کودیکھتے اور ان کی توتلی زبان سے حظ اٹھاتے اور بعض اوقات سبق بھی لیتے ہیں۔ تو ان معنوں میں یہ چھوٹی عمر والے بچے بھی بڑوں کے استاد بن جاتے ہیں۔ اس لئے معاشرہ میں بسنے والے ہر شخص کی تعظیم و تکریم ہر دوسرے پر لازم ہے۔ آنحضورﷺ نے بھی فرمایا ہے۔ کہ جو ہمارے چھوٹوں پر رحم اور شفقت نہ کرے اور ہمارے بزرگوں کے شرف، عز ت اور ادب کو نہ پہچانے وہ ہم میں سے نہیں ہے۔ (ترمذی) اور ایک روایت میں ہے جو بزرگوں کا حق ادا نہیں کرتا وہ ہم میں سے نہیں۔ (سنن ابی داؤد)
جہاں تک اسکولز، کالجز میں باقاعدہ تعلیم دینے اور تعلیم حاصل کرنے کا تعلق ہے۔ ان پر یہ حدیث صادق آتی ہے۔ ہم نے کئی بار دیکھا اور سنا ہے کہ مختلف علاقوں میں جب ٹیچر، ججز کے روبرو پیش ہوتا ہے تو وہ کھڑے ہو کر استقبال کر تے ہیں۔ کہ ان کی بدولت ہم یہاں تک پہنچے ہیں۔ کچھ عرصہ قبل جرمنی کی چانسلر انجیلا مرکل سے بعض ججوں نے مطالبہ کیا کہ ہماری تنخواہیں بھی ٹیچر حضرات کے برابر کی جائیں۔ چانسلر نے یہ کہہ کر تنخواہیں بڑھانے سے انکار کر دیا کہ آپ ججز ان اساتذہ ہی کی وجہ سے اس مقام پر پہنچے ہیں۔
آج ٹیچرز نے اپنے شعبہ کو پیسہ کمانے کا ذریعہ بنا لیا ہے۔ جس کی وجہ سے ٹیچرز کا مقام و مرتبہ مجروح ہوا ہے۔ ہمارے وقتوں میں ٹیچرز کا ایک بلند مقام و مرتبہ هوتا تھا۔ استاد اور شاگرد میں پیار و محبت اور ادب و عقیدت کا رشتہ تھا۔ کچھ عرصہ قبل مکرم منور احمد خورشید صاحب سابق مبلغ سلسلہ یوکے نے اپنی نئی تصنیف ’’یادوں کے دریچے‘‘ بغرض تبصرہ مجھے بھجوائی۔ جو آنمحترم کی اپنی یادوں پر مشتمل ہے۔ اس کتاب میں موصوف نے جامعہ احمدیہ ربوہ کی یادوں کے ذکر میں اُن بزرگ اساتذہ کی فہرست بھی دی ہے جن کی شاگردی ہمارے حصہ میں آئی اور اُن سے دعائیں لیں۔ دوسری طرف روزنامہ ’’الفضل‘‘ لندن آن لائن میں یکے بعد دیگرے ان بزرگ اور دعا گو اساتذہ میں سے درج ذیل دو کی سیرت پر مشتمل مضامین شائع ہوئے۔
*حضرت سید میر داؤد احمد غفر اللہ از مکرم مجید احمد سیالکوٹی صاحب سابق مبلغ یوکے
*حضرت ملک سیف الرحمٰن غفر اللہ از مکرم داؤد احمد قریشی صاحب مبلغ سلسلہ یوکے
ان مضامین اور فہرست اساتذہ کو دیکھ اور پڑھ کر ارشاد رسولﷺ ’’اُذْکُرُوْا مَوْتَاکُمْ بِالْخَیْرِ‘‘ کے تحت لکھنے کا ارادہ کیا اور ان بزرگ اساتذہ کی سیرت اور خاکسار کے ساتھ بیتے واقعات سینۂ قرطاس میں اکٹھے ہونے لگے۔ جو قارئین کرام کی خدمت میں اس دُعا کی درخواست کے ساتھ پیش ہیں۔ اللہ تعالیٰ اُن اساتذہ کے درجات بلند فرماتا رہے جو وفات پا چکے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے اور ان کی نیکیاں اور خوبیاں ہمارے اندر سرایت کرتا رہے اور جو ابھی بفضل اللہ تعالیٰ بقید حیات ہیں۔ ان کو اللہ تعالیٰ صحت و سلامتی والی لمبی عمر عطا فرمائے اور ان کی دعاؤں کا فیض ہم طلبہ کو پہنچتا رہے۔ ذیل میں خاکسار بعض واقعات بھی تحدیث نعمت کے طور پر بیان کرے گا جو انہی اساتذہ کی محبت اور شفقت کا نتیجہ تھا۔
اب اساتذہ کے شمائل و سیرت بیان کی جاتی ہیں۔
٭حضرت سید میر داؤد احمد صاحب مرحوم
خاکسار جامعہ احمدیہ کے اپنے اساتذہ کے ذکر میں سب سے قبل حضرت سید میر داؤد احمد صاحب مرحوم کا ذکر خیر کرنا چاہے گا۔ خاکسار نے جب 1970ء میں جامعہ احمدیہ میں داخلہ لیا تو آپ پرنسپل جامعہ احمدیہ تھے۔ گو خاکسار نے آنجناب سے شاگردی اور تلمیذ کا براہ راست حصہ تو نہیں پایا مگر آپ کی با رعب شخصیت مگر شفقت بھرے رویہ سے بہت کچھ سیکھا اور آ پ کی محبتیں، شفقتیں اور عنایات سمیٹیں۔ یہ سلسلہ زیادہ عرصہ جاری نہ رہ سکا اور ہم ابھی درجہ ثانیہ هی میں تھے کہ آپ کا وصال ہو گیا۔ وصال سے قبل ایک روز ہماری پوری کلاس کے شور مچانے پر آپ نے بید کے ساتھ ہماری اصلاح کی۔ پھر خود ہی اس بات کا احساس ہو گیا۔ اسی روز شام کو ہمیں جامعہ احمدیہ کی چھت پر اکٹھا کروایا اور سموسوں، شیزان اور برفی سے ہماری ضیافت فرمائی۔ جامعہ کے کارکنان نے آگے بڑھ کر ہمیں سموسے وغیرہ دینے کی کوشش کی۔ جس پر آپ نے انہیں یہ کہتے ہوئے روک دیا کہ ’’آج یہ میرے مہمان ہیں ان کی ضیافت میں خود کروں گا‘‘ اور خود اُٹھ کر ہمارے سامنے سموسوں کی ٹرے اور پھر شیزان کا کریٹ لے کر گزرتے جاتے اورہم حسب توفیق لیتے جاتے۔ کیا ہی شفقت کا ماحول تھا۔
آپ حدیث کے ماہر تھے اور اعلیٰ کلاسز کو حدیث پڑھایا کرتے تھے۔ آپ اپنے عمل اور پاک کردار سے طلبہ کی تربیت کرتے تھے۔ ہم طلبہ کو پینٹ پہنے کی اجازت تھی مگر شرٹ یا بو شرٹ کو پینٹ کے اندر ڈالنے کی اجازت نہ ہوتی تھی۔ مسجد کے اندر تہبند پہننے نہ دیتے تھے بلکہ مسجد اقصیٰ میں جمعہ کے روز اور مسجد مبارک میں اکثر طلبہ پر اس حوالہ سے خفیہ نگاہ رکھتے اور تربیت فرماتے۔
٭حضرت ملک سیف الرحمٰن صاحب غفر اللہ
آپ فقہ اور صرف و نحو کے استاد تھے۔ جماعت میں مفتی سلسلہ بھی تھے۔ آپ بہت شفیق اور طلبہ سے پیار و محبت سے پیش آنے والے استاد تھے۔ آ پ کوارٹرز تحریک جدید سے سائیکل پر جامعہ آیا کرتے تھے۔ ان دنوں ریلوے لائن کی طرف جامعہ کا گیٹ ہوا کرتا تھا۔ جو عموماً آمدورفت کے لئے کھلا رہتا تھا۔ غالباً ایک دفعہ 1972ء کی بات ہے کہ خاکسار اپنے گھر واقع دارالصدر جنوبی بالمقابل یادگار حضرت اماں جانؓ سے بھاری بھر کم کتب ہاتھوں میں تھامے پیدل جامعہ جا رہا تھا کہ ریلوے پھاٹک کے پاس عقب سے محترم ملک صاحب کے ’’السلام علیکم‘‘ کہنے کی آواز آئی۔ ابھی میں سلام کا جواب نہ دے پایا تھا کہ وہ میرے دائیں طرف اپنی سائیکل سے اُتر کر کھڑے یوں گویا ہیں کہ ’’آپ کو جامعہ سے دیر ہو رہی ہے۔ اس لئے آپ سائیکل چلائیں اور میں پیچھے بیٹھ جاتا ہوں۔ آپ کے تاخیر سے جامعہ پہنچنے پر میر صاحب (میر داؤد احمد) ناراض ہوں گے‘‘۔ میں نے عرض کی کہ ملک صاحب! میں تو کسی کو پیچھے بٹھا کر سائیکل نہیں چلا سکتا۔ مکرم ملک صاحب کی عظمت اور مقام کا بھی ڈر تھا۔ تو آپ نے مجھے اپنی سائیکل تھما دی کہ آپ اِسے لے کر فوراً جامعہ پہنچیں تا تاخیر کی وجہ سے آپ کو سزا نہ ہو۔ میں پیدل آجاتا ہوں۔ کمال کی شفقت تھی طلبہ کے ساتھ ۔
صرف ونحو خشک مضمون ہونے کے باوجود میرا پسندیدہ مضمون تھا اور اکثر سو میں سے سو یا اٹھانوے، ننانوے نمبرز آتے۔ کوئی طالب علم کسی استاد کے مضمون میں اتنے اعلیٰ نمبرز لے تو استاد اس طالب علم سے محبت ضرور کرتا ہے اور شفقت سے بھی پیش آتا ہے۔ تو آپ مجھ سے اس ناطے پیار بھی کرتے تھے۔ اور میرا پرچہ تمام پرچوں میں سے لکھائی کو پہچان کر پہلے دیکھ کر اور مارکنگ کر کے خوشی سے مجھے بتلا بھی دیتے۔ ایک دفعہ امتحان ختم ہونے کے اگلے ہی روز جامعہ میں سالانہ کھیلیں تھیں۔ اس پر مجھے دیکھ کر اپنے قریب بلواکر کہنے لگے کہ میں نے رات ہی آپ کا پرچہ دیکھ لیا تھا۔ شام کو گھر آکر دیکھ لیں۔ (1۔ امتحان کا آخری پرچہ صرف و نحو ہی کا تھا۔ 2۔ ہم دونوں ایک ہی محلہ کے رہائشی تھے۔)
آپ حضرت سید میر داؤد احمد صاحب غفر اللہ کی وفات کے بعد جامعہ کے قائم مقام پرنسپل مقرر ہوئے اور پھر حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ نے آپ کو مستقل بنیادوں پر پرنسپل مقرر فرما دیا۔ باوجود آپ کی نرم طبیعت کے آپ نے مکرم میر صاحب کی روایات کو زندہ رکھا اور دعاؤں کے ساتھ اپنے فرائض کو احسن رنگ میں نبھایا۔ آپ کو فقہ اور صرف ونحو کے مضامین پر اس قدر عبور تھا کہ آپ بغیر کسی کتاب یا کاغذ کی مدد سے زبانی لیکچر دیا کرتے تھے۔ آپ نے جامعہ کے دور میں طلبه کی آسانی کےلیےفقہ احمدیہ اور صرف ونحو پر کتب تصنیف فرمائیں۔ خاکسار کو ہر دو کتب میں آپ کے ساتھ تعاون کرنے کی توفیق ملی۔ اس کام کے لئے خاکسار روزانہ کی بنیاد پر آپ کے گھر جاتا رہا۔ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ عَلٰی ذَالِکَ
دوران جامعہ خاکسار کو اللہ تعالیٰ نے آنحضورﷺ کی زیارت کی توفیق دی۔ آپ ؐ کی داڑھی اُس سائز سے قدرے کم دیکھی جو احادیث میں آپؐ کے شمائل میں بیان ہوئی ہے۔ خاکسار آپ کے گھر بیٹھا کام کرتا رہا۔ مگر مجھے تعبیر پوچھنے کی جرأ ت نہ ہوئی۔ کہ ملک صاحب کیا سوچیں گے کہ وڈا صوفی بنیا پھردا اے۔ کام کے دوران نماز کا وقت ہوگیا اور ہم دونوں محلہ دار ہونے کی وجہ سے مسجد محمود (تحریک جدید) میں نمازیں ادا کرتے تھے۔ آپ نے مجھے فرمایا۔ آئیں! نماز پڑھ آئیں۔ ہم پیدل ہی نماز کی ادائیگی کے لئے نکل کھڑے ہوئے۔ راستہ میں دارالضیافت کے سامنے پہنچ کر میرے اندر تعبیر پوچھنے کی جرأ ت پیدا ہوگئی۔ جب میں نے خواب بیان کی تو مجھے کہنے لگے (آپ جید قسم کے معبر بھی تھے) کہ اپنی داڑھی بڑھا لیں۔ کسی بزرگ کی شخصیت میں کسی کمی کو دیکھنے سے اپنے اندر (یعنی خواب دیکھنے والے کے اندر) وہ کمی ہوتی ہے۔ خاکسار نے اس وقت تو اپنی داڑھی بڑھا لی مگربوجہ بڑھی ہوئی اور گھنی داڑھی میں خارش کے، جاری نہ رکھ سکا۔ جس کا مجھےآج بھی قلق اور افسوس رہتا ہے۔
٭مکرم مولانا محمد شریف صاحب مرحوم مبلغ بلاد عربیہ
آپ وجیہ شکل و صورت، لمبی داڑھی، سر پر رنگ دار شملہ والی پگڑی اور آدھا کوٹ (یہ کوٹ حضرت مصلح موعود ؓ کے کوٹ کے نام سے موسوم ہوتا تھا) زیب تن کرتے۔ دارالرحمت وسطی سے پیدل جامعہ میں آیا کرتے تھے۔ تفسیر القرآن پڑھایا کرتے تھے۔ آپ کا انداز تدریس بہت سہل اور اچھوتا تھا۔ آپ قرآن کریم کی عملی تصویر نظر آتے تھے۔ اور بعض اوقات تدریس کے دوران عملی طور پر سمجھاتے تھے۔ جیسے مجھے یاد پڑتا ہے کہ ایک دفعہ آ پ نے اپنی پگڑی کھول کر گانٹھ دے کر اور اکڑوں بیٹھ کر دکھلایا۔ آپ مبلغ بلاد عربیہ والے کہلاتے تھے اور فلسطین میں بطور مبلغ خدمات بجا لا چکے تھے۔
میں جب نائب ناظر اصلاح و ارشاد تھا۔ تو مجھے ایک مربی صاحب نے ’’سر‘‘ کہہ کر پکارا۔ میں نے انہیں یہ کہتے ہوئے ’’سر‘‘ کے استعمال سے منع کیا کہ مجھے ’’سر‘‘ کہلانا پسند نہیں اور نہ ہی میں کسی کو ’’سر‘‘ کہنا پسند کرتا ہوں۔ یہ انگریزوں کا طریق ہے۔ میں اسلام آباد پاکستان میں بھی رہا ہوں۔ جہاں ’’سر‘‘ کہے بغیر بات نہیں ہوتی لیکن میں نے وہاں بھی اپنے آپ کو ’’سر‘‘ کہلانا پسند نہ کیا اور نہ ہی کبھی کسی کو ’’سر‘‘ کے لفظ سے مخاطب کیا۔ وہ مربی صاحب مجھے بے ساختہ کہنے لگے کہ کیا آپ نے کبھی جامعہ احمدیہ کے اساتذہ کو بھی ’’سر‘‘ کے لقب سے مخاطب نہیں کیا؟ خاکسار نے مربی صاحب کو بتا یا کہ ہمارے اساتذہ بہت بزرگ تھے۔ اکثر پگڑیاں، اچکن اور آدھے کوٹ زیب تن کرتے تھے۔ ان کا رتبه ’’سر‘‘ کے لقب سے بہت بلند تھا۔ ہم ان کو مولوی صاحب، مولانا یا ان کا نام لے کر عزت سے پکار لیا کرتے تھے۔
٭مکرم محمد احمد جلیل صاحب مرحوم مفتی سلسلہ
آپ جامعہ احمدیہ کے کمپاؤنڈ میں ہی رہائش پذیر تھے۔ ویسٹ کوٹ یا اچکن اور کبھی کبھار چھوٹے کوٹ کے ساتھ ٹوپی پہنا کرتے تھے۔ ہم نے آپ سے حدیث اور فقہ پڑھا تھا۔ آپ بہت دھیمے مزاج کے مالک اور طلبہ کے ہر دلعزیز استا د تھے۔ چھوٹے چھوٹے قدموں کے ساتھ اُن کا جامعہ کی طرف آنا مجھے آج بھی یاد ہے۔ طلبہ کے ساتھ ہنسی مذاق وغیرہ بھی کرلیتے تھے۔ اپنے گھر سے یا کنٹین سے طلبہ کی ضیافت بھی اکثر کرتے رہتے تھے۔
٭ مکرم ملک مبارک احمد صاحب مرحوم عربی دان
آپ عربی دان تھے۔ ہمیں انشاء مضمون پڑھایا کرتے تھے۔ بہت سادہ اور بزرگ ہستی کے مالک تھے۔ پڑھانے کا انداز بہت سادہ تھا اور طلبہ سے ڈانٹ ڈپٹ بھی کر لیتے تھے مگر اس ڈانٹ میں بھی پیار ہوتا تھا۔ جامعہ کے کمپاؤنڈ میں ہی رہائش پذیر تھے۔ اکثر ٹوپی پہنا کرتے اور ویسٹ کوٹ ہوتی لیکن فنکشن وغیرہ پر چھوٹے کوٹ اور بسا اوقات اچکن میں بھی نظر آتے۔
آپ اکثر عربی اخبار و رسائل کے تراشے اپنی جیب میں ڈال کر ساتھ لاتے یا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کوئی عربی کتاب ہاتھ میں پکڑی ہوتی اور آتے ہی کسی طالب علم کو بلوا کر اس کے ہاتھ میں وہ کتاب یا تراشہ تھما کر ہدایت دیتے که فلاں جگہ سے پڑھو اور گرائمر کے مطابق اس کی تصحیح کرتے جاتے۔ تحریر بہت خوش خط تھی۔ بلیک بورڈ پر جب عربی لکھتے تو یوں لگتا جیسے موتی پرو رہے ہیں۔ آپ کی جماعتی کتب بالخصوص حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اُردو کتب کا عربی زبان میں ترجمہ کی خدمات لازوال ہیں۔
٭ مکرم مولانا غلام باری سیف صاحب مرحوم
آ پ فیکٹری ایریا سے سائیکل پر تشریف لاتے تھے۔ عموماً اچکن اور ٹوپی مگر بسا اوقات شملہ والی پگڑی بھی پہنتے تھے۔ آپ علم کلام پڑھایا کرتے تھے۔ آپ بلا کے شعلہ بیان خطیب تھے۔ بالخصوص سیرت کے مضمون کو بہت عمدہ اور اچھوتے رنگ میں بیان کرتے تھے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے آپ کے متعلق اسی حوالہ سے ایک موقع پر ذکر فرمایا ہے۔ یوم مسیح موعود ؑ، یوم مصلح موعود ؓ پر آپ کی مسجد مبارک میں تقاریر آج بھی کانوں میں رس گھولتی ہیں۔
آپ علم کلام کے ماہر تھے اور حضرت مسیح موعودؑ کی کتب اور دیگر کتب علم کلام پر پورا عبور رکھتے تھے۔ آپ کااسلوب تدریس بہت سادہ اور اس حد تک پُر کشش تھا کہ آپ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب کے مطالعہ کی دلچسپی اور شوق ہمارے دلوں میں پیدا کیا۔ خاکسار نے تو اس شوق کے پیش نظر تمام کتب حضرت مسیح موعود ؑ کا خلاصہ مختلف ایکسر سائز بکس پر تیار کیا اور ان خلاصہ جات سے خاکسار کے کلاس فیلوز نے بھی خوب فائدہ اُٹھایا۔
٭مکرم محمد احمد ثاقب صاحب مرحوم
آپ بھی تحریک جدید کے کوارٹرز میں رہا کرتے تھے۔ بعد میں دارالعلوم میں اپنا گھر تعمیر کرواکر وہاں منتقل ہوگئے تھے۔ آپ بھی سائیکل پر جامعہ آتے۔ بہت سادہ لوح تھے۔اکثر ٹوپی اور شلوار قمیض میں ملبوس نظر آتے تھے۔ فقہ کے ماہر تھے اور اعلیٰ کلاسز کے طلبہ کو فقہ پڑھایا کرتے تھے۔ طلبہ کے لئے بہت شفیق اور ہمدرد وجود تھے۔ دھیمے مزاج کے مالک تھے۔
٭مکرم مولانا نورالحق انور صاحب مرحوم
آپ دارالعلوم سے سائیکل پر آیا کرتے تھے۔ بالعموم سادہ لباس اور ٹوپی میں نظر آتے۔ کبھی کبھار اچکن اور پگڑی بھی پہن لیا کرتے تھے۔ تفسیر القرآن اور ترجمۃ القرآن پڑھاتے تھے۔ امریکہ میں بطور مبلغ خدمات بجا لا چکے تھے۔
٭ مکرم نورالحق تنویر صاحب مرحوم
آپ عربی ادب کے استاد تھے علاوہ ازیں ناظم امتحانات اور ناصر ہوسٹل کے انچارج بھی رہے۔ بہت شیریں زبان کے مالک تھے۔ تدریس کا لہجہ بھی بہت نرم تھا۔ تدریس کے دوران ہم طلبہ آنمحترم کو باتوں میں آسانی سے لگا لیا کرتے تھے۔
آپ ریلوے روڈ دارالرحمت سے سائیکل پر جامعہ آیا کرتے تھے۔ ٹوپی، شلوار قمیض اور کبھی کبھی پینٹ شرٹ بھی پہن لیا کرتے تھے۔ عربی ایسے فی البدیہی بولتے کہ آپ کا کوئی ثانی نہ تھا۔ طلبہ کے ساتھ بھی عربی میں بات کرتے بالخصوص کلاس روم میں۔ تا طلبہ بھی عربی بولنےکے قابل ہو سکیں۔
٭مکرم صاحبزادہ مرزا رفیع احمد صاحب مرحوم
آپ پگڑی، اچکن میں ملبوس، ہاتھ میں گھونٹی لئے احاطہ خاص سے پیدل جامعہ احمدیہ تشریف لاتے۔ اور اعلیٰ کلاسوں کو ایک دو پیریڈ پڑھا کر واپس تشریف لے جاتے۔ ہم نے درجہ رابعہ اور خامسہ میں آپ سے تفسیر کشاف اور دوسرے مفسرین کی تفاسیر کے علاوہ تصوف پڑھی ہے۔ جو عربی میں تھیں۔ آپ سہل زبان میں ان کا ترجمہ اور تشریح کیا کرتے تھے۔ آپ جامعہ کی فیکلٹیز میں سے تھے۔
٭ مکرم حکیم خورشید احمد صاحب مرحوم
آپ کا گول بازار ربوہ میں خورشید دواخانہ کے نام سے اپنا دواخانہ تھا۔ خدمت دین کا بہت شوق تھا۔ ربوہ کے صدر عمومی بھی تھے۔ آپ بالعموم اچکن اور کرا کلی ٹوپی پہنے رکھتے تھے۔ دواخانہ میں بھی اچکن زیب تن ہوتی۔ آپ پیدل یا کبھی کبھار اپنی گاڑی پر جامعہ میں تدریس کے لئے آ یا کرتے تھے۔ آپ مولوی فاضل تھے اور حدیث کے ماہر تھے۔ آپ بھی جامعہ کی فیکلٹیز میں سے تھے۔
آپ صدر عمومی ہونے کے ساتھ ساتھ ہمارے محلہ کے صدر بھی تھے۔ خاکسار نے پہلے ناظم اطفال اور بعد ازاں زعیم مجلس خدام الاحمدیہ محلہ دارا لصدر جنوبی خدمت کی توفیق پائی۔ محلہ میں خدام اور اطفال کے علمی و ورزشی مقابلہ جات اور لوکل اجتماعات پر تشریف لا کر اطفال و خدام سے خطاب فرمایا کرتے، انعامات تقسیم کرتے اور ان نونہالوں کے روشن مستقبل کےلئے ڈونیشن بھی دے دیا کرتے تھے۔
٭ مکرم عبد الرزاق صاحب مرحوم ۔ پی ٹی آئی
آپ سے ہم طلبہ نے براہ راست علم کا فیض تو نہیں پایا۔ تا ہم آپ جامعہ میں پی ٹی آئی ٹیچر تھے۔ آپ سے ہم نے پی ٹی اور کھیلوں میں بہت کچھ سیکھا اور ہماری اخلاقی تعمیر میں آپ کا بھی بہت عمل دخل ہے۔ آپ جامعہ کے کمپاؤنڈ میں ہی رہائش پذیر تھے۔ پی ٹی آئی ٹیچرز بالعموم سخت طبیعت کے واقع ہوتے ہیں مگر آپ تحمل مزاج، نرم خو اور طلبہ سے شفقت سے پیش آتے تھے۔
جامعہ میں داخلہ کے وقت محترم ابا جان مرحوم نے خاکسار کو سفید رنگ کے دو شلوار قمیض اور مکیشن لے دی۔ مگر جلد ہی جامعہ میں یونیفارم کا اعلان ہو گیا جس میں تسمے والے بوٹ پہننے کا حکم بھی شامل تھا۔ محترم سید میر داؤد احمد صاحب غفر اللہ روزانہ ہی مجھے اسمبلی سے باہر نکال کر شروع میں تو تسمے والے بوٹ خریدنے کی ہدایت کرتے رہے۔ ایک دن فٹبال گراؤنڈ کا چکر لگانے کو کہا۔ میں چکر لگا کر آپ کے دفتر چلا گیا اور محترم ابا جان مرحوم کا (جو ایک اعلیٰ سرکاری افسر تھے اور نہایت دیانت داری سے گزر بسر کرتے تھے) یہ پیغام دیا کہ ’’میں نے آپ کے جامعہ میں جانے کی خوشی میں اپنی جیب کاٹ کر آپ کو نئی مکیشن لے دی ہے۔ آپ کے سات بہن بھائی اور بھی ہیں۔ ہر ماہ اگر ایک کو جوتا لے کر دوں تو آٹھویں مہینے آپ کی باری آئے گی‘‘ لہٰذا مجھے مکیشن پہننے کی اجازت دے دیں۔ آپ نے مجھے مخاطب ہو کر فرمایا۔ جامعہ کا ڈسپلن قائم رہے گا اور تسمے والے جوتے ہی آپ کو پہننے ہوں گے۔ اور ساتھ ہی بیل دے کر پی ٹی آئی صاحب کو بلوا کر ہدایت دی کہ انہیں بازار سے تسمے والے بوٹ خرید کردے دیں۔ مکرم پی ٹی آئی صاحب نے شام کو ماڈرن اسٹور سے باٹا کےجوتے خرید کر مجھے دئیے جو اُس وقت یعنی 1970ء میں انیس روپے ننانوے پیسے کے آئے تھے۔
بات جامعہ کے ڈسپلن کی چلی ہے تو محترم میر صاحب پرنسپل جامعہ روزانہ اسمبلی کے عقب میں کالی عینک پہنے کھڑے ہو تے تھے۔ جس طالب علم کے لباس میں کمی نظر آتی اس کو توجہ دلاتے۔ جیسے اگر جوتے پالش نہ ہوں یا کپڑے استری نہ ہوئے ہوں۔ ٹوپی سیدھی نہیں پہنی یا پہنی ہی نہیں۔ ایک دفعہ قمیض کے بازو کے کف کو دو دفعہ فولڈ کرنے کا رواج آیا تو طلبہ نے بھی ایسا کرنا شروع کر دیا۔ ایک دن اسمبلی میں بہت سے طلبہ کے کف کو فولڈ کئے دیکھ کر فرمایا ’’آپ کسی فیکٹری میں کام کرنے نہیں آئے یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کرنے آئے ہیں۔ اس لئے کف کے بٹن بند کر کے رکھیں۔‘‘
ورزش اور پی ٹی آئی کے لئے گاہے بگاہے عملہ حفاظت خاص حضرت خلیفۃ المسیح سے بھی بعض دوست فیکلٹیز پر متعین ہوتے رہے۔
٭مکرم مولانا شیخ نور احمد منیر صاحب ۔ مبلغ بلاد عربیہ
آپ کوارٹرز تحریک جدید سے سائیکل پر جامعہ آیا کرتے تھے۔ ہر وقت اچکن اور ترکی ٹوپی پہنے ہوتے تھے۔ آپ نے ہمیں قرآن، عربی اور کلام پڑھایا۔ آپ کا جسم بھاری بھر کم تھا۔ اس لئے آہستہ آہستہ چلتے تھے۔ ایک روز (جب ہم درجہ ثانیہ میں تھے) آپ کا پیریڈ تھا اور آپ لیٹ ہو گئے۔ چونکہ ہماری کلاس تعداد کے لحاظ سے جامعہ کی سب سے بڑی کلاس تھی۔ ہم کل 37طلبہ تھے۔ فارغ وقت میں چند طلبہ معمولی بات بھی کرتے تو شور ہو جاتا تھا۔ ا س شور کو سن کر مکرم ملک سیف الرحمٰن صاحب پرنسپل جامعہ احمدیہ اپنے دفتر سے اُٹھ کر آئے اور پوچھا کس کا پیریڈ ہے؟ ہم میں سے ایک طالب علم نے کہا ’’۔ مکرم شیخ نور احمد منیر صاحب کا پیریڈ ہے۔ ریل گاڑی کی وجہ سے ریلوے پھاٹک بند ہے تو وہ وہیں کھڑے ہوں گے کیونکہ وہ ساتھ چرخی والے راستے سے گزر نہیں سکتے۔‘‘ مکرم ملک صاحب اپنی جیب سے سرخ رنگ کا رومال نکال کر منہ پر رکھ کر ہنستے ہوئے واپس چلے گئے۔ تھوڑی دیربعد شیخ صاحب جب آئے تو ہم نے یہ واقعہ ان کو سنایا۔ آپ بھی یہ کہتے ہوئے ہنس دیئے کہ واقعی پھاٹک بند ہونے کی وجہ سے میں وہیں کھڑا رہ گیا اور دیر ہو گئی۔ اس وقت طلبہ کا اساتذہ کے ساتھ اس طرح کا پیار بھرا تعلق ہوتا تھا۔
آپ پائے کے جید عالم تھے۔ عربی فَر فَر بولا کرتے تھے۔ چونکہ خاکسار کے محلہ دار تھے۔ اس لئے مسجد محمود میں آپ کو بھی اور مجھے بھی درس دینے کا موقع میسر آیا۔آپ کا درس علمی ہوتا اور تربیت کے کئی نکات کھول کر بیان کرتے۔ خاکسار کے درس پر مجھے حوصلہ بھی دیتے اور رہنمائی بھی کرتے۔ یہ محلہ علماء مبلغین کا محلہ ہے۔ اس لئے علماء کے سامنے ایک نوجوان کا درس دینا ایک معانی رکھتا تھا۔ اس لئے آپ نے مجھے بہت حوصلہ دیا۔ آپ کی کئی کتب منظر عام پر آ چکی ہیں۔
ایسے اساتذہ کرام جو ابھی بفضل الله تعالیٰ بقید حیات ہیں
اب ایسے بزرگ اسا تذہ کا ذکر اختصار سے اِس دُعا کے ساتھ کروں گا جن سے علم کا فیض پانے کی توفیق اللہ تعالیٰ نے دی۔ اللہ تعالیٰ ان کی عمر میں برکت ڈالے اور صحت کے ساتھ خدمت دینیہ بجا لانے کی توفیق دے۔آمین
٭ مکرم سید میر محمود احمد ناصر صاحب مدّ ظلہ العالی
ان اساتذہ میں سے سب سے پہلے ایسی بزرگ ہستی کا ذکر کرنا چاہوں گا۔ جن کے علم اور کردار نے خاکسار کی کایا ہی پلٹ دی۔ اور وہ حضرت میر محمد اسحاق ؓ کے بیٹے اور مکرم سید میر داؤد احمد صاحب مرحوم کے چھوٹے بھائی ہیں۔ ہم نے آنمحترم سے حدیث، موازنہ مذاہب، منطق اور تصوف کا علم حاصل کیا۔ میں نے آپ کو اپنی زندگی میں کسی طا لب علم سے ناراض ہو تے نہیں دیکھا۔ ہنسی کے ساتھ طالب علم کو ٹال دیتے۔ تدریس میں کبھی کسی طالب علم کی باتوں میں نہ آتے۔ بات سُن کر ہنس دیتے اور دوبارہ پڑھانے میں مشغول ہو جاتے۔ لیکچر باقاعدہ گھر سے تیار کر کے آتے۔ چونکہ آپ بعد جامعہ حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ کے ساتھ ہوتے تھے۔ اس لئے اگلے دن کی تدریس کے لئے تیاری نہ کی ہوتی تو کلاس میں آتے ہی کہہ دیتے کہ آج میں تیاری نہیں کر سکا لیکن وقت ضائع کیے بغیر کسی بات پر گفتگو شروع کر دیتے۔ اگر تدریس کے دوران باہر کسی ترکھان کے کام کرنے سے آنے والی آ وازوں سے یا جلسہ سالانہ کے بعد گراؤنڈ میں پڑی پرالی کو آگ لگانے سے دھویں سے ہماری تدریس میں خلل آتا تو کوئی کھڑکی بند کرتا توکوئی اٹھ کر دروازه بند کرنے کی کوشش کرتا تو آپ کہا کرتے تھے۔ رہنے دیں۔ دن کام کے لیے چڑھا هےانہیں ان کا کام کرنے دیں۔ آپ اپنا کام کریں۔ ایک دفعہ انصار اللہ کے اجتماع کے آخری روز حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ کے ساتھ ایوان محمود میں بڑا کھانا تھا۔ مکرم میر صاحب کھانے کے انچارج تھے۔ کھانے کے بعد جب حضور واپس تشریف لے گئے اور انصار بھی قریباً جا چکے تھے تو ہم میں سے بعض ڈیوٹی پر مامور طلبہ نے مٹی کے آب خورے اور دوسرے برتن اسٹیج سے نیچے پھینک کر توڑنے شروع کر دیئے۔ جبکہ خاکسار کی ڈیوٹی اسٹیج کے قریب ہی ایک بلاک پر تھی، میں کھڑا ان کے اس فعل پر ہنس رہا تھا۔ آپ باہر سے اند ر تشریف لائے آپ کے ہاتھ میں باڑ کی ایک کین تھی۔ آپ نے مجھے دو تین لگائیں۔ جب مکرم میر صاحب کا غصہ جاتا رہا تو میں نے آپ کے سامنے حاضر ہو کر عرض کی کہ میں نے ایک بھی آب خورا نہیں توڑا۔ آ پ نے مجھے بلا وجہ سزا دی۔ آپ نے معذرت کی اور کہا کہ آپ میرے گھر چائے پر آئیں۔ مکرم محمد زکریا صاحب جو آج کل امیرجماعت ڈنمارک ہیں وہ میرے بلاک کے انچارج تھے انہوں نے میر صاحب سے کہا که میں ان کا انچارج ہوں اس لئے میں بھی ساتھ آؤں گا۔ چنانچہ کچھ دنوں کے بعد ہم مکرم میر محمود احمد صاحب کے گھر واقع احاطہ پرائیویٹ سیکرٹری میں حاضر ہوئے۔ آپ نے چائے کا انتظام کر رکھا تھا اور ہر چیز خود آگے بڑھ کر ہمیں پیش فرماتے اور بار بار کہتے کہ بی بی متین نے آپ کے لئے اسپیشل طور پر تیار کی ہے۔ جن میں گھر کی بنی آئس کریم مجھے آج بھی یاد ہے اور اس کا لاجواب ذائقہ آج بھی زبان پر محسوس ہوتا ہے۔
آپ کے ساتھ گزرے بے شمار واقعات سینہ ٔقرطاس پر اُبھر رہے ہیں۔ مگر ایک واقعہ پر اکتفا کرتا ہوں۔ درجہ رابعہ کا واقعہ ہے جب اعلان ہوا کہ کسی طالب علم کی ترقی کا انحصار چھ ماہ، سہ ماہی یا ماہانہ (اب مجھے یاد نہیں) امتحانات کے مارکس جمع کر کے ہو گا۔ آپ ہمیں موازنہ پڑھاتے تھے جو خاکسار کا پسندیدہ مضامین میں سے ایک تھا۔ ایک دفعہ موازنہ مذاہب میں ،میں اپنی کلاس میں اوّل آگیا۔ آپ نے مجھے بلوایا اور پوچھا کہ آپ فلاں طالب علم (نام لے کر) سے آگے کیسے گزر گئے۔ خاکسار نے فضل خداوندی ہی قرار دیا اور دل میں سوچا کہ کسی کے ناکام ہونے پر کمیشن بیٹھتے تو سنا تھا۔ آج خاکسار کی کامیا بی پر بھی کمیشن بیٹھ گیا ہے۔
کمیشن کی بات چل نکلی ہے تو غالباً درجہ ثانیہ کی بات ہے کہ میں ماسوائے انشاء کے تمام مضامین میں اعلیٰ نمبروں سے کامیاب ہو گیا اور ان شاء میں کمپارٹ آگئی۔ جس کی وجہ سے مجھے ایک کمیشن کا سامنا کرنا پڑا۔ جس کے ایک رکن مکرم میر محموداحمد صاحب بھی تھے۔ جو مجھ سے یوں گویا ہوئے۔ کہ کیا آپ نے دھوبی سے سفید لٹھے کی چادر دھلی دیکھی ہے۔ کیا دھلنے کے بعد اس پر کوئی داغ یا دھبہ نظر آتا ہے؟ میں نے عرض کی کہ نہیں۔ تو کہنے لگے کہ یہ نمبروں کی شیٹ دھوبی سے دُھل کر آئی ہے۔ اور ا س پر ایک سیا ہی کا دھبہ بطور کمپارٹ انشاء لگا ہوا ہے۔ اسے فوراً دھوئیں۔ یہ بھی سمجھانے کا کیا ہی اچھا طریق تھا جو ہمارے بزرگ اساتذہ نے اپنایا۔
٭مکرم قاری محمد عاشق صاحب ۔ سابق انچارج مدرسۃ الحفظ
آپ نے ممہدہ میں ہمیں قرأ ت اور تجوید سکھلائی۔ آپ غیر از جماعت سے بیعت کر کے جماعت احمدیہ میں داخل ہوئے۔اور بڑے اخلاص اور محبت کے ساتھ آگے بڑھے اور جماعت میں اعلیٰ مقام تک رسائی پائی۔ مدرسۃ الحفظ کے سالہاسال تک انچارج رہے اور سینکڑوں طلبہ نے قرآن کریم حفظ کر کے نہ صرف آپ سے فیض پایا اور دنیا میں پھیل گئے بلکہ اِنَّا نَحۡنُ نَزَّلۡنَا الذِّکۡرَ وَ اِنَّا لَہٗ لَحٰفِظُوۡنَ کی عملی تصویر بن کر دنیا بھر میں اس عظیم کتاب کے امین و محافظ بنے۔
آپ کے ساتھ خاکسار کا قریبی تعلق تب استوار ہوا جب آپ رمضان المبارک میں نماز تراویح کے لئے پہلے لاہور اور پھر خاکسار کے اسلام آباد تبادلہ پر اسلام آباد آتے رہے۔ خاکسار نے آپ کو اللہ کے بہت قریب پایا۔ آپ کی بہت اچھی اور پیاری آواز میں قرآن کریم کی تلاوت سالہا سال تک ایم ٹی اے پر نشر ہوتی رہی اور آ ج کل قاعدہ یسر نا القرآن اور قرآن کریم ناظرہ کی کلاسز ایم ٹی اے پر سنائی دیتی ہیں۔ آپ ویسٹ کوٹ، شلوار قمیض اور ٹوپی پہنے دارالنصر سے جامعہ سائیکل پر آیا کرتے تھے۔ آج کل صاحب فراش ہیں۔ اللہ تعالیٰ خاتمہ بالخیر کرے ۔ آمین
٭مکرم مولانا لئیق احمد طاہر صاحب۔ مبلغ انگلستان
آپ سے ہم منطق اور موازنہ مذاہب کے مضامین سے مستفیض ہوئے۔ آپ دارالرحمت سے سائیکل پر جامعہ آیا کرتے تھے۔ کبھی پینٹ شرٹ اور کبھی شلوار قمیض کے اوپر ویسٹ کوٹ اور سر پر ٹوپی ضرور ہوتی تھی۔ آپ کے چہرے پر بھی ہلکی ہلکی مسکراہٹ ضرور رہتی تھی۔
آپ کے تدریس کا طریق بھی بہت اچھوتا تھا۔ محنت کر کے تیاری کے ساتھ جامعہ آیا کرتے تھے۔ چونکہ آپ لندن سے واپس گئے تھے۔ اس لئے انگریزی کے بعض غلط العام الفاظ بھی دوران تدریس تصحیح کروا دیا کرتے تھے۔ جیسے پاکستا ن میں اکثر دکانوں کے ساتھ ’’ورکس‘‘ جیسے سائیکل ورکس لکھا ہوتا ہے۔ جو غلط العام وَرکَس بولاجاتا تھا۔ جس کی تصحیح آپ نے کروائی ۔
ایک دفعہ آپ نے موازنہ مذاہب کے سالانہ امتحان کے پرچہ میں 10سوال ترتیب دیئے اور ہر سوال کے آگے 10جزو تھے۔ گویا 100سوالات پر مشتمل 100نمبر وں کا پرچہ تھا۔ چونکہ خاکسار کا موازنہ مذاہب کا مضمون بہت پسندیدہ تھا۔اس لئے خاکسار نے یہ تمام سوال حل کرلئے۔ اور ہر سوال کے 10جزو حل کر کے خاکسار لکھتا۔ تِلْکَ عَشَرَۃٌ کَامِلَۃٌ۔ اور آ پ نے بھی مارکس دیتے وقت ہر سوال کے جواب پر 10نمبر دے کر لکھا:
تِلْکَ عَشَرَۃٌ کَامِلَۃٌ
٭مکرم مرزا محمد الدین ناز صاحب۔ صدر، صدر انجمن احمدیہ پاکستان ،ربوه
آپ آج کل ربوہ میں صدر انجمن کے اعلیٰ ترین عہدہ صدر، صدر انجمن احمدیہ ربوہ پاکستان پر فائز ہیں۔ آپ منجھے ہوئے ادیب ہیں اور تحریر آپ کی بہت پختہ ہے۔
غالباً ہم ثانیہ میں تھے جب یہ فیصلہ ہوا کہ جامعہ کے فارغ التحصیل طلبہ کو بطور استاد لیا جائے تو اس فیصلہ کے تحت سب سے پہلے آپ ٹیچر بن کر جامعہ میں آئے اور مکرم ملک سیف الرحمٰن صاحب کے صرف ونحو کے پیریڈ میں کلاس کے پیچھے آپ بیٹھا کرتے تھے اور پھر کچھ عرصہ آپ نے ہمیں پڑھایا بھی۔ آپ ایک اچھے مقرر هیں اور ڈرافٹ تیار کرنے کے ماہر بھی۔
اللہ تعالیٰ ہمارے مرحوم اساتذہ کے درجات بلند کرتا رہے اور علم کے فیض کی تقسیم کرنے کے اجر سے نوازے اور جو اساتذہ بقید حیات ہیں اللہ تعالیٰ ان کی عمر و صحت میں برکت دے اور لمبی عمر سے نوازے۔ آمین
(ابو سعید)