خون ہی خون میں ڈوبا رہا تشنہ کوئی
’’سانحہ ایسا نہ گزرا لبِ دریا کوئی‘‘
حشر تک یاد دلائے گا مکیں کیسے تھے
بین کرتا ہوا سلگا ہوا خیمہ کوئی
کربلا لے کے چلا آتا ہے ہر سمت دیاؔ!
مکتبِ عشق پہ لکھا ہوا سجدہ کوئی
(دیا جیم۔ فیجی)
خون ہی خون میں ڈوبا رہا تشنہ کوئی
’’سانحہ ایسا نہ گزرا لبِ دریا کوئی‘‘
حشر تک یاد دلائے گا مکیں کیسے تھے
بین کرتا ہوا سلگا ہوا خیمہ کوئی
کربلا لے کے چلا آتا ہے ہر سمت دیاؔ!
مکتبِ عشق پہ لکھا ہوا سجدہ کوئی
(دیا جیم۔ فیجی)