• 6 مئی, 2024

جلسہ سالانہ ربوہ کی پیاری یادیں

ربوہ میں جلسہ سالانہ کی تاریخ

جلسہ سالانہ کا مستقل انعقاد دسمبر میں قادیان میں ہونا شروع ہوا۔ 27 دسمبر 1893ء کا جلسہ بوجوہ ملتوی کر دیا گیا۔ لیکن بعد میں دسمبر میں جلسہ کا انعقاد مستقل ہوگیا۔ 1946ء تک قادیان میں جلسہ سالانہ ہوتا رہا۔ تقسیم ہند کے بعد 1947ء اور 1948ء دو سال جلسہ سالانہ منعقد نہ ہو سکا۔

1949ء کو نئے مرکز ربوہ میں 15اپریل تا 17اپریل جلسہ سالانہ منعقد ہوا۔ 1966ء کو رمضان المبارک کی وجہ سے جلسہ سالانہ 26 تا 28 مارچ 1967ء ربوہ میں منعقد ہوا۔ اسی طرح 1967ء کا جلسہ 11تا 13جنوری 1968ء منعقد ہوا۔ پھر 1968ء میں دسمبر میں 26تا28 دسمبر منعقد ہوا۔ گویا اس سال 2مرتبہ جلسہ منعقد ہوا۔ پھر 1971ء میں پاکستان اور انڈیا کے درمیان ہونے والی جنگ کے باعث جلسہ سالانہ نہیں ہوسکا۔

1983ء تک ربوہ میں سالانہ جلسے ہوتے رہے۔ 1984ء میں ایک بہیمانہ آرڈیننس کی وجہ سے ربوہ میں جلسہ منعقد نہ ہو سکا۔ 1984ء میں حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کی ہجرت کے بعد 1985ء سے برطانیہ میں جلسے منعقد ہونا شروع ہو گئے۔

1984ء میں ربوہ میں جلسہ سالانہ تو بند کر دیا گیا لیکن آہستہ آہستہ ملک ملک میں جلسہ ہائے سالانہ منعقد ہونے شروع ہو گئے۔ لیکن ربوہ کے جلسے ہمیشہ کے لئے یاد گار ہیں۔

پورا سال جلسہ سالانہ کا انتظار

ایمان افروز اور روح پرور جلسہ سالانہ ربوہ کی یادیں بھلا کیسے بھلائی جا سکتی ہیں۔ جوں جوں جلسہ کا وقت قریب آتا جاتا جس کا سارا سال ہمیں انتظار رہا کرتا تھا اور جس کے لئے منتظمین بھی سارا سال فکر کرتے رہتے تھے ذمہ داریوں کا إحساس بھی بڑھتا جاتا تھا۔ اوراس انتظار کے دوران پچھلے سال ہونے والے جلسے کی یادیں اورباتیں ہوتی رہتیں اور اگلے سال آنے والے جلسے کا بخوشی انتظار۔ چھوٹے ہوتے ہوئے یہ کہ اس سال جلسہ سالانہ پر کون کون آ رہا ہے؟ ہمارے کزنز میں سے کون آئیں گی ؟ ہم اکٹھے ڈیوٹیاں وغیرہ دیں گی وغیرہ وغیرہ۔۔۔۔بڑے ہونے پر بیرکس میں ٹھہرنے والے مہمانوں کے لئے انتظامات، جس میں انتظامیہ کے ساتھ کسیر بچھانا، اس پر چادریں وغیرہ ڈالنی، صفائی کا خیال رکھنا، مہمانوں کا استقبال، چائے اور کھانے کے انتظامات وغیرہ میں حصہ لینا یاد ہے۔ بیرکس میں ڈیوٹیز کے مزے میں دوسرے شہروں یا ملکوں سے آنے والی ہم عمر لڑکیوں سے دوستی کرنے کا بھی بہت الگ لطف آتا تھا۔

جلسہ پر آنے والے مہمانوں کے لئے
ہر سال کی تیاریاں

اس سلسلے میں نئے بستر، رضائیاں، تکیے بنتے اور پچھلے سال والی رضائیوں کو میری امی جان ہرسال ادھیڑتی تھیں۔ رضائیوں کے غلاف اور چادریں دھوتیں اور وہ دھوپ میں سکھانے کے لئے ڈالے جاتے اور اگر استر پرانے ہو گئے ہوتے تو نئے سِل رہے ہوتے۔ پھر روئی نگندواتی اور دوبارہ رضائیوں میں بھرتیں اور پھر رضائیاں واپس سیتیں اور اس عمل میں کچھ دن لگ جاتے مگر جس پیار و محبت سے یہ سب کچھ کیا جاتا اس کی مثال میرا نہیں خیال کہ آج کل کے زمانے میں مل سکتی ہے اور یہ عمل صرف ہمارے گھر ہی نہیں بلکہ ربوہ میں رہنے والوں کے ہر گھر میں ہو رہا ہوتا تھا۔ چارپائیاں جو کہ دھوپ میں گھروں کے صحنوں میں بیٹھنے کے کام آتی تھیں۔ ان کو بھی کسا جاتا اور گھروں میں سالانہ صفائی کی جاتی، جس میں سفیدی تقریباً ہر گھر میں ہو رہی ہوتی، چھتوں پر لپائی وغیرہ تاکہ اگر بارش ہو جائے تو پانی چھت سے نہ ٹپکے۔ پھر کھانے تیار ہو رہے ہوتے تھے۔ امی جان کا دستور تھا کہ شامی کباب ضرور بنے ہوں تاکہ جب جلدی میں کھانا تیار کرنا ہو تو آسانی سے ہو جائے۔ جب کہ شامی کبابوں کا قیمہ سِل بٹے پر پیسا جاتا تھا۔ چٹنیاں بھی سِل بٹے پر تیار ہوتی تھیں۔ اس کے علاوہ کھانے کی ان تیاریوں کے ذکر سے آم، لسوڑھوں اور لیموں کا اچار یاد آ گیا۔ جن کو ایک بڑی تعداد میں کاٹ کر چارپائیوں پر چادریں ڈال کر دھوپ میں سکھایا جاتا اور پھر ایک بڑے سے مرتبان میں امی جان اچار ڈالتیں اور پھر مہمانوں کو بڑے شوق سے کھلاتیں بلکہ جاتے ہوئے ساتھ بھی دیتی تھیں۔ جلسہ پر آنے والے مہمانوں کے لئے میری امی جان پہلے سے سب تیاریاں کر کے رکھتی تھیں اس کے علاوہ صبح صبح اٹھ کر ان کے لئے پانی گرم کر کے دینا کہ وہ وضو وغیرہ کریں تو ان کو ٹھنڈ نہ لگے (یہاں یاد رہے کہ وہاں کوئی گرم پانی یا ہیٹر وغیرہ کا انتظام نہیں ہوتا تھا) پھر سب کے کپڑے خود دھو کر ان کے اٹھنے سے پہلے سوکھنے کے لئے ڈال دیا کرتی تھیں اگلے دن بھی یہی روٹین ہوتی اور ان کے آرام کا ہر طرح خیال رکھتی تھیں کہ یہ ہمارے نہیں بلکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مہمان ہیں انہیں کسی قسم کی کوئی تکلیف نہ پہنچے۔

لجنہ ہال کا سماں

لجنہ ہال میں بھی باقی دفاتر کی طرح ایک الگ سماں ہوتا۔ تقریباً تمام عہدے داران جلسے کی مناسبت سے اپنے اپنے انتظامات کرنے کی کوشش میں مہینوں پہلے سے انتظامات میں لگی ہوتیں۔ کتنی مہمان خواتین کہاں ٹھہرائی جا سکتی ہیں؟ ربوہ کے جس گھر میں بھی جگہ ہوتی وہ مہمانوں کے لئے پیش کر دیا کرتے تھے اور اسی طرح ہر رہائش گاہ پر ڈیوٹیز لگائی جاتیں۔اس کے علاوہ باقی انتظامات کے لئے بھی ڈیوٹیز لگائی جارہی ہوتیں۔ ڈیوٹیز کے بیج بانٹے جاتے اور ہر ناصرہ اور ہر لجنہ جلسہ پر آنے والے مہمانوں کے لئے خدمت اپنے لئے ایک بہت بڑا اعزاز سمجھ کر کرتیں جو الحمدللہ آج بھی اسی طرح ہے لیکن جگہ بدل گئی ہے۔ یہ وہ دن تھے جب ربوہ ہر طرح محفوظ تھا۔ اس وجہ سے کافی دیر تک بھی ہم ڈیوٹیوں سے فارغ ہو کر گھر جا رہے ہوتے اور ہم یعنی ربوہ میں رہنے والے چونکہ میزبان ہوتے تھے اس لئےحضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مہمانوں کی خدمت کے مواقع حاصل ہوتے رہے ہم اس لحاظ سے بہت خوش قسمت تھے کہ ربوہ میں رہائش تھی اور سارا سال تقریباً ایک خاص موقع کا انتظار رہتا۔

ربوہ میں جلسہ سالانہ پر آنے والے
مہمانوں کا استقبال

ربوہ میں جلسہ سالانہ پر آنے والے مہمانوں کا اَھْلاً وَّ سَھْلاً وَّ مَرْحَباً اور اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ وَرَحْمَةُ اللّٰہِ کی روح آفریں صداؤں سے استقبال کیا جاتا۔ اسٹیشن اور بس کے اڈوں پر خدامِ احمدیت مہمانوں کے استقبال کے لئے چاک و چوبند نظر آتے۔ مہمانوں کا سامان اٹھا لیتے اور قیام گاہوں میں پہنچا دیتے ساتھ ساتھ ننھے منے اطفال بھی بھاگ دوڑ کرتے نظر آتے۔ علی الصبح احباب نماز تہجد کے لئے مسجد مبارک کی طرف رواں دوا ں ہوتے تاکہ نماز فجر اپنے پیارے آقا کی اقتداء میں ادا کرنے کا شرف حاصل کر سکیں۔ صل علی نبینا صل علی محمدؐ۔ کی آوازیں صبح فجر کی نماز کے وقت آنی شروع ہوتیں اور جلسہ کے دوران نعرہ تکبیر کی گونج ایک روحانی منظر پیدا کر دیتی تھیں جو آج تک میری یادوں کا حصہ ہے۔

اس کے بعد لنگر سے ناشتہ آتا اور عموماً یہ ناشتہ دال روٹی کا ہوتا۔ وہ دال بھی عجیب مزہ رکھتی تھی کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بابرکت لنگر خانہ کی یہ دال لوگ پانی کی طرح پینا پسند کرتے تھے۔شام کو آلو گوشت کا سالن مزہ دوبالا کر رہا ہوتا تھا۔

دسمبر کی یخ ٹھنڈی صبحیں جب کہ کوٹ اور دستانے پہنے ہوئے لنگر کی لائن میں روٹی کا رومال اور بالٹی پکڑے ہوئے اپنی باری کا انتظار کرنا بھی یاد ہے وہ بھی سرور کی سی کیفیت ہوتی کیونکہ ربوہ کی سر زمین جلسہ سالانہ کے روح پرور نظارے پیش کر رہی ہوتی۔ احباب تہجد کی نماز سے لے کر تمام نمازوں کے اوقات پر مسجد وں کی طرف جاتے ہوئے نظر آتے یعنی مہمانوں کی جو رونق ان دنوں میں ہوتی وہ یقیناً ایک سرور کی سی کیفیت پیدا کرتی۔

اہالیان ربوہ جلسہ پر آنے والے مہمانوں کی رہائش کے لئے اپنے گھر پیش کر دیا کرتے تھے حالانکہ مکان بہت بڑے بڑے نہیں ہوتے تھے مگر جتنی بھی جگہ وہ مہیا کر سکتے تھے کرتے تھے۔ اور پھر کسیر جسے پرالی بھی کہا جاتا ہے وہ نصرت گرلز ہائی سکول اور کالج کے احاطے میں جلسے سے کچھ روز پہلے آجاتی تھی اور پھر جب میں سکول میں تھی اور پھر کالج میں بھی ہم تمام طالبات کے لئے ایک نئی کھیل کا آغاز ہو جاتا اور اس طرح ہم کسیر میں خوب کھیلتے۔ چھپن چھپائی کھیلی جاتی یا کبھی اس کے ڈھیر پہ چڑھ کر پھسلن بنائی جاتی۔ جلسے کے خاص دنوں میں جہاں جہاں مہمان ٹھہرتے وہاں پہنچائی جاتی اور تقریباً گھر کے ہر کمرے میں کسیر بچھائی جاتی تھی اور اس کے اوپر چادریں ڈال کر اور سب رات کو رضائیوں میں اکھٹے بیٹھ کر مونگ پھلی، چلغوزےاور ریوڑھیوں کا دور چلاتے اور مزے مزے کی باتیں کرتے۔ بڑوں کو فکر ہوتی تھی کہ جلدی سو جائیں صبح اٹھنا ہے نماز پڑھنے مسجد جانا ہے اور پھر جلسہ پر جانا ہے اور ہم بچوں کو اپنے مہمان کزنز کیساتھ بیٹھ کر پتہ نہیں کہاں کہاں کی باتیں یاد آتی تھیں اور چپکے چپکے خوب ہنسنا یہ سب بھی جلسے کی یادوں کا حصہ ہیں۔

ربوہ کے ہر گھر میں مہمانوں کو سلانے کے لیے محمدی بستر بچھائے جاتے تھے اور ان کے نیچے پرالی ہوتی تھی لنگر کا آلو گوشت اور لنگر کی دال۔ اف لنگر کے باہر سخت ٹھنڈ میں موٹے موٹے کوٹ پہنے ہم کھانا لینے پہنچ جاتے تھے۔ جلسے پر جاتے وقت امی اور خالہ جان کا بیگ میں مالٹے اور مونگ پھلی اور پتیسہ رکھنا بھی یاد ہے۔

پھر کیا ہوا کہ ربوہ میں ہونے والے جلسوں پر پابندی لگائی گئی۔ مگر ربوہ میں ہونے والا آخری جلسہ کئی طرح کی یادوں سے مزین ہے۔ میں شادی ہو کر ربوہ سےکراچی جا چکی تھی اور اس سال کا جلسہ ربوہ کا آخری جلسہ تھا جب ہمارا بڑا بیٹا تین ماہ کا تھا۔ ہم اس کو ساتھ لیکر جلسہ اٹینڈ کرنے پہنچے تھے۔

اس جلسہ میں پیارے آقا حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحمہ اللہ نے ہمیں دعاؤں پر زور دینے کی تلقین فرمائی آپؒ فرماتے ہیں:
’’عبادات میں سب سے پہلا مقام دعا کا ہے…..

پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات کامل صفات کے بارے میں فرمایا کہ ’’آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اس مرکز سے نہیں ٹلا کرتی تھی جو ہدایت اور نور کا مرکز ہے۔

پھر مخالفین احمدیت کو مخاطب کر کے فرماتے ہیں:کہ ’’تم کیوں خوف نہیں کرتے کہ تمہارے خلاف لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ بھی گواہی دے گا اور محمد رسول صلی اللہ علیہ وسلم بھی گواہی دیں گے‘‘

1984ء میں ربوہ میں جلسہ سالانہ تو بند کر دیا گیا لیکن آہستہ آہستہ دوسرے ممالک میں جلسہ ہائے سالانہ منعقد ہونے شروع ہو گئے۔ لیکن ربوہ کے جلسوں کی یادیں ہمیشہ کےلیے یاد گار ہیں۔

جہاں حضرت مسیح موعودؑ کے مہمانوں کی رونقیں ہوتیں وہاں اداسی بسیرا کرنے لگتی اور خوشی خوشی آنے والے قافلے بوجھل دلوں کے ساتھ پھر اگلے سال انہی دنوں کے دیکھنے کی تمنا لئے اپنے گھروں کو روانہ ہو جاتے۔ربوہ اور اہالیان ربوہ کچھ دن اداسی میں گزارتے اور پھر اگلے سال کے جلسہ کا انتظار شروع کر دیتے۔

حضرت خلیفة المسیح الرابع ؒ نے خطبہ جمعہ 24دسمبر 1982ء میں فرمایا کہ:
جب جلسہ آ کے چلا جاتا ہے تو اپنے پیچھے بڑی گہری اداسی چھوڑ جاتا ہے۔ ایسی گہری اداسی کے ربوہ کے درو دیوار سے اس وقت اداسی ٹپک رہی ہوتی تھی۔ پہلے جب قافلے آ کر جایا کرتے تھے اور نعرہ ہائے تکبیر سے لوگوں کی دل آزاری نہیں ہوتی تھی اور بلند آواز سے اللہ تعالیٰ کا ذکر کرتے ہوئے جب گاڑیاں روانہ ہوتی تھیں تو میں نے کئی دفعہ دیکھا کہ بہت سے کارکنان دو رویہ کھڑے خاموشی سے آنسو بہا رہے ہوتے تھے۔اتنا گہرا دکھ مہمان پیچھے چھوڑ جاتے تھے کہ باہر کی دنیا اس کا تصور بھی نہیں کر سکتی۔ آپؒ فرماتے ہیں یہ جذبہ اور یہ خلق کہاں سے ہم نے پایا تو ذہن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کے اس مصرعہ کی طرف منتقل ہوا۔

؎پر دل کو پہنچے غم جب یاد آئے وقت رخصت

خدا کرے ہمارے پیارے ربوہ میں یہ رونقیں دوبارہ لوٹ آ ئیں اور اہالیان ربوہ بھی اسی طرح محظوظ ہو سکیں۔ آمین

(مدثرہ عباسی۔ لندن)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 1 اگست 2022

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ