• 18 مئی, 2024

سیرتِ حضرت مسیح موعود و مہدی معہود علیہ السلام کے بعض شیریں واقعات

خدا تعالی نے اس زمانہ کی اصلاح کے لئے سیّدنا حضرت مسیح موعودؑ کو مبعوث فرمایا ہے اور آپ کا دعویٰ ہے کہ میں نے جو کچھ بھی پایا ہے اپنے آقا و مطاع حضرت محمدﷺ سے پایا ہے چنانچہ آپ فرماتے ہیں کہ
’’میں نے خدا کے فضل سے نہ کہ اپنے کسی ہنر سے اس نعمت سے کامل حصہ پا یا ہے جو مجھ سے پہلے نبیوں اور رسولوں اور خدا کے بر گزیدوں کو دی گئی اور میرے لئے اس نعمت کا پانا ممکن نہ تھا اگر میں اپنے سیّدومولا، فخر الانبیاء اور خیر الوریٰ حضرت محمدﷺ کی راہوں کی پیروی نہ کرتا۔ سو میں نے جو کچھ پا یا اس پیروی سے پایا اور میں اپنے سچے اور کامل علم سے جانتا ہوں کہ کوئی انسان بجز پیروی اس نبی کے خدا تک نہیں پہنچ سکتا اور نہ معرفتِ کاملہ کا حصہ پا سکتا ہے‘‘۔

(حقیقۃ الوحی۔ روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 64.65)

جب ہم سیّدنا حضرت مسیح موعودؑ کی حیاتِ مبارکہ پر نظر ڈالتےہیں تو یہ بات ہمارے سامنے آتی ہے کہ آپ کی ساری زندگی اطاعت رسولﷺ میں گزری ہے چنانچہ آپ کے ایک رفیق حضرت ڈاکٹر میرمحمد اسماعیل صاحبؓ اپنی ایک روایت میں حضرت مسیح موعودؑ کےاخلاقِ حسنہ کا نہایت ہی پیارے انداز سے ذکر کرنے کے بعدآپ کے اخلاق کے متعلق کیا ہی پیارا لکھتے ہیں کہ
’’اگر حضرت عائشہ نے آنحضرتﷺ کی نسبت یہ بات سچی کہی تھی کہ ’’کان خلقہ قرآن‘‘ تو ہم حضرت مسیح موعودؑ کی نسبت اسی طرح یہ کہہ سکتے ہیں کہ ’’کان خلقُہُ حُبَّ محمدٍ و اتباعہٗ علیہ الصّلٰوۃ و السلام‘‘

(سیرت المہدی جلد اوّل حصہ سوم صفحہ 827روایت نمبر975)

اب خاکسار حضرت مسیح موعودؑ کی حیاتِ مبارکہ میں سے چند ایک واقعات مختلف عناوین کے تحت درج کرتا ہے

٭نماز باجماعت۔

حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ بیان کرتے ہیں کہ
حضرت مسیح موعودؑ فرمایا کرتے تھے کہ۔ ۔ ۔ ۔ ’’جماعت کے لوگوں کو چاہیے کہ ہر جگہ اپنی مسجد میں اکٹھے ہو کر نماز باجماعت پڑھیں جماعت اور اتفاق میں بڑی برکت ہے پرا گندگی سے پھوٹ پیدا ہوتی ہے۔‘‘

(ذکر حبیب صفحہ 197)

سیّدنا حضرت مصلح موعودؓ بیان کرتے ہیں کہ
’’میرے نزدیک ان ماں باپ سے بڑھ کر اولاد کا کوئی دشمن نہیں جو بچوں کو نماز باجماعت کی عادت نہیں ڈالتے مجھے اپنا ایک واقعہ یاد ہے ایک دفعہ حضرت صاحب کچھ بیمار تھے اس لئے جمعہ کے لئے مسجد نا جا سکے میں اس وقت بالغ نہیں تھا کہ بلوغت والے احکام مجھ پر جاری ہوں تاہم میں جمعہ پڑھنے کو مسجد کو آرہا تھا ایک شخص مجھے اس وقت کی عمر کے لحاظ سے تو شکل اس وقت یاد نہیں رہ سکتی مگر اس واقعہ کا اثر مجھ پر ایسا ہوا کہ اب تک مجھے اس شخص کی صورت یاد ہے۔ محمد بخش اس کا نام ہے اور اب قادیان میں ہی رہتے ہیں میں نے ان سے پوچھا کہ آپ واپس آرہے ہیں ۔ کیا نماز ہو گئی ہے انہوں نے کہا آدمی بہت ہیں مسجد میں جگہ نہیں تھی میں واپس آگیا میں بھی یہ جواب سن کر واپس آگیا اور گھر میں آکر نماز پڑھ لی۔ حضرت مسیح موعود نے یہ دیکھ کر پوچھا کہ مسجد میں نماز پڑھنے کیوں نہیں گئے۔ ۔ ۔ میں نے دیکھا کہ آپ کے پوچھنے میں ایک سختی تھی اور آپ کے چہرہ سے غصہ ظاہر ہوتا تھا آپ کے اس رنگ میں پوچھنے کا مجھ پر بہت اثر ہوا۔ جواب میں میں نے کہا تو تھا کہ میں گیا تو تھا۔ لیکن جگہ نہ ہونے کی وجہ سے واپس آگیا۔ آپ سن کر خاموش ہو گئے لیکن جس وقت جمعہ پڑھ کر مولوی عبدالکریم صاحب آپ کا حال پوچھنے کے لئے آئے تو سب سے پہلی بات جو حضرت مسیح موعود ؑ نے آپ سے دریافت کی وہ یہ تھی کیا آج لوگ مسجد میں ذیادہ تھے۔ اس وقت میرے دِل میں سخت گھبراہٹ پیدا ہوئی۔ ۔ ۔ ۔ مولوی عبدالکریم صاحب نے جواب دیا۔ ہاں حضور آج واقعہ میں بہت لوگ تھے۔ ۔ ۔ بہر حال یہ واقعہ ہوا جس کا آج تک میرے قلب پر ایک گہرا اثر ہے۔ اس سے معلوم ہو سکتا ہے کہ حضرت مسیح موعودؑ کو نماز باجماعت کا کس قدر خیال رہتا تھا۔‘‘

(الحکم 21 جولائی 1943ء)

حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم۔ اے بیان کرتے ہیں کہ
’’بیان کیا مجھ سے حضرت والدہ صاحبہ نے کہ ان سے حضرت مسیح موعودؑنےذکرفرمایا کہ ایک دفعہ میں کسی مقدمہ کی پیروی کے لئے گیا۔ عدالت میں اور مقدمہ ہوتے رہے میں باہر ایک درخت کے نیچے انتظار کرتا رہا۔ چونکہ نماز کا وقت ہو گیا تھا اس لئے میں نے وہیں نماز پڑھنا شروع کر دی۔ مگر نماز کے دوران میں ہی عدالت سے مجھے آوازیں پڑنی شروع ہوگئیں مگر میں نماز پڑھتا رہا۔ جب میں نماز سے فارغ ہو اتو میں نے دیکھا کہ میرے پاس عدالت کا بہرہ کھڑا ہے سلام پھیرتے ہی اس نے مجھے کہا مرزا صاحب مبارک ہو آپ مقدمہ جیت گئے ہیں۔‘‘

(سیر ت المہدی جلد اوّل حصہ اوّل صفحہ نمبر 14روایت نمبر17)

عشقِ رسول ﷺ

حضرت مرزا سلطان احمدؓ بیان کرتے ہیں کہ
’’ایک بات جو میں نے خاص طور پر دیکھی کہ حضرت صاحب (یعنی آنحضرتﷺ) کے متعلق والد صاحب ذرا سی بات بھی برداشت نہیں کر سکتے تھے اگر کوئی شخص آنحضرت ﷺ کی شان میں ذرا سی بھی بات کہتا تھا تو والد صاحب کا چہرہ سرخ ہو جاتا تھا اور آنکھیں متغیر ہو جاتی تھیں اور فوراً ایسی مجلس سے اٹھ کر چلے جاتے تھے۔ مولوی صاحب نے بیان کیا کہ مرزا صاحب نے اس مضمون کو بار بار دہرایا اور کہا کہ حضرت صاحب سے تو والد صاحب کو عشق تھا۔ ایسا عشق میں نے کبھی کسی شخص میں نہیں دیکھا۔ خاکسارعرض کرتا ہے کہ حضرت خلیفہ المسیح الثانی بیان کرتے تھے کہ جب 1907ء میں آریوں نے وچھو والی لاہور میں جلسہ کیا ودسروں کو بھی دعوت دی تو حضرت صاحب نے بھی ان کی درخواست پر ایک مضمون لکھ کر حضرت مولوی صاحب خلیفہ اوّل کی امارت میں اپنی جماعت کے چند آدمیوں کو لاہور شرکت کے لئے بھیجا۔ مگر آریوں نے خلافِ وعدہ اپنے مضمون میں آنحضرتﷺ کے متعلق سخت بد کلامی سے کام لیا۔ اس کی رپورٹ جب حضرت صاحب کو پہنچی تو حضرت صاحب اپنی جماعت پر سخت ناراض ہوئے کہ ہماری جماعت کے لوگ اس مجلس سے کیوں نہ اٹھ کر آئے اور فرمایا کہ۔

پرلے درجہ کی بے غیرتی ہے کہ آنحضرت ﷺ کو ایک مجلس میں برا کہا جاوے اور ایک مسلمان وہاں بیٹھا رہے اور غصہ سے آپ کا چہرہ سرخ ہوگیا اور آپ سخت ناراض ہوئے کہ کیوں ہمارے آدمیوں نے غیرتِ دینی سے کام نہ لیا۔ جب انہوں نے بد زبانی شروع کی تھی تو فوراً اس مجلس سے اٹھ کر آنا چاہیے تھا۔‘‘

(سیرت المہدی حصہ اوّل جلد نمبر1 صفحہ201 روایت نمبر196)

عشقِ قرآن

حضرت ڈاکٹر میر اسماعیل صاحبؓ بیان کرتے ہیں کہ
’’جس دِن شب کو عشاء کے قریب حسین کامی سفیرِ روم قادیان آیا اس دِن نمازِ مغرب کے بعد حضرت صاحب مسجد مبارک میں شاہ نشین پر احباب کے ساتھ بیٹھے تھے ۔ آپ کو دورانِ سر کا دورہ شروع ہوا اور آپ شاہ نشین سے اتر کر نیچے لیٹ گئے اور بعض لوگ آپ کو دبانے لگ گئے مگر حضور نے تھوڑی دیر میں سب کو ہٹا دیا۔ جب اکثر دوست وہاں سے رخصت ہوگئے تو آپ نے مولوی عبد الکریم صاحب مرحوم سے فرمایا کہ کچھ قرآن شریف پڑھ کر سنائیں۔ مولوی صاحب مرحوم دیر تک نہایت خوش الحانی سے قرآن شریف سناتے رہے یہاں تک کہ آپ کو افاقہ ہو گیا۔

(سیرت المہدی حصہ دوم جلد1 صفحہ439 روایت نمبر462)

حافظ نور محمد صاحب بیان کرتے ہیں کہ
’’۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ حافظ نبی بخش صاحبؓ نے (حضور سے) ہنس کر عرض کیا کہ یہ (یعنی خاکسار) بہت وظیفے پڑھتے رہتے ہیں۔ میں نے عرض کیا حضور میں تو وظیفہ نہیں کرتا صرف قرآن شریف ہی پڑھتا ہوں۔ آپ مسکرا کر فرمانے لگے کہ تمہاری تو یہ مثال ہے کہ کسی شخص نے کسی کو کہا کہ یہ شخس بہت عمدہ کھانا کھایا کرتا ہے تو اس نے جواب میں کہا کہ میں تو کوئی اعلیٰ کھانا نہیں کھاتا صرف پلاؤ کھایا کرتا ہوں پھر آپ نے فرمایا کہ قرآن شریف سے بڑھ کر اور کون سا وظیفہ ہے۔ یہی بڑا اعلی ٰوظیفہ ہے۔‘‘

(سیرت المہدی حصہ دوم جلد1 صفحہ349 روایت نمبر318)

حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ بیان کرتے ہیں کہ
عموماً لیکچرار اور مصنفین اپنے مضمون کا مسودہ یا نوشت تیا ر کرنے سے قبل اس کے متعلق بعض کتب اور رسائل کو پڑھ لیتے ہیں۔ حضرت مسیح موعودؑ اس غرض کے لئے ہمیشہ قرآن کریم کو پڑھا کرتے تھے۔ اور دوسری کتابوں کی طرف چنداں متوجہ نہ ہوا کرتے تھے۔ یہی وجہ ہے کے حضور کی تصانیف میں بکثرت قرآن کریم کے حوالے ہی پائے جاتے ہیں۔ گویا آپ کی تمام تحریریں۔ آپ کا تمام کاروبار قرآن شریف کی تفسیر تھا۔ آپ کو قرآن شریف کے ساتھ خاص محبت تھی جس کا اظہار آپ کی نظموں میں بخوبی ہو رہا ہے۔ مثلاً یا الہی تیرا فرقاں ہے کہ اک عالم ہے

جو ضروری تھا وہ سب اس میں مہیا نکلا
اے عزیزو سنو کہ بے قرآن حق کو ملتا نہیں کبھی انساں
دِل میں یہی ہے ہر دم تیرا صحیفہ چوموں
قرآن کے گرد گھوموں کعبہ میرا یہی ہے

(شمائل احمد صفحہ نمبر21 ۔ شائع کردہ مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ ربوہ)

محبت ِدین اور غیرتِ دینی

آپ اپنے منظوم کلام میں اپنے دِل کی کیفیت کو خدا کے حضور پیش کرکے خدا تعالیٰ سے دعا گو ہوتے ہوئے فرماتے ہیں:

دیکھ سکتا ہی نہیں میں ضعفِ دینِ مصطفیٰ
مجھ کو کر اے میرے سلطاں کامیاب و کامگار

آپؑ کے دِل میں کس قدر محبتِ دین اور غیرتِ دین تھی اس بات کا اندازہ مندرجہ ذیل روایات سے بخوبی ہو سکتا ہے۔

حضرت مسیح موعودؑ کے رفیق حضرت مولوی شیر علی صاحبؓ کی روایت ہے جس میں آپ فرماتے ہیں:
’’میرا ایک کلاس فیلو تھا۔ جس کا نام محمد عظیم ہے۔ اور وہ پیر جماعت علی شاہ سیالکوٹی کا مرید ہے۔ وہ مجھ سے بیان کرتا ہے میرا بھائی کہا کرتا تھا ایامِ جوانی میں جب مرزا صاحب کبھی کبھی امرتسر آتے تھے تو میں ان کو دیکھتا تھا وہ پادریوں کے خلاف بڑا جوش رکھتے تھے۔اس زمانہ میں عیسائی پادری بازاروں وغیرہ میں عیسائیت کا وعظ کیا کرتے تھے اور اسلام کے خلاف زہر اگلتے تھے۔ مرزا صاحب ان کو دیکھ کر جوش سے بھر جاتے تھے اور ان کا مقابلہ کرتے تھے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔‘‘

(سیرت المہدی حصہ اوّل۔ جلد نمبر 1 صفحہ نمبر 232 ، روایت نمبر 254)

حضرت منشی ظفر احمد صاحبؓ بیان کرتے ہیں کہ:
لدھیانہ کا واقعہ ہے کہ ایک دفعہ سردرد کا دورہ حضرت مسیح موعودؑ کو اسقدرسخت ہوا کہ ہاتھ پیر برف کی مانند سرد ہو گئے۔ میں نے ہاتھ لگا کر دیکھا تو نبض بہت کمزور ہو گئی تھی۔ آپ نے مجھے ارشاد فرمایا کہ اسلام پر کوئی اعتراض یاد ہو تو اس کا جواب دینے سے میرے جسم میں گرمائی آجائے گی اور دورہ موقوف ہو جائے گا ۔میں نے عرض کی حضور اس وقت تو کوئی اعتراض یاد نہیں آتا۔

فرمایا: آنحضرت کی نعت میں کچھ اشعار یاد ہوں تو پڑھیں۔ میں نے براہینِ احمدیہ کی نظم

’’اے خدا! اے چارہ آزما‘‘

خوش الحانی سے پڑ ھنی شروع کردی اور آپؑ کے بدن میں گرمائی آنی شروع ہو گئی۔ پھر آپ لیٹے رہے اور سنتے رہے پھر مجھے ایک اعتراض یادآگیا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جب میں نے یہ اعتراضات سنائے تو حضورؑ کو جوش آگیا اور فوراً آپ بیٹھ گئے اور بڑے زور کی تقریر جواباً کی اور بہت سے لوگ بھی آگئے اور دورہ ہٹ گیا۔

(سیرت المہدی حصہ چہارم۔ جلد نمبر 2 صفحہ 38، روایت نمبر 1039)

اسی طرح آپؑ کے ایک اور رفیق حضرت مو لانا عبدالکریم صاحب سیالکوٹیؓ اپنے وسیع تجربہ کی بناء پر فرماتے ہیں:
’’ایک ہی چیز ہے جو آپ کو متاثر کرتی ہے۔ اور جنبش میں لاتی ہے اور حد سے زیادہ غصہ دلاتی ہے وہ ہے ’’محرمات اللہ اور اہانت شعائر اللہ‘‘
فرمایا ! میری جائیداد کا تباہ ہونا اور میرے بچوں کا آنکھوں کے سامنے ٹکڑے ٹکڑے ہونا مجھ پر آسان ہے بہ نسبت دین کی ہتک اور استخفاف کے دیکھنے اور اس پر صبر کرنے کے‘‘۔

(حیاۃ النبی جلد اوّل نمبر 2 صفحہ 159۔160)

عائلی زندگی

حضرت شیخ محمود احمد عرفانی صاحبؓ تحریر کرتے ہیں:
محترمہ استانی سکینۃ النساء بیگم صاحبہ جو مکرم قاضی اکمل صاحب کی حرم محترم ہیں اور تعلیم یافتہ خاتون ہیں اور جن کو حضرت اقدسؑ کے گھر میں بہت قریب سے حالات دیکھنے کا موقعہ ملا ہے۔ اپنی ایک روایت میں جو انہوں نے مجھے لکھ کر دی ،لکھا ہے:
’’ایک دفعہ حضرت اماں جان فرماتی تھیں کہ میں جب پہلے پہل دلی سے آئی تو مجھے معلوم ہوا حضرت اقدس علیہ السلام گڑ والے چاول بہت پسند فرماتے ہیں۔ چنانچہ میں نے بڑے شوق اور اہتمام سے میٹھے چاول پکانے کا انتظام کیا۔ تھوڑے سے چاول منگوائے اور اس میں چار گنا گڑ ڈال دیا۔ سو وہ بالکل راب سی بن گئی جب پتیلی چولہے سے اتاری اور چاول برتن میں نکالے تو دیکھ کر سخت رنج اور صدمہ ہوا کہ یہ تو خراب ہو گئے۔ ادھر کھانے کا وقت ہو گیا تھا۔ حیران تھی کہ اب کیا کروں۔ اتنے میں حضرت صاحب آگئے۔ میرے چہرہ کو دیکھا جو کہ رنج اور صدمہ سے رونے والوں کا سا بنا ہوا تھا۔ آپ دیکھ کر ہنسے اور فرمایا کیا چاول اچھے نہ پکنے کا افسوس ہے؟

پھر فرمایا: نہیں! یہ تو بہت اچھے ہیں۔ میرے مزاج کے مطابق پکے ہیں۔ ایسے زیادہ گڑ والے ہی مجھے پسند ہیں۔ یہ تو بہت ہی اچھے ہیں پھر خوش ہو کر کھائے۔

حضرت اماں جان فرماتی تھیں کہ حضرت صاحب نے مجھے خوش کرنے کی اتنی باتیں کہیں کہ میرا دِل بھی خوش ہو گیا۔‘‘

(سیرت سیدہ نصرت جہاں بیگم صاحبہ صفحہ نمبر 226۔225)

ایک دفعہ ایک دوست کی درشت مزاجی اور بد زبانی کا ذکر ہو ا اور شکایت ہوئی کہ وہ اپنی بیوی سے سختی سے پیش آتا ہے حضور اس بات سے بہت کبیدہ خاطر ہوئے اور فرمایا:

’’ہمارے احباب کو ایسا نہ ہونا چاہیے۔‘‘

حضور بہت دیر تک معاشرتِ نسواں کے بارہ میں گفتگو فرماتے رہے اور آخر پر فرمایا:
میرا یہ حال ہے کہ ایک دفعہ میں نے اپنی بیوی پر آواز کسا تھا ۔میں محسوس کرتا تھا کہ وہ بانگِ بلند دِل کے رنج سے ملی ہوئی ہے اور بایں ہمہ کوئی دِل آزار اور درشت کلمہ منہ سے نہیں نکالا تھا۔ اس کے بعد میں بہت دیر تک استغفار کرتا رہا اور بڑے خشوع اور خضوع سے نفلیں پڑھیں اور کچھ صدقہ بھی دیا کہ یہ درشتی کسی پنہائی معصیت الہٰی کا نتیجہ ہے۔‘‘

(ملفوظات جلد اوّل صفحہ 307)

عاجزانہ راہیں

حضرت مسیح موعودؑ بیان کرتے ہیں کہ:
’’ایک دفعہ میں باہر سیر کو جا رہا تھا۔ ایک پٹواری عبدالکریم میرے ساتھ تھا۔ وہ ذرا آگے تھا میں پیچھے۔ راستہ میں ایک بڑھیا کوئی 70 یا 75 کی ضعیفہ ملی۔ اس نے ایک خط اسے پڑھنے کو کہا مگر اس نے اسے جھڑکیا دے کر ہٹا دیا۔ میرے دِل پر چوٹ سی لگی ۔اس نے وہ خط مجھے دیا۔ میں اس کو لے کر ٹھہر گیا اس کو پڑھ کر اچھی طرح سمجھا دیا اس پر اسے سخت شرمندہ ہونا پڑا کیوں کے ٹھہرنا تو پڑا اور ثواب سے بھی محروم رہا۔‘‘

(ملفوظات جلد نمبر 4 صفحہ نمبر 83.83)

حضرت مرزا سلطان احمد صاحبؓ جو آپ کے بڑے بیٹے تھے بیان کرتے ہیں کہ ’’دادا صاحب ہمارے تایا مرزا غلام قادر صاحب کو کرسی دیتے تھے یعنی جب وہ دادا صاحب کے پاس جاتے تو ان کو کرسی پر بٹھاتے تھے لیکن والد صاحب جا کر خود ہی نیچے صف کے اوپر بیٹھ جاتے تھے۔ کبھی دادا صاحب ان کو اوپر بیٹھنے کو کہتے تو والد صاحب کہتے کہ میں اچھا بیٹھا ہوں۔‘‘

(سیرت المہدی حصہ اوّل جلد 1 صفحہ 200 روایت نمبر192)

’’ایک مرتبہ حضرت مسیح موعودؑ پر بیماری کا دورہ ہوا ۔باوجود یہ کہ گرمی کا موسم تھا۔ ہاتھ پاؤں سرد ہوگئے۔ اوپر بیت الذکر کی چھت پر نمازِ مغرب تشریف فرما تھے۔ احباب فوری تدابیر میں مصروف ہوگئے۔ پیرا کو بھی خبر ہوئی وہ بھی اس وقت مٹی گارے کا کوئی کام کر رہا تھا۔ پاؤں کیچڑ میں لت پت تھے اسی حالت میں بیت الذکر میں چلا آیا۔ آگے دری تھی اور یہ قدرتی امر تھا کہ اس کی اس حالت سے پاس والوں کے کپڑے اور دری کا فرش خراب ہوتا ۔اس ہئیت کذائی (اسی حال میں) سے وہ آگے بڑھا اور حضرت کو دبانے لگا ۔بعض نے اس کو کہا کہ تو کس طرح آگیا؟ تیرے پاؤں خراب ہیں مگر اس نے کچھ بھی نہیں سنا اور حضرت کو دبانے لگا۔حضرت نے فرمایا:اس کو کیا خبر ہے ؟ جو کرتا ہے کرنے دو کچھ حرج نہیں؟‘‘

(سیرت حضرت مسیح موعودؑ صفحہ 360)

حضرت اقدس مسیح موعودؑ کے ایک اور خادم مرزا اسماعیل بیگ صاحب کی شہادت ہے کہ جب حضرت اقدس اپنے والد بزرگوار کے ارشاد کے ماتحت بعثت سے قبل مقدمہ کی پیروی کے لئے جایا کرتے تھے تو سواری کے لئے گھوڑا بھی ساتھ ہوتا تھا اور میں بھی عموماً ہم رکاب ہوتا تھا لیکن جب آپ چلنے لگتے تو آپ پیدل ہی چلتے اور مجھے گھوڑے پر سوار کرا دیتے۔ میں بار بار انکار کرتا اور عرض کرتاحضور مجھے شرم آتی ہے۔ آپ فرماتے کہ ہم کو پیدل چلتے شرم نہیں آتی۔ تم کو سوار ہو کہ کیوں شرم آتی ہے۔

(حیاتِ طیبہ صفحہ15)

آپؑ فرماتے ہیں:

گالیاں سن کر دعا دو پا کے دکھ آرام دو
کبر کی عادت جو دیکھوں تم دکھاؤ انکسار

وسعتِ حوصلہ

حضرت مولانا عبدالکریم سیالکوٹی صاحبؓ بیان کرتے ہیں:
’’ایک دفعہ اتفاق ہوا کہ جن دنوں حضرت صاحب تبلیغ (یعنی آئینہ کمالاتِ اسلام کا عربی حصہ) لکھا کرتے تھے۔ مولوی نورالدین صاحب تشریف لائے۔ حضرت صاحب نے ایک بڑا دو ورقہ مضمون لکھا اور اس کی فصاحت و بلاغت خدا داد پر حضرت مسیح موعودؑ کو بڑا ناز تھا اور وہ فارسی ترجمہ کرنے کے لئے مجھے دینا تھا مگر یاد نہ رہا اور جیب میں رکھ لیا اور باہر سیر کو چل دیے۔ مولوی صاحب اور جماعت بھی ساتھ تھی۔ واپسی پر کہ ہنوز راستہ ہی میں تھےکہ مولوی صاحب کے ہاتھ میں کا غذ دے دیا کہ وہ پڑھ کرعاجز راقم کو دے دیں۔ مولوی صاحب کے ہاتھ سے وہ مضمون گر گیا۔ واپس ڈیرہ میں آئے اور بیٹھ گئے۔ حضرت صاحب معمولاً اندر چلے گئے۔ میں نے کسی سے کہا کہ آج حضرت صاحب نے مضمون نہیں بھیجا اور کاتب سر پر کھڑا ہے اور ابھی مجھے ترجمہ بھی کرنا ہے۔ مولوی صاحب کو دیکھتا ہوں تو رنگ فق ہو رہا ہے۔ حضرت صاحب کو خبر ہوئی تو معمولی ہشاش بشاش چہرہ تبسم زیرِ لب تشریف لائے اور بڑا عزر کیا کہ ’’مولوی صاحب کو کاغذ کے گم ہونے سے بڑی تشویش ہوئی۔ مجھے افسوس ہے کہ اس کی جستجو میں اس قدر تگاپو کیوں کیا گیا۔ میرا تو یہ اعتقاد ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اس سے بہتر عطا فرماوے گا۔‘‘

(سیرت المہدی حصہ اوّل۔ جلد نمبر 1 صفحہ نمبر 260، روایت نمبر 292)

حضرت چوہدری حاکم علی صاحب بیان کرتے ہیں کہ:
’’ایک دفعہ حضرت صاحب بڑی مسجدمیں کوئی لیکچر یا خطبہ دے رہے تھےکہ ایک سکھ مسجدمیں گھس آیا اور سامنے کھڑا ہو کر حضرت صاحب کو اور آپ کی جماعت کو سخت گندی اور فحش گالیاں دینے لگا۔ اور ایسا شروع ہوا کہ بس چپ ہونے میں ہی نہ آتا تھا۔ مگر حضرت صاحب خاموشی کے ساتھ سنتے رہے۔ اس وقت بعض طبائع میں اتنا جوش تھا کہ اگر حضرت صاحب کی اجازت ہوتی تو اس کی وہیں تکہ بوٹی اڑ جاتی۔ مگر آپؑ سے ڈر کر سب خاموش تھے۔آخر جب اس کی فحش زبانی حد کو پہنچ گئی تو حضرت صاحب نے فرمایاکہ دو آدمی اسے نرمی کے ساتھ پکڑ کر مسجد سے باہر نکال دیں مگر اسے کچھ نہ کہیں۔ اگر یہ نہ جاوے تو حاکم علی سپاہی کے سپرد کر دیں۔ خاکسار عرض کرتا ہے کہ سرکار انگریزی کی طرف سے قادیان میں ایک پولیس کا سپاہی رہا کرتا ہے اور ان دنوں حاکم علی نامی ایک سپاہی ہوتا تھا۔‘‘

(سیرت المہدی حصہ اوّل۔ جلد نمبر 1 صفحہ نمبر257، روایت نمبر286)

حضرت میاں سراج الدین صاحبؓ لکھتے ہیں کہ:
’’سراج الدین لمبے بالوں والا جو سجادہ نشین تھا آیا ہے، پہلے تو نرمی سے باتیں پوچھتا رہا۔ پھر گالیاں نکالنی شروع کر دیں۔ایک گھنٹہ تک بابر گالیاں دیتا رہا ۔آپؑ سنتے رہے جب وہ گالیاں دے کر تھک گیا تو آپ نے مسکرا کرفرمایا۔بس یا کچھ اور بھی؟‘‘

(الحکم 26مئی 1935ء صفحہ6)

حضرت شیخ یعقوب علی عرفانی صاحبؓ بیان کرتے ہیں:
’’حضرت مسیح موعود ؑپر بالمشافہ زبانی گندے حملے ہی نہ ہوتے تھے، اور آپ کی جان پر اس طرح کے بازاری حملوں پر ہی اکتفا نہ کیا جاتا تھا، آپ کے قتل کے فتووں اور منصوبوں پر پھر اس کے لئے کوشش کو ہی کافی نہ سمجھا جاتا تھا ،اخبارات اور خطوط میں بھی گالیوں کی بوچھاڑ کی جاتی تھی۔ اور پھر اس پر بس نہیں، ایسے خطوط عموماً آپ کو بیرنگ بھیجے جاتے تھے۔ خدا کا برگزیدہ ان خطوط کو ڈاک کا محصول اپنی گرہ سے اداکر کے لیتا تھا اور جب کھولتا تھا تو ان میں اوّل سے آخر تک گندی اور فحش گالیوں کے سوا کچھ نہ ہوتا تھا۔ آپ ان پر سے گزر جاتے اور ان شریروں اور شوخ چشموں کے لئے دعا کر کے ان کے خطوط ایک تھیلے میں ڈال دیتے تھے۔‘‘

(سیرت حضرت مسیح موعودؑ صفحہ 462 از حضرت یعقوب علی عرفانی صاحب)

رفقاء سے محبت

آپؑ کی حضرت صاحبزادہ عبدالطیف صاحبؓ سے محبت کے بارے میں حضرت ڈاکٹر میر اسماعیل صاحب بیان کرتے ہیں کہ:
’’مولوی عبد الطیف صاحب کی شہادت کے بعدان کا کوئی مرید ان کے کچھ بال حضرت مسیح موعودؑ کے پاس قادیان لایا۔ آپ نے وہ بال ایک کھلے منہ کی چھوٹی بوتل میں ڈال کر اس کے اندر کچھ مشک رکھ کر اس بوتل کو سر بمہر کر دیا اور پھر اس شیشی میں تاگہ باندھ کر اسے اپنی بیت الدعا کی ایک کھونٹی سے لٹکا دیا۔ اور یہ ساراعمل آپ نے ایسے طور پر کیا کہ گویا ان بالوں کو آپ ایک تبرک خیال فرماتے تھے اور نیز بیت الدعا میں اس غرض سے لٹکائے گئے ہوں گے کہ دعا کی تحریک رہے۔‘‘

(سیرت المہدی حصہ دوم۔ جلد نمبر1 صفحہ نمبر339، روایت نمبر370)

حضرت ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحبؓ بیان کرتے ہیں:
’’مولوی محمد علی صاحب ایم۔ اے حضرت مسیح موعودؑ کے مکان کے ایک حصہ میں بالا خانہ میں رہا کرتے تھے اور جب تک ان کی شادی اور خانہ داری کا انتظام نہیں ہوا حضرت صاحب خود ان کے لئے صبح کے وقت گلاس میں دودھ ڈال کر اور پھر اس میں مصری حل کر کہ خاص اہتمام سے بھجوایا کرتے تھے۔ خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت صاحب کو مہمانوں کی بڑی خاطر منظور ہوتی تھی اور پھر جو لوگ دینی مشاغل میں مصروف ہوں ان کو تو آپ بڑی قدر اور محبت کی نظر سے دیکھتے تھے۔‘‘

(سیرت المہدی حصہ دوم جلد نمبر1 صفحہ نمبر344، روایت نمبر380)

مہمان نوازی

حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب بیان کرتے ہیں کہ:
’’حضرت مسیح موعودؑ کی طبیعت نہایت درجہ مہمان نواز تھی اور جو لوگ جلسہ کے موقعہ پر قادیان آتے تھے،خواہ وہ احمدی ہوں یا غیر احمدی، وہ آپ کی محبت و مہمان نوازی سے پورا پورا حصہ پاتے تھے اور آپ کو ان کے آرام اور آسائش کا از حد خیال رہتا تھا ۔آپ کی طبیعت میں تکلف بالکل نہیں تھا اور ہر مہمان کو ایک عزیز کے طور پر ملتے تھے اور اس کی خدمت اور مہمان نوازی میں دلی خوشی پاتے تھے۔ اوائل زمانہ کے لوگ بیان کرتے ہیں کہ جب کوئی مہمان آتا تو آپ ہمیشہ اسے ایک مسکراتے ہوئے چہرے سے ملتے اور مصافحہ کرتے ۔ خیریت پوچھتے۔ عزت کے ساتھ بٹھاتے۔ گرمی کا موسم ہوتا تو شربت بنا کر پیش کرتے ۔سردیاں ہوتیں تو چائے وغیرہ تیارکروا کے لاتے۔ رہائش کی جگہ کا انتظام کرتے اور کھانے وغیرہ کے متعلق مہمان خانہ کے منتظمین کو خود بلا کر تاکید فرماتے کہ کسی قسم کی تکلیف نہ ہو۔ ایک پرانے رفیق نے جو دنیاوی لحاظ سے معمولی حیثیت کے تھے، خاکسار مؤلف سے بیان کیا کہ میں جب شروع شروع میں قادیان آیا تو اس وقت گرمی کا موسم تھا، حضرت مسیح موعودؑ حسب عادت نہایت محبت اور شفقت کے ساتھ ملے اور مجھے خود اپنے ہاتھ سے شربت بنا کر دیا اور لنگر خانہ کے منتظم کو بلا کر خود میرے آرام کے بارہ میں تاکید فرمائی اور مجھے بھی بار بار فرمایا کہ کسی چیز کی ضرورت ہو تو مجھے بلا تکلف کہہ دیں۔ پھر اس کے بعد جب میں سردیوں میں آیا اور نماز اور کھانے سے فارغ ہو کر مہمان خانہ کے ایک کمرہ میں سونے کے لئے لیٹ گیا اور رات کا کافی حصہ گزر گیا تو کسی نے میرے کمرہ کے دروازہ کو آہستہ سے کھٹکھٹا یا۔ جب میں اٹھ کر گیا اور دروازہ کھولا تو حضرت مسیح موعودؑ خود بنفسِ نفیس ایک ہاتھ میں لال ٹین لئے اور دوسرے میں ایک پیالا تھامے کھڑے تھے اور مجھے دیکھ کر مسکراتے ہوئے فرمانے لگے ’’اس وقت کہیں سے دودھ آگیا تھا ۔میں نے کہا آپ کو دے آؤں کہ شاید رات کودودھ پینے کی عادت ہو۔‘‘ وہ دوست بیان کرتے ہیں کہ میں شرم سے کتا جارہا تھا مگر حضرت مسیح موعودؑ اپنی جگہ معزرت فرمارہے تھے میں نے اس وقت اٹھا کر آپ کو تکلیف دی ہے۔ اس چھوٹے سے واقعہ سے آپ کے جذبہ مہمان نوازی کاکس قدر اندازہ ہو سکتا ہے۔‘‘

(سلسلہ احمدیہ جلداوّل مؤلفہ مرزا بشیر احمد صاحب ایم۔ اے صفحہ نمبر 44۔45)

ہمدردی خلق اور وفاداری

حضرت مولوی عبداکریم سیالکوٹی صاحبؓ بیان کرتے ہیں کہ:
’’میں نے حضرت مسیح موعودؑ کو ہمدردی اور وفاداری کے ذکر میں فرماتے ہوئے سنا ہے۔ اگر ہمارا کوئی دوست ہو اور اس کے متعلق ہمیں اطلاع ملے کہ وہ کسی گلی میں شراب کے نشے میں مد ہوش پڑا ہے تو ہم بغیر کسی شرم اور روک کے وہاں جا کر اسے اپنے مکان میں اٹھا لائیں اور پھر جب اسے ہوش آنے لگے تو اس کے پاس سے اٹھ جائیں تا کہ ہمیں دیکھ کر وہ شرمندہ نہ ہو۔ اور حضرت صاحب فرماتے تھے کہ وفاداری ایک بڑا عجیب جوہر ہے۔‘‘

(سیرت المہدی حصہ دوم۔ جلد نمبر1 صفحہ نمبر 381، روایت نمبر 421)

غریب پروری

’’قادیان کے قریب سٹھیالی ایک چھوٹا سا گاؤں ہے جو قادیان سے قریباً 6میل کے فاصلے پر ہوگا وہاں سے ایک جٹ فقیر آیا کرتا تھا ۔ ۔ ۔ ۔

وہ مسجدمبارک کی چھت کے نیچے آکر کھڑکی کے پاس آواز لگایا کرتا تھا۔ جو بیت الفکر کی مغربی دیوار میں ہے۔ اس کی آواز یہ ہوتی تھی۔

’’غلام احمد!۱یک روپیہ لینا ہے۔‘‘

یعنی اے غلام احمد (علیہ السلام)! روپیہ لینا ہے۔ اور وہاں بیٹھ جاتا۔ حضرت صاحب کسی کام میں بعض اوقات مصروف ہوتے اور آپ کی توجہ اس میں ہوتی اور آپ اس کی آواز کو نہ سن سکتے تو وہ تھوڑی تھوڑی دیر کے بعد آواز لگاتا۔ اکثر لوگوں کو ناگوار معلوم ہوتا اور کوئی اسے ٹوکتا تو اسے کہہ دیتا کہ میں تمہارے پاس آیا ہوں ؟ میں تو غلام احمد (علیہ السلام) سے مانگتا ہوں۔ حضرت اقدس کو اگر یہ معلوم ہو جاتا کہ کسی نے اسے کچھ کہا ہے تو آپ نہ پسند فرماتے اور ہنستے ہوئے اس کو روپیہ دے دیا کرتے اور یہ بھی آپ کا معمول تھا کہ سائل کوزیادہ دیر انتظار میں نہ رکھتے تھے۔‘‘

(سیرت حضرت مسیح موعودؑ صفحہ 462 از حضرت یعقوب علی عرفانی صاحب)

حضرت منشی ظفر احمد صاحبؓ روایت کرتے ہیں:
’’ایک دفعہ حضرت مسیح موعودؑ مغرب کی نماز کے بعد مسجد مبارک قادیان کی اوپر کی چھت پر چند مہمانوں کے ساتھ کھانا کھانے کی انتظار میں تھے۔ اس وقت ایک احمدی دوست میاں نظام دین صاحب ساکن لدھیانہ جو بہت غریب آدمی تھے اور ان کے کپڑے پھٹے پرانے تھے، حضور سے چار پانچ آدمیوں کے فاصلہ پر بیٹھے ہوئے تھے۔

اتنے میں چند معزز مہمان آکر حضور کے قریب بیٹھتے گئے اور ان کی وجہ سے ہر دفعہ میاں نظام دین کو پرے ہٹنا پڑا۔ حتی کے وہ ہٹتے ہٹتے جوتیوں کی جگہ تک پہنچ گئے اتنے میں جو کھانا آیا تو حضور نے جو سارہ نظارہ دیکھ رہے تھے۔ ایک سالن کا پیالہ اور کچھ روٹیاں اٹھا لیں اور میاں نظام دین سے مخاطب ہو کر فرمایا۔ ’’آؤ میاں نظام دین ہم اندر بیٹھ کے کھانا کھائیں‘‘۔

یہ فرما کر حضوربیت کے ساتھ والی تشریف لے گئے اور حضور نے اور میاں نظام دین نے کوٹھری کے اندر اکٹھے بیٹھ کر ایک ہی پیالہ میں کھانا کھایا۔ اس وقت میاں نظام دین پھولے نہیں سماتے تھے اور جو لوگ میاں نظام دین کو عملاً پرے دھکیل کر حضرت مسیح موعودؑ کے قریب بیٹھ گئے تھے وہ شرم سے کٹے جاتے تھے۔‘‘

(سیرت طیبہ صفحہ 188 از مرزا بشیر احمد صاحب ایم۔ اے)

جانوروں پر رحم

حضرت ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحبؓ بیان کرتے ہیں کہ
’’ایک دفعہ میاں یعنی خلیفہ المسیح الثانیؓ دالان کے دروازے بند کر کے چڑیاں پکڑ رہے تھے کہ حضرت صاحب نے جمعہ کی نماز کے لئے باہر جاتے ہوئے ان کو دیکھ لیا اور فرمایا کرتے میاں گھر کی چڑیاں نہیں پکڑا کرتے۔ جس میں رحم نہیں اس میں ایمان نہیں۔ خاکسار عرض کرتا ہےکہ بعض باتیں چھوٹی ہوتی ہیں مگر ان سے کہنے والے کے اخلاق پر بڑی روشنی پڑتی ہے‘‘

(سیرت المہدی حصہ اوّل۔ جلدنمبر1 صفحہ نمبر176، روایت نمبر 178)

حضرت خواجہ عبد الرحمان صاحبؓ متوطن کشمیر نے بیان کیا کہ
’’ایک دفعہ ایک بڑا موٹا کتا حضرت مسیح موعودؑ کے گھر میں گھس آیا اور بچوں نے اسے دروازے بند کر کے مارنا چاہا۔ لیکن جب کتے نے شور مچایا تو حضرت صاحب کو بھی پتا لگ گیا اور آپ ہم پر ناراض ہوئے چنانچہ ہم نے دروازہ کھول کر کتے کو چھوڑ دیا۔‘‘

(سیرت المہدی حصہ اوّل۔ جلدنمبر 1صفحہ نمبر 312.313، روایت نمبر 342)

اللہ تعالی ہم سب کو سیّدنا حضرت مسیح موعودؑ کے اخلاقِ کو بھر پور طریق پر اپنانے کی توفیق عطا فرمائے کیوں کہ حضرت مسیح موعودؑ نے اپنے اخلاق کانمونہ جو ہمارے لئے چھوڑا ہے اگر ہم ان پر عمل کریں گے تو ہم اپنے اس معاشرے کو جنت نظیر معاشرہ بنا سکتے ہیں۔ خدا تعالی ہمیں اس کی توفیق عطاء فرمائے۔ (آمین)

٭…٭…٭

(ندیم احمد فرخ۔ معلم سلسلہ)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 1 ستمبر 2020

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 2 ستمبر 2020