مشہور مثل ہے کہ ’’ماں مارے اور بچہ ماں ماں پکارے‘‘۔ یعنی اگر ماں اپنے بچے کو کسی بات پر سرزنش کرے اور اسے مارے تو بچہ مار کھاتا جاتا ہے۔ روتا جاتا ہے اور نہ صرف اُمی اُمی پکارتا بلکہ اس کی طرف لپکتا، دوڑتا اور ماں کی جھولی میں اپنی پناہ محسوس کرتا ہے۔
اور دوسری طرف ماں کے دل میں باوجود غصّہ کے، اپنے مضروب بچے کی خاطر رحم کے جذبات اُبھرتے ہیں اور وہی ماں جو بچے کو اصلاح و تر بیت کی خاطر ڈانٹتی، ڈپٹتی، کوستی اور مارتی بھی ہے وہ بھی بچے کو سینہ سے لگا لیتی ہے۔ چومتی اور پیار کرتی ہے۔
یہ دونوں کا جہاں آپس میں محبت و پیار کا تبادلہ ہے وہاں یہ محبت اور پیار کی انتہا بھی ہے۔ بلکہ ماں اور بیٹے میں اس پیار بھرے تعلق میں محبت اور پیار کے الفاظ ادھورے نظر آتے ہیں اور وہ اس محبت بھرے تعلق کا حق ادا نہیں کر پاتے ان جذبات کے سو فیصد اظہار کے لئے ڈکشنریاں الفاظ فراہم کرنے میں بےبس ہیں۔ اس تعلق کوان الفاظ میں ادا کیا جا سکتا ہے۔
ع دونوں طرف ہے آگ برابر لگی ہوئی
یہی مضمون اللہ تعالیٰ اور اس کے بندے کے درمیان بدرجہ اولیٰ لاگو ہوتا ہے۔ گو انسان پر جو مصائب و مشکلات آتی ہیں وہ انسان کے اپنی ہی شامت اعمال کا نتیجہ ہوتا ہے لیکن یہ سب اصلاح کی خاطر اللہ تعالیٰ کی طرف سے آتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ انسان کے بُرے اعمال کی سزا بسا اوقات اِسی دنیا میں دیتا ہے اور جب بندہ اس کی طرف جھکتا، اُس کے حضور روتا اور تضرع کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ جو ماں سے کہیں بڑھ کر رحیم وکریم ہے وہ اپنے بندے کو سینہ سے لگاتا ہے۔ اس کے آ نسو پونچھتا اور اس کے دُکھ درد کا ماویٰ و ملجا بن جاتا ہے۔
ایک دفعہ جنگ بدر میں ایک خاتون اپنا بچہ کھو بیٹھی۔ وہ اس کی تلاش میں فکر مندی کے عالم میں کبھی اِدھر کبھی اُدھر بھاگتی پھر رہی تھی۔ اس خاتون کی اپنے بچے کی خاطر فکر اور پریشانی کو دیکھ کر آنحضور ﷺ نے فر مایا کہ اللہ اپنے کھوئے ہوئے بندے کے لئے اس ماں سے بڑھ کر پریشان ہوتا ہے۔ اسی لئے قرآن مجید اور احادیث میں یہ تعلیم ہمیں ملتی ہے کہ ہر مومن کو دُکھ اور سُکھ میں اپنے خدا کی طرف جھکنا چاہئے۔ اس سے ہی مدد طلب کرنی چاہئے۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام فر ماتے ہیں:
’’یہاں ذاتی محبت کے مقام میں سہارا نہیں ہوتا جیسے ماں اور بچے کے جو تعلقات ذاتی محبت کے ہیں۔ ان میں انسان تفرقہ نہیں ڈال سکتا۔ ماں کی فطرتی محبت ایک دوسرے سے ملاتی ہے۔ مثل مشہور ہے ’’ماں مارے اور بچہ ماں ماں پکارے‘‘ اسی طرح اہل اللہ، خدا کی مار کھا کر کہاں جاسکتے ہیں بلکہ مار پڑے تو وہ ایک قدم اور بڑھاتے ہیں۔ دوسرے تعلقات میں خدا کی محبت کا جلال زور کے ساتھ نازل نہیں ہوتا جیسے انسان کسی کو اپنا نوکر سمجھتا ہے اور خیال ہوتا ہے کہ یہ نوکری اس لئے کرتا ہے کہ اس کی اجرت ملے تو اس کی طرف محبت کامل کا التفات نہیں ہوتا اور وہ ایک نوکر شمار ہوتا ہے۔ مگر جب کوئی شخص خدمت کرتا ہے اور آقا کو معلوم ہو کہ یہ نوکری کی خواہش سے نہیں کرتا تو آخر کار بیٹوں میں شمار ہوتا ہے خدا بڑا خزانہ ہے۔ خدا بڑی دولت ہے‘‘
(ملفوظات جلد سوم صفحہ423۔ کمپو ٹرائز ایڈیشن)
(ابو سعید)