• 2 مئی, 2024

آؤ! اُردو سیکھیں (سبق نمبر 15)

آؤ! اُردو سیکھیں
سبق نمبر 15

سبق نمبر 11 اور 12 میں ہم نے فعل حال مطلق اور فعل حال جاری کے متعلق پڑھا تھا۔ بعض طلبا کو شاید ان اصطلاحوں کو سمجھنے میں مشکل ہو اس لیے آسانی کے لیے چند الفاظ انگریزی میں بیان کرتا ہوں

Simple Present Tense فعل حال مطلق

Present Continuous or Progressive Tense فعل حال جاری

آج ہم ان دونوں زمانوں میں فقرات کی ان اقسام پر بات کریں گے جن میں وہ شخص، چیز یا حالت جس کی بات کی جارہی ہو وہ فاعل نہیں ہوتا بلکہ مفعول ہوتا ہے۔ آسان ترین مثالوں سے اس کی وضاحت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

’زید خط لکھتا ہے‘ یہ فقرہ زمانہ فعل حال مطلق کا ہے کیونکہ جیسے پہلے اسباق میں تفصیل بیان کردی گئی ہے یہاں فاعل یعنی زید کی ایک عادت یا مستقل رویے کی بات ہورہی ہے۔ اس فقرے میں آپ دیکھ سکتے ہیں کہ زید کام کررہا ہے یعنی وہ حالت میں ہے۔ یعنی خط لکھنا یا نہ لکھنا اس کی مرضی پہ منحصر ہے کوئی اسے مجبور کرکے خط نہیں لکھوا رہا Active

’زید سے خط لکھوایا جاتا ہے‘ اب دیکھیے کہ زمانہ وہی ہے یعنی فعل حال مطلق یعنی کسی عادت یا مستقل رویے کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ یعنی خط لکھوانے کا کام ہوتا رہتا ہے۔ لیکن یہاں فرق یہ ہے کہ زید خط لکھنے پہ مجبور نظر آتا ہے یہ مجبوری مرضی سے بھی ہوسکتی ہے جیسے ملازمت کرنا اور خلافِ مرضی بھی ہو سکتی ہے۔ یعنی زید تو لکھنا نہیں چاہتا مگر اس سے بزور لکھوایا جاتا ہے تو اس صورت میں زید فاعل نہیں ہے اور وہ Passive حالت میں ہے

اب دیکھتے ہیں کہ اس تبدیلی کا فقرے کی ساخت پر کیا اثر پڑتا ہے۔

زید خط لکھتا ہے اور زید سے خط لکھوایا جاتا ہے میں جو بنیادی فرق ہے وہ فعل کی ساخت میں آیا ہے۔ اصل ورب یا فعل ہے لکھنا۔ پہلی صورت میں ہے ’لکھتا‘ جو کہ Active voice ہے جبکہ دوسری صورت میں ہے ’لکھوایا‘ جو کہ Passive voice ہے مزید مثالیں دیکھتے ہیں

جاگنا سے جگایا، بلانا سے بلوایا، مارنا سے مروایا، اٹھانا سے اٹھوایا، کہنا سے کہلوایا، چھوڑنا سے چھڑوایا،

آپ نے دیکھا ہوگا کہ مفعولی حالت بناتے وقت زیادہ ترکسی فعل یا ورب کی صرف ماضی والی حالت ہی استعمال کی جاتی ہے اور مخصوص شکل ’وایا‘ استعمال نہیں ہوتی جیسے ’جاگنا سے جگوایا نہیں بنا بلکہ جگایا بنایا گیا‘ اس کی وجہ یہ ہے کہ ’وایا‘ کا اضافہ ہر فعل کے ساتھ پڑھنے یا بولنے میں مناسب نہیں لگتا۔ جیسے ’جاگنا سے جگوایا عجیب لگتا ہے اور جگایا مناسب ہے‘ مثلاً اگر کہیں کہ انسان کی سوئی ہوئی فطرت کو جگایا تو یہ جگوایا سے زیادہ مناسب معلوم ہوتا ہے۔

دوسرا اہم فرق ’فعلی حالت‘ اور ’مفعولی حالت‘ میں حروفِ ربط سے، کو، میں وغیرہ کا اضافہ ہے۔ حروفِ ربط وہ حروف ہیں جوانسان، اشیاء، جگہ اور وقت کے درمیان پائے جانے والے تعلق کو اس طرح واضح کرتے ہیں کہ بآسانی پتا چل جاتا ہے کہ کون سی چیز کہاں ہے اور اس کا اردگرد کی اشیاء سے کیا تعلق ہے۔ حروفِ ربط کو اگلے سبق میں وضاحت اور تفصیل سے بیان کیا جائے گا

تیسرا فرق

تیسرا فرق الفاظ کی ترتیب اور اضافے کا ہے جیسے مفعولی حالت میں فعل یعنی ورب سے پہلے حروفِ ربط کا اضافہ کیا جاتا ہے۔ نیز فعل کی ساخت میں تبدیلی کی جاتی ہے۔

In English language Past participle is used in passive voice tenses

جبکہ اردو میں کیا ہوتا ہے اس کے لیے ایک مثال پر غور کرتے ہیں

فعل لکھنا سے ماضی ہے لکھا اور مفعولی حالت ہے لکھایا یا لکھوایا تو فعل کی ماضی حالت میں ’یا‘ اور بعض صورتوں میں ’وا یا‘ کا اضافہ کردیا جاتا ہے۔

زید خط لکھتا ہے اور زید سے خط لکھوایا جاتا ہے

حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں:
کبھی کوئی جھوٹ اس قدر چل نہیں سکتا۔ آخر دنیا میں ہم دیکھتے ہیں کہ بدی کرنے والے جھوٹے اور فریبی اپنے جھوٹ میں تھک کر رہ جاتے ہیں۔ پھر کیا کوئی ایسا مفتری ہوسکتا ہے جو برابر پچیس برس سے خدا پر افترا کر رہا ہو اور نہ تھکا ہو اور خدا کو بھی اس کے لیے غیرت نہ آوے۔ بلکہ اس کی تائید میں نشانات ظاہر کرتا رہے۔ یہ عجیب بات ہے۔ ایسا ہر گز نہیں ہوسکتا۔ خدا تعالیٰ ہمیشہ صادقوں ہی کی نصرت اور تائید کرتا ہے۔ دیکھو یہ جو پیشگوئی ہے کہ میری عمر 80 برس کے قریب ہوگی کیا کوئی مفتری اس قسم کی پیشگوئی کرسکتا ہے اور خصوصاً اس پر تیس برس بھی گزر گئے ہوں اور ایسا ہی اس وقت جب کوئی نہ جانتا تھا تھا اور نہ کوئی یہاں آتا تھا یہ کہا یَأْتُوْنَ مِنْ کُلِّ فَجٍّ عَمِیْقٍ اور یَأْتِیْکَ مِنْ کُلِّ فَجٍّ عَمِیْقٍ کیا یہ مفتری کر سکتا ہے کہ ایسا کہے اور پھر خدا بھی ایسے مفتری کی پروا نہ کرے بلکہ اس کی پیشگوئی پوری کرنے کو دوردراز سے لوگ بھی آتے رہیں اور ہر قسم کے تحائف اور نقد بھی آنے لگیں۔ اگر یہ بات ہو کہ مفتری کے ساتھ بھی ایسے معاملات ہوتے ہیں تو پھر نبوت سے ہی امان اٹھ جاوے۔ یہی نشانات ہیں جو ہماری جماعت کی محبت اور اخلاص میں ترقی کا باعث ہورہے ہیں۔ مفتری اور صادق کو تو اس کے منہ ہی سے دیکھ کر پہچان سکتے ہیں۔ فرمایا :۔ سچائی کا یہ بھی ایک نشان ہے کہ صادق کی محبت سعیدالفطرت لوگوں کے دلوں میں ڈال دیتا ہے۔ احمق کو یہ راہ نہیں ملتی کہ نور کا حصہ لے۔ ہر بات مین بد گمانی ہی سے کام لیتا ہے۔ فرمایا:۔ ہم کو تکلف اور تصنع کی حاجت نہیں۔ خواہ کوئی ہماری وضع سے راضی ہویا نا خوش۔ ہمارا اپنا کوئی کام نہیں ہے۔ خدا کا اپنا کام ہے اور وہ خود کررہا ہے۔ فرمایا:۔ جب انسان خدا کو چھوڑتا ہے تو پھر وہ مکائد پر بھروسہ کرتا ہے۔

مشکل الفاظ کے معنے

فریبی: دھوکہ دینے والا

تھک کر رہ جانا: کسی ایسے کام سے بیزار آجانا جو انسان سمجھتا ہو کہ غلط ہے

مفتری: جھوٹا

برابر پچیس برس سے: پورے پچیس سال سے

افترا کرنا: جھوٹ بولنا، جھوٹی بات منسوب کرنا

غیرت نہ آنا: کوئی رد عمل نہ دکھانا

تائید: حمائیت ؍سپورٹ

صادقوں: صادق کی جمع معنیٰ سچے

پیشگوئی: پہلے سے کہی بات۔ پیش پہلے اور گوئی کہنا

پروا نہ کرنا: نگرانی نہ کرنا، خیال نہ رکھنا

دور دراز: بہت دور سے

تحائف: تحفہ کی جمع

سعید الفطرت: اچھی پاک فطرت اور سوچ والا انسان دیانت دار، سچا

بد گمانی: برا خیال

(عاطف وقاص۔ ٹورنٹو کینیڈا)

پچھلا پڑھیں

مرد سربراہ کی حیثیت سے گھر والوں کے حقوق کا خیال رکھے

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 2 ستمبر 2021