• 6 مئی, 2024

ہجرت، مہاجر اور پیچھے رہ جانے والے احمدی

بی بی سی سیربین کی چند ماہ قبل آنے والی رپورٹ کے مطابق پاکستان کے توہین مذہب کے قوانین کے سبب کئی احمدی پاکستان سے ہجرت کر گئے۔ پاکستان کی حکومت اس پر بات کرنے سے گریزاں ہے، انسانی حقوق کی تنظیمیں اس موضوع پر بات تو کرتی ہیں لیکن ان کی تعداد ایسے ہی ہے جیسے آٹے میں نمک۔۔۔

ہم ان ہجرتوں کے گواہ بلکہ عینی شاہدین میں سے ہیں۔ مخالفین ان ہجرتوں کو احمدیوں کا بھاگنا یا اپنی فتح خیال کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ احمدی باہر ہی جانا چاہتے ہیں۔ لیکن ان ہجرتوں کا ایک اور پہلو بھی ہے اور وہ یہ کہ جہاں یہ مہاجر اپنے وطن سے دور ہوتے ہیں وہیں ان کے پاکستان میں رہ جانے والے عزیز بھی اسی قدر دوری برداشت کرتے ہیں۔ واقعی ہجرت ہجر کا ہی دوسرا نام ہے۔ ہجر کا غم دونوں جانب برابر اثر انداز ہوتا ہے۔

ایکسپریس ٹریبیون کی ایک رپورٹ میں ایک مولوی صاحب نے کہا تھا کہ احمدی جان بوجھ کر توہین کے مرتکب ہوتے ہیں تا کہ ایف آئی آر کٹے اور وہ باہر جائیں۔

وائے افسوس کتنا سستا سودا خیال کر لیا۔ اِنۡ ہُمۡ اِلَّا یَخۡرُصُوۡنَ۔

احمدیوں کی ہجرتیں آسان نہ تھیں۔ ان ہجرتوں میں کئی گھر اور خاندان بکھر گئے۔ ہم نے کئی احمدیوں کو اپنا سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر باہر ہجرت کرتے دیکھا۔ لیکن ان کے پیچھے رہ جانے والے والدین بہن بھائیوں یا اولاد کو بھی ان کی جدائی میں ہلکان ہوتے دیکھا ہے۔ بوڑھی لاچار آنکھیں اپنے پیاروں کی راہیں تکتی دھندلا گئیں۔ ان آنکھوں سے بہنے والے اشکوں کے دریا خشک ہوگئے لیکن ان کے پیارے بوجوہ واپس نہ آسکے۔ پھر ہم نے ان بوڑھی ہڈیوں کو قبر میں بھی اتار دیا کیونکہ ان کے پیارے ان کے جنازوں کو کندھا دینے کے لئے بھی نہ آسکے۔

گھبرا کے دردِ ہجر سے اے میہمانِ عشق
جس من میں آکے اترے ہو وہ من اُداس ہے
آنکھوں سے جو لگی ہے جھڑی تھم نہیں رہی
آ کر ٹھہر گیا ہے جو ساون اُداس ہے

پھر ہجرت کر کے کون فوری آسائش میں رہا۔ اسائلم سے شہریت تک کے بیسیوں مسائل کے ساتھ بیرون ملک ابتدائی ذلت و خواری سے کون ناواقف ہوگا۔ بعض کو کئی کئی سال تک شہریت نہیں ملتی اور پاکستانی ہونے کا لیبل جہاں حب الوطن کے جذبے کے تحت خون گرما جاتا ہے وہیں بطور پاکستانی یہ لوگ بعض ملکوں میں تعصب کا شکار ہو جاتے ہیں۔ اس تعصب سے تو پاکستان کےسابق وزیر اعظم بھی ایک ایئر پورٹ پر نہ بخشے گئے تھے۔ لیکن کبھی ایسا نہیں ہوا کہ کسی پاکستانی احمدی کے سبب ملک کا پرچم سرنگوں ہوا ہو۔ بلکہ بیرون ملک آ کر احمدی اور ان کی اولاد در اولاد مختلف شعبہ ہائے زندگی میں پاکستان کا نام ہی روشن کر رہے ہیں۔

مٹی کی محبت میں ہم آشفتہ سروں نے
وہ قرض اتارے ہیں کہ واجب بھی نہیں تھے

(افتخار عارف)

قطع نظر عقیدہ و مسلک کے پاکستان میں ایک اچھا اور بہتر وقت گزرا۔ پاکستان سے مادر وطن ہونے کے ناطے پیار اور محبت اسی معیار کی ہے کہ حب الوطن من الایمان کا نعرہ سر عام بلند کرنے میں کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں ہوتی۔ لیکن دکھ اس بات کا ہے کہ پاکستان میں لوگ صرف اپنے مذہب، مسلک اور فرقے کو ہدایت یافتہ اور برحق خیال کرتے ہوئے باقی لوگوں کو انسان ہی خیال نہیں کرتے۔ دوسری جانب اسلامی فرقوں کے یا دیگر مذاہب کے مابین پاکستان میں مذہبی رواداری برائے نام ہے۔ چند ذاتی واقعات پیش کرنا مقصود ہیں۔

ایک بار ہم چند دوست ریل میں سفر کر رہے تھے کہ ساتھ بیٹھے چند مسافر بشمول ایک مولوی صاحب حکومت اور ملکی نظام پر طعنہ زن تھے۔ انہوں نے خاکسار کو شامل گفتگو کرتے ہوئے رائے مانگی۔ خاکسار نے اطاعت حکام والے صاحب کی تائید کی تو وہ مولوی صاحب جو اس بات کے مخالف تھے۔ انہوں نے تو سیدھا مسلک ہی پوچھ لیا اور کہا کونسا مسلک یہ تعلیم دیتا ہے۔ خاکسار نے قرآنی آیت اور حدیث پیش کی تو وہ خاموش تو ہوئے لیکن مسلک پوچھنے پر مصر رہے۔ بالآخر میں نے بتا دیا تو انہیں جیسے سانپ سونگھ گیا۔ وہ اٹھے اور اپنی برتھ کھولی اور فوری سونے لگے۔

ریل کے سفر میں کئی بار ایسا ہوا کہ ہم نوجوان (طلبا) جامعہ کو اکھٹے بلا کسی گالم گلوچ اور لڑائی جھگڑے کے سفر کرتے دیکھ کر اور نمازوں کے اوقات میں آمنے سامنے بیٹھے نماز پڑھتے دیکھ کر، دوسرے مسافروں نے داد دی بلکہ سراہا بھی۔ بعض لوگ حلیے سے یا بعض اوقات فوری پہچان کر کنی کترا جاتے۔

ربوہ کے رہائشی افراد فیصل آباد لاہور سے شاپنگ کرتے ہیں۔ چنیوٹ ہمسائے میں ہونے کے سبب ربوہ کا ایک بڑا حصہ ضروریاتِ زندگی کے لئے چنیوٹ ہی جاتا ہے۔ سیرالیون آنے سے قبل خاکسار بھی چنیوٹ سے کچھ عرصہ سامان کی خریداری کرتا رہا ہے۔ جس کی ایک وجہ مختلف ورائٹی کا مہیا ہونا اور دوسرا ربوہ کی نسبت قیمتوں کا فرق بھی تھا۔ وہاں بعض شریف النفس دکان داروں کو اپنے کاروبار سے غرض تھی اور وہ آرام سے مناسب قیمت پر کپڑے اور دیگر سامان دے دیتے تھے۔

لیکن ایک بار ایسا ہوا کہ جوتوں کی ایک سٹال نما دکان پر خاکسار اہلیہ کے ساتھ رکا تو اس سے قبل ہم کسی چیز کو ہاتھ لگاتے ایک لمبی داڑھی والے صاحب جلدی سے باہر آئے اور کہنے لگے کہ میں نے قادیانیوں کو کچھ نہیں بیچنا۔ ہم نے کہا ہم نہیں لیتے صرف دیکھ رہے۔ اس پر وہ غصے سے کہنے لگے کہ دیکھو بھی مت۔ کچھ اور لوگ بھی باہر آ گئے۔ جس کے بعد ہم نے اپنی راہ لی۔

کراچی جیسے بڑے شہر میں جہاں ہر قسم کی آزادی کا تصور پایا جاتا ہے، اکثر احمدیوں کو مذہبی تعصب کا سامنا ہے۔ کراچی شہر میں اس صدی کے آغاز سے ہی مذہب کے نام پر احمدیوں کو جان سے مارنے کا سلسلہ شروع کیا گیا۔ جو اب تک جاری ہے۔ ہمیں شروع میں احمدی ہونے کے سبب محلہ میں ایسے مسائل کا سامنا نہیں کرنا پڑا تھا۔ مختصر آبادی مل جل کر رہ رہے تھے۔ لیکن جب نماز سینٹر قائم ہوا اور علاقے کی آبادی بڑھی، بعض لوگ نئے شفٹ ہوئے تو وہ تعصب کا مادہ بھی ساتھ لئے آئے۔

ایک پڑوسی ایسے تھے کہ جب والدہ کچھ پکا کر ان کے گھر بھجواتیں تو وہ وصول تو کر لیتے لیکن اگلے روز وہی سالن یا میٹھا باہر پھینک دیتے لیکن ہماری والدہ ہمیشہ پڑوسییوں کو خوش دلی سے کچھ نہ کچھ بھجواتی رہیں۔ ایک پڑوسی بچوں کو سکول چھوڑنے اور لیتے جاتے وقت اپنا چھوٹا بچہ ہمارے گھر چھوڑنا محفوظ خیال کرتے لیکن عقائد کے اختلاف پر وہی مخالفت برقرار رہتی۔

سیریبن کی رپورٹ میں کہا گیا کہ سکول میں احمدی بچوں کو قرآن پڑھنے پر پابندی ہے۔ بالکل یہی واقعہ ہمارے ساتھ بھی پیش آیا تھا۔ لیکن بھلا ہو ہمارے پرنسپل صاحب کا۔ جو ایک پڑھے لکھے، نہایت خوش اخلاق اور وسیع القلب نوجوان تھے۔ سکول میں ہم نے انہیں عین جوانی کی حالت میں کلین شیو دیکھا تھا۔ سکول میں جب ہمیں مسلک کے باعث بعض مسائل کا سامنا ہوا تو پرنسپل صاحب نے سٹینڈ لیا اور والد صاحب سے ملاقات کر کے تسلی بھی دلائی۔ سکول میں قرآن خوانی یا اپنے گھر پر قرآن خوانی کی تقریب میں ہمیں لازمی شامل کرتے اور تمام طلباء کی طرح ہم ایک ایک سیپارہ کی تلاوت کرتے۔

انہوں نے احمدیہ عقائد جاننے کے لئے بانئ سلسلہ کی کتب بھی مانگیں۔ والد صاحب نے کشتی نوح اور اسلامی اصول کی فلاسفی پڑھنے کو دی۔ سکول مکمل ہونے کے بعد ان کے گھر پر والد صاحب کے ساتھ ایک ملاقات میں انہوں نے دونوں کتب کی تعریف کی اور بتایا کہ انہوں نے دونوں کتب مکمل پڑھیں تھیں۔ اس کے بعد انہوں نے مکمل داڑھی بھی رکھ لی اور مزید دلچسپی کا اظہار بھی کیا۔ پھر سکول میں ہمیں اپنی باری پر ناصرف اسمبلی میں تلاوت کرنے کا موقع دیا جاتا رہا بلکہ جمعہ کے روز نعت بھی پڑھتے رہے لیکن یہ موقع ہر جگہ ہر احمدی کو نہیں ملتا کیونکہ اکثر جگہ پرنسپل ہی فسادی ذہنیت کے مالک ہوتے ہیں یا بعض کٹر اساتذہ کے دباؤ میں آجاتے ہیں۔

بات سکول کی ہو رہی ہے تو ایک اور واقعہ پیش ہے۔ ڈرگ روڈ میں رہائش کے دوران کرسچین سکول میں کچھ عرصہ تعلیم حاصل کی۔ آٹھویں کلاس کے دو سیکشن تھے۔ آخری پیریڈ اسلامیات اور بائیبل کا ہوتا دونوں سیکشن کے طلباء ویسے تو ملے جلے تھے لیکن مسلمان طلباء سیکشن اے جبکہ عیسائی طلباء سیکشن بی میں جمع ہو جاتے۔ سندھ ٹیکسٹ بورڈ کی شائع کردہ آٹھویں کی اسلامیات کی کتاب میں ایک سبق حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے متعلق تھا جس کا آخری جملہ قادیانی اور لاہوری جماعت کے عقیدہ کے متعلق تھا۔

مجھے پہلے ہی بتایا گیا تھا کہ یہ استانی احمدیوں کو پسند نہیں کرتیں۔ اور پہلے بھی احمدی طلباء کی کلاس میں بے عزتی کر چکی ہیں۔ یہ سبق پڑھتے ہوئے انہوں نے ہم دو احمدی طلباء (مجھے اور مکرم شاہد مسعود صاحب مبلغ سلسلہ آئیوری کوسٹ) کو بڑی نخوت سے کھڑا کیا اور احمدی عقائد کے بارہ نہایت نامناسب الفاظ استعمال کئے۔ پھر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی وفات سے متعلق ’’قادیانی‘‘ دلیل بھی طلب کی۔ میں نے سورہ آل عمران آیت 145 پڑھی جو موسم گرما کی تعطیلات کے دوران تربیتی کلاس میں یاد کروائی گئی تھی۔ ابھی آیت کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے حوالہ سے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ کے واقعہ کا ذکر شروع ہی کیا تھا کہ وہ بولیں بیٹھو بیٹھو۔۔ ایسی آیت ہی قرآن میں نہیں اور نہ ایسا کوئی واقعہ ہوا ہے۔ قادیانیوں کے قرآن میں ایسی آیت ہوگی۔

بہرحال فائنل امتحان تک چند طلباء کا گروہ استانی صاحبہ کہ اس جملے ’’قادیانی قرآن‘‘ کی دہرائی کر کے تنگ کرتا رہا۔ بالآخر ایک دن میں جماعت کا شائع کردہ چھوٹا قرآن لے گیا اور اپنے سیٹ فیلو اور ایک دو دوستوں کی تسلی کروائی کہ وہ اس قرآن کو چیک کر لے۔ جس کے بعد وہ طالب علم کچھ نہ کہتے۔

ایسے مسائل سے مختلف مقامات پر احمدی طلباء کو آئے دن سامنا رہتا ہے۔

ہم ایک مدرسہ میں قرآن کریم کا تلفظ سیکھنے جاتے تھے۔ کچھ عرصہ ہم سب نے اس میں تعلیم حاصل کی۔ بعد ازاں انہیں ہمارا احمدی ہونا معلوم ہو گیا۔ کیونکہ میرا بھائی نماز کا تازہ جیبی سائز پرنٹ ساتھ لے گیا اور اس وقت نماز کے نئے پرنٹ میں نیت نماز تکبیر کے بعد پرنٹ ہوئی تھی۔ کچھ طلباء نے شکایت کی تو بڑے قاری صاحب نے والد صاحب کو بلا کر کہا کہ ہم نے اپنے مرکز سے پوچھا ہے وہ کہتے ہیں کہ ان کے بچوں کو پڑھا کر اپنا کر لو۔ والد صاحب نے ہمیں کہا کہ صرف قرآن کریم پر توجہ دیں باقی اگنور کریں۔ پھر مدرسہ میں یکے بعد دیگرے مختلف قاری صاحبان تقاریر کرنے لگ گئے۔ جس میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے آسمان پر زندہ جانا بتاتے۔ روزانہ ہم سب طلباء قاری صاحب سے ہاتھ ملا کر کمرے سے باہر نکلتے تھے۔ قاری صاحب اکثر کہتے کہ بتاؤ مسلمان کب ہونا ہے؟ راہ چلتے یا بازار میں ملتے تو یہی کہتے کہ مسلمان کب ہونا ہے۔

پھر ہمارا اپنا باقاعدہ نماز سینٹر بن گیا اور اس میں قاری محمد اکرم صاحب کا تقرر ہوا جن سے ہم نے قرآن پڑھنا شروع کیا۔ قاری صاحب نو مبائع تھے جنہیں ان کے کزن نے احمدی کیا تھا۔ قاری صاحب کے خلاف بھی فتویٰ شائع ہوا جس پر ان کو نیپال ہجرت کرنا پڑی اور نیپال میں زلزلے سمیت مالی و معاشرتی مسائل جیسا سخت تکلیف دہ طویل وقت گزار کر اب کینیڈا میں اپنی فیملی کو اچھی اور پُر امن زندگی دینے کے خواہاں ہیں۔

مثالیں اور بھی کئی ہیں۔ لیکن جو وقت بھی گزرا اللہ تعالیٰ کا فضل شامل حال رہا۔ ہم نے بچپن میں والدین سے 74ء کے تکلیف دہ حالات کا سنا تھا۔ لیکن پھر نئی صدی میں جب احمدیت کی دن دگنی رات چوگنی ترقیات ہوئیں تو اسی قدر خصوصاً پاکستان کے احمدیوں نے اپنے خون سے اس کی آبیاری کی۔ اس زمانہ کو ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھا۔ مہاجرین کو دیکھا، ان کے عزیزوں کو دیکھا، شہداء کو دیکھا، زخمیوں کو دیکھا، اسیران کو دیکھا، ان ماؤں، باپوں، بہنوں بھائیوں، بیٹے، بیٹیوں سمیت کئی غیر رشتہ دار احمدیوں کو بھی ان مصائب پر صبر کے آنسو ضبط کرتے دیکھا۔ مرنے والوں پر تو کسی نہ کسی طور صبر آہی جاتا ہے لیکن ہجر اور جدائی انسان کی روح کو ماہئ بے آب کی مانند کر دیتی ہے۔ ان تڑپتی روحوں کو خدا کے حضور گریہ کناں بھی دیکھا ہے۔

ہم بیرون پاکستان رہنے والےاحمدی ہر دم دعاگو ہیں کہ جو احمدی پاکستان میں ہیں وہ ہر لمحہ ہر آن ان شریروں کے شر سے خدا کی امان میں رہیں۔ آمین

دیارِ مغرب سے جانے والو! دیار ِمشرق کے باسیوں کو
کسی غریب الوطن مسافر کی چاہتوں کا سلام کہنا
ہمارے شام و سحر کا کیا حال پوچھتے ہو کہ لمحہ لمحہ
نصیب اِن کا بنا رہے ہیں تمہارے ہی صبح و شام کہنا

اور جو ہجرت کر گئے ان کے لئے یہ شعر عرض ہے۔

ہر گام پہ فرشتوں کا لشکر ہو ساتھ ساتھ
ہر ملک میں حفاظت تمہاری خدا کرے

آمین۔

(ذیشان محمود۔ سیرالیون)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 1 ستمبر 2022

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ