باتوں باتوں میں یوں نہ ٹال ہمیں
اپنی صورت میں اب کے ڈھال ہمیں
عشق کرتا ہے بے مثال ہمیں
درد کرتا ہے باکمال ہمیں
اب کہ کھلتی ہوئی بہاروں نے
جاتے جاتے کیا نڈھال ہمیں
کتنی آہیں اداس تھیں اس نے
کل سنایا تھا جب خیال ہمیں
پھول کانٹے الجھ گئے جس میں
ماری اس نے وہی تھی ڈال ہمیں
خوشبوئیں بے قرار کرتی ہیں
کب ستاتے ہیں اتنا گال ہمیں
جس میں بچپن جوان لگتا تھا
یاد ہیں وہ ہی ماہ و سال ہمیں
اک دِیا پیار کا جلایا ہے
اس کی کرنی ہے دیکھ بھال ہمیں
(دیا جیم۔ فجی)