• 2 جون, 2024

معلمین وقفِ جدید کے لئے مشعلِ راہ (قسط دوم)

معلمین وقف ِ جدید کے لئے مشعلِ راہ
حضرت خواجہ معین الدین چشتی ؒکے سوانح حیات اور خصائص
قسط دوم

حضرت مصلح موعودؓ نے 9؍جولائی 1957ء کے خطاب میں وقف جدید کی تحریک کے خدو خال کو واضح فرمایا اور نوجوانوں کو وقف کی طرف بلایا اور ان کے سامنے بطور نمونہ عالم اسلام کی تین بزرگ ہستیوں حضرت معین الدین چشتی ؒ، حضرت شہاب الدین سہر وردیؒ اور حضرت فرید الدین شکر گنج ؒکو رکھا کہ ہمیں ایسے واقفین کی ضرورت ہے جس کا تعلق باللہ ان لوگوں کے معیار کا ہو ان کے اندر دین اسلام کی محبت اور خدا کی مخلوق سے ہمدردی ان بزرگ ہستیوں جتنی ہو۔

بلاشبہ یہ تینوں ہستیاں انتہائی غیر معمولی تھیں ان ہستیوں میں سے پہلی ہستی تھی حضرت خواجہ معین الدینؒ کی ہے۔

حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیریؒ

حضرت مسیح موعودؑ نے کتاب البریہ صفحہ نمبر 71 روحانی خزائن جلد13 صفحہ92 میں بزرگان امت کے باخدا لوگوں میں آپ کا ذکر بھی فرمایا ہے۔

حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں:
مجاہدات عجیب اکسیر ہیں۔ سید عبد القادرؓ نے کیسے کیسے مجاہدات کئے۔ ہندوستان میں جو اکابر گزرے ہیں جیسے معین الدین چشتی اور فرید الدینؒ ان کے حالات پڑھو تو معلوم ہوکہ کیسے کیسے مجاہدات ان کو کرنے پڑے ہیں۔مجاہدہ کے بغیر حقیقت کھلتی نہیں۔

( ملفوظات جلد4 صفحہ242 ایڈیشن1988ء)

نیز فرمایا:
اسلام میں عمدہ لوگ وہی گزرے ہیں جنہوں نے دین کے مقابلہ میں دنیا کی کچھ پرواہ نہ کی۔ہندوستان میں قطب الدینؒ اور معین الدینؒ خدا کے اولیاء گزرے ہیں ان لوگوں نے پوشیدہ خدا تعالیٰ کی عبادت کی مگر خدا تعالیٰ نے ان کی عزت کو ظاہر کردیا۔

(ملفوظات جلد5 صفحہ248-249)

حضرت مصلح موعودؒ فرماتے ہیں:
جس طرح یہ جسمانی آسمان دنیا کی خدمت میں لگا ہوا ہے اسی طرح روحانی آسمان دنیا کی روحانی خدمت میں لگا رہے گا اور لوگ اس کی مدد سے بلند سے بلند ترہوتے چلے جائیں گے۔ ا س کی طرف اشارہ کرتے ہوئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک ادنیٰ خادم حضرت معین الدین صاحب چشتیؒ نے فرمایا کہ

دمبدم روح القدس اندر معینے می دمد
من نمیگویم مگر من عیسیٰ ثانی شدم

یعنی جبرائیل ہر گھڑی معین الدین چشتی کے کان میں بول رہا ہے۔ پس گومیں منہ سے نہیں کہتامگر واقعہ یہی ہے کہ میں عیسیؑ کا نظیر ہوگیا ہوں۔حضرت عیسیؑ نے تو پادری اور پوپ پیدا کئے جن میں ہزاروں عیوب پائے جاتے ہیں لیکن محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت معین الدین چشتی ؒصاحب جیسے وجود پیدا کئے یعنی خود عیسیٰؑ پیدا کئے۔

(تفسیر کبیر جلد5 صفحہ403)

اسی طرح حضرت مصلح موعودؓ اپنی کتاب تحفۃ الملوک صفحہ58-59 ایڈیشن اوّل میں فرماتے ہیں:
جس طرح فقہ کے چار امام ہیں۔ اسی طرح روحانی علوم کے بھی چار امام ہیں ان میں سے ایک حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیریؒ ہیں۔

زمانی حالات

چھٹی صدی ہجری کا درمیانی عرصہ اپنے دامن میں طرح طرح کی وحشت وبربریت، جدال و قتال اور سیاسی انتشار کو سمیٹے ہوئے تھا یہ سارا عالم اسلام کے لئے پر آشوب زمانہ تھا۔ مسلمانوں پر ہر طرف مصائب کی گھٹائیں چھائی ہوئیں تھیں ہندوستان میں محمود غزنوی کا اقتدار آخری ہچکیاں لے رہا تھا۔ خراسان و سیستان میں بھی ہر طرف افراتفری پھیلی ہوئی تھی خاندان سلجوقیہ کا آخری تاجداد تھا اور تاتاری فتنہ اس کی حکومت کو خونی دریا میں غرق کر دینے کے لئے بالکل تیار تھا اور پھر حاکم سیستان تاتاریوں سے لڑتا ہوا مارا گیا اور سیستان میں خون کا دریا بہہ نکلا اور شہر خراسان میں ظلم و بربریت کے پہاڑ توڑ دئیے اور اندرونی حالات کی یہ کیفیت تھی کہ مسلمانوں کی اکثریت فسق و فجور میں مبتلاء تھی۔

نام و نسب اور ولادت

اسی سیستان کے قصبہ سنجر میں ایک نہایت زاہد و عابد شخص سید غیاث الدین حسن کے ہاں ایک بیٹے کی ولادت ہوئی یہ تھے حضرت خواجہ معین الدین چشتی حضرت خواجہ صاحب کی ولادت کے متعلق دو روایات ہیں اول یہ کہ آپ 530ھ میں پیدا ہوئے، دوسری یہ کہ آپ 14؍رجب 535ھ / 1339ء (بحوالہ انسائیکلو پیڈیا اولیائے کرام جلد6 صفحہ164) ہوئی اور اسی نسبت سے آپ سنجری بھی مشہور ہوئے۔ قدیم جغرافیہ نویس سجستان کو خراسان کا حصہ مانتے ہیں۔ اس وقت اس علاقہ کا کچھ حصہ ایران میں اور کچھ افغانستان میں ہے۔ آپ کے والد محترم کا نام سید غیاث الدین حسن اور والدہ کا نام ام الورع عرف ماہ نور بیان کیا جاتا ہے۔ آپ کے والد صاحب ثروت اور خوشحال تھے۔ علم کے زیور اور اخلاق فاضلہ کی دولت سے بھی آراستہ تھے۔ سیر سیاحت کے شوقین تھے اور اکثر نیشاپور، بغداد اور اصفہان وغیرہ کا سفر کیا کرتے تھے۔ آپ کا نسب نامہ والد کی طرف سےحضرت امام حسین بن علیؓ سے ملتا ہے اور والدہ کی طرف سے حضرت امام حسن بن علیؓ سے یعنی آپ حسنی و حسینی سید ہیں۔

حالات زندگی

خواجہ صاحب کی ابتدائی نشوونما خراسان میں ہوئی۔ آپ کے والد محترم نے آپ کی تعلیم کا سلسلہ چھ برس کی عمر میں ہی شروع کروادیا تھا۔ گیارہ سال کی عمر میں آپ نیشا پور چلے گئے اس دور میں نیشاپور کی درس گاہیں صاحبان علم کے نزدیک بلند مقام رکھتی تھیں۔ آپ نے وہاں پر پانچ سال تحصیل علم کی توفیق پائی اور 1155ء میں یہاں پر غزنویوں نے قتل و غارت کا بازار گرم کردیا اور درس گاہیں تباہ کردیں تو آپ واپس سنجر آگئے۔

سجستان میں دشمن کے حملوں سے حالات ابتر ہونے کی وجہ سے آپ کے والد آپ کو لے کر خراسان چلے گئے اس وقت آپ کی عمر 12 سال تھی پندرہ یا سولہ سال کی زندگی میں آپ کے والد محترم کا انتقال ہوگیا۔ اس صدمہ کو آپ نے کمال صبر سے برداشت کیا اور چند ہی دن کے بعد آپ کی بزرگ والدہ کا انتقال ہو گیا آپ کے والد اور والدہ نہایت مہربان اور خدا رسیدہ تھے۔ اس کے بعد بیان کیا جاتا ہے کہ آپ ان دونوں واقعات کے صدمہ کی وجہ سے نہایت خاموش رہنے لگے تھے او رغور و فکر میں منہمک رہنے لگے تھے اور دونوں حادثات کی وجہ سے آپ کی تعلیم کا سلسلہ منقطع ہو گیا تھا مگر آپ نے مذہبی اور روحانی تعلیم کے حصول کی طرف توجہ کی اور آپ خراسان سے ہجرت کے بعد سمر قند اور پھر بخارا چلے گئے۔

واقعات زندگی

آپ کے والد کی وفات آپ کے لئے نہایت اندوہناک واقعہ تھا جس کے بعد تمام تر ذمہ داری آپ کے کندھوں پر آگئی تھی۔ بیان کیا جاتا ہے کہ آپ کے والد نے ورثہ میں ایک چکی اور ایک باغ چھوڑا جس کی دیکھ بھال آپ کے ذمہ تھی ایک بار آپ باغ کی دیکھ بھال میں مشغول تھے اور ایک مجذوب بنام ابراہیم قندوری وہاں سے وارد ہوئے اور آپ نے ان کی تازہ انگوروں سے تواضع کی اور آپ کے اس عمل کو دیکھ کر مجذوب بہت متاثر ہوا اور اس نےخشک روٹی کا ٹکڑا چبا کر بطور تبرک معین الدین کو بھی دیا جس کو کھانے کے کچھ دیر بعد آپ کو نیند آگئی جب آپ بیدار ہوئے تو وہ مجذوب وہاں سے جا چکا تھا تاہم آپ اطمنان محسوس کر رہے تھے۔

کچھ دیر بعد آپ نے اپنی اور مجذوب کی حالت پر غور کرنا شروع کیا اور اس نتیجہ پر پہنچے کہ ایک طرف ہماری زندگی ہے کہ رات دن اپنی ذات کی خاطر محنت و مشقت کرتے ہیں۔ ہر آن ایک فکر دامن گیر ہے اور وہ ایک مجذوب کہ نہ اسے کوئی فکر نہ خوف کہ کل کہاں سے کھائیں گے وہ صرف دوسروں کی خاطر زندہ ہے۔اللہ کی عبادت میں مشغول اور اسی کے آستانہ پر مست پڑا ہے دوسروں کی خدمت کرنا اور انہیں نیکی کا راستہ بتانا اس کا شیوہ ہے اور اللہ تعالیٰ غیب سے اس کے سب کام بنا رہاہے اور ضرورتیں پوری کررہا ہے چنانچہ خواجہ صاحب نے باغ اور باغیچہ فروخت کردیا اور ایک نئی منزل کی تلاش میں نکل پڑے۔

نیشا پور سے ہوتے ہوئے سمر قند پہنچے وہاں سے بخارا میں مولانا جام الدین بخاریؒ ، مولانا شرف الدین شر الاسلام جیسے بزرگوں سے اکتساب علم کے بعد پھر بغداد میں سیدنا عبد القادر جیلانیؒ سے ملاقات کا شرف حاصل کرنے کے بعد آپ حرمین شریف روانہ ہو گئے وہاں سے ہرون گئے اور ہرون میں حضرت خواجہ عثمان ہارونی سے بیعت کی آپ بیس سال تک متواتر حضرت خواجہ عثمان ہارونی کی خدمت میں رہے حضرت خواجہ عثمان ہارونی کا سلسلہ حضرت اسحاق شاہ چشتی سے حضرت ابراہیم ادہم تک پہنچتا ہے۔

حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری نے تفسیر، حدیث،فقہ،عربی ادب، علم الکلام، اور منطق وغیرہ سبھی حاصل کئے حافظ قرآن ہونے کے ساتھ ساتھ آپ علمائے دین کی صف میں بھی شامل ہونے لگے۔

حضرت خواجہ معین الدین چشتی نے خواجہ عثمان ہارونی کی نیکی اور پارسائی اور تقویٰ و طہارت سے متاثر ہوکر آپ سے عہد بیعت باندھا اور حضرت خواجہ عثمان ہارونی پر بھی آپ کا مرتبہ اور نیکی و طہارت ظاہر ہو گئی اور انہوں نے بھی آپ کو اپنا مرید خاص بنا لیا اور یہ مبارک صحبت بیس بائیس سال قائم رہی خواجہ عثمان ہارونی نے حضرت خواجہ معین الدین چشتی کو اپنی خاص تربیت میں رکھا ان کو قرب حاصل کرنے کے طریق اور برے خیالات سے بچنے اور غیر مسلموں اور مشرکوں میں دعوت الیٰ اللہ کے گربتائے جب انہیں یقین کامل ہوگیا کہ یہ مرید دنیا میں اصلاح کا کام کرسکتا ہے تو انہوں نے حکم دیا کہ اب جاؤ دنیا میں توحید کا پرچار کرو۔

آپ نے اپنے پیر و مرشد کی ہدایت پہ عمل کرتے ہوئے مختلف علاقوں کے سفر کئے اور صوفیائے وقت سے اور بزرگان امت سے فیض حاصل کرتے ہوئے۔مکہ،مدینہ،بغداد،بصرہ،ہمدان اور سمرقند جیسے مقامات کے سفر کئے۔ کچھ سفر کرنےکے بعد واپس حضرت خواجہ عثمان ہارونی کے پاس ملنے جایا کرتے تھے حضرت خواجہ عثمان ہارونی نے آخری زمانہ میں گوشہ نشینی کی زندگی اختیار کرلی تھی مگر صرف حضرت خواجہ معین الدین چشتی کو ملاقات کی اجازت تھی۔ اسی دوران جب انہیں یہ احساس ہوا کہ آخری وقت قریب ہے تو روایت کے مطابق خواجہ معین الدین کو بلا کر فرمایا کہ
اے معین الدین! میں نے تمہارے حال کو کمال کے درجے تک پہنچا دیا ہے۔تم اپنی ذمہ داری محسوس کرنا۔ ایسا نہ ہو کہ قیامت کے دن شرمندگی ہو۔

اس ارشاد کے بعد خواجہ عثمان ہارونی صاحب نے آپ کو ایک عصا، ایک خرقہ، نعلین اور ایک مصلیٰ عنایت فرتے ہوئے ارشاد فرمایا۔
یہ بزرگوں کی چیزیں ہیں جو ہم تک پہنچی تھیں۔ ہم انہیں تمہارے سپرد کرتے ہیں۔اب ان کی حفاظت کرنا تمہارا کام ہے جس مرد خد ا کو ان کا اہل سمجھنا اس کے سپرد کردینا۔

روایات کے مطابق یہ ارشاد فرما کر آپ نے حضرت خواجہ معین الدین صاحب کو گلے لگایا اور فرمایا۔ جاؤ! ہم نے تمہیں خدا کے سپرد کیا۔

برصغیر آمد

روایت ہے کہ حضرت خواجہ عثمان ہارونی سے ملاقات کے بعد آپ کو مکہ مکرمہ حج کے لئے جانے کی سعادت ملی۔ حج کی ادائیگی کے بعد مدینہ منورہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے روضہٴ مبارک کی زیارت پر حاضر ہوئے تو پردہ غیب سے آواز سنائی دی کہ
معین الدین! تمہیں ہندوستان کی ولایت دی جاتی ہے۔

(سیرت الاقطاب بحوالہ تصوف روحانی سائنس صفحہ140)

حج سے واپسی پر اپنے مرشد کی خدمت میں حاضر ہوئے تو انہوں نے دریافت فرمایا کیا لائے ہو اور کیا حکم ہوا ہے۔ آپ نے فرمایا کہ ارشاد ملا ہے کہ ہندوستان کی ولایت دی جاتی ہے۔ اس پر مرشد بہت خوش ہوئے اور مبارک باد عرض کی۔

حضرت خواجہ معین الدین صاحب نے ہرون سے ہندوستان کے لئے رخت سفر باندھا اور اللہ پر توکل کرتے ہوئے روانہ ہوگئے۔ راستہ میں اولیاء کے مزارات پر چلا کشی کی، غزنی، لاہور، ملتان سے ہوتے ہوئے ہندوستان کا عمومی جائزہ لیا اور لاہور سے دہلی تشریف لے گئے دہلی میں مختصر قیام کے بعد اجمیر چلے گئے۔ ہندوستان پر ان دنوں پرتھوی راج یا راجہ رائے پتھورا کی حکومت تھی آپ نے چند ہی دنوں میں شہرت حاصل کرلی غیر مسلم حکمرانوں کو بغاوت کا اندیشہ ہوا جب تحقیق کروائی تو پتہ چلا کہ لوگ پر امن ہیں اور صرف مذہب کی وجہ سے خواجہ صاحب سے وابستگی ہے تو حکمران مزید کاروائی سے باز رہے۔ شہاب الدین غوری نے جب دہلی فتح کیا تو دہلی سے ہوتا ہوا اجمیر میں آپ کے پاس حاضری دی اور دعا کی درخواست بھی کی۔ آپ ظاہری اور باطنی تعلیم کی تکمیل نیشا پور، سمر قند بخارا، بغداد اور غزنی سے ہوتے ہوئے لاہور وارد ہوئے۔ مزار داتا گنج بخش پر چلہ کشی کی اور لاہور سے ہوتے ہوئے 561ھ / 1165ء کو اجمیر پہنچے اور یہیں کے ہو کر رہے۔

جس زمانہ میں آپ ہندوستان تشریف لائے ہندوستان پر کفر و شرک کا اندھیرا چھایا ہوا تھا۔خدا کی بے شمار مخلوق جہالت کی تاریکیوں میں بھٹک رہی تھی۔ درخت، پتھر،بندر، بیل، گائے، دریا سب کی پرستش ہو رہی تھی ملک راجاؤں میں بٹا ہوا تھا مندر بدکاری کے اڈے بنے ہوئے تھے۔ ذات پات کی تقسیم تھی راجا عوام پر مظالم کرتے اور عوام مظالم کی چکی میں پستی تھی انسانیت کے ساتھ انتہائی تحقیر آمیز سلوک کیا جارہا تھا اس ظلمت کی سیاہ رات میں آپ ہندوستان وارد ہوئے اور اپنے شاگرد قطب الدین بختیار کاکی کو علوم روحانی سے آراستہ کیا اور دہلی میں ٹھہرایا اور خود اجمیر تشریف لے گئے اور پھر ہندوستان میں چھوت چھات، ذات پات، کی تمیز کو آپ نے توحید کی طاقت سے پاش پاش کردیا اور وہ دنیا آپ کے قدموں سے لپٹ کر ایمان کی بھیک مانگنے لگی اور پھر یہ روشنی ساری ہندوستان میں پھیلتی چلی گئی اور آپ کے عملی نمونہ کو دیکھ دیکھ کر لاکھوں ہندو حلقہ بگوش اسلام ہوئے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا دین کی تجدید کا اہم کام آپ نے سر انجام دیا جس کی وجہ سے آپ کا شمار ساتویں صدی کے مجدد کے طور پر ہونے لگا۔

سلسلہٴ چشتیہ

سلسلہٴ چشتیہ عرف عام میں خواجہ معین اجمیری سے منسوب ہے۔ چشت خراسان کے ایک شہر کا نام ہے۔ پہلے بزرگ جن کے نام کے ساتھ چشتی نسبت ملتی ہے وہ ابو اسحق شامی (339ھ/ 940ء) ہیں کہا جاتا ہے کہ چشتی سلسلہ کے حقیقی بانی وہی ہیں۔ برصغیر میں طریقہٴ چشتیہ کی اشاعت حضرت خواجہ معین الدین چشتی کے ذ ریعہ سے ہوئی اسی نسبت سے آپ سلسلہٴ چشتیہ کے بانی بھی قرار پائے اور چونکہ آپ بھی چشت کے رہنے والے تھے اسی لئے آپ چشتی بھی مشہور ہوئے اور یہ طریقہ تصوف چشتی مشہور ہو گیا۔ حضرت خواجہ صاحب اس سلسلہ کو 12 صدی میں ہندوستان لائے اور انہوں نے اجمیر میں سلسلہٴ چشتیہ کا مرکز قائم فرما دیا جہاں سے یہ سلسلہ اکناف عالم میں پھیلتا چلا گیا اور مسلمانان برصغیر کی روحانی زندگیوں میں سرچشمہ قوت بن گیا۔ ہندو لوگ اپنے معبدوں میں بھجن گا کر عبادت کرتے تھے خواجہ معین الدین چشتی نے اس مقامی کلچر کو بھی مشرف با اسلام کرنے کی کوشش کی اور لوگوں میں توحید کے نغمے گا نےسنانے کا آغاز کیا یعنی قوالی کا آغاز کیا۔

القابات

آپ یوں تو بہت سارے القابات سے جانے جاتے ہیں مگر ان میں سے تین القابات زبان زدعام ہیں چشتی، اجمیری اور غریب نواز آپ کو چشتی اس لئے کہا جاتا ہےکہ آپ کے آباء و اجداد میں سے ایک بزرگ ابو اسحاق شامی حسنی خراسان میں حرات کے قریب واقعہ ایک قصبہ چشت میں پیدا ہوئے اس وجہ سے آپ چشتی مشہور ہو گئےاور اجمیری آپ کواس لئے کہا جاتا ہے کہ آپ نے ہندوستان میں آکرجس جگہ مستقل سکونت اختیار کی اور انوار اسلام پھیلایا وہ جگہ اجمیر کے نام سے مشہور تھی اس لئے آپ کے نام کے ساتھ اجمیری کے لقب کا بھی اضافہ ہوگیا اور آپ کا پورا نام خواجہ معین الدین چشتی اجمیری مشہور ہوگیا۔

غریب نواز آپ کو اس لئے کہا جاتا ہے کیونکہ خواجہ صاحب بڑے صاحب دل، نہایت درد مند اور لوگوں کے جذبات کو سمجھنے والے اور ان کا خیال رکھنے والے تھے اور انسانیت کے علمبردار تھے ان کے نزدیک مذہب خدمت خلق کا دوسرا نام ہے۔سب سے اعلیٰ (اطاعت) کی شکل ان کے نزدیک یہ تھی کہ مصیبت زدہ لوگوں کے دکھوں کو دور کیا جائے بے یارو مددگار لوگوں کی ضرورتوں کو پورا کیا جائے اور بھوکوں کو کھانا کھلایا جائے یوں آپ کی زندگی میں بھی اور آپ کے بعد بھی آپ کا آستانہ غرباء کا مسکن ہے اور جائے پناہ ہے اس لئے آپ کو غریب نواز یعنی غرباء کو نوازنے والا بھی کہا جاتا ہے۔

طریق دعوت الیٰ اللہ

آپ کا طریق تھا کہ آپ کو جس کو تبلیغ کرنا ہوتی اس کے حالات کا جائزہ لیتے اور اس کی لیاقت اور خیالات کو مدنظر رکھتے ہوئے دعوت الی اللہ کرتے۔ خدا پر یقین، انسانیت کی خدمت، خدا کی مخلوق کی ہمدردی اس سے محبت،عفو و درگزر کا جذبہ، ظلم و فساد سے گریز جیسے بنیادی اخلاق کی تعلیم دیتے۔اسلامی تعلیمات میں سے توحید،رسالت، اسلامی اخوت،مساوات وغیرہ سے روشناس کرواتے۔

آپ کے نمونے اور طریق دعوت سے لوگ اس قدر متاثر ہوئے کہ ہزاروں غیر مسلم مسلمان ہوگئے اور ان ہونے والے مسلمانوں میں سے صوفیا کی ایسی جماعتیں تیار ہوئیں کہ جنہوں نے ہندوستان کے کونے کونے میں اسلام کی تبلیغ و اشاعت کی۔

آپ کی طرف بہت ساری کرامات منسوب کی جاتی ہیں مگر آپ کی سب سے بڑی اور زندہ کرامت یہ ہے کہ آپ نے شرک اور کفر کے گڑھ میں اپنے اعلیٰ اخلاق، بلند کردار اور اسلامی شعار کے عملی نمونہ کو لوگوں کے سامنے پیش کرتے ہوئے توحید کا علم بلند کیا۔

وفات

ایک روایت کے مطابق 6؍ رجب 661 ھ میں 97 سال کی عمر میں اور دوسری روایت کے مطابق 633 ھ میں 103 کی عمر میں آپ کی وفات اجمیر میں ہوئی جس حجرہ میں آپ کی وفات ہوئی اسی حجرہ میں آپ کی تدفین ہوئی۔ سلطان محمود خلجی نے روضہ کے قریب ایک مسجد بنائی جواب صندل خانہ کے نام سے معروف ہے۔ حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری کو ہندوستان کے علاقہ میں دین اسلام کی اشاعت و مسلمانوں کی تربیت کی غیر معمولی توفیق ملی۔ آپ مسلمانوں کے ساتھ ساتھ ہندوں کابھی احترام کرتے ہیں۔

ہندوستان میں برطانوی حکومت کے ایک وائسرائے لارڈ کرزن کہا کرتے تھے میں نے اپنی زندگی میں دو بزرگ ایسے دیکھے ہیں جو اپنی وفات کے بعد بھی لوگوں پر اسی طرح حکومت کررہے ہیں۔گویا بنفس نفیس ان کے درمیان موجود ہیں ان میں ایک خواجہ معین الدین چشتی اجمیریؒ اور دوسرے شہنشاہ اورنگزیب عالمگیر۔

(بحوالہ انسائیکلوپیڈیا اولیاء کرام جلد 6 صفحہ 166)

کتب اور شاگرد

آپ نے علوم و معارف سے بھرپور چند کتابیں یادگار چھوڑیں۔

انیس الارواح: یہ آپ کے پیر مرشد حضرت خواجہ عثمان ہارونی کے ملفوظات کا مجموعہ ہے جو خواجہ صاحب نے جمع کیا اور ترتیب دیا تھا یہ فارسی میں ہے اور اس کا اردو ترجمہ بھی میسر ہے۔

گنج اسرار: یہ کتاب خواجہ عثمان ہارونی کی ہدایت پر سلطان شمس الدین التمش کی تعلیم و تربیت کے لئے خواجہ صاحب نے لکھی تھی۔ اس کا اردو ترجمہ مخزن الانوار کے نام سے چھپ چکا ہے۔

حدیث المعارف، رسالہ وجودیہ رسالہ در کسب نفس

دلیل العارفین جو کہ حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری کے ملفوظات ہیں اور ان کو حضرت قطب الدین بختیار کاکی نے جمع کیا ہے

دیوان معینیہ فارسی دیوان حضرت خواجہ صاحب سے منسوب ہے یہ 131 غزلوں پر مشتمل ہے اس کی ایک مشہور رباعی زبان ذد عام ہے۔

شاہ است حسین و بادشاہ است حسین

حسینؓ شاہ اور بادشاہ ہیں آپ دین اور دین کی پناہ ہیں آپ نے سردےدیا مگر یزید کے ہاتھ میں ہاتھ نہیں دیا حق یہ ہے کہ توحید باری کی بنیاد حسینؓ ہیں۔

دیں است حسین ودیں پناہ است حسین
سر داد نہ داد دست در دست یزید
حق کہ بنا ئے لا الہ است حسین

آپ نے بہت سے شاگرد پیدا کئے جن کو آپ نے اصلاح خلق اور دعوت الیٰ اللہ کے لئے ہندستان کے کونے کونے میں بھجوایا جنہوں نے ہندوستان کے طول و عرض کو اسلام کے نور سے منور کیا تاہم ان شاگردوں میں مشہور نام حضرت قطب الدین بختیار کاکی کا ہے جو حضرت خواجہ معین الدین کے ہمعصر بھی تھے اور روحانی اعتبار سے آپ کے شاگرد بھی تھے۔

ایک مرتبہ آپ دہلی تشریف لے گئے چونکہ حضرت قطب الدین بختیار کاکی دہلی میں مقیم تھے اور دہلی والوں کو آپ سے بے پناہ عقیدت بھی تھی جب ان کو پتہ چلاکہ ہمارے پیر و مرشد کے پیر و مرشد دہلی تشریف لارہے ہیں تو انہوں نے حضرت خواجہ صاحب کی زیارت کے لئے لمبی لمبی لائینیں بنا لیں دہلی میں حضرت فرید الدین گنج شکر بھی موجود تھے ان سے بھی ملاقات ہوئی۔ جیسا کہ پیچھے ذکر ہو چکا ہے کہ حضرت خواجہ معین الدین چشتی کو اپنے پیر و مرشد حضرت خواجہ عثمان ہرونی سے کچھ تبرکات ملے تھے اورساتھ پیر ومرشد نے نصیحت کی تھی کہ ان کی حفاظت کرتے رہنا جب ان کا کسی کو اہل جانو تو ان کے سپرد کردینا چنانچہ حضرت خواجہ معین الدین چشتی ؒنے حضرت قطب الدین بختیار کاکی کو ان تبرکات کا اہل سمجھتے ہوئے ان تبرکات کو ان کے سپر د کردیا۔

سیرت و کردار

حضرت خواجہ معین الدین چشتی ؒجہاں حب الٰہی میں گرفتار تھے وہیں آپ حب رسول سے بھی سرشار تھے جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر کرتے تو بڑے والہانہ انداز میں کرتے اور اکثر حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم پڑھ کر رونے لگتے تھے دلیل العارفین میں لکھا ہے کہ ایک مرتبہ آپ نے اپنی مجلس میں فرمایا کہ افسوس ہے اس شخص پر جو قیامت کے دن آپؐ سے شر مندہ ہوگا۔ اس کا ٹھکانا کہاں ہوگا جو آپؐ سے شرمسار ہوگا وہ کہاں جائے گا۔ یہ کہتے ہوئے آپ یکایک ہائے ہائے کر کے رونے لگے۔

(دلیل العارفین مجلس دوم)

آپ رات کو بہت کم سوتے تھے دن رات کلام پاک کی تلاوت کرتے۔کلام پاک کے احترام کی طرف بہت توجہ دلایا کرتے تھے اور احترام کلام پاک کو عبادت قرار دیا کرتے تھے آپ نے اس سلسلہ میں ایک واقعہ بیان کیا ہے کہ محمود غزنوی کو انہوں نے خواب میں ایک بار دیکھا تو پوچھا کہ تمہارے ساتھ کیا معاملہ ہوا ہے۔ انہوں نے جواب دیا کہ ایک قصبہ میں میں ایک رات مہمان تھا جس مکان میں ٹھہرا تھا وہاں طاق میں قرآن کریم کا ایک ورق رکھا ہوا تھا میں نے اس کا دل سے بڑا احترام کیا اور اسی ادب کی وجہ سے خدا تعالیٰ نے مجھ کو بخش دیا۔

آپ میں عفو و حلم بہت زیادہ تھا ایک مرتبہ ایک بد بخت دشمن کا آلہ کار بن کر آپ کے قتل کے ارادہ سے آپ کی خدمت میں حاضر ہوا وہ شخص جب قریب آیا تو آپ نے بہت اخلاق اور نرمی سے فرمایا کہ تم جس کام کے لئے آئے ہو وہ شروع کرو یہ سننے کی دیر تھی کہ وہ شخص کانپنے لگا اور اور چھری بغل سے نکال کر پھینک دی اور قدموں میں گرگیا اور کہنے لگا میں کسی کے بہکاوے میں آگیا تھا مجھے سخت سے سخت سزا دیں بلکہ مجھے قتل کر دیجئے لیکن آپ نے اسے اٹھایا اور فرمایا کہ تم نے میرے ساتھ کوئی برائی نہیں کی ہے اگر تم کچھ بدی کرتے تو درویشی کا تقاضہ تھا کہ میں تمہارے ساتھ نیکی کرتا میں نے تمہیں معاف کیا اور پھر اس کے لئے خدا سے دعا کی۔ وہ شخص بہت متاثر ہوا اور ان سے بیعت ہو کر ہمیشہ کے لئے ان کا خدمت گار بن گیا۔ کئی بار حج کی توفیق پائی اور وہیں پر وفات پائی۔

فیاضی و سخاوت کا یہ عالم تھا کہ سیر الاقطاب نے لکھا ہے کہ آپ کے باورچی خانہ میں اتنا کھانا پکتا تھا کہ تمام غرباء و مساکین سیر ہو کر کھاتے تھے آپ کے جس مرید کے سپرد لنگر کا انتظام ہوتا تھا وہ صبح آپ کے پاس حاضر ہوتا تو آپ مصلیٰ کا ایک کونہ اٹھاتے اور فرماتے جتنی ضرورت ہے لےلو وہ ضرورت کے مطابق اٹھا لیتا جس سے لنگر کا انتظام چلتا رہتا تھا۔

آپ ہمسایوں کے حقوق کا بھی بہت خیال رکھتے تھے اگر کوئی مرتا تو آپ اس کے جنازہ کے ہمراہ قبرستان جاتے اور تدفین کے بعد تھوڑی دیر وہیں تشریف رکھتے اور اس شخص کے لئے دعا کرتے تھے۔

آپ کا خدا سے تعلق اس قدر پختہ تھا کہ ایک بار ایک جنازہ کے ساتھ گئےآپ کے ساتھ قطب الدین بختیار کاکیؒ بھی تھے جب تمام لوگ لوٹ چکے تو آپ وہیں پر کھڑے رہے اور آپ کے چہرے کا رنگ زرد ہو گیا اور پھر تھوڑی دیر کے بعد ہشاش بشاش ہوگئے اور الحمد للّٰہ فرمایا۔ میں نے پوچھا تو فرمایا کہ قبر میں عذاب کے فرشتے آئے تھے لیکن پھر رحمت نازل ہوئی۔

خوف خدا کا یہ عالم تھا کہ قبر کا جب بھی ذکر ہوتا تو چیخیں مار مار کر رونے لگتے تھے۔

لباس بہت معمولی زیب تن فرمایا کرتے تھے روزے رکھتے تھے اور کھانا انتہائی قلیل کھاتے تھے۔

آپ مظلوموں کے حامی و مدد گار تھے۔ آپ کے دور میں حکمران طاقت کے نشے میں چور ہوتے تھے اور مظلوموں کی کہیں بھی داد رسی نہ ہوتی تھی مگر آپ کے پاس جب بھی کوئی مظلوم آتا تو آپ اس کی حتی المقدور دادرسی فرمایا کرتے تھے۔ چنانچہ ایک کاشت کار نے آپ کو شکایت کی کہ میری فلاں زمین پر حاکم نے قبضہ کرلیا ہے اگر آپ شاہ التمش سے میری سفارش کردیں تو میری زمین واپس مل سکتی ہے آپ اس کے ہمراہ اجمیر سے دہلی شاہ التمش کے دربار میں گئے اور شاہ التمش کو فرمایا کہ اس کی زمین اس کو واپس دلوائی جائے شاہ التمش نے آپ کی بہت عزت و توقیر کی اور آپ کی سفارش منظور کرلی اس واقعہ سے اندازہ ہوتا تھا کہ آپ کے دل میں خدمت خلق کا کس قدر جذبہ تھا۔

اقوال زریں

  • جس نے اللہ کو پہچان لیا ہے۔ وہ کبھی سوال یا خواہش یا آرزو نہیں کرتا۔
  • اللہ تعالیٰ خیر مجسم ہے اور اس کی تقدیرات ہمہ خیر۔
  • خدا اور انسان کے درمیان ایک ہی حجاب حائل ہے جس کا نام نفس ہے۔
  • حرص و ہوا کو ترک کرو۔ جس نے حرص و ہوا کو ترک کیا اس نے مقصود حاصل کرلیا۔
  • جس نے اپنے نفس کو حرص و ہوا سے روکا اس کا ٹھکانہ بہشت ہے۔
  • اگر تم تصوف کی ماہیت سے واقف ہونا چاہتے ہو تو اپنے پر آسائش کا دروازہ بند کردو۔
  • مال اور مرتبہ دو بڑے بھاری بت ہیں۔ انہوں نے بہت سے لوگوں کو سیدھی راہ سے گمراہ کیا ہےاور کررہے ہیں۔
  • دنیا کا ترک کرنا تمام عبادتوں کا سر ہے اور دنیا کی محبت تمام خطاؤں کی جڑ ہے۔
  • جس نے اللہ سے ڈر کر نفس کوخواہشات سے روکا اس کا ٹھکانہ بہشت ہے۔
  • روئے زمین پر کوئی جاندار ایسا نہیں جس کا رزق اللہ تعالیٰ کے ذمہ نہ ہو۔
  • جو شخص اللہ پر بھروسہ کرتا ہے تو اللہ اس کے لئے کافی ہے۔
  • خود بین خدا بین نہیں ہوسکتا۔
  • جس شخص میں تین باتیں ہوں تو سمجھ لو کہ اللہ تعالیٰ اسے دوست رکھتا ہے اول سمندر جیسی سخاوت دوم آفتاب جیسی شفقت سوم زمین جیسی تواضع۔
  • پیشہ کرنے والا اللہ کا دوست ہے لیکن جو شخص یہ عقیدہ رکھے کہ پیشہ کے ذریعہ سے ہی روزی ملتی ہے تو وہ کافر ہے۔
  • مومن وہ شخص ہے جو تین چیزوں کو دوست رکھتا ہے درویشی، بیماری اور موت۔
  • حاجت مندوں کی مدد کرنے والا اللہ کا دوست ہے۔اگر کوئی وظائف و اوراد میں مصروف ہو اور کوئی حاجت مند آجائے تو اسے چاہئے کہ اوراد و وظائف کو چھوڑ کر اس کی طرف توجہ کریں اور اپنی طاقت کے مطابق اس کی مدد کرے۔
  • افضل ترین زہد موت کو یاد رکھنا ہے۔
  • تین اشخاص بہشت کی بو تک نہ پائیں گے۔ ایک جھوٹ بولنےوالادرویش، دوسرا کنجوس، تیسرا خیانت کرنے والا سوداگر۔
  • متوکل وہ شخص ہے جو نہ لوگوں سے مدد لیتا ہے اور نہ اس کو کسی سے شکایت ہوتی ہے۔
  • آپ اہل طریقت کے لئے دس شرائط جو ضروری قرار دی ہیں۔طلب حق، طلب مرشد کامل، ادب،رضا، محبت اور ترک فضول، تقویٰ، استقامتِ شریعت، کم کھانا، کم سونا، لوگوں سے کنارہ کشی، نماز اور روزہ۔
  • آپ نے اہل حقیقت کے لئے دس چیزوں کو ضروری قرار دیا ہے۔ معرفت میں کامل اور اللہ تعالیٰ تک پہنچا ہوا ہو، کسی کو ضرر نہ پہنچائے اور کسی کے بارے میں بری بات نہ سوچے، حق تعالیٰ کی طرف راہنمائی کرے، لوگوں سے وہی بات کہے جس میں دنیا اور دین کافائدہ،توضع، گوشہ نشینی، ہر شخص کی عزت و احترام اور اپنے آپ کو سب لوگوں سے کم تر اور حقیر سمجھنا،رضا و تسلیم،رنج و مصیبت میں صبر و تحمل سے کام لینا، سوزو گداز اور عجز و نیاز، قناعت و توکل۔
  • یقین محکم، اتحاد اور تنظیم کے اصولوں کو اپنا لیجئے آپ دنیا کے معتبر بن جائیں گے۔
  • آزادی کا مطلب بے لگام ہوجانا نہیں یعنی جو رویہ چاہیں اختیار کریں بلکہ آزادی بھاری ذمہ داری ہے جسے سوچ سمجھ کر استعمال کرنا ہوتا ہے۔
  • والدین کے چہروں پر محبت کی نظر کرنا بھی خدا کی خوشنودی کا موجب ہے۔
  • نوجوان اگر اپنی قوتوں کو فضول کاموں میں ضائع کریں گے تو بعد میں ہمیشہ افسوس کریں گے۔
  • اللہ تعالیٰ اس کو دوست رکھتا ہے جس کی سخاوت دریا کی طرح رواں دواں ہو۔

(باقی آئندہ بدھ ان شاء اللّٰہ)

(ندیم احمد فرخ)

پچھلا پڑھیں

انڈیکس مضامین اکتوبر 2022ء الفضل آن لائن لندن

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ