• 18 مئی, 2024

دنیاوی جہنّم کا نقشہ اور خطرہ آنے سے پہلے ہی خطرات سے بچنے کا طریقہ کیا جائے؟

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز مزید فرماتے ہیں:

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ان آیات کی وضاحت میں ایک جگہ فرماتے ہیں کہ:
’’خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ ہم نے جہنّم کے لئے اکثر انسانوں، جنّوں کو پیدا کیا ہے اور پھر فرمایا کہ وہ جہنّم انہوں نے خود ہی بنا لیا ہے‘‘۔ اللہ تعالیٰ نے وہ جہنم نہیں بنا کر دیا بلکہ جہنم انہوں نے خود بنا لیا ہے۔ ’’ان کو جنت کی طرف بلایا جاتا ہے‘‘۔ فرماتے ہیں: ’’اُن کو جنت کی طرف بلایا جاتا ہے۔ پاک دل پاکیزگی سے باتیں سنتا ہے اور ناپاک خیال انسان اپنی کورانہ عقل پر عمل کر لیتا ہے‘‘۔ بلایا جاتا ہے اُن کو جنت کی طرف لیکن وہ سنتے نہیں۔ جو پاک دل ہیں اُن پر تو پاکیزہ باتوں کا اثر ہوتا ہے لیکن جو اپنے آپ کو عقلمند سمجھتے ہیں، یہ کہتے ہیں کہ اس دنیاکی روشنی سے فائدہ اُٹھانا چاہئے وہ اپنی عقل پر انحصار کرتے ہیں۔ اُن کا نتیجہ پھر جہنّم ہوتا ہے۔ فرمایا ایسے لوگوں کے لئے ’’پس آخرت کا جہنّم بھی ہو گا اور دنیا کے جہنم سے بھی مخلصی اور رہائی نہ ہو گی کیونکہ دنیا کا جہنّم تو اُس جہنّم کے لئے بطور دلیل اور ثبوت کے ہے۔‘‘

(ملفوظات جلد اول صفحہ372 ا یڈیشن 2003ء)

ایسے لوگوں کو پھر بعض بیماریوں کی وجہ سے، بعض اور چیزوں کی وجہ سے اس دنیا میں بھی ایک جہنم نظر آتی ہے۔

پھر دنیاوی جہنّم کا نقشہ کھینچتے ہوئے آپ فرماتے ہیں کہ:
’’یہ خیال مت کرو کہ کوئی ظاہر دولت یا حکومت، مال و عزّت، اولاد کی کثرت کسی شخص کے لئے کوئی راحت یا اطمینان، سکینت کا موجب ہو جاتی ہے اور وہ دمِ نقد بہشت ہی ہوتا ہے؟ ہرگز نہیں۔ وہ اطمینان اور وہ تسلّی اور وہ تسکین جو بہشت کے انعامات میں سے ہے ان باتوں سے نہیں ملتی۔ وہ خدا ہی میں زندہ رہنے اور مرنے سے مل سکتی ہے‘‘۔ فرمایا: ’’لذّات دنیا تو ایک قسم کی ناپاک حرص پیدا کر کے طلب اور پیاس کو بڑھا دیتی ہیں۔ استسقاء کے مریض کی طرح پیاس نہیں بجھتی‘‘۔ جس کو پانی پینے کا مرض ہوتا ہے اُس مریض کی طرح، اُس کی پیاس نہیں بجھتی۔ ’’یہاں تک کہ وہ ہلاک ہو جاتے ہیں۔ پس یہ بے جا آرزؤوں اور حسرتوں کی آگ بھی منجملہ اس جہنم کی آگ کے ہے جو انسان کے دل کو راحت اور قرار نہیں لینے دیتی بلکہ اس کو ایک تذبذب اور اضطراب میں غلطاں و پیچاں رکھتی ہے۔ اس لئے میرے دوستوں کی نظر سے یہ امر ہرگز پوشیدہ نہ رہے‘‘۔ فرمایا: ’’اس لئے میرے دوستوں کی نظر سے یہ امر ہرگز پوشیدہ نہ رہے‘‘۔ یعنی ان باتوں کا خیال رکھیں جو آپ فرماتے ہیں۔ ’’… پس یہ آگ جو انسانی دل کو جلا کر کباب کر دیتی ہے اور ایک جلے ہوئے کوئلے سے بھی سیاہ اور تاریک بنا دیتی ہے، یہ وہی غیر اللہ کی محبت ہے۔‘‘

(ملفوظات جلد اول صفحہ371 ایڈیشن 2003ء)

پس ایک حقیقی مومن کو، تقویٰ پر چلنے والے اور تقویٰ کی تلاش کرنے والے کو اپنے ہر عمل کو خالصتاً للہ کرنا ہوگا۔ دل میں سے خواہشات اور نام نہاد تسکین کے دنیاوی بتوں کو نکال کر باہر پھینکنا ہو گا تبھی ایک مومن حقیقی مومن بن سکتا ہے۔ پس ان دنوں میں اللہ تعالیٰ نے اصلاح کا جو موقع میسر فرمایا ہے اس میں ہر ایک کو اپنی اصلاح کی طرف توجہ دینی چاہئے۔ ضروری نہیں ہے کہ انتہائی برائیوں میں ہی انسان مبتلا ہو، چھوٹی چھوٹی برائیوں کو بھی دور کرنے کی کوشش کرنی چاہئے کیونکہ یہ چھوٹی برائیاں ہی بعض دفعہ تقویٰ سے دور لے جاتی ہیں اور برائیوں میں مبتلا کرتی چلی جاتی ہیں۔ ذکرِ الٰہی سے اپنی زبانوں کو تر رکھیں، استغفار اور درود سے اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کریں۔ اپنے دلوں کو غیر اللہ کی محبت سے پاک کریں۔ اللہ تعالیٰ کے شکر گزار بندے بنیں کہ یہ شکر گزاری پھر خدا تعالیٰ کی محبت کو جذب کرنے کا ذریعہ بنتی ہے۔ اس ملک میں آ کر اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے دنیاوی لحاظ سے جو دروازے کھلے ہیں اُنہیں اللہ تعالیٰ کے انعامات کے حصول کا ذریعہ بنائیں نہ کہ خدا تعالیٰ کی ناراضگی کا۔ اللہ تعالیٰ نے تو یہ فرمایا ہے کہ تمہارا تقویٰ تمہارے لئے عزت کا مقام ہے۔ یہ نہیں فرمایا کہ تمہارا پیسہ، تمہاری دولت تمہارے لئے عزت کا مقام ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ اِنَّ اَکْرَمَکُمْ عِنْدَاللّٰہِ اَتْقٰکُمْ (الحجرات: 14) کہ اللہ کے نزدیک تم میں سے زیادہ معزز وہی ہے جو سب سے زیادہ متقی ہے۔ ہم اکثر سنتے ہیں، اکثر ہماری تقریروں میں ذکر کیا جاتا ہے، مقررین اس کا ذکر کرتے ہیں لیکن جس طرح اُس پر عمل ہونا چاہئے وہ عمل نہیں ہوتا۔ اگر صحیح طرح عمل ہو تو بہت سارے مسائل، بہت ساری جھگڑے جو جماعت کے اندر پیدا ہو جاتے ہیں وہ خود بخود حل ہو جائیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:
’’اِنَّ اَکْرَمَکُمْ عِنْدَاللّٰہِ اَتْقٰکُمْ (الحجرات: 14) یعنی جس قدر کوئی تقویٰ کی دقیق راہیں اختیار کرے اُسی قدر خدا تعالیٰ کے نزدیک اُس کا زیادہ مرتبہ ہوتا ہے۔ پس بلاشبہ یہ نہایت اعلیٰ مرتبہ تقویٰ کا ہے کہ قبل از خطرات، خطرات سے محفوظ رہنے کی تدبیر بطورِ حفظ ما تقدم کی جائے۔‘‘

(نور القرآن نمبر2، روحانی خزائن جلد9 صفحہ446)

خطرہ آنے سے پہلے ہی خطرات سے بچنے کا طریقہ کیا جائے۔

(خطبہ جمعہ06جولائی 2012ء بحوالہ الاسلام ویب سائٹ)

پچھلا پڑھیں

تبلیغ کے حوالہ سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے چند ارشادات

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 2 دسمبر 2021