سورۃ السّجدۃ اور الاحزاب کا تعارف
ازحضرت مرزا طاہر احمد خلیفۃ المسیح الرابع ؒ
سورۃ السّجدہ
یہ سورت مکی ہے اور بسم اللہ سمیت اس کی اکتیس آیات ہیں۔
اس کے آغاز پر مقطعات الٓمٓ (جن کا مطلب ہے اَنَا اللّٰہُ اَعْلَمُ) گزشتہ سورت کی اختتامی آیات سے اس سورت کے تعلق کو واضح کر رہے ہیں۔ گزشتہ سورت کی آخری آیات میں یہ فرمایا گیا تھا کہ بہت سی ایسی باتیں ہیں جن کا علم سوائے اللہ کے کسی کو نہیں اور اَنَا اللّٰہُ اَعْلَمُ کے دعویٰ میں بعینہٖ وہی بات دہرائی گئی ہے۔
اس کے بعد زمین و آسمان کے اَسرار کا ایک دفعہ پھر ذکر ہے جن کو اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ پھر ایک ایسی آیت ہے جو حیرت انگیز طور پر کائنات کی عمر کا راز کھول رہی ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تمہاری گنتی کے ہر دن کے مقابل پر اللہ کا دن ایک ہزار سال کے برابر ہے۔ اگر ایک سال کے انسانی دنوں کو ایک ہزار سال سے ضرب دی جائے تو جو عدد بنتا ہے اس آیت کریمہ میں اس کا ذکر موجود ہے۔ اور ایک اور آیت (المعارج: 5) میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اللہ کا دن پچاس ہزار سال کے برابر ہے۔ پس اس دن کو اگر اس ایک ہزار سال والے دن کے ساتھ حسابی طریق پر ضرب دی جائے تو قریباً بیس بلین سال بنتے ہیں اور سائنس دانوں کے نزدیک بھی اس کائنات کی عمر اٹھارہ سے بیس بلین سال تک ہے۔ اسی نسبت سے اللہ تعالیٰ نے ایک دفعہ پھر اعلان فرمایا کہ غیب اور شہادت کا علم رکھنے والا وہی اللہ ہے جس نے ہر چیز کی بہترین تخلیق فرمائی۔ اور حیرت انگیز بات یہ ہے کہ یہ ساری تخلیق عام مٹی سے کی گئی۔ اس کے بعد پھر دیگر تخلیقی مراحل کا ذکر ملتا ہے جن میں سے جنین کو رحم مادر میں گزرنا پڑتا ہے۔
اس کے بعد پھر دوبارہ جی اٹھنے پر لوگوں کے شک کا ذکر فرما کر یہ ایک نئی بات بیان فرمائی گئی کہ ہر انسان کا ملک الموت الگ ہے جو اس کے عوارض اور باریک در باریک اندرونی خرابیوں کا علم رکھتے ہوئے بالکل صحیح نتیجہ نکالتا ہے کہ اس کی روح کب قبض ہونی چاہئے؟ اور یہاں پھر گزشتہ سورت کی آخری آیات والا مضمون ہی ایک نئے رنگ میں بیان فرمادیا گیا۔
اس سورت کے آخری رکوع میں حضرت موسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ذکر کے ساتھ ایک دفعہ پھر الٓمٓ والے مضمون کو دہراتے ہوئے یہ فرمایا گیا کہ اس کی لقا کے بارہ میں شک میں نہ پڑ۔ بعض مفسرین کے نزدیک یہاں اللہ تعالیٰ سے ملاقات کا ذکر نہیں بلکہ حضرت موسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ملاقات کا ذکر ہے۔ اگر یہ معنی ٰبھی لئے جائیں تو ظاہر ہے کہ یہ وہ ملاقات نہیں جو قیامت کے دن سب نبیوں سے ہو گی بلکہ بطور خاص اُس ملاقات کا ذکر ہے جو معراج میں حضرت موسیٰ ؑ سے ہوئی اور نمازوں کے متعلق حضرت موسیٰؑ نے ایک مشورہ دیا جس کی تفصیل معراج والے واقعہ میں ہے۔
اس سورت کی آخری آیت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو دشمنوں اور ایذا دینے والوں سے اِعراض کرنے کا ارشاد فرمایا گیا۔
(قرآن کریم اردو ترجمہ مع سورتوں کا تعارف از حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ صفحہ720)
سورۃ الاحزاب
یہ سورت مدنی ہے اور بسم اللہ سمیت اس کی چوہتر آیات ہیں۔
اس سورت کے شروع میں ہی گزشتہ سورت کی آخری آیت والے مضمون کو پیش کیا گیا یعنی یہ کہ کفار اور منافقین تجھے اپنے مسلک سے ہٹانے کی کوشش کریں گے، تُو ان سے اعراض کر اور اُن کی اطاعت نہ کر اور اس کی پیروی کر جو تیری طرف وحی کیا جاتا ہے۔
آیت کریمہ نمبر 5میں یہ دائمی اصول بیان فرما دیا گیا کہ انسان بیک وقت دو الگ الگ وجودوں سے بعینہٖ ایک جیسی محبت نہیں کر سکتا۔ اس میں اس طرف اشارہ ہے کہ تیرے دل پر اللہ تعالیٰ کی محبت ہی غالب ہے اور دنیا میں جو تُو محبت کرتا ہے وہ محض اللہ تعالیٰ کی محبت کی بنا پر ہی ہے۔ چنانچہ وہ حدیث اس مضمون کو کھول رہی ہے جس میں فرمایا گیا کہ اگر تُو بیوی کے منہ میں لقمہ بھی اللہ تعالیٰ کی محبت کی بنا پر ڈالے تو یہ بھی عبادت ہو گی۔
اس کے بعد عربوں کی اس رسم کا ذکر ہے جو اپنے منہ سے اپنی بیویوں کو مائیں کہہ دیا کر تےتھے۔ اس رسم کا قلع قمع کرتے ہوئے توجہ دلائی گئی کہ ماں اور بیٹے کا تعلق تو اللہ کے بنائے ہوئے قوانین کے مطابق پیدا ہوتا ہے، تم اپنے مو نہوں سے کیسے اس تعلق کو تبدیل کر سکتے ہو۔ اسی طرح اگر کسی کو بیٹا کہہ کر پکارا جائے تو وہ بیٹا نہیں بن سکتا۔ بیٹا وہی ہے جو خونی رشتہ میں بیٹا ہو۔ بیٹا کہہ کر پکارنا صرف ایک پیار کا اظہار ہے اس سے زیادہ کچھ نہیں۔
پھر اسی مضمون کا اعادہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ دلوں میں ایک ہی اَوْلیٰ یعنی سب سے زیادہ محبت کا حقدار ہوتا ہے اور جہاں تک مومنوں کا تعلق ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سب سے اَوْلیٰ ہونے چاہئیں اور اس کے بعد درجہ بدرجہ دیگر قرابت داروں کا ذکر ہے کہ وہ ایک دوسرے پر تمہارے قرب کے لحاظ سے فضیلت رکھتے ہیں۔
اسی سورت میں جس میں آیت خَاتَمَ النَّبِیِّیْن بھی ہے اور بعض عرفان سے عاری علماء اس کا مطلب یہ لیتے ہیں کہ آپؐ آخری نبی ان معنوں میں ہیں کہ آپؐ کے بعد کبھی کسی قسم کا کوئی نبی نہیں آئے گا، اس غلط عقیدے کا ردّ فرما دیا گیا اور اس مِیْثَاق کا ذکر فرمایا جو ہر نبی سے لیا جاتا رہا کہ اگر تمہارے بعد کوئی ایسا نبی آئے جو تمہاری باتوں کی تصدیق کرتا ہو تو تمہاری امّت کا فرض ہے کہ وہ اس نبی کا انکار کرنے کی بجائے اس کی تائید کرنے والی ثابت ہو۔ اس سورت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق فرمایا وَمِنْکَ کہ ہم نے یہ عہد تجھ سے بھی لیا ہے۔ پس آپؐ کی امّت پر یہ فرض عائد فرمایا گیا کہ اس شرط کے ساتھ کہ نبوت کا دعویٰ کرنے والا سو فیصد حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کا تابع ہو اور اُس نے فیضِ محمدی سے ہی نبوت کا انعام پایا ہو اور وہ آپؐ ہی کی تعلیم بلا تغیر و تبدّل پیش کرنے والا ہو اور اُسی کے حق میں جہاد کر رہا ہو تو پھر نہ صرف یہ کہ اس کی مخالفت تم پر حرام ہے بلکہ اس کی نصرت کرنا لازم ہے۔
اس کے بعد احزاب کے بنیادی معنیٰ کو ملحوظ رکھتے ہوئے اس میں جنگِ خندق کا ذکر ہے جس میں تمام عرب کے احزاب مدینہ پر حملہ کے لئے امڈ آئے تھے اور ان سے بچاؤ کی کوئی ظاہری صورت ممکن نہیں تھی۔ اس وقت اللہ تعالیٰ نے آپؐ کے حق میں یہ معجزہ دکھایا کہ ایک خوفناک آندھی کے ذریعہ آپؐ کی نصرت فرمائی جس نے کفار کی آنکھوں کو اندھا کر دیا اور وہ افراتفری میں بھاگ کھڑے ہوئے اور بہت سی سواریاں جو بندھی ہوئی تھیں ان کو کھولنے تک کا انہیں وقت نہ ملا۔ پس اپنی سواریوں سمیت وہ بہت سا سازو سامان پیچھے چھوڑ گئے، اور وہ خوفناک غذا کی قلت مسلمانوں کو درپیش تھی اس کی وجہ سے وہ بھی دور ہوئی۔
اس واقعہ سے پہلے اہلِ یثرب کی جو حالت تھی اس کا بھی ذکر فرمایا گیا ہے کہ اتنی خوفناک مصیبت اور تباہی انہیں دکھائی دے رہی تھی کہ خوف سے ان کی آنکھیں پتھرا گئیں تھیں اور منافقین مدینہ کے مسلمانوں سے کہہ رہے تھے کہ اب تمہارے لئے کوئی جائے پناہ نہیں رہی۔ اس وقت مومنوں نے انہیں یہ جواب دیا کہ ہمارا ایمان تو پہلے سے بھی زیادہ قوی ہو گیا ہے کیونکہ احزاب کے اس خوفناک حملے کی اس سے پہلے ہمیں خبر دے دی گئی تھی۔ ان کا اشارہ سورۃ القمر کی طرف تھا جس میں یہ آیت آتی ہے کہ سَیُھْزَمُ الْجَمْعُ وَ یُوَ لُّوْ نَ الدُّ بُر۔ پس اس جنگ میں مومنوں نے اپنے عہد کو پورا کر دکھایا اور ان میں سے کچھ لوگ ایسے بھی تھے جو اس وقت ساتھ شامل نہیں تھے لیکن انتظار کر رہے تھے کہ کاش ان کو بھی جنگِ احزاب میں شامل ہونے والے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کی طرح ثبات قدم اور قربانیوں کی توفیق عطا ہو۔
اس سورت کی آیت نمبر 38 میں اللہ تعالیٰ نے آپؐ کو منہ بولے بیٹے کی مطلقہ سے نکاح کا حکم دیا اور یہ حکم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر بہت گراں گزر رہا تھا اور اس کے نتیجہ میں منافق جو اعتراضات کر سکتے تھے ان کا بھی کچھ خوف دامنگیر تھا۔ اس لئے آپؐ اس شادی کے معاملہ میں سخت متردد تھے مگر اللہ کے حکم پر عمل کرنا بہر حال لازم تھا۔
اس کے بعد ایک ایسی آیت (نمبر41) ہے جسے اس سورت کا معراج کہنا چاہئے اور اس کا تعلق حضرت زیدؓ کے واقعہ سے بھی ہے۔ یہ اعلان عام فرمایا گیا کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حقیقتاً نہ زیدؓ کے باپ تھے، نہ تم جیسے انسانوں کے باپ ہیں بلکہ وہ تو خَاتَمَ النَّبِیِّیْن ہیں۔ یعنی آپؐ کو نبیوں کی روحانی اَبُوَّت عطا فرمائی گئی۔ سیاق و سباق سے تو یہی ترجمہ نکلتا ہے لیکن خاتم النبیین کے اور بہت سے معنیٰ ہیں جو تمام تر اس قرآنی آیت کا منطوق ہیں۔ اور ہر معنی کے لحاظ سے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم خَاتَمَ النَّبِیِّیْن ثابت ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر خَاتَم کا ایک معنیٰ مُصَدِّ ق کا بھی ہے اور تمام شرائع میں سے صرف ایک حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت ہے جس میں گزشتہ تمام نبیوں کی اور ہر زمانہ کے نبیوں کی تصدیق فرمائی گئی ہے۔ دنیا کی کوئی مذہبی کتاب اس شان کی آیت کریمہ پیش نہیں کر سکتی۔
اس کے بعد کی آیت حضرت زکریا علیہ الصلوٰۃ والسلام کی اس دعا کی یاد دلاتی ہے جو انہیں بیٹے کی خوشخبری عطا کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے ان پر وحی فرمائی کہ صبح و شام اللہ تعالیٰ کی تسبیح کرو۔
اس کے بعد آیات 47-46 میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے شاہد، مبشر، نذیر ہونے کا ذکر فرما دیا گیا۔ آپؐ اپنے سے پہلے عظیم الشان نبی موسیٰ علیہ الصلوٰۃ و السلام کی صداقت پر بھی شاہد تھے اور اپنے آنے والے غلام کی صداقت پر بھی شاہد تھے۔ آپؐ کی شان کی مثال سورج سے دی گئی ہے جو سب جہانوں کو روشن کرتا ہے اور چاند بھی اسی سے روشنی پاتا ہے۔ پس مقدر ہے کہ کوئی چاند رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی روشنی ہی کو اس وقت جب رات کی تاریکی چھا چکی ہو پھر بنی نوع انسان تک پہنچائے۔ سو اس میں یہ پیشگوئی ہے کہ آئندہ کے اندھیرے زمانوں میں ایسا ہی ہو گا۔
اس کے بعد مومنوں کو تقویٰ کے آداب سکھائے گئے ہیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا جو عظیم الشان مقام بیان فرمایا گیا تھا اس کو ملحوظ رکھتے ہوئے ان پر فرض فرما دیا گیا ہے کہ انتہائی ادب سے کام لیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بعض مواقع پر اپنے عزیزوں اور صحابہ کرام کو اپنے گھر کھانے کی دعوت پر بلایا کرتے تھے۔ ان آیات میں صحابہ ؓ کو نصیحت کی گئی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب ایسی دعوت کریں تو اسے عام دعوتوں کی طرح سمجھتے ہوئے وقت سے پہلے آپ ؐ کے گھر پہنچ کر کھانا پکنے کا انتظار نہ کیا کرو۔ جب کھانا تیار ہو اور تمہیں بلایا جائے تو جایا کرو اور اس کے بعد اجازت لے کر اپنے گھروں کو جاؤ۔ اور اگر کھانے کے دوران تمہیں کسی چیز کی ضرورت پڑے تو پردے کے پیچھے سے اُمَّھَاتُ الْمُؤْمِنِیْن کو اپنی ضرورت کی اطلاع دو۔ یہاں پاکیزگی کی تاکید ازواجِ مطہرات کو عام مسلمان خواتین سے بہت زیادہ کی گئی ہے کیونکہ اُن کا بلند مرتبہ تقاضا کرتا ہے کہ ان کی وجہ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ادنیٰ سی تہمت بھی نہ سننی پڑے۔
جس طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو منافقین بہتان تراشیوں کے ذریعہ ایذا پہنچاتے تھے اسی طرح حضرت موسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام کو بھی بہتان تراشی کے ذریعہ ایذا دہی کا نشانہ بنایا گیا تھا۔ پس اس سورت کے اختتام پر یہ مضمون دہرایا گیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو آپ سے پہلے جلالی نبی موسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ساتھ بکثرت مشابہتیں ہیں۔ اور جس طرح حضرت موسیٰ ؑ کو بتایا گیا تھا کہ اللہ کے نزدیک وہ بہر حال وجیہ ہیں اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تسلی دلائی گئی کہ ان بہتان تراشیوں کے نتیجہ میں تیرا کو ئی بھی نقصان نہیں کیونکہ تُو اللہ تعالیٰ کے نزدیک وَجِیْھًا فِی الدُّ نْیَا وَ الْاٰ خِرَۃِ ہے۔
اس سورت کی آخری دو آیات میں ایک دفعہ پھر حضرت موسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ جو بارِ امانت تجھ پر ڈالا گیا ہے وہ موسیٰ ؑ پر ڈالے جانے والے بارِ امانت سے بہت زیادہ ہے۔ پہاڑ بھی اس کے رعب سے ریزہ ریزہ ہو جاتے ہیں۔ لیکن تُو اس بارِ امانت کو اٹھانے کے لئے آگے بڑھا جس کے نتیجہ میں تجھے اپنے نفس پر بے انتہا ظلم کرنا پڑا لیکن تُو نے ہر گز پروا نہیں کی کہ اس کے عواقب کیا ہوں گے۔
(قرآن کریم اردو ترجمہ مع سورتوں کا تعارف از حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ صفحہ726تا 728)
(عائشہ چوہدری۔جرمنی)