اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
يٰأَيُّهَا الرُّسُلُ كُلُوْا مِنَ الطَّيِّبَاتِ وَاعْمَلُوْا صَالِحاً إِنِّى بِمَا تَعْمَلُونَ عَلِيمٌ
(المومنون:52)
اے رسولو! پاکیزہ چیزوں میں سے کھایا کرو اور نیک اعمال بجالاؤ۔ حدیث قدسی ہے۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے ’’میں نے اپنے بندوں کو جو مال دیا ہے۔ وہ ان کے لئے حلال ہے۔ میں نے اپنے بندوں کو دین حنیف پر پیدا کیا۔ بعد میں شیاطین ان کے پاس آئے اور ان کو ان کے دین سے متعلق گمراہ کرکے رکھ دیا اور جو چیزیں میں نے اپنے بندوں کے لئے حلال کر رکھی تھیں وہ ان پر حرام کر دیں۔‘‘
(تفسیر ابن کثیرجلد 1ص267)
کسب حلال اور رزق طیب کی بیشمار برکات ہیں۔ جب لقمہ حلال انسان کے پیٹ میں جاتا ہے تو اس سے خیر کے امور صادر ہوتے ہیں۔ بھلائیاں پھیلتی ہیں، وہ نیکیوں کی اشاعت کا باعث اور سبب بنتا ہے۔
اس کے برعکس حرام غذا انسانی جسم کو معطل کر دیتی ہے۔ نور ایمانی بجھ جاتا ہے دل کی دنیا ویران اور بنجر ہو جاتی ہے۔ شیطان دل پر قابض ہوجاتا ہے پھر ایسا انسان معاشرے کے لئےنقصان دہ بن جاتا ہے اس سے نیکی اور بھلائی کے امور سرانجام نہیں پاسکتے۔ حلال و حرام کا یہ کھلا کھلا فرق اس حد تک اثرانداز ہوتا ہے کہ طیب و پاکیزہ کمائی کھانے والا عنداللہ مقبول و مستجاب بن جاتا ہے جبکہ حرام کھانے والا اللہ کے ہاں مردود ٹھہرتا ہے۔ دراصل سائنس کی رو سے یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ جونہی انسان حرام کماتا ہے یا مال حرام کھاتا ہے اس کے اندر منفی جذبات پیدا ہونے شروع ہو جاتے ہیں اور رفتہ رفتہ کئی روحانی و جسمانی بیماریاں لگ جاتی ہیں۔ اس کی واضح مثال شادی کرنے والا فرد ہر قسم کی فرحت و راحت محسوس کرتا ہے اور صحت مند ہوتا چلا جاتا ہے جبکہ حرام کار بالآخر خطرناک بیماریوں میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ حالانکہ بظاہر دونوں کام ایک ہی کرتے ہیں لیکن حلال و حرام کے فرق سے نتائج بھی بالکل ایک دوسرے کے برعکس نکلتے ہیں۔
حدیث میں آیا ہے کہ حضرت سعد بن ابی وقاصؓ نے عرض کی یارسول اللہؐ! میرے لئے اللہ تعالیٰ سے مستجاب الدعوات بننے کی دعا فرمادیں۔ آپؐ نے فرمایا: اے سعد! اپنا کھانا پاکیزہ اور حلال رکھو تم مستجاب الدعوات بن جاؤ گے۔ اس ذات کی قسم جس کے قبضۂ قدرت میں محمؐد کی جان ہے حقیقت یہ ہے کہ جو آدمی اپنے پیٹ میں حرام کا لقمہ ڈالتا ہے تو چالیس دن تک اس کی عبادت قبول نہیں کی جاتی۔ جس بندے کی نشوونما حرام اور سود کے مال سے ہوئی ہو۔ جہنم کی آگ اس کے زیادہ لائق ہے۔
(تفسیر ابن کثیر جلد1ص267)
رسول اللہ ﷺ نے ایک ایسے آدمی کا تذکرہ فرمایا جو لمبے سفر میں پراگندہ حال اور غبار آلود ہوتا ہے اور وہ آسمان کی طرف ہاتھ اٹھا کر دعا مانگتے ہوئے کہہ رہا ہو، اے میرے رب! اے میرے رب! جبکہ (حقیقت حال یہ ہو کہ) اس کا کھانا پینا اور اوڑھنا سب حرام ہے اور حرام کی غذا اسے مل رہی ہو سو اس حالت میں اس کی دعائیں کیسے قبول ہوسکتی ہیں؟
(مشکوٰۃ: حدیث241)
آپؐ نے فرمایا: لوگوں پر ایک ایسا زمانہ آئے گا جس میں انسان اس بات کی طرف دھیان نہیں دے گا کہ وہ جو مال حاصل کررہا ہے۔ حلال ہے یا حرام۔
(مشکوٰۃ:241)
جب انسان اکل حرام کھاتا ہے اور اکل حلال کو نظر انداز کردیتا ہے تو صبر و قناعت زُہد و ایثار اور جفاکشی کی جگہ حرص و ہوس اور عیش کشی کو اپنا مطمح نظر بنالیتا ہے تو اللہ رب کریم کی طرف سے نازل ہونے والی برکت ختم ہو جاتی ہے۔ کثرت، قلت میں محسوس ہونے لگتی ہے۔ قارون کا خزانہ بھی اسے کم لگتا ہے۔ یہی وجہ ہے جب وہ اپنا ناپاک مال خدا کے رستے میں خرچ کرتا ہے وہ قبول نہیں کیا جاتا۔ کھاتا ہے تو جسم بیشمار بیماریوں کا مجموعہ بن جاتا ہے۔
حضرت ابوبکر صدیقؓ سے مروی ہے کہ نبی کریمؐ نے فرمایا وہ جسم جنت میں نہیں جائے گا جس کو حرام مال سے غذا پہنچائی گئی ہو۔
(مشکوٰۃ:حدیث243)
حضرت جابرؓ سے مروی ہے وہ انسان جنت میں نہیں جائے گا جس کے جسم کی پرورش مال حرام سے ہوئی ہے اور ہر وہ شخص جس کے جسم کی پرورش مال حرام سے ہوئی ہو اس کے لئے جہنم کی آگ زیادہ مناسب ہے۔
(مشکوٰۃ:حدیث243)
حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں۔
پس ہمیشہ دیکھنا چاہئے کہ ہم نے تقویٰ وطہارت میں کہاں تک ترقی کی ہے ۔اس کا معیار قرآن ہے۔اللہ تعالیٰ نے متقی کے نشانوں میں ایک نشان یہ بھی رکھا ہے کہ اللہ تعالیٰ متقی کو مکروہات دنیا سے آزاد کر کے اس کے کاموں کاخود کفیل ہو جاتا ہے۔ کہ فرمایا:وَمَنْ یَّتَّقِ اللّٰہَ یَجْعَلْ لَّہُ مَخْرَ جًاوَّ یَرْ زُقْہُ مِنْ حَیْثُ لَا یَحْتَسِبُ (الطلاق:4،3)جو شخص خدا تعالیٰ سے ڈرتا ہے اللہ تعالیٰ ہر ایک مصیبت میں اس کے لئے ایسے روزی کے سامان پیدا کر دیتا ہے کہ اس کے علم وگمان میں نہ ہوں ،یعنی یہ بھی ایک علامت متقی کی ہے کہ اللہ تعالیٰ متقی کو نابکار ضرورتوں کا محتاج نہیں کرتا ۔مثلاً ایک دکان دار یہ خیال کرتا ہے کہ دروغگوئی کے سوا اس کا کام ہی نہیں چل سکتا ،اس لئے وہ دروغگوئی سے باز نہیں آتا اور جھوٹ بولنے کے لئے وہ مجبوری ظاہر کرتا ہے،لیکن یہ امر ہر گز سچ نہیں۔ خدا تعالیٰ متقی کا خود محافظ ہو جاتا ہے اور اسے ایسے مواقع سے بچا لیتا ہے جو خلاف حق پر مجبور کرنے والے ہوں ۔یاد رکھو خدا تعالیٰ کو جب کسی نے چھوڑا،تو خدا نے اسے چھوڑ دیا۔جب رحمان نے چھوڑ دیا ،تو ضرور شیطان اپنا رشتہ جوڑے گا۔
حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ فرماتے ہیں۔
’’حرام خوری اور مال بالباطل کا کھانا کئی قسم کا ہوتا ہے۔ ایک نوکر اپنے آقا سے پوری تنخواہ لیتا ہے مگر وہ اپنا کام سستی یا غفلت سے، آقا کی منشاء کے موافق نہیں کرتا تو وہ حرام کھاتا ہے۔ ایک دکاندار یا پیشہ ور خریدار کو دھوکہ دیتا ہے اسے چیز کم یا کھوٹی حوالے کرتا ہے اور مول پورا لیتا ہے تو وہ اپنے نفس میں غور کرے کہ اگر کوئی اسی طرح کا معاملہ اس سے کرے اور اسے معلوم بھی ہو کہ میرے ساتھ دھوکہ ہوا تو کیا وہ اسے پسند کرے گا؟ ہرگز نہیں جب وہ اس دھوکہ کو اپنے خریدار کے لئے پسند کرتا ہے تو وہ مال بالباطل کھاتا ہے۔ اس کے کاروبار میں برکت ہرگز نہ ہوگی۔‘‘
اللہ تعالیٰ ہمیں مال حلال کھانے، کمانے اور بنانے کی توفیق فرمائے اور اس کا ہمارے جسم و جان اور روح پر مثبت اثر ہو اور انسان نیکیوں، بھلائیوں میں ترقی کرکے جنت میں داخل ہوسکے۔ کیونکہ صادق مخبر نے فرما دیا ہے۔
وہ جسم جنت میں نہیں جائے گا جس کو مال حرام سے غذا پہنچائی گئی ہو۔
(نعیم طاہر سون)