• 28 اپریل, 2024

جب محبوب سے ملنے کا وقت نزدیک آ جائے تو آتش شوق بھڑکتی جاتی ہے

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
حضرت اللہ رکھا صاحبؓ ولد میاں امیر بخش صاحبؓ، یہ دونوں صحابی تھے، فرماتے ہیں کہ: مَیں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو خواب میں دیکھا۔ تصدیق خواب کے لئے مَیں مع مولوی احمد دین صاحب مرحوم ساکن نارووال قادیان آئے۔ گرمی کے دن تھے۔ مہینہ یادنہیں۔ مسجد مبارک میں نماز صبح کے بعد حضرت مسیح موعودؑ تشریف فرما ہوئے۔ مولوی احمد دین مرحوم ساکن نارووال نے اپنی ایک سہ حرفی جس میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے دعویٰ مبارک کے متعلق اور اُس زمانے کے لوگوں کی شرارتوں کے متعلق ذکر تھا، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے حضور پڑھی جس میں مولوی صاحب مذکور نے ذکر کیا کہ حضرت ابوبکر صدیقؓ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی پیٹھ پر اُٹھا کر غارِ ثور میں لے گئے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کہ مولوی صاحب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ اُٹھا کر نہیں لے گئے تھے، بلکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ابوبکر صدیق کے ساتھ چل کر غار میں داخل ہوئے تھے۔ بعد اس کے حضرت صاحب نے اُن کی کاپی چھپوانے کی اجازت دی اور اندر تشریف لے گئے۔

(ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہؓ (غیر مطبوعہ) جلدنمبر7 صفحہ151روایت حضرت اللہ رکھا صاحبؓ)

حضرت محمد فاضل صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ چونکہ بیعت کے لئے میرے اندر بڑی تڑپ تھی اور اُدھر روحانیت حضرت اقدس علیہ السلام نے اس قدر دل میں تغیر پیدا کیا جس کا بیان اظہار سے بالا تر ہے۔ حضرت مخدوم الملّت کی خدمت میں مَیں نے عرض کی کہ میری بیعت کے لئے عرض کریں۔ (یعنی حضرت مولوی عبدالکریم صاحبؓ کو کہا)۔ چنانچہ ہر شام کی نمازمیں حضرت مخدوم الملّت میری بیعت کے لئے عرض کرتے (یعنی حضرت مولوی عبدالکریم صاحبؓ کو وہ کہتے تھے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں عرض کریں) اور حضور علیہ السلام فرماتے کہ کل۔ اس پر میرے شوق کی آگ بمصداق وعدہ، (فارسی کا شعر پڑھتے ہیں کہ)

؎وصل چوں شود نزدیک
آتشِ شوق تیز تَر گَرْدد

(یعنی جب محبوب سے ملنے کا وقت نزدیک آ جائے تو آتش شوق جو ہے وہ بھڑکتی جاتی ہے۔) کہتے ہیں آخر ہفتے کے بعد میری طبیعت نے یہ فیصلہ کیا کہ بیعت تو خواب میں بھی کر چکا ہوں۔ وہاں سے بغیر رخصت کے روانہ ہو گیا۔ (جب کچھ دن بیعت نہیں ہوئی تو میں نے کہا، بیعت تو میں خواب میں کر چکا ہوں تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے پوچھے بغیر میں واپس اپنے گھر، اپنے شہر آ گیا۔ کہتے ہیں جب یہاں گھر پہنچا تو پھر بیقراری اور اضطراب بڑھ گیا۔ پھر ایک ماہ کے بعد قادیان شریف روانہ ہو پڑا۔ جب میں حضرت خلیفۃ المسیح الاول کے مطب میں داخل ہوا تو آپ نے میری طرف مسکرا کر دیکھا اور مسکراتے ہوئے فرمایا کہ جو امام وقت کی بغیر اجازت کے جاتا ہے اُس کے ساتھ یہی سلوک ہوتا ہے۔ غرض میں نے اُس وقت سمجھا کہ بغیر اجازت امام الوقت جانا مناسب نہیں۔ پھر حضرت صاحب کو ملا۔ پھر میں نے بیعت کے لئے اصرار نہ کیا۔ دل میں برودت اور تسکین پیدا ہوتی گئی۔ آخر بائیس روز کے بعد شام کی نماز کے بعد جمعرات تھی، حضور نے خود فرمایا کہ محمد فاضل بیعت کرلو۔ میں نے بیعت کی اور یہ 1899ء کا آخر یا سن 1900ء کا ابتدا تھا۔

(ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہؓ (غیر مطبوعہ) جلدنمبر7 صفحہ233-234 روایت حضرت محمد فاضل صاحبؓ)

حضرت میاں غلام احمد صاحبؓ بافندہ بیان کرتے ہیں کہ ’’مَیں پہلے حنفی تھا، پھر وہابی ہوا مگر اطمینان نصیب نہ ہوا۔ دل میں خواہش رہتی تھی کہ خدا تعالیٰ حضرت امام مہدی کو مبعوث فرمائے تو اُس کی فوج میں شامل ہو جاؤں۔ ایک دفعہ خواب میں مجھے حضرت اقدس کی شبیہ مبارک دکھلائی گئی۔ مَیں قادیان گیا تو ہُو بہو وہی نقشہ دیکھا اور بیعت کر لی۔‘‘

(ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہؓ (غیر مطبوعہ) جلدنمبر10 صفحہ103روایت حضرت میاں غلام محمد صاحبؓ بافندہ)

حضرت حکیم عبدالرحمٰن صاحبؓ بیان کرتے ہیں، (اپنے والد صاحب کے بارے میں بیان کیا) کہ اُن کے بیعت کرنے کا واقعہ اس طرح ہے کہ وہ بیان فرمایا کرتے تھے کہ یہاں ایک مولوی علاؤ الدین صاحب رہا کرتے تھے۔ اُن کی یہاں قریب ہی ایک مسجد بھی ہے۔ میرے والد صاحب اُن کے پاس پڑھا کرتے تھے۔ ایک دن عشاء کے وقت وضو کرتے کرتے میرے والد صاحب نے مولوی صاحب سے پوچھا کہ مولوی صاحب، آجکل آسمان سے تارے بہت ٹوٹتے ہیں اس کی کیا وجہ ہے؟ مولوی صاحب نے کہا کہ امام مہدی آنے والا ہے۔ آسمان پر اُس کی آمد کی خوشیاں منائی جا رہی ہیں۔ والد صاحب فرمایا کرتے تھے کہ چند دن کے بعد میں نے حضرت اقدس کا ذکر سنا اور قادیان جا کر بیعت کر لی۔ واپس آ کر مولوی صاحب کو بھی کہا کہ میں نے تو بیعت کر لی ہے۔ آپ کا کیا خیال ہے؟ مگر وہ خاموش ہو گئے۔ تھوڑی دیر کے بعد آہستہ سے بولے کہ میاں بات تو سچی ہے مگر ہم دنیادار جو ہوئے۔ (یعنی مولوی بھی ہیں، دنیا دار بھی)۔

(ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہؓ (غیر مطبوعہ) جلدنمبر10 صفحہ121-122روایت حضرت حکیم عبدالرحمٰن صاحبؓ)

(خطبہ جمعہ 12؍اکتوبر 2012ء بحوالہ الاسلام ویب سائٹ)

پچھلا پڑھیں

خلاصہ خطبہ جمعہ بیان فرمودہ 31؍دسمبر 2021ء

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 3 جنوری 2022