• 19 مئی, 2024

کاش میں مٹّی ہوتا

یٰلَیۡتَنِیۡ کُنۡتُ تُرٰبًا
کاش میں مٹّی ہوتا

غالب نے کبھی کیا خوب کہا تھا۔

ڈبویا مجھ کو ہونے نے نہ ہوتا میں تو کیا ہوتا

انسانی آگہی کی بنیاد علم پہ ہے اور علم کی پیاس ازل سے ہی انسان کی فطرت کا جزو لا ینفک ہے۔ چنانچہ جیسے جیسے علم بڑھتا ہے، انسانی آگہی میں بھی اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے۔ یہی آگہی پھر انسان کو چیزوں اور حقائق کی تہہ اور کنہ تک پہنچاتی ہے۔ پھر انسان ایک طرف تو مادے کی اصلیت معلوم کرنے کے پیچھے لگ جاتا ہے تو دوسری طرف اپنے من میں ڈوب کے حیات کے رموز و اسرار معلوم کرنے کی کوششیں کرتا ہے۔ اس موقع پہ خالق دو جہان بھی اس کی راہنمائی اپنی وحی مصفّٰی سے فرماتے ہوئے نہ صرف اس کی علمی پیاس بجھانے کا بندوبست فرماتا ہے بلکہ اس پہ ظاہری و باطنی اسرار ایسے کھولے جاتے ہیں کہ نہ صرف اپنی ذات کی حقیقتیں اس پہ منکشف ہوتی ہیں بلکہ کائنات کے دقیق در دقیق راز بھی اس پہ کھولے جاتے ہیں۔ زمین پہ ہوش سنبھالتے ہی انسان نے نہ صرف اپنی اصلیت کا کھوج لگانے کی کوششوں کا آغاز کر دیا بلکہ اپنے گرد موجود مادّے کی حقیقت جاننے کی تگ و دو بھی شروع کردی۔ ابتدا میں انسان کی حالت اس شیر خوار بچے کی سی تھی جو اپنے ارد گرد کے ماحول سے اس حد تک لاتعلق تھا کہ اپنے پیدا کرنے والے خالق کا کامل عرفان اسے اسی طرح نہیں حاصل تھا جیسا کہ ایک نومولود بچہ اپنی ماں کے وجود اور اس کی اہمیت سے نا واقف ہوتا ہو۔ پھر جیسے ماں اس کی ربوبیت کرتے ہوئے اس کی پرورش کرتی ہے اور اسے آہستہ آہستہ اپنی ماں کے ہونے اور اس کے ہونے کی اہمیت کا ادراک کرتا چلا جاتا ہے۔خالق دو جہاں نے انسان کی روحانی تربیت اس طرح فرمائی کہ اس میں ایک قادر و توانا خالق کی موجودگی کا عرفان بڑھنے لگا اور یہ عرفان کائنات کے ایک خالق کے موجود ہونے سے بڑھ کے فی الحقیقت اس کی ذات کا عرفان حاصل کر کے اس سے ایک زندہ و جاوید تعلق بننے پہ منتج ہوا۔

اس علم و عرفان کی ترقی نے انسان کو اس قابل بھی بنایا کہ وہ اس کائنات کے رموز و اسرار سمجھنے کے ساتھ ساتھ اسے اپنی ذات کی اصلیّت اور حقیقت کا ادراک بھی ہونے لگا۔

غالب ہی نے ایک دفعہ کہا تھا۔

؎جان دی، دی ہوئی اسی کی تھی
حق تو یوں ہے کہ حق ادا نہ ہوا

لیکن مزے کی بات یہ ہے کہ جب غالب جیسا ایک دنیا دار شخص بھی اپنی بے مائیگی کو پہچان لیتا ہے اور اس جیسے کئی دیگر مفکرین اور فلسفہ دان بھی اس حقیقت کو جان لیتے ہیں تو ذرا سوچیئے کہ جنہیں اس ذات کا حقیقی عرفان حاصل ہوتا ہے اور وہ پھر شعوری طور پہ اس ذات کے عرفان کی روشنی میں اپنی ذات کا موازنہ کرتے ہیں تو پھر ان لوگوں کا اپنی ذات کے بارے میں اس سے کم کیا خیال ہو گا کہ جنہیں ذات باری تعالیٰ نے اپنی ذات کا حقیقی عرفان عطا فرمایا کہ:

یٰلَیْتَنِیْ کُنْتُ تُرَاباً

یہ کوئی ذوقی بات نہیں بلکہ احادیث میں ایک واقعہ بعینہِ اسی نوعیت کا ملتا ہے۔ چنانچہ بخاری جلد1 صفحہ495 اور مسلم جلد2 صفحہ356 میں ایک واقعہ درج ہے

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: ایک شخص نے گناہوں کی زیادتی کی وجہ سے اپنے نفس پہ بڑی زیادتی کی تھی۔ جب اس کی موت کا وقت قریب آیا تو اس نے اپنے بیٹوں سے کہا۔

اِذَا اَنَا مُتُّ فَاحْرقُوْنِی،ثُمَّ اَطْحَنُوْنِی، ثُمَّ ذُرُوْنِیْ فِی الرَّیْحَ فَوَا اللّٰہِ لَئِنْ قدرا اللّٰہ عَلَیَّ لیعذبنّی عذابًا ما عذّبہ احدًا

یعنی جب میں مر جاؤں، تو تم مجھے جلا کر، میری راکھ کو پیس کر ہوا میں اڑا دینا۔ واللّٰہ اگر اللہ نے مجھ پہ تنگی کی تو مجھے ایسی سزا دے گا جو اور کسی کو اس نے نہیں دی ہو گی۔

حدیثِ مبارکہ میں ہے کہ اس کے مرنے پہ اس کے ساتھ ایسا ہی کیا گیا۔ اللہ تعالیٰ نے زمین کو حکم دیا کہ اس کے تمام ذرّات کو جمع کر دے، سو اس نے ایسا ہی کیا۔ اللہ تعالیٰ نے اس سے پوچھا کہ اس نے ایسا کیوں کیا؟ اس آدمی نے جواب دیا کہ: اے میرے رب! تیرے ڈر کی وجہ سے۔ پس اللہ تعالیٰ نے اسے بخش دیا۔

اس واقعہ میں بھی اس شخص کی مثال کی مدد سے ایسے ہی لوگوں کا ذکر کیا گیا ہے جو نہ صرف کائنات پہ غور و فکر کر کےاپنی پیدائش کا مقصد پاگئے ہیں بلکہ انہیں اس بات کا بھی اندازہ ہے کہ اپنے آقا کے سامنے جو کچھ بھی پیش کیا جائے اس میں اپنی کمیوں اور کوتاہیوں کی وجہ سے کچھ نہ کچھ خام اور نقص رہ جاتا ہے۔

اللہ تعالیٰ نے اس دنیا میں جس ایک ہستی کو اپنی ذات کا کامل علم اور عرفان عطا فرمایا تھا، وہ ہمارے پیارے نبی حضرت محمد مصطفٰی احمد مجتبٰی صلی اللہ علیہ و آلہِ وسلّم ہیں اور آپؐ کی ذریعہ آپ کے فیض اور صحبت اور تربیّت کے نتیجہ میں یہ نور حضرت ابو بکر صدّیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ تک پہنچا۔ چنانچہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنی معرکۃ الآراء تفسیر صغیر کے اسی آیت یعنی یٰلَیْتَنِیْ کُنْتُ تُرَابًا کی پر معارف تفسیری نوٹ میں حضرت ابو بکر صدّیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے حوالے سے آپ فرماتے ہیں کہ بعض مسلمان فرقے صحابہ رضی اللہ علیہم اجمعین کے بغض میں اس قدر بڑھ گئے ہیں کہ وہ کہتے ہیں کہ حضرت ابو بکر صدّیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ موت کے وقت یہی فقرہ کہتے تھے پس ان کا کفر ثابت ہے۔ حالانکہ اگر یہ روایت ثابت ہو تو ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ایمان کے لحاظ سےاس کے یہ معنی ہوں گے کہ کفّار کی باتوں کا منکر یعنی ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ یہ کہیں گے کہ کاش! میرے ساتھ خدا تعالیٰ کا معاملہ ایسا ہی ہوتا نہ وہ میرے نیک اعمال کا بدلہ دیتا اور نہ میری غلطیوں کی سزا دیتا۔ یہ فقرہ ایک کامل مومن کا فقرہ ہے۔ حدیثوں میں تو خود رسول کریم ﷺ کے متعلق بھی آتا ہےکہ آپؐ یہ فرمایا کرتے تھے کہ میں اپنے اعمال کی وجہ سے نہیں بخشا جاؤں گا بلکہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے بخشا جاؤں گا۔ کافر کا لفظ یہاں طنزا استعمال ہوا ہے۔

(عامر ندیم۔ گیمبیا)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 2 جنوری 2023

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالی