• 20 اپریل, 2024

قربانی کا مطلب خود کو تکلیف میں ڈالنا

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
’’ایک بات جس کی طرف حضرت مسیح موعود(آپ پر سلامتی ہو) نے توجہ دلائی اور جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے بھی حکم فرمایا ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بھی ارشادات ہیں وہ مالی قربانی ہے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے دنیا بھر کی جماعتیں مالی قربانیوں میں بڑھ رہی ہیں۔ ہنگامی اور وقتی مالی قربانی میں…بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے بھرپور حصہ لینے کی کوشش کرتی ہیں لیکن جوچندہ آمد وغیرہ کا باقاعدہ مالی نظام ہے،اس میں … جو اعداد و شمار سامنے آتے ہیں یا آ رہے ہیں اس کو دیکھنے سے پتہ لگتا ہے کہ بہت کمی ہے۔ اس طرف توجہ کی ضرورت ہے۔ ایک غریب شخص تو اپنی مجبوری بتا کر چندے کی ادائیگی کم کرنے یا شرح کم کرنے کے لئے کہہ سکتا ہے، اجازت لے سکتا ہے لیکن جو اچھی آمد کے لوگ ہیں ان کو اپنے جائزے لینے چاہئیں کہ وہ اپنی آمد کے مطابق چندہ دے رہے ہیں یا نہیں۔ صرف یہ نہیں کہ جس طرح ٹیکس دینے کے لئے بہت ساری کٹوتیاں کر لیتے ہیں چندے کے لئے بھی کر لیں۔ اپنی آمد کو دیکھیں۔ کیونکہ یہ چندے کا معاملہ خدا تعالیٰ کے ساتھ معاملہ ہے۔ سیکرٹری مال کو یا نظام کو تو پتہ نہیں ہے کہ کسی کی آمد کیا ہے جو چندہ دے رہا ہے۔ لیکن خدا تعالیٰ کو تو پتہ ہے۔وہ تو دلوں کا حال جانتا ہے۔ اگر صحیح شرح سے چندہ دینا شروع کریں تو میں سمجھتا ہوں کہ (بیوت الذکر) کی تعمیر اور دوسرے جماعتی کاموں کے لئے پھر بہت کم علیحدہ تحریک کرنی پڑے گی۔ پس اس لحاظ سے اپنے جائزے لیں اور اپنے چندہ عام کے بجٹ کا دوبارہ جائزہ لے کر لکھوائیں، جنہوں نے کم لکھوائے ہوئے ہیں۔میں مختلف ملکوں کے نومبائعین کے واقعات بھی بیان کرتا رہتا ہوں کہ کس طرح وہ احمدیت قبول کرنے کے بعد اپنے اندر تبدیلیاں پیدا کر رہے ہیں، روحانی تبدیلیاں بھی پیدا کر رہے ہیں عملی طور پر عبادتوں کی طرف بھی توجہ کر رہے ہیں اور مالی قربانیوں کی بھی اہمیت کو سمجھ رہے ہیں۔ اور پھر اللہ تعالیٰ بھی باوجود ان کی غربت کے ان کو مالی کشائش عطا فرما رہا ہے اور اس وجہ سے وہ اپنے ایمان اور اخلاص میں بڑھ رہے ہیں۔ قربانی کا لفظ ہی واضح طور پر یہ معنی دیتا ہے کہ اپنے آپ کو تکلیف میں ڈال کر کوئی کام کرنا اور یہاں تکلیف میں ڈال کر اللہ تعالیٰ کے دین کی ضروریات کے لئے دینا۔ پس جو صرف اپنی سہولت سے تھوڑا بہت دے کر سمجھتے ہیں کہ ہم نے قربانی کی وہ قربانی نہیں ہے نہ ہی ایسے لوگوں کا کوئی اللہ تعالیٰ پر احسان ہے۔ اگر وہ نہ بھی دیں گے تو بھی اللہ تعالیٰ دین کی ضروریات پورا کرنے کے سامان کردے گا اور کرتا رہتا ہے اور کر رہا ہے اور کرتا رہے گا ان شاء اللہ۔ پس میں ان لوگوں کو جوکشائش ہونے کے باوجود اپنی آمدنی کے مطابق چندہ نہیں دیتے توجہ دلانی چاہتا ہوں تا کہ وہ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے وارث بنیں۔‘‘

(خطبہ جمعہ مورخہ 2نومبر 2018ء)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 1 فروری 2020

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ