• 16 مئی, 2024

شکر یہی ہے کہ سچے دل سے ان اعمال صالحہ کو بجا لاؤ

’’یہ اللہ تعالیٰ کا کمال فضل ہے کہ اُس نے کامِل اور مکمّل عقائد ِصحیحہ کی راہ ہم کو اپنے نبی کریم صلّی اللہ علیہ وسلّم کے ذریعے بدُوں مشقّت و محنت کے دکھائی ہے۔ وُہ راہ جو آپ لوگوں کو اِس زمانے میں دکھائی گئی ہے۔ بہت سے عالم ابھی تک اُس سے محروم ہیں۔ پس خدا تعالیٰ کے اِس فضل اور نعمت کا شکر کرو اور وُہ شُکر یہی ہے کہ سچّے دل سے اُن اعمال ِصالحہ کو بجا لاؤ جو عقائدِ صحیحہ کے بعد دُوسرے حِصّہ میں آتے ہیں اور اپنی عملی حالت سے مدد لے کر دُعا مانگوکہ وہ ان عقائدِ صحیحہ پر ثابت قدم رکھے اور اعمالِ صالحہ کی توفیق بخشے۔‘‘

(ملفوظات جلد اول صفحہ 94 تا 95 ایڈیشن 1988ء)

میری آنکھ نے تجھ ساکوئی محسن نہیں دیکھا

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے عربی حمدیہ قصیدہ کے چند اشعار کا اردو ترجمہ حسب ذیل ہے :
’’اے وہ ذات جس نے اپنی نعمتوں سے اپنی مخلوق کا احاطہ کیا ہواہے ہم تیری تعریف کرتے ہیں اور تعریف کی طاقت نہیں ہے۔ مجھ پر رحمت اور شفقت کی نظر کر، اے میری پناہ! اے حزن و کرب کو دور فرمانے والے!میں تو مر جاؤں گا لیکن میری محبت نہیں مرے گی۔ (قبر کی) مٹی میں بھی تیرے ذکر کے ساتھ ہی میری آواز جانی جائےگی۔میری آنکھ نے تجھ سا کوئی محسن نہیں دیکھا۔ اے احسانات میں وسعت پیدا کرنے والے اور اے نعمتوں والے! جب میں نے تیرے لطف کا کمال اور بخششیں دیکھیں تو مصیبت دور ہو گئی اور (اب) میں اپنی مصیبت کو محسوس ہی نہیں کرتا۔‘‘

(منن الرحمٰن، روحانی خزائن جلد نمبر 9 صفحہ 169)

’’حمد اس تعریف کو کہتے ہیں جو کسی صاحب اقتدار شریف ہستی کے اچھے کاموں پر اس کی تعظیم وتکریم کے ارادہ سے زبان سے کی جائے۔ اور کامل ترین حمد ربّ جلیل سے مخصوص ہے۔ اور ہر قسم کی حمد کا مرجع خواہ وہ تھوڑی ہو یا زیادہ ہمارا وہ ربّ ہے جو گمراہوں کو ہدایت دینے والااور ذلیل لوگوں کو عزت بخشنے والاہے۔ اور وہ محمودوں کا محمود ہے۔ اکثر علما ء کے نزدیک لفظ شکر، حمد سے اس پہلومیں فرق رکھتا ہے کہ وہ ایسی صفات سے مختص ہے کہ جو دوسروں کو فائدہ پہنچانے والی ہوں اور لفظ مدح لفظ حمد سے اس بات میں مختلف ہے کہ مدح کا اطلاق غیر اختیاری خوبیوں پر بھی ہوتا ہے۔ اور یہ امر فصیح و بلیغ علماء اور ماہر ادباء سے مخفی نہیں۔

اور اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب کو حمد سے شروع کیا ہے نہ کہ شکر اور مدح سے۔ کیونکہ لفظ حمد ان دونوں الفاظ کے مفہوم پر پوری طرح حاوی ہے۔ اور وہ ان کا قائمقام ہوتا ہے مگر اس میں اصلاح، آرائش اور زیبائش کا مفہوم ان سے زائد ہے۔ چونکہ کفار بلاوجہ اپنے بتوں کی حمد کیا کرتے تھے اور وہ ان کی مدح کے لئے حمد کا لفظ اختیار کرتے تھے اور یہ عقیدہ رکھتے تھے کہ وہ معبود تمام عطایا اور انعامات کے سر چشمہ ہیں اور سخیوں میں سے ہیں۔ اسی طرح ان کے مُردوں کی ماتم کرنے والیوں کی طرف سے مفاخر شماری کے وقت بلکہ میدانوں میں بھی اور ضیافتوں کے مواقع پر بھی اسی طرح حمد کی جاتی تھی جس طرح اس رزاق متولی اور ضامن اللہ تعالیٰ کی حمد کی جانی چاہئے۔‘‘

(کرامات الصادقین، روحانی خزائن جلد7 صفحہ107،108 بحولہ اردو ترجمہ از الاسلام ویب سائٹ خطبہ جمعہ یکم اگست 2003ء)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 2 فروری 2021

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 3 فروری 2021