• 29 اپریل, 2024

تبلیغ میں پریس اور میڈیا سے کس طرح کام لیا جاسکتا ہے (قسط 21)

تبلیغ میں پریس اور میڈیا سے کس طرح کام لیا جاسکتا ہے
ذاتی تجربات کی روشنی میں (قسط 21)

‘پاکستان ایکسپریس’ نومبر 2005ء صفحہ 10 پر خاکسار کا اردو میں ایک مضمون شائع ہوا ہے۔ جس کا عنوان ہے

’’قرآن کریم کے محاسن و فضائل‘‘

خاکسار نے اس میں لکھا کہ ‘‘قرآن’’ کا لفظ قرآن کریم میں قریباً 68 بار استعمال ہوا ہے۔ مضمون میں حضرت اقدس مسیح موعودؑ کا یہ ارشاد بھی درج ہے:
’’اس مبارک لفظ میں ایک زبردست پیشگوئی ہے وہ یہ ہے کہ یہی قرآن پڑھنے کے لائق کتاب ہے اور ایک زمانہ میں تو اور بھی زیادہ پڑھنے کے لائق کتاب ہو گی جبکہ اور کتابیں بھی پڑھنے میں اس کے ساتھ شریک کی جائیں گی۔‘‘

اس مضمون مین تعلیم القرآن کی اہمیت بیان کی گئی ہے اور 6-7 احادیث نبویہ بھی لکھی گئی ہیں جن میں قرآن کریم کی اہمیت ، برکت اور فضائل بیان ہوئے ہیں مثلاً ایک یہ حدیث کہ قرآن پڑھا کرو قیامت کے دن یہ تمہاری شفاعت کرے گا۔ مضمون کے آخر میں لکھا ہے کہ اس کی بہت سی اقساط اور بھی لکھی جائیں گی۔ معلومات کے لئے مسجد کا فون نمبر بھی دیا گیا ہے۔

’پاکستان ٹائمز‘ یکم دسمبر 2005ء کی اشاعت میں خاکسار کا مضمون بعنوان ’’قران کریم کے محاسن و فضائل اور برکات‘‘ شائع کرتا ہے۔ اس مضمون میں خاکسار نے جو اخبار کے قریباً نصف صفحہ پر پھیلا ہوا ہے۔ درج ذیل امور بیان کئے ہیں کہ:
اصل بات یہ ہے کہ ہم نے قرآن کریم کی قدر نہیں کی۔ ہم نے قرآن پڑھا ضرور لیکن سوچ کر اور سمجھ کر نہیں پڑھا جس کا لازمی نتیجہ یہ ہوا کہ ہم عمل صالح سے بہت دور جا پڑے۔ پھر آنحضرت ﷺ کی حدیث درج کی ہے کہ میری امت پر ایک وقت ایسا آئے گا کہ اسلام بھی نام کا رہ جائے گااور قرآن بھی صرف کتابی صورت میں رہ جائے گا اور حالی کا یہ شعر لکھا ہے کہ

رہا دین باقی نہ اسلام باقی
فقط رہ گیا اسلام کا نام باقی

اور قرآن کریم کی یہ آیت لکھی کہ رسول کہے گا اے میرے رب یقیناً میری قوم نے اس قرآن کو متروک چھوڑا ہے۔ خاکسار نے کچھ حقائق بیان کرنے کے بعد لکھا ہے کہ تجزیہ خود کریں کہ کتنے فی صد مسلمان نمازیں پڑھتے ہیں، جو پڑھنے والے ہیں کیا انہیں نماز کا ترجمہ آتا ہے۔

کتنے فی صد لوگ زکوٰۃ دیتے ہیں؟ کتنے لوگ وعدہ کے پابند ہیں؟ آج سب سے زیادہ غیرمعتبر بات مسلمان کی ہے؟ کیونکہ قرآن کریم سے عمل اٹھ گیا ہے۔

پھر ’’اللہ میاں کا خط‘] کا عنوان دے کر لکھا ہے کہ یہ احکم الحاکمین کی طرف سے خط آیا ہے لیکن اس کے پڑھانے اور پڑھنے کی طرف توجہ کم کی جاتی ہے۔ ہاں لوگ تعویذ، گنڈوں میں ضرور اس کا استعمال کرتے ہیں۔ یہ سب قرآن کریم کے بارے میں آنحضرت ﷺ کی پیشگوئی کے مطابق ہے کہ آخری زمانے میں لوگ قرآن تو پڑھیں گے مگر وہ ان کے حلق سے نیچے نہ اترے گا۔ یعنی قرآن پڑھنے کا ان پر کچھ اثر نہ ہو گا۔

’اردو لنک‘ نے اپنے 2 دسمبر 2005ء صفحہ 6 پر ’’دین کی باتوں‘‘ کے تحت خاکسار کا مضمون بعنوان ’’قرآن کریم کے محاسن و فضائل و برکات‘‘ کی دوسری قسط شائع کی ہے۔ مضمون میں قرآن و احادیث سے محاسن اور برکات و فضائل لکھی گئی ہیں۔ ایڈیٹر نے ایک پیراگراف کو خصوصیت کےساتھ نمایاں کر کے لکھا ہے اور وہ حصہ یہ ہے:
’’لاکھوں ایسے لوگ ہوں گے کہ اگر کبھی قرآن پڑھ بھی لیا تو اس کے معانی سے قطعی ناواقفیت ہو گی۔ قران ضرور پڑھ لیتے ہوں گے مگر پڑھنے میں انہیں کوئی لطف اور مزا نہیں آتا۔ جس کا لازمی نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ انہیں قرآن سے محبت بھی پیدا نہیں ہوسکتی۔

آجکل تو قرآن کریم کی آیات سے لوگ وظیفے کر رہے ہیں، کوئی تعویذ گنڈوں میں استعمال کر رہا ہے اور لوگوں نے اسے اپنے مادی وسائل اور مسائل اور روزی کا ذریعہ بنایا ہوا ہے۔ جو کہ قرآن کریم کی ہتک ہے۔

’چینو چیمپئن‘ نے اپنی اشاعت 3 دسمبر 2005 صفحہ C6 پر ایک مختصراً خبر دی ہے جس کا عنوان ہے ’’مختلف المذاہب گروپس کا مسجد کا وزٹ‘‘

خبر میں لکھا ہے کہ بہت سے سکولوں کے طلباء اور مذہبی لوگوں نے مسجد بیت الحمید کا گزشتہ ماہ نومبر میں وزٹ کیا جس کا مقصد اسلام کی تعلیمات سے آگاہی تھا۔

مسجد بیت الحمید کے امام شمشاد ناصر جو احمدیہ مسلمہ جماعت سے تعلق رکھتے ہیں نے طلباء اور مذہبی گروپس کو اسلام کے بارے میں بتایا۔

’چینو ہل چیمپئن‘ نے 3 دسمبر کی اشاعت صفحہ C5 پر ہماری خبر دی ہے۔ خبر کا عنوان یہ لگایا ہے کہ ’’مختلف المذاہب گروپس کا مسجد میں وزٹ‘‘ یہ خبر پہلے بھی آچکی ہے۔ لیکن اخبار کا نام تھا چینو چیمپئن۔ یہ چینو ہل چیمپئن اخبار ہے۔

’الاخبار‘ عربی اخبار نے بھی اپنے انگریزی سیکشن میں مندرجہ بالا خبر دو تصاویر کے ساتھ اپنی 7 دسمبر 2005ء کی اشاعت صفحہ 30پر شائع کی ہے۔ خبر کے آخر میں اخبار لکھتا ہے کہ امام شمشاد اور جماعت احمدیہ کے تمام لوگ سب کو کھل دعوت دیتے ہیں کہ وہ جب چاہیں ہمیں آکر مل سکتے ہیں۔ اور اپنے اپنے سوالات کے جواب لے سکتے ہیں۔ کال کرنے کے لئے مسجد کا فون نمبر بھی درج ہے۔

’مسلم وائس‘ یہ اخبار مسلم کمیونٹی کا ہے جو کہ ایروزونا فی نکس سے نکلتا ہے اور امریکہ کی مختلف ریاستوں میں پڑھا جاتا ہے۔ اس نے اپنی 7 دسمبر 2005ء کی اشاعت میں ہماری خبر شائع کی۔ خبر کا عنوان ہے: ’’طلباء اور مذہبی گروپس نے احمدیہ مسلم مسجد کے وزٹ پر خوشی محسوس کی۔‘‘

اخبار لکھتا ہے کہ
چینو۔ چینوہل اور مسجد بیت الحمید احمدیہ مسلم مسجد کے اردگرد کے علاقوں اور شہروں سے سکول کالج کے طلباء ان کے والدین اور مذہبی گروپس نے مسجد بیت الحمیدکا وزٹ کیا تاکہ وہ اسلام کے بارہ میں زیادہ معلومات حاصل کر سکیں۔ سینکڑوں طلباء نے اس سال اسلام کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کے لئے خواہش کا اظہار کیا۔ طلباء اپنے والدین کےساتھ مسجد بیت الحمید آئے۔ بعض لوگ دوبارہ بھی مسجد میں آئے کیونکہ انہوں نے مسجد بیت الحمید کے لوگوں کو محبت کرنے والا پایا کیونکہ ان کا ماٹو ہی یہ ہے ’’محبت سب کے لئے اور نفرت کسی سے نہیں‘‘۔ اور یہ سب کے لئے بلا امتیاز مذہب، رنگ و نسل ہے۔

اخبار لکھتا ہے کہ : لوگ جب مسجد بیت الحمید آتے ہیں تو یہ لوگ آنے والے مہمانوں کی پہلے ضیافت کرتے ہیں کیونکہ یہ عین اسلام کی تعلیمات کے مطابق ہے۔ کیونکہ بعض لوگوں کے لئے جو پہلی دفعہ مسجد آرہے ہوتے ہیں مسجد کا وزٹ پریشان کن ہوتا ہے۔ اس طرح ان کی پریشانی دور ہو جاتی ہے اور ان کے لئے دوستانہ ماحول پیدا ہو جاتا ہے۔ جو طلباء اور والدین مسجد میں آئے انہیں پہلے مسجد دکھائی گئی۔ مسجد کا اندرونی حصہ بہت صاف اور سادہ ہے۔

صرف دیوار پر پانچ نمازوں کے بتانے کے لئے گھڑیاں نصب تھیں۔ امام شمشاد ناصر جو مسجد بیت الحمید میں جماعت احمدیہ کے مشنری ہیں طلباء سے ملے اور طلباء اور والدین کو اسلام کی تاریخ، عقائد اور تعلیمات کے بارے میں آگاہ کیا۔ اس کے بعد سوال و جواب ہوئے۔

بچوں نے مختلف قسم کے سوالات کئے مثلاً مسجد میں مرد اور عورتیں الگ الگ کیوں نماز پڑھتے ہیں؟ عورتیں اپنے سروں کو کیوں ڈھانپتی ہیں؟ مسلمان سور کا گوشت کیوں نہیں کھاتے؟ کعبہ کی طرف نماز میں منہ کیوں کرتے ہیں؟ پانچ وقت نماز کیوں پڑھتے ہیں؟ کالج کے طلباء نے خاص طور پر یہ سوال بھی پوچھا کہ مسلمان جو مڈل ایسٹ میں ہیں وہ کیوں امن سے نہیں رہ سکتے؟ دہشت گردی کا ان کے ساتھ کیسا جوڑ ہے؟ فلسطین اور اسرائیل کا کیا معاملہ ہے؟ امام شمشاد نے سب کے سوالوں کا جواب دیا۔

اخبار لکھتا ہے تمام طلباء اپنے سوالوں کے صحیح جواب لے کر لوٹے جس سے ان کی تسلی ہوئی۔ اخبار نے لکھا:

All the students left with much clearer understanding of the issues discussed and cheered the Imam for his “Great Answers” as remarked by many students and even their parents.

اس کے علاوہ طلباء کو بہت سا اسلامی لٹریچر بھی دیا گیا تا وہ اپنے اپنے پراجیکٹ کو احسن طور پر کرسکیں۔ والدین نے امام کا شکریہ ادا کیا کہ انہوں نے اپنی مسجد کے دروازے ان کے لئے کھولے جس سے انہیں اسلام کو سمجھنے میں آسانی پیدا ہوئی۔

اخبار نے مزید لکھا کہ امام شمشاد کو اس سے پہلے بھی بہت سے لوگوں نے جنہوں نے مسجد کا وزٹ کیا تھا احسن رنگ میں شکریہ کہا۔

اسی طرح ایک اور کالج جس کو کلیر مانٹ کالج کہا جاتا ہے۔ میں بھی امام شمشاد نے لیکچر دیا جہاں انہیں خاص طور پر کہا گیا تھا کہ وہ احمدیہ فرقہ کے بارے میں اور ان کا دوسرے مسلمان فرقوں سے اختلاف کے بارے میں ہی لیکچر دیں۔ اس پر امام نے کالج کے طلباء کے سامنے قرآن اور حدیث سے وہ دلائل پیش کئے جن میں آخری زمانے میں آنے والے موعود کے بارے میں پیشگوئیاں تھیں۔ اسی طرح انہوں نے بتایا کہ ان سب پیشگوئیوں کے مصداق بانیٔ جماعت احمدیہ تھے اور مسیح و مہدی کے بارے میں جو روایات ہیں وہ ایک شخص کے ہی دو منصب ہیں نہ کہ دو الگ الگ شخصیات اور وہ حضرت مرزا غلام احمد قادیانیؑ ہیں۔ امام شمشاد نے تفصیل کے ساتھ معلومات دیں اور اختلافات کے بارے میں بتایا۔ امام شمشاد نے ہر سوال کے جواب پر سوال کرنے والے سے پوچھا کہ آیا میرا جواب آپ کو سمجھ آگیا ہے یا نہیں؟

اس اخبار کے آخری حصہ میں جو خبر دی گئی ہے وہ یہ ہے کہ پومونا کی ایک کونسل جو سب لوگوں کو متحد رکھنے کی کوشش کرتی ہے، کے ممبران نے 13 نومبر کو مسجد بیت الحمید کا وزٹ کیا۔ اس موقعہ پر بھی امام شمشاد نے حاضرین کو ’’اسلامی عبادت‘‘ کا مفہوم اور طریق سکھایا۔

اخبار لکھتا ہے کہ امام شمشاد اور جماعت احمدیہ کے ممبران ہر ایک کو مسجد میں آنے کی کھلی دعوت دیتے ہیں تاکہ وہ اپنے شکوک وشبہات کا ازالہ کر سکیں۔ اس خبر میں دو تصاویر بھی دی گئی ہیں۔ ایک تصویر میں کالج اور سکول کے طلباء اپنے والدین کے ساتھ اسلام کےبارہ میں معلومات سن رہے ہیں جبکہ دوسری تصویر میں پومونا کونسل کے ممبران امام شمشاد ناصر کے ساتھ ہیں۔

الانتشار العربی اخبار اپنی اشاعت8 دسمبر 2005ء میں صفحہ 22 پر حضرت امیر المومنین خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا خطبہ جمعہ کا خلاصہ قریباً ایک پورے صفحہ پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی تصویر کے ساتھ عربی زبان میں شائع کرتا ہے۔ اخبار نے لکھا:
یہ خطبہ جمعہ حضور نے مسجد بیت الفتوح لندن میں ارشاد فرمایا تھا جسے ایم ٹی اے کے ذریعہ تمام ممالک میں دیکھا اور سنا گیا۔ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے سورۃ اعراف کی آیت 158 تلاوت فرمائی تھی۔ اَلَّذِیۡنَ یَتَّبِعُوۡنَ الرَّسُوۡلَ النَّبِیَّ الۡاُمِّیَّ الَّذِیۡ یَجِدُوۡنَہٗ مَکۡتُوۡبًا عِنۡدَہُمۡ فِی التَّوۡرٰٮۃِ وَالۡاِنۡجِیۡلِ………الخ

حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے ان آیات سے استدلال فرمایا تھا کہ اسلام نے بدعات و رسومات سے منع فرمایا ہےا ور آنحضرت ﷺ کی بعثت کا مقصد بیان فرمایا کہ ان تمام رسومات جو گلے کا طوق بن چکی تھیں، سے آپؐ نے ہمیں آزاد کروایا ہے۔

اخبار نے حضور ایدہ اللہ تعالیٰ کے خطبہ جمعہ کے وہ حصے نقل کئے جس میں حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا تھا کہ شادی بیاہ کے مواقع پر خصوصیت کے ساتھ ہمارے معاشرہ میں غلط رسومات، غیراسلامی باتیں رواج پاگئی ہیں۔ ان رسومات میں گانے بجانے اور رقص ڈانس وغیرہ ہوتا ہے جس کا اسلام سے دور کا بھی تعلق نہیں ہے۔

اس خطبہ جمعہ میں حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اکناف عالم میں پھیلے ہوئے تمام احمدیوں کو نصیحت فرمائی کہ وہ اسلام کی صحیح تعلیمات پر عمل کریں اور بدعات سے بکلی اجتناب کریں اور حکم و عدل کی باتوں پر چلیں۔

آپ نے یہ بھی فرمایا کہ عورت کے حق مہر کی ادائیگی بھی کرنی چاہئے جو کہ اسکا حق ہے اور یہ سب کچھ قرآن کریم کی روشنی میں بطیب خاطر ادا ہونا چاہئے۔

شادی بیاہ کے موقع پر لوگ اسراف سے بھی کام لیتے ہیں جو کہ درست نہیں ہے۔ ان سب باتوں میں میانہ روی کو اختیار کرنا چاہئے جو کہ عین اسلامی تعلیم ہے۔

انڈیا پوسٹ نے اپنی 9؍دسمبر 2005ء کی اشاعت کے صفحہ 22 پر قریباً پورے صفحہ پر خبر 2 تصاویر کے ساتھ شائع کی ہے جس کا عنوان یہ ہے: ’’طلباء اور دیگر مختلف مذہبی گروپس نے احمدیہ مسلم مسجد کا وزٹ کیا‘‘

انڈیا پوسٹ نے اپنے سورسز کے حوالہ سے خبر دی ہے کہ چینو میں مسجد بیت الحمید جو جماعت احمدیہ کی مسجد ہے، کو وزٹ کرنے کے لئے بہت سارے مذہبی اور دیگر گروپس آئے تا اسلام کے بارے میں زیادہ معلومات حاصل کر سکیں۔ بہت سے طلباء نے اپنے پراجیکٹ مکمل کرنے کے لئے جو ’’اسلام‘‘ کے بارے میں یا ’’مسجد بیت الحمید‘‘ کے بارے میں تھے، معلومات حاصل کرنے کے لئے مسجد آئے۔ طلباء کے ساتھ ان کے والدین بھی تھے۔

ان طلباء نے دوسروں سے سنا تھا کہ مسجد بیت الحمید کے مسلمان محبت اور پیار اور احترام سے پیش آنے والے مسلمان ہیں۔ اور ان کا ماٹو بھی یہ ہے کہ محبت سب کے لئے نفرت کسی سے نہیں۔ اور ان کا یہ عمل ہر ایک کے لئے بلا امتیازِ مذہب ہے۔

مسجد میں ایسے گروپس کے آنے پر سب سے پہلے ان کی ضیافت کی جاتی ہے تاکہ لوگوں کے ساتھ باہمی میل ملاپ سے ان کی اگر کوئی فکر اور پریشانی ہے تو وہ دور ہو جائے۔ خصوصاً ان لوگوں کو جو پہلی دفعہ مسجد کا وزٹ کر رہے ہیں انہیں کسی قسم کی اجنبیت محسوس نہ ہو۔

نوٹ: بعض لوگ مسلمانوں کی کسی بھی مسجد کا وزٹ کرنے سے خوفزدہ ہوتے ہیں کہ پتہ نہیں وہ کیا کردیں۔ جیسا کہ خاکسار واشنگٹن کے بارے میں لکھ آیا ہے کہ ایک دفعہ 3 بچیاں جن کے سکول کا پراجیکٹ تھا وہ مسجد کی تصویریں لے رہی تھیں لیکن خاکسار کو دیکھ کر بھاگ رہی تھیں۔ جب انہیں بتایا گیا کہ ہم ایسے نہیں ہیں تو ان کو کچھ تسلی ہوئی کیونکہ انہوں نے بتایا کہ ہم نے سنا ہے کہ مسلمان عورتوں کو مارتے ہیں اور ان کے ساتھ امتیازی سلوک کرتے ہیں وغیرہ۔

اخبار نے لکھا کہ جب طلباء یا غیرمسلم وزٹ کرتے ہیں تو انہیں مسجد کا معائنہ بھی کروایا جاتا ہے۔ ان کی مسجد بہت سادہ ہے۔ اندر کسی قسم کی کوئی تصویر وغیرہ نہیں ہے۔ سوائے 5 گھڑیوں کے جن کے ذریعہ روزانہ کی پانچ نمازوں کے اوقات Fix ہوتے ہیں۔

امام شمشاد ناصر آف مسجد بیت الحمید طلباء سے ملتے ہیں اور انہیں اسلام کی تاریخ کے بارے میں تفصیل سے بتاتے ہیں۔ اس کے علاوہ اسلام کے ارکان و عقائد اور ان کے سوالوں کے جواب دیتے ہیں۔ اخبار نے مزید لکھا:
سوالوں میں زیادہ معروف سوال یہ ہوتے ہیں کہ عورت اور مرد کیوں الگ الگ ہال میں نمازیں پڑھتے ہیں؟ مسلمان سؤر کیوں نہیں کھاتے؟ کعبہ کی طرف کیوں رُخ کرکے نماز پڑھتے ہیں؟ دن میں 5 مرتبہ کیوں نماز پڑھتے ہیں؟

طلباء نے دہشت گردی کے بارے میں بھی سوالات کئے اور خصوصاً مڈل ایسٹ کے مسلمانوں کے حوالہ سے کہ وہ کیوں دہشت گردی میں ملوث ہوتے ہیں؟ اس کے علاوہ اسرائیل اور فلسطین کے حوالہ سے بھی سوالات ہوئے۔ا خبار نے لکھا کہ امام شمشاد نے سب سوالوں کے جواب دیئے اور طلباء اپنے شکوک و شبہات ختم کر کے واپس گئے۔ امام شمشاد نے کہا کہ اس میں کچھ سیاسی نوعیت کے سوال ہیں اور کچھ مذہبی۔ میں آپ کو سب کے جواب دوں گا۔

تمام طلباء اور والدین نے جماعت احمدیہ کا شکریہ ادا کیا کہ ان کو مسجد آنے کی اجازت دی گئی اور ا ن کے سوالوں کے جواب دیئے گئے۔ اخبار نے مزید لکھا کہ ‘‘شکریہ’’ کے جذبات اور شکریہ کا اظہار بہت سارے والدین اور طلباء نے کیا۔ اخبار نے لکھا کہ امام شمشاد نے کلیر مانٹ کالج میں بھی اسلام کے بارے میں لیکچر دیا تھا اور اس میں بھی تفصیل کے ساتھ جماعت احمدیہ کا تعارف پیش کیا اور سوالوں کے جواب دیئے جس پر انہیں وہاں پر بھی خاص احترام سے نوازا گیا۔

اس کے علاوہ مسجد بیت الحمید میں اس ماہ انٹرفیتھ کلرجی میٹنگ ہوگی جس میں 20 سے زائد لوگ (مذہبی لیڈر) شامل ہوں گے۔ ان پروگراموں میں قرآن کریم کی تعلیمات اور عبادت کے بارے میں بیان کیا جائے گا۔

اردو لنک نے اپنی اشاعت 9 دسمبر 2005ء کے صفحہ 6 پر ’’دین کی باتیں‘‘ کے تحت خاکسار کے مضمون بعنوان ’’قرآن کریم کے محاسن و فضائل اور برکات‘‘ کی تیسری قسط شائع کی ہے جس میں قرآن کریم کی تاثیر کے واقعات بیان ہوئے ہیں۔ ان واقعات میں خصوصیت کے ساتھ حضرت عمرؓ کا قبول اسلام اور حضرت امام احمد بن حنبلؒ کا یہ واقعہ جو تذکرۃ الاولیاء میں لکھا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مجھ سے فرمایا کہ تجھے میرا قرب صرف قرآن کریم سے حاصل ہو سکتا ہے تحریر تھے۔

الانتشار العربی نے اپنے عربی سیکشن میں حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ایک خطبۂ جمعہ کا خلاصہ حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی تصویر کے ساتھ عربی میں اخبار کے 1/4 حصہ پر شائع کیا۔ اس خطبۂ جمعہ میں حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اسلام کے صحیح معانی کی طرف توجہ دلاتے ہوئے تمام دنیا کے مسلمانوں کو اپنی اصلاح کی طرف توجہ دلائی نیز خدمت انسانیت کی طرف بھی متوجہ کیا۔

خطبہ کے آخر میں حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے جماعت احمدیہ کی خدمات جو ہیومینیٹی فرسٹ کے ذریعہ دنیا کے مختلف ممالک میں ہو رہی ہیں، اُن کا ذکر فرمایا۔

الاخبار عربی نے بھی اپنی اشاعت میں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی تصویر کے ساتھ ¼ صفحہ پر خطبۂ جمعہ کا خلاصہ عربی زبان میں شائع کیا ہے۔ اس خطبۂ جمعہ میں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے سورۃ الاحزاب کی آیت 22 کی تشریح فرمائی ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے آنحضرتﷺ کو اپنے تمام کاموں میں اسوۂ حسنہ بنانے کی تلقین فرمائی ہے (لَقَدۡ کَانَ لَکُمۡ فِیۡ رَسُوۡلِ اللّٰہِ اُسۡوَۃٌ حَسَنَۃٌ۔ الأحزاب 22) حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے نصیحت فرمائی کہ اگر اللہ تعالیٰ کا محبوب بننا چاہتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنا چاہتے ہیں تو آنحضرت ﷺ کی پوری پوری اطاعت اور پیرو ی کریں یعنی اخلاقیات میں، عبادات میں، بیوی بچوں کے ساتھ حسن سلوک میں، عیادت مریض وغیرہ میں۔ خطبہ کے آخر میں حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے حضرت اقدس مسیح موعودؑ کی تحریرات پڑھیں جن میں آنحضرت ﷺ کی ارفع و اعلیٰ شان بیان کی گئی تھی۔

ڈیلی بلٹن اپنی اشاعت 15دسمبر 2005ء کے صفحہ A3 پر خبر دیتا ہے جو Mason Stackstill نے لکھی ہے۔ وہ لکھتا ہے:

’’مسلم نوجوانوں نے قومی ایوارڈ جیتا‘‘

احمدیہ مسلم کمیونٹی کے نوجوانوں نے جن کا تعلق لاس اینجلس ایسٹ کی جماعت سے ہے، نیشنل لیول پر خدمات کا ایوارڈ جیتا ہے۔ نوجوانوں نے پیسے اکٹھے کر کے بے گھر لوگوں (مردو خواتین اور بچوں) کے لئے کھانا مہیا کیا جو کہ خدمت خلق اور خدمت انسانیت ہے۔ اسی طرح احمدیہ مسلم نوجوانوں نے شہر کے مختلف دیواروں پر سے نازیبا اشتہارات اور کلمات کو بھی صاف کیا۔ اسی طرح ان نوجوانوں نے خون کے عطیہ جات کے لئے بھی انتظام کیا۔

چینو چیمپئن نے 17 دسمبر 2005ء کے شمارے کے صفحہ B7 پر مختصراً خبر دی کہ 23 تا 25 دسمبر 2005ء کو جماعت احمدیہ کے ویسٹ کوسٹ کا سالانہ جلسہ ہو رہا ہے جس میں 800 سے زائد لوگ اکٹھے ہو رہے ہیں۔

الاخبار عربی نے اپنے انگریزی سیکشن میں 21 دسمبر 2005ء کے صفحہ5 پر احمدیہ مسلم نوجوانوں کے ایوارڈ جیتنے کی خبر فوٹو کے ساتھ دی ہے۔ تصویر کے نیچے لکھا ہے کہ احمدیہ مسلم نوجوان امام شمشاد ناصر کے ساتھ ٹرافی تھامے ہوئے جو انہوں نے سوشل سروسز کرنے پر جیتی ہے۔

خبر کی تفصیل قدرے وہی ہے جو اوپر لکھی جا چکی ہے۔ اس خبر میں دو باتوں کا مزید ذکر ہے۔ ایک یہ کہ سوشل سروسز میں ان کی مجلس امریکہ کی دیگر مجالس (خدام الاحمدیہ) میں سب سے اول رہی اور ٹرافی جیتی۔ دوسرے انہوں نے دیگر سروسز (خدمات) کا ذکر کرنے کے علاوہ ملکی شاہراہ کی صفائی کا بھی ذکر کیا ہے کہ ان کے نوجوانوں نے ملکی شاہراہ کی صفائی بھی اپنے ذمہ لی ہوئی ہے جس کی صفائی وہ باقاعدگی سے کرتے ہیں۔

آخر میں ہیومینیٹی فرسٹ کا تعارف اور ویب سائٹ کا ذکر ہے نیز مسجد بیت الحمید اور خاکسار کا ذکر کیا گیا ہے کہ امام شمشاد ناصر نے کہا ہے کہ ہمارے نوجوانوں کو سوشل سروسز کرتے رہنا چاہئے اور خاص طور پر یہ کہ ہر ایک کو اس بات کی نگرانی کرنی چاہئے کہ اس کی ہمسائیگی میں کوئی بھوکا نہ سوئے۔ آخر پر مسجد کا فون نمبر بھی درج ہے۔

انڈیا ویسٹ نے اپنی اشاعت 23 دسمبر 2005ء کے صفحہ 39 C پر ویسٹ کوسٹ کے سالانہ جلسہ کی تاریخوں کا اعلان کیا ہے کہ یہ جلسہ 23 تا24 دسمبر کو Fairplex میں منعقد ہو گا۔ جلسہ میں تقاریر، سوال و جواب اور کھانا بھی پیش کیا جائے گا۔

دی سن۔ سین برنارڈینو کونٹی نیوزپیپر۔ خاکسار اس اخبار کے دفتر اور ایڈیٹر سے ملنے کے لئے بھی متعدد مرتبہ گیا۔ ان کا تعاون بھی حاصل رہا۔ اس اخبار نے اپنی 24 دسمبر 2005ء کی اشاعت میں صفحہ B3 پر نصف صفحہ سے زائد کی خبر دی ہے۔ خبر میں ایک تصویر بھی ہے جس میں جماعت کی دو بچیاں دعا کر رہی ہیں۔ بچیوں کے نام عزیزہ سارہ احمد اور عزیزہ شمع راجپوت ہیں۔

اس خبر میں ویسٹ کوسٹ کے 20 ویں جلسہ سالانہ کی خبر ہے۔

خبر کی رائٹر Monica Rodriguer ہیں۔ اخبار لکھتا ہے کہ جماعت احمدیہ کے ممبران فیئرپلیکس (Fairplex) میں 3 دن کے لئے اکٹھے ہوئے تھے جہاں انہوں نے اپنا 3 روزہ سالانہ جلسہ کیا جس میں روحانیت کو بڑھانے اور علاقہ میں انٹرفیتھ کو مزید مضبوط بنیادوں پر استوار کرنے کی باتیں ہوئیں۔

اس ویسٹ کوسٹ جلسہ میں قریباً 700 سے ایک ہزار مندوبین شامل ہوئے۔

اخبار کو انٹرویو دیتے ہوئے مکرم سید وسیم صاحب نے بتایا کہ اس میں شامل ہونے سے اس بات کا بھی موقع ملتا ہے کہ انسان اپنے روزانہ کے کاموں کے پریشر سے نکل کر روحانیت میں قدم بڑھائے۔

امام شمشاد ناصر آف مسجد بیت الحمید نے کہا کہ ہمارے جلسے کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ علاقہ کے انٹرفیتھ لوگوں سے مضبوط تعلقات استوار کریں۔ اخبار لکھتا ہے کہ جماعت احمدیہ کا عقیدہ ہے کہ ہندوستان میں پیدا ہونے والے حضرت مرزا غلام احمد قادیانیؑ ہی مسیح موعود ہیں جن کا ذکر قرآن میں ہے۔

جماعت احمدیہ کا ماٹوہے کہ ’’محبت سب کے لئے نفرت کسی سے نہیں۔‘‘ شمشاد ناصر نے مزید کہا:
اس مقصد کو ذہن میں رکھتے ہوئے جماعت کے افراد کوشش کرتے ہیں کہ دوسرے مذاہب کا احترام کیا جائے اور انہیں سمجھا جائے۔

شمشاد ناصرنے مزید کہا کہ ہماری کوشش ہے کہ اس طریق پرایک دوسرے کو قریب لایا جائے۔ جب یہ مقصد حاصل ہو جائے گا تو دنیا میں امن قائم کرنے کا ایک زینہ طے ہو سکے گا۔

جلسہ کے پہلے دن یعنی جمعہ کے دن علاقہ کے مذہبی لوگ اور گورنمنٹ کے افسران بھی اس جلسہ میں شامل ہوئے۔ عیسائی پادری محترمہ جائس کرک نے کہا کہ اس جلسہ کی وجہ سے ہمارے لوگوں اور جماعت احمدیہ کے لوگوں کے درمیان ہم آہنگی اور گہرے رشتے کا تعلق پیدا ہو گا۔جلسہ کے مندوبین سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ میں اپنے عیسائی چرچ کے لوگوں کی طرف سے سب حاضرین سے معافی مانگتی ہوں کیونکہ ہمارے لوگ اس بات کے ذمہ دار ہیں کہ ہم دوسرے مذاہب کے لوگوں کا احترام کریں۔

چینو کے کونسل ممبر نے اس موقعہ پر تقریر کرتے ہوئے کہا کہ یہاں پر جتنے مذاہب والے بھی ہیں سب کا یہ پکا عقیدہ ہے کہ ہم ایک دوسرے کے ساتھ امن کے ساتھ رہ سکتے ہیں۔

محترمہ صوفیہ مقصود صاحبہ خواتین کے سیشن میں تقریر کریں گی جو جماعت احمدیہ بیت البصیر کی ممبر ہیں۔ تقریر کا موضوع ہوگا ’’امریکہ میں رہتے ہوئے ہم کس طرح اللہ تعالیٰ کی عبادت کر سکتے ہیں۔‘‘ امریکہ میں ہمیں اتنے چیلنجز ہیں جس سے یہ کام بظاہر مشکل نظر آتا ہے۔ اسی طرح ہمارے بچوں کو جو شادی بیاہ کے چیلنجز ہیں ان کا مقابلہ ہمیں کس طرح کرنا ہے۔ اور ہمیں اپنے بچوں کو اسلام کی تعلیمات سکھانے میں کس طرح مدد کرنا ہوگی۔

محترمہ صوفیہ مقصود صاحبہ نے مزید کہا کہ ہمیں امریکہ میں ہر قسم کی مذہبی آزادی بھی میسر ہے اور ہم اس آزادی کے ساتھ اپنے مذہب پر عمل کر سکتے ہیں۔

چینو چیمپئن نے اپنی 24 دسمبر 2005ء کی اشاعت کے صفحہ A-6 پر خبر دی ہے جس کا عنوان ہے:

’’نوجوان خدمت کا ایوارڈ حاصل کرتے ہیں۔‘‘

اس خبر میں ایک تصویر بھی ہے اور تصویر کے نیچے اخبار نے تمام نوجوانوں کے نام بھی لکھے ہیں جو یہ ہیں:
احمدیہ مسلم نوجوان ٹرافی دکھا رہے ہیں جو کہ انہوں نے حال ہی میں سوشل سروسز کرنے کی وجہ سے جیتی ہے۔ (تصویر میں بائیں سے دائیں طرف) مکرم فہد راجپوت صاحب، مکرم جمیل متین صاحب، مکرم عاصم انصاری صاحب، مکرم توثیق اسلام صاحب، مکرم سفیان فاروق صاحب، مکرم بلال راجپوت صاحب، مکرم سید زکی صاحب، مکرم انس چوہدری صاحب، مکرم فیضان فاروق صاحب، مکرم فیصل راجپوت صاحب، مکرم ارمغان جٹالہ صاحب، مکرم امام شمشاد ناصر صاحب، مکرم ناصر نور صاحب، مکرم ایشان خالد صاحب، مکرم رضوان جٹالہ صاحب اور مکرم چوہدری احمد صاحب۔

اخبار لکھتا ہے کہ جماعت احمدیہ کے نوجوانوں نے حال ہی میں سوشل سروسز بجا لانے پر ٹرافی جیتی ہے۔ اس ایوارڈ کو حاصل کرنے کی تقریب دراصل واشنگٹن میں ہونے والا ان کا نیشنل اجتماع تھا۔ مکرم فیصل راجپوت صاحب جو کہ نوجوانوں کے سوشل سروسز کے سیکرٹری ہیں، نے اپنے نوجوانوں کو ساتھ لے کر اس خدمت کے لئے پیسے اکٹھے کئے اور 300 سے زائد بے گھر افراد میں کھانا تقسیم کیا۔ انہوں نے خون کے عطیہ جات کے لئے بھی انتظام کیا۔

مسجد بیت الحمید میں ایک تقریب کے انعقاد کے دوران امام مسجد بیت الحمید سید شمشاد احمد ناصر نےا ن کی اس خدمت کو سراہا اور انہیں مزید کام کرنے کی ترغیب دی کیونکہ اس قسم کی خدمات سے ان کی اپنی کمیونٹی اور سوسائٹی مضبوط ہوتی ہے۔

ڈیلی بلٹن نے اپنی اشاعت مورخہ 24 دسمبر 2005ء بروز ہفتہ میں قریباً پورے صفحہ کی خبر دی ہے۔ اس خبر کا عنوان ہے:

’’محبت سب کے لئے نفرت کسی سے نہیں‘‘

مسلمان روحانیت بڑھانے کے لئے اکٹھے ہوئے۔ یہ رپورٹ Monica Rodriguez نے لکھی ہے اور دوتصاویر ہیں۔ ایک تصویر بڑی ہے جس میں ہماری دو بچیاں دعا کر رہی ہیں۔ جن کے نام اخبار نے عزیزہ سارہ احمد اور عزیزہ شمع راجپوت لکھے ہیں۔ نیز لکھا ہے کہ وہ 20ویں جلسہ سالانہ کے موقعہ پر فیئرپلیکس میں دعا کر رہی ہیں۔ دوسری تصویر میں ایک دوست مکرم علی مباشر اللہ شہباز صاحب قرآن کریم پڑھتے دکھائی دے رہے ہیں۔

یہ خبر جماعت احمدیہ ویسٹ کوسٹ کے 20 ویں جلسہ سالانہ کے بارے میں ہے۔ جماعت احمدیہ کے ممبران فیئر پلیکس میں اپنے جلسہ کے لئے اکٹھے ہوئے۔ مکرم سید وسیم صاحب نے بتایا کہ جلسہ کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ ہم اپنے دنیاوی کاروبار کو ایک طرف رکھتے ہوئے روحانیت کو حاصل کرنے کے لئے جمع ہوں۔ اخبار نے جماعت احمدیہ کا تعارف دیتے ہوئے لکھا کہ جماعت احمدیہ 19 ویں صدی میں ظاہر ہونے والے ہندوستان کے (حضرت)مرزا غلام احمد (صاحب)پر یقین رکھتی ہے کہ وہ اس زمانے کے ریفارمر اور مہدی اور مسیح موعود ہیں۔ اس جماعت کا ماٹو ہے کہ محبت سب کے لئے نفرت کسی سے نہیں۔

امام شمشاد نے بتایا کہ ہمارے جلسہ کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ دیگر مذاہب کے لوگوں کے ساتھ اپنے روابط اور تعلقات کو بھی مضبوط کیا جائے اور ان کی غلط فہمیوں کو دور کرنے کی کوشش بھی کی جاتی ہے۔ اپنے اس ماٹو کو ذہن میں رکھتے ہوئے کہ محبت سب کے لئے اور نفرت کسی سے نہیں، جماعت کوشش کرتی ہے کہ دوسرے مذاہب کا احترام کیا جائے اور انہیں سمجھا جائے اور لوگوں کو ایک دوسرے کے قریب کیا جائے۔

اخبار نے لکھا کہ جلسہ سے پہلے صرف جمعہ کے روز دیگر مذہبی لیڈروں نے اور حکومتی سطح کے آفیشلز نے بھی جلسہ سے خطاب کیا۔

ایک چرچ کے پادری صاحب نے کہا کہ اس قسم کے جلسوں سے میرے چرچ کے لوگوں اور جماعت احمدیہ کے افراد کے درمیان تعلقات مضبوط ہوں گے اور ایک دوسرے کو سمجھنے میں مدد ملے گی۔ ہمارا یہ مطمح نظر ہے کہ ہم ایک دوسرے کی عزت اور احترام بھی کریں۔ ایک کونسل ممبر نے بھی تقریر میں کہا کہ دیگر مذاہب کے لیڈروں کی باتیں سننے سے ہی میں اس یقین پر قائم ہوا ہوں کہ ہم اختلافات رکھنے کے باوجود آپس میں عزت و احترام سے اس معاشرہ میں رہ سکتے ہیں۔

جلسہ کے دوران مختلف موضوعات پر تقاریر ہوئیں۔ مکرمہ صوفیہ مقصود صاحبہ جو سلی کین ویلی سے آئی تھیں نے کہا اس وقت ہم سب کو معاشرہ میں بہت سے چیلنجز کا سامنا ہے اور خصوصاً اپنے بچوں کی تربیت کے سلسلہ میں بہت سے روزمرہ کے مسائل ایسے ہیں جو ہمیں خدا کی عبادت سے دور لے جا سکتے ہیں جن کا ہم نے مقابلہ کرنا ہے۔ اس سلسلہ میں انہوں نے مزید کہا کہ شادی بیاہ کے بارے میں جو اسلام کی صحیح تعلیمات ہیں ان کو روشناس کرانا ضروری ہے تا غلط فہمیوں کا ازالہ ہو سکے۔

انہوں نے کہا امریکہ میں ہمیں مذہب پر عمل کرنے کی پوری پوری آزادی حاصل ہے بغیر کسی خوف کے کہ ہمیں کوئی ظلم کا نشانہ بنائے گا۔

سین برناڈینو کونٹی سن 25 دسمبر 2005ء کی اشاعت میں سٹاف رائٹر مونیکا نے ہمارے ویسٹ کوسٹ کے بیسویں جلسہ سالانہ کے انعقاد کی خبر دی ہے اخبار لکھتا ہے کہ جماعت احمدیہ مسلمہ کے افراد جمعہ کے دن فیئر پلیکس پومونا میں اپنے بیسویں جلسہ سالانہ کے لئے اکٹھے ہوئے۔ جس کا مقصد اپنے لوگوں کی روحانیت بڑھانا۔ دیگر مذاہب کے درمیان افہام و تفہیم پیدا کرنا ہے۔ منتظمین کا کہنا ہے کہ اس میں 800 سے زائد لوگ شامل ہوئے ۔ وسیم سید جو ناظم پروگرام ہیں نے کہا ہے کہ اس قسم کے جلسوں میں شامل ہو کر انسان زندگی کے دوسرے مشاغل کے اثر سے نکل کر روحانیت کی طرف آتا ہے۔ امام شمشاد ناصر آف بیت الحمید چینو کا کہنا ہے کہ دیگر فوائد کے علاوہ ایک فائدہ اس کا یہ بھی ہے کہ دیگر مذاہب کے لوگوں سے رابطہ اور تعلقات بڑھتے ہیں اور انہیں سمجھنے کا موقعہ ملتا ہے۔ مسجد بیت الحمیدسے تعلق رکھنے والے لوگوں کا عقیدہ ہے کہ 19 ویں صدی میں آنے والے مصلح، حضرت مرزا غلام احمد قادیانی بانی جماعت احمدیہ ہیں جن کے آنے کے بارے میں قرآن مجید میں ہے۔ اس جماعت کا ماٹو ’’محبت سب کے لئے نفرت کسی سے نہیں‘‘ ہے۔

امام شمشاد نے مزید بتایا کہ اس قسم کے جلسوں کی ایک غرض یہ بھی ہے تا ایک دوسرے کو قریب سے دیکھنے اور سمجھنے کا موقعہ ملے۔ پادری جوائس کرک نے کہا کہ جلسہ میں شامل ہو کر ہمارے فرقہ کے لوگوں کا جماعت احمدیہ کے لوگوں کے ساتھ مضبوط تعلق پیدا ہو گا۔ انہوں نے حاضرین سے معافی مانگی کہ بعض اوقات عیسائیوں نے غلطیاں کی ہیں اور دوسروں کو دکھ پہنچایا ہے۔ میں سب سے معافی مانگتی ہوں۔ انہوں نے کہا: ہم سب کا احترام کرتے ہیں۔

چینو کونسل ممبر مسٹر ڈنکن نے کہا کہ مختلف مذاہب میں بہت سی باتیں مشترک ہیں جو ہمیں اکٹھا اور پر امن رہنے میں مدد دے سکتی ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ
تین دن کے جلسہ میں جو باتیں بیان کی گئی ہیں ان سے ایک انسان سوسائٹی میں بہتر زندگی گزار سکتا ہے۔

مکرمہ صوفیہ مقصود صاحبہ جو سلی کین ویلی کی مسجد بیت البصیر سے یہاں جلسہ کے لئے آئی ہیں وہ خواتین کے اجلاس میں تقریر کریں گی کہ اس سوسائٹی میں رہتے ہوئے ہمیں اپنے بچوں کی تربیت کس طرح کرنی ہے۔ انہوں نے کہا ان میں سے ایک چیلنج یہ ہے کہ بعض چیزیں ہمیں خداتعالیٰ کی عبادت سے بھی غافل کردیتی ہیں۔ اسی طرح شادی بیاہ کے معاملات میں بھی لوگوں کو غلط فہمیاں ہیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ امریکہ میں ہمیں اپنے مذہب پر عمل کی پوری پوری آزادی حاصل ہے۔

(باقی آئندہ بدھ ان شاء اللہ)

(از مولانا سید شمشاد احمد ناصر ۔ امریکہ)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 2 فروری 2021

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 3 فروری 2021