• 6 مئی, 2024

شہید کا وسیع مفہوم

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
عام طور پر شہید کا مطلب یہ لیا جاتا ہے کہ جو خدا تعالیٰ کی راہ میں قربان ہو جائے۔ بیشک ایسا شخص جو خدا تعالیٰ کی راہ میں اپنی جان قربان کرتا ہے، شہید کا مقام پاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اُس کے لئے جنت کے دروازے کھول دیتا ہے۔ لیکن شہید کے معنی میں بہت وسعت ہے۔ یہ معنی بہت وسعت لئے ہوئے ہے، اور بھی اس کے مطلب ہیں۔ اس لئے آج میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ارشادات اور بعض احادیث کے حوالے سے اس بارے میں کچھ کہوں گا۔

یہاں ان ممالک میں پلنے اور بڑھنے والے بچے اور جوان یہ سوال کرتے ہیں، کئی دفعہ مجھ سے سوال ہو چکا ہے۔ گزشتہ دنوں ہیمبرگ میں واقفات نَو کی کلاس تھی تو وہاں بھی غالباً ایک بچی نے سوال کیا کہ جب آپ شہداء کے واقعات بیان کرتے ہیں تو اکثر کے واقعات میں یہ ذکر ہوتا ہے کہ وہ اپنے قریبی عزیزوں کو کہتے ہیں کہ دعا کرو کہ مَیں شہید ہو جاؤں یا شہید کا رتبہ پاؤں یا شہادت تو قسمت والوں کو ملا کرتی ہے۔ تو شہید ہونے کی دعا کے بجائے سوال یہ ہوتا ہے کہ یہ لوگ دشمن پر فتح پانے کی دعا کا کیوں نہیں کہتے اور یہ کیوں نہیں کرتے؟

یقینا دشمن پر غلبہ پانے کی جو دعاہے یہی اوّل دعا ہے اور الٰہی جماعتوں سے خدا تعالیٰ کا یہ وعدہ بھی ہے کہ غلبہ اُنہی کو حاصل ہونا ہے۔ فتوحات انہی کی ہیں اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو بھی متعدد مرتبہ اللہ تعالیٰ نے کامیابی اور فتوحات کی اطلاع دی اور غلبہ کی خبر دی۔ اور ہمیں یقین ہے کہ اس کے واضح اور روشن نشانات بھی جماعت احمدیہ دیکھے گی۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس کے آثار بھی ہم دیکھ رہے ہیں بلکہ ہر سال باوجود مخالفت کے لاکھوں کی تعداد میں بیعت کر کے جو لوگ احمدیت میں شمولیت اختیار کر رہے ہیں اور اُن ملکوں میں بھی بیعتیں ہو رہی ہیں جہاں مخالفت بھی زوروں پر ہے تو یہ سب چیزیں ترقی اور فتوحات ہی ہیں جس کے نظارے ہم دیکھ رہے ہیں۔ اسی طرح جماعت جو دوسرے پروگرام کرتی ہے اور اسلام کی خوبصورت تصویر پیش کر کے غیر اسلامی دنیا کے شکوک و شبہات دور کر رہی ہے۔ یہ جوبات ہے یہ کامیابیوں اور فتوحات کی طرف قدم ہی توہیں جو جماعت احمدیہ کے اُٹھ رہے ہیں جو ایک وقت میں آ کر ان شاء اللّٰہ تعالیٰ دنیا میں ایک غیر معمولی انقلاب پیدا کریں گے اور اس کے لئے ہر احمدی کو کوشش بھی کرنی چاہئے اور دعا بھی کرنی چاہئے۔

بہر حال بڑے مقاصد کے حصول کے لئے قربانیاں بھی دینی پڑتی ہیں، جان کی قربانی بھی دینی پڑتی ہے اور جماعت احمدیہ کے افراد جہاں بھی ضرورت ہو، ہر قسم کی قربانیاں دیتے ہیں اور اس کے لئے تیار بھی رہتے ہیں۔ اس میں جان کی قربانی بھی ہے جو اُن قربانی کرنے والوں کو شہادت کا رتبہ دلا رہی ہے اور اللہ تعالیٰ کی رضا کی جنتوں میں یہ لوگ داخل ہو رہے ہیں۔ لیکن جیسا کہ مَیں نے کہا کہ شہادت صرف اسی قدر نہیں ہے، شہید کا مطلب صرف اسی قدر نہیں ہے، اس کی گہرائی جاننے کے لئے اُن نوجوان سوال کرنے والوں کو ضرورت ہے اور بڑوں کو بھی ضرورت ہے، تا کہ شہادت کے مقام کے حصول کی ہر کوئی کوشش کرے۔ اس دعا کی روح کو سمجھے اور خدا تعالیٰ کی رضا کی جنتوں میں داخل ہو۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک موقع پر حضرت ابوہریرہؓ کو فرمایا کہ اگر صرف اللہ تعالیٰ کی راہ میں مارے جانے والے ہی شہید کہلائیں گے تو پھر تو میری اُمّت میں بہت تھوڑے شہید ہوں گے۔

(صحیح مسلم کتاب الامارۃ باب بیان الشہداء، حدیث1915)

مسلم کی ایک حدیث ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص صدقِ نیت سے شہادت کی تمنا کرے، اللہ تعالیٰ اُسے شہداء کے زمرے میں داخل کرے گاخواہ اُس کی وفات بستر پر ہی کیوں نہ ہو۔

(صحیح مسلم کتاب الامارۃ باب استحباب طلب الشہادۃ فی سبیل اللہ تعالیٰ، حدیث1909)

بدر کے موقع پر بھی ہم دیکھتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کو اُس کے عہد کا واسطہ دے کر فتح مانگی تھی۔ اُن مسلمانوں کی زندگی مانگی تھی جو آپ کے ساتھ بدر کی جنگ میں شامل تھے۔ جان قربان کر کے شہادت پانا نہیں مانگا تھا۔ عرض کیا تھا کہ اگر یہ مسلمان ہلاک ہو گئے تو پھر تیری عبادت کرنے والا کوئی نہیں رہے گا۔

(صحیح مسلم کتاب الجہاد والسیر باب الامداد بالملائکۃ فی غزوۃ بدر… حدیث: 1763)

اللہ تعالیٰ نے بھی انسان کا جومقصدِ پیدائش بیان فرمایا ہے وہ عبادت ہی بیان فرمایا ہے۔

پس ایک حقیقی مومن کاپیدائش کا مقصد صرف ایک دفعہ کی زندگی قربان کرنا نہیں ہے بلکہ مسلسل اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کی کوشش ہے اور ہر قربانی کے لئے ہر وقت تیار رہنا ہے۔ ہاں یہ بھی احادیث میں آتا ہے کہ ایک مومن جنگ کی خواہش نہ کرے۔ لیکن جب زبردستی اُسے اس میں گھسیٹا جائے، جب دین کے مقابلے پر ایک مومن کی جان لینے کی کوشش کی جائے تو پھر وہ ڈر کر پیچھے نہ ہٹے بلکہ مردانہ وار اپنی جان کا نذرانہ پیش کرے اور اس سے کبھی پیچھے نہ ہٹے۔

(صحیح بخاری کتاب الجہاد والسیر باب لا تمنوا لقاء العدو حدیث: 3025)

جب جنگوں کی اجازت اور حالات تھے تو دشمن کا مقابلہ کر کے یا جان قربان کر کے ایک مومن شہادت کا رتبہ پاتا تھا یا فتح پاتا تھا اور اس میں کسی قسم کا خوف اور ڈر شامل نہیں ہوتا تھا۔

آجکل کے حالات میں جنگ تو ہے نہیں۔ جماعت احمدیہ کے دشمن بھی ہیں اور ہمارے جو دشمن ہیں، جو بزدل دشمن ہے یہ چھپ کر حملہ کرتا ہے۔ لیکن اگر سامنے آ کر بھی حملہ کرے تو پھر بھی جنگ کرنے کا تو حکم نہیں ہے۔ بعض احمدیوں کو وارننگ کے خطوط بھی آتے ہیں کہ یا احمدیت چھوڑ دو یا مرنے کے لئے تیار ہو جاؤ۔ تو اُس وقت ایک مومن کی مردانگی یہی ہے اور پاکستان کے احمدی اس بات کا اظہار کرتے ہیں کہ جان تو بیشک چلی جائے مگر دین اور خدا تعالیٰ کی رضا کو قربان نہیں کیا جا سکتا۔ پس یہ ایک مومن کا امتیاز ہے جومختلف حالات میں، مختلف صورتوں میں قائم رہتا ہے۔ اور اللہ تعالیٰ نے نبیوں، صدیقوں اور شہیدوں اور صالحین میں شامل ہونے کے لئے مومن کو دعا بھی سکھائی ہے۔ لیکن شہادت کی وسعت کیا ہے؟ جیسا کہ مَیں نے کہا اس کا مطلب کیا ہے؟ اس کا فلسفہ کیا ہے؟ اس کی گہرائی کیا ہے؟ اس کو سمجھنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے ہم پر احسان کرتے ہوئے ہمیں زمانے کے امام مسیح موعود اور مہدی موعود علیہ السلام کو ماننے کی توفیق عطا فرمائی ہے جنہوں نے ہمیں کھول کر اور واضح کر کے اس بارے میں سمجھایا ہے کہ یہ کیا چیز ہے؟ اس وقت مَیں یہ آیت جو پہلے بیان کر چکا ہوں، نبی، صدیق اور شہید اور صالحین ان سب کی خصوصیات کے بارے میں تو بیان نہیں کروں گا۔ جیسا کہ مَیں نے کہا کہ شہید کے بارے میں سوال ہوتا ہے اور اُسی کو آپ کی تفسیر اور وضاحت کی روشنی میں اس وقت بیان کروں گا۔ کیونکہ شہید کا ہی ذکر ہو رہا ہے۔ (جاری ہے)

(خطبہ جمعہ 14؍دسمبر 2012ء بحوالہ الاسلام ویب سائٹ)

پچھلا پڑھیں

جلسہ سالانہ سینیگال 2021ء

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 3 فروری 2022