• 17 جولائی, 2025

سورت الطور، النجم اور القمر کا تعارف (حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ)

سورت الطور، النجم اور القمر کا تعارف
ازحضرت مرزا طاہر احمد خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ

سورۃ الطور

یہ سورت ابتدائی مکی سورتوں میں سے ہے اور بسم اللہ سمیت اس کی پچاس آیات ہیں۔

اس سورت کا آغاز بھی آسمانی گواہیوں سے کیا گیا ہے۔ سب سے پہلے تو طُور کی گواہی ہے جس پر حضرت موسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام کو ان سے بہت بلند تر رسول یعنی حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خبر دی گئی تھی۔ پھر ایک ایسی لکھی ہوئی کتاب کی قسم کھائی گئی ہے جو چمڑے کے کھلے صحیفوں پر لکھی ہوئی ہے۔ چونکہ پرانے زمانہ میں چمڑے پر لکھنے کا رواج تھا اس لئے وہ کتاب چمڑے کے صحیفوں پر لکھی ہوئی بتائی گئی ہے۔ اور اس کتاب میں ہی بیت اللہ کی پیشگوئی موجود ہے جو متقیوں اور روحانیت سے معمور ہو گا۔ اور ایک دفعہ پھر اونچی چھت والے آسمان کو گواہ ٹھہرایا گیا اور جوش مارتے ہوئے سمندر کو بھی جن دونوں کے مابین پانی مسخر کر دیا گیا ہے اور وہ زندگی کا سہارا بنتا ہے۔

ان تمام آسمانی گواہیوں کے ذکر کے بعد اللہ تعالیٰ یہ انذار فرماتا ہے کہ جس دن آسمان سخت لرزہ کھائے گا اور پہاڑوں جیسی بڑی بڑی دنیاوی طاقتیں اکھیڑ پھینکی جائیں گی اور سب دنیا میں پراگندہ ہو جائیں گی، اُس دن تکذیب کرنے والوں کے لئے دنیا ہی میں بہت بڑی ہلاکت ہو گی۔

اس کے بعد مجرموں کو جہنم کا وعید دیا جا رہا ہے اور متقیوں کو جنات کی خوشخبری عطا کی جا رہی ہے۔ پس آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کو مسلسل نصیحت کرتے چلے جانے کا ارشاد فرماتے ہوئے اللہ تعالیٰ اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ اے رسول! نہ تیری باتیں کاہنوں کی باتوں کی طرح ڈھکونسلے ہیں اور نہ تُو مجنون ہے کیونکہ خود تیرا کلام اور تجھ پر نازل ہونے والا کلام ان دونوں باتوں کی قطعی طور پر نفی کرتا ہے۔ اس لئے اپنے ربّ کا حکم پہنچانے کے لئے اس کی خاطر صبر کر۔ تُو ہماری نگاہوں کے سامنے ہے یعنی ہر وقت ہماری حفاظت میں ہے۔ اور اللہ تعالیٰ کی تسبیح اس کی حمد کے ساتھ بلند کرتا رہ، خواہ تُو دن کی عبادت کے لئے کھڑا ہو یا رات کی عبادت کے لئے کھڑا ہو۔ اور جب ستارے ڈوب چکے ہوں تب بھی اپنے ربّ کی عبادت میں مصروف رہ۔

(قرآن کریم اردو ترجمہ مع سورتوں کا تعارف از حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ،صفحہ951)

سورۃ النّجم

یہ سورت ہجرتِ حبشہ کے معاً بعد نبوت کے پانچویں سال نازل ہوئی تھی۔ بسم اللہ سمیت اس کی تریسٹھ آیات ہیں۔

اس سورت کا نام اَلنّجم ہے اور پہلی سورت کے آخر پر بھی اِدْبَارَالنُّجُوم کا ذکر ہے۔ اس کے بعد مضمون کو مشرکوں کی طرف پھیرا گیا ہے اور وہ ستارہ جس کی مشرک عبادت کیا کرتے تھے اس کے گر جانے کی پیشگوئی فرمائی گئی ہے اور فرمایا کہ یہ بات آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی طرف سے نہیں گھڑی کیونکہ آپؐ کبھی بھی اپنے نفس کی خواہش کے ساتھ کلام نہیں کرتے۔

اس سے پہلے سورت ’’ الذّاریات‘‘ کے آخر پر جس اللہ کو ذُو القُوَّۃِ الْمَتِیْنُ فرمایا گیا اور الرَّزَّاق بھی، اسی اللہ کا ذکر کرتے ہوئے اس سورت میں شَدِیْدُ الْقُوی اور ذُوْمِرَّۃ فرمایا گیا یعنی جو بہت قوی صفات والا اور بے مثل حکمت والا ہے۔

اس کے بعد معراج کے واقعہ کا ذکر شروع ہوجا تا ہے۔ پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ربّ کے قریب ہوئے اور اللہ تعالیٰ آپؐ پر رحمت کے ساتھ جھک گیا اور وہ دو کمانوں کے ایک وتر کی طرح ہو گیا۔ یہ بہت پیچیدہ آیات ہیں جن کی مختلف رنگ میں تشریح کی کوشش کی گئی ہے۔ یقیناً اس واقعہ میں کسی ظاہری آسمان کا ذکر نہیں بلکہ قلْبِ محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم پر گزرنے والے ایک غیر معمولی ماجرا کا ذکر ہے۔ ایک ایسا کشف جس کی کوئی نظیر کسی دوسرے نبی کی زندگی میں نہیں ملتی۔ آپؐ کا دل اللہ کی محبت میں اُفق کی طرف بلند ہوا اور اللہ اپنے بندے کی محبت میں اس کے دل پر اُتر آیا۔ اور قَابَ قَوْسَیْن سے مراد یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم وہ وتَر بن گئے جو اللہ تعالیٰ اور حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قوسوں کے درمیان ایک ہی وتَر تھا۔ گویا اللہ تعالیٰ کی قوس سے چلنے والا تیر وہی تھا جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی قوس سے چلتا تھا۔ یہ تفسیر قرآن کریم کی آیت وَمَا رَمَیْتَ اِذْ رَمَیْتَ وَلٰکِنَّ اللّٰہَ رَمیٰ کے عین مطابق ہے۔ اس لئے اسے ہر گز تفسیر با لرّائے نہیں کہا جا سکتا۔

پھر معراج کے جسمانی ہونے کی کلیتًہ نفی کر دی گئی جب فرمایا مَا کَذَبَ الْفُؤَا دُ مَا رَأَی کہ جسمانی آنکھوں نے اللہ کو نہیں دیکھا بلکہ حضرت محمد مصطفٰی صلی اللہ علیہ وسلم کے دل کی آنکھوں نے جس اللہ کو دیکھا اس دل نے اس کے بیان میں کوئی جھوٹ نہیں بولا۔

اس کے بعد ایک سِدْرَۃ کا ذکر ہے جو اللہ تعالیٰ اور بندوں کے درمیان ایک سرحدیں تقسیم کرنے والی باڑ کی طرح ہے۔ درحقیقت پہلے بھی عربوں میں یہی رواج تھا اور آج بھی یہ رواج ملتا ہے کہ جب ایک زمیندار کی ملکیت کی حد ختم ہوتی ہے تو دوسرے زمیندار اور اس کے درمیان حدِّ فاصل کے طور پر کانٹے دار بیریاں لگا دی جاتی ہیں۔ پس آسمان پر ہر گز کوئی بیری کا درخت نہیں اُگا ہوا تھا کہ جس سے پرے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نہیں جا سکتے تھے۔ یہ ایک انتہائی مضحکہ خیز تفسیر ہے جو ازمنٔہ وسطیٰ کے بعض مفسرین نے کی ہے۔ مراد صرف اتنی ہے کہ حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اس ارفع مقام تک اللہ تعالیٰ کا قرب پا گئے جس کے ورے کسی بندے کی رسائی ممکن نہیں تھی کیونکہ اس کے بعد پھر اللہ تعالیٰ کی صفات تنزیہی کا مضمون شروع ہو جاتا ہے۔

اس کے بعد کفار کے فرضی خداؤں کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ ان کے وجود کا کوئی ثبوت ان کے پاس نہیں۔ صرف اٹکل پچّو سے کام لیتے ہیں۔ پس یہی ان کا تمام تر علم ہے۔

یہاں شِعْرٰی سے مراد وہی النَّجم ہے جسے مشرکوں نے خدا بنا رکھا تھا۔ اس کے بعد گزشتہ مشرک قومیں شرک کے نتیجہ میں جس بد انجام کو پہنچیں ان کا بطور عبرت اختصار کے ساتھ ذکر ہے۔

(قرآن کریم اردو ترجمہ مع سورتوں کا تعارف از حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ،صفحہ959-960)

سورۃ القمر

یہ سورت مکہ میں نازل ہوئی اور بسم اللہ سمیت اس کی چھپن آیات ہیں۔

اس سے پہلی سورت میں مشرکوں کے مصنوعی خدا ’’شِعْریٰ‘‘ کے گرنے کا ذکر ہے گویا یہ پیشگوئی کی گئی ہے کہ شرک اپنے فرضی خدا سمیت ضرور ہلاک کر دیا جائے گا۔

اب سورۃ القمر کے آغاز ہی میں یہ خبر دے دی گئی کہ وہ گھڑی آگئی ہے اور اس پر چاند نے دو ٹکڑے ہو کر گواہی دے دی۔ چاند سے مراد عربوں کا بادشاہت کا دَور ہے اور چاند کی یہ تفسیر بھی خود آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہے۔ پس اب ہمیشہ کے لئے مشرکین کی بادشاہت کا دَور ختم ہوا اور وہ گھڑی آگئی جو انقلاب کی گھڑی تھی اور جو حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے ساتھ برپا ہونی تھی۔

اس کے بعد ایک ایسی آیت ہے جس سے قطعی طور پر ثابت ہوتا ہے کہ اس وقت کے مشرکین نے چند لمحوں کے لئے چاند کو یقیناً دو حصوں میں بٹتے ہوئے دیکھا تھا۔ اس کے متعلق مفسرین نے غلط یا صحیح بہت سی تفاسیر کی ہیں لیکن اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کیونکہ اگر مشرکین نے یہ نظارہ چاند کے بٹنے کا دیکھا نہ ہوتا تو فوراًاس واقعہ کے ظہور کا انکار کر دیتے اور مومنین بھی اپنے ایمان سے پھر جاتے کیونکہ ایمان کی تمام تر بنیاد حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صدق پر تھی۔ ’’سِحْرٌ مُسْتَمَرٌ‘‘ کہہ کر مشرکین مکہ نے گواہی دے دی کہ واقعہ تو ضرور ہوا ہے لیکن جادو ہے اور اس قسم کے جادو محمدؐ ہمیشہ دکھاتے رہتے ہیں۔

اس کے بعد ایک دفعہ پھر گزشتہ مشرک قوموں کا ذکر ہے کہ ہر ایک نے اپنے وقت کے رسول کو مجنون ہی قرار دیا تھا اور وہ یکے بعد دیگرے اپنے کفر اور گستاخیوں کے نتیجہ میں ہلاک کر دی گئیں۔

اس سورت میں ایک آیت کی بار بار تکرار کی گئی ہے کہ ہم نے قرآن کریم کو نصیحت حاصل کرنے کے لئے آسان بنایا ہے یعنی گزشتہ قوموں کے حالات پر کوئی معمولی سا بھی غور کرتا تو اس کو آسانی سے یہ بات سمجھ آسکتی تھی کہ دنیا میں سب سے بڑی تباہی شرک نے پھیلائی ہوئی ہے۔ لیکن کوئی ہے جو نصیحت پکڑنے والا ہو۔ نہ پہلوں میں سے اکثر نے نصیحت پکڑی اور نہ بعد میں آنے والوں میں سے اکثر نصیحت پکڑتے ہیں

(قرآن کریم اردو ترجمہ مع سورتوں کا تعارف از حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ، صفحہ 966)

(عائشہ چودہری۔جرمنی)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 2 فروری 2022

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ