• 30 اپریل, 2024

حضرت مولوی غلام احمد اخترؓ

تعارف صحابہ کرام ؓ
حضرت مولوی غلام احمد اختر رضی اللہ عنہ۔ اوچ شریف

حضرت مولوی غلام احمد اخؔتر رضی اللہ عنہ اوچ شریف ضلع بہاولپور کے رہنے والے تھے اور ریاست بہاولپور میں ضلعدار نہر تھے۔ آپ ایک جید عالم اور فارسی کے ممتاز شاعر تھے۔ آپ حضرت خواجہ غلام فرید صاحب رحمۃ اللہ علیہ آف چاچڑاں شریف کے حلقہ ارادت میں تھے اور اکثر آپ کی خدمت میں حاضر ہوتے اور حضرت خواجہ صاحب بھی ان سے للہی محبت رکھتے۔ (حیات احمد مصنفہ حضرت شیخ یعقوب علی عرفانیؓ۔ جلد چہارم صفحہ 496) آپ کو سلسلہ احمدیہ میں شمولیت اور حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کا صحابی ہونے کا شرف حاصل ہوا۔ حضرت خواجہ غلام فرید صاحب کے ملفوظات پر مشتمل کتاب ’’مقابیس المجالس المعروف بہ اشارات فریدی‘‘ میں بھی آپ کا ذکر موجود ہے خصوصًا ان جگہوں پر جہاں حضرت خواجہ صاحبؒ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے متعلق گفتگو فرمائی ہے۔آپ اس بات کا تذکرہ کیا کرتے تھے کہ حضرت خواجہ صاحب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے لیے بہت احترام کا اظہار فرماتے تھے۔ جولائی 1922ء میں آپ نے حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی خدمت میں عرض کیا کہ ’’حضرت خلیفہ اول جب دربار بہاولپور میں بغرض علاج نواب صاحب طلب کیے گئے تو پہلے حضرت خواجہ غلام فرید چاچڑانی سے بھی استصواب کیا گیا تھا، اس پر بعض لوگ جو ریاست میں اس وقت ممتاز عہدوں پر تھے اور اپنے آپ کو دیندار خیال کرتے تھے، انہوں نے یہ اعتراض کیا کہ ’’حضرت صاحب‘‘ (مراد حضرت خواجہ غلام فرید) بعض اوقات تو دین کا کچھ باقی نہیں رہنے دیتے، اب ’’مرزائی‘‘ کے بلائے جانے کا مشورہ دے دیا ہے۔ جب یہ بات ایک ذریعہ سے خواجہ صاحب کے پاس پہنچی تو آپ نے فرمایا کہ مرزا صاحب کا کلام شیخ اکبر کی طرح عمیق ہے یہ لوگ اس کو سمجھتے نہیں، یونہی چلاتے ہیں۔‘‘

(الفضل 17اگست 1922ء صفحہ 6)

حضرت شیخ یعقوب علی عرفانی رضی اللہ عنہ لکھتے ہیں: ’’مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی …. چاچڑاں پہنچا اور وہاں جاکر علمائے ہند و پنجاب کے فتویٰ کو پیش کیا اور مختلف طریقوں سے اُن پر اثر ڈالا کہ وہ اپنے خط کے خلاف کوئی ایسی تحریر دے دیں جس سے ان اعترافاتِ تکریم کی تردید ہو اور ان کے فتویٰ کفر کی تائید۔ حضرت مولوی غلام احمد اختر ان ایام میں وہاں موجود تھے اور ان کو خطرہ تھا کہ مولوی محمد حسین صاحب اپنی بلیسِ ابلیس میں کامیاب نہ ہو جائیں۔ یہ خطرہ اس لیے نہ تھا کہ اس سے سلسلہ کو نقصان پہنچے گا بلکہ اس وجہ سے کہ ان کو حضرت خواجہ صاحب سے جو ارادت تھی اس کا تقاضا تھا کہ حضرت خواجہ صاحب کے کسی جدید بیان سے ان کی شان میں نقص نہ پیدا ہو۔ حضرت خواجہ صاحب نے ان کو پریشان پاکر فرمایا کہ آپ فکر نہ کریں، میں اس کو خوبصورتی سے ٹلا دوں گا۔ حضرت خواجہ صاحب نے مولوی محمد حسین صاحب کے فتویٰ اور مباحثات کے سلسلہ میں فرمایا کہ ہم لوگ علمائے ظاہر کے طرز پر مباحثات اور فتاویٰ سے کام نہیں رکھتے، آپ نے اپنا فرض تبلیغ ادا کردیا۔‘‘

(حیات احمد جلد چہارم صفحہ 496,497 از حضرت شیخ یعقوب علی عرفانی صاحبؓ)

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات کے بعد صدق دل سے خلافت کے ساتھ وابستہ رہے اور خلافت ثانیہ کے موقع پر علیحدگی اختیار کرنے والوں کے روّیے پر نہایت تأسف کرتے ہوئے، نہ صرف خود فورًا مبائعین میں شامل ہوئے بلکہ اپنے علاقہ کے قریبًا پچاس افراد کو بھی دامن خلافت سے بیعت کرایا۔ اس موقع پر لکھے گئے آپ کے دو خطوط اخبار الحکم اور الفضل میں شائع شدہ ہیں جو ذیل میں دیے جاتے ہیں:
اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ وَرَحْمَةُ اللّٰہِ وَبَرَکَاتُہٗ۔ جماعت میں وقوع اختلاف کا افسوس ہے اور مولوی محمد علی صاحب ترجمہ قرآن سے فارغ ہو کر عجب میں مبتلا ہوگئے ہیں، ان کا بھی افسوس ہے وہ اونچی جگہ سے گرے ہیں۔ صد افسوس انہوں نے اَنْ اَقِیْمُوْا الدِّیْنَ وَلَا تَتَفَرَّقُوْا اور ما ضلَّ قَومٌ بَعْد ھُدی کانوا عَلَیھا اِلّا اولوالجدال کی پرواہ نہیں کی۔ جن دلائل سے وہ خصم کا مقابلہ مدۃ العمر کرتے رہے وہی یکدم اپنے اوپر وارد کر لیں، انہوں نے نہ سمجھا کہ وسعت مشرب ایک خوبی ہے مگر وسعت کی حد وہی بہتر ہے جو الٰہی تعلیم مقرر کر دیتی ہے….. جماعت احمدی اوچ شریف کا اقرار بیعت منجانب 54 مرد و زن ارسال ہے، قبول فرما کر دعاؤں میں شامل فرمایا جاوے اور میرا لڑکا بشیر اوچی زبان آوروں کے زیر اثر آگیا ہے اس کے لیے بہت دعا فرمائی جاوے۔ اوچ شریف میں میلہ ہوتا ہے لاکھ سے زیادہ آدمی جمع ہوتے ہیں، جو نصائح مسلمان کر سکتے ہیں سب ہوتی ہیں یہاں ان کے مقابل وعظ کا انتظام کیا جاتا ہے۔ جماعت نے ملتان میں بھی حافظ روشن علی صاحب کی خدمت دعوت کا عرض کیا تھا، حضور ان کو معہ ایک واعظ مثل شیخ غلام احمد صاحب یا مولوی غلام رسول راجیکی کے روانہ فرماویں جو یکم ورنہ 2؍ اپریل کو ضرور وہ کرانچی لائن چنی گوٹھ سٹیشن پر اتریں، سواری موجود ہوگی۔ دعاؤں میں یاد رکھا جاوے۔ والسلام

(خاکسار غلام احمد از اوچ ریاست بہاول پور)

(الحکم 28 مارچ 1914ء صفحہ 4,5)

ایک اور جگہ لکھا: ’’جن لوگوں نے تفرقہ جماعت میں ڈالا ہے وہ خواہ کیسے اہل قلم اور کیسے زبان آور ہوں، جواب دہ ہوں گے۔ آج تک حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب جماعت کے محمود اور ممدوح تھے، آج ان کی نسبت انکار کے آواز آرہے ہیں۔ افسوس چالیس آدمی کی بیعت کی حالت میں انکار و افتراق جائز نہ تھا، ان لوگوں نے صدہا کی بیعت کے بعد بھی انکار کیا ….. مَیں نے بمعہ تمام جماعت احمدیہ اوچ زن و مرد کے حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب خلیفہ ثانی کے ہاتھ پر بیعت کر لی ہے۔ میں نے مولوی محمد علی صاحب کے اعلان کو دیکھا ہے، انہوں نے ایسا کیا ہے جو اُن کو زیبا نہ تھا …. غلام احمد اختر ضلعدار از اوچ شریف‘‘

(الفضل یکم اپریل 1914ء صفحہ 18)

آپ اپنے علاقہ میں تبلیغ اور اشاعت میں کوشاں رہتے، مرکز سے واعظین کو بلا کر مجالس کا اہتمام کراتے۔ نظارت دعوت و تبلیغ قادیان ایک جگہ لکھتی ہے: ’’مولوی غلام احمد صاحب اخترؔ اوچ ریاست بہاولپور کے مرکز سے ریاست میں کام کریں گے۔‘‘ (الفضل 23فروری 1926ء صفحہ 2) آپ ایک علمی شخصیت تھے، نظم و نثر دونوں میں اچھا لکھتے تھے، جماعتی لٹریچر میں شائع شدہ آپ کے مضامین اور نظموں کی ایک فہرست ذیل میں دی جاتی ہے:

خاتم النبیین کے متعلق آپ کے مضمون بدر 18؍نومبر 1909ء اور بدر 30دسمبر 1909ء میں شائع شدہ ہیں۔

مضمون ’’النبوۃ بعد نبینا محمد خاتم النبیینؐ‘‘ (بدر 25؍مئی 1911ء صفحہ 3 تا 5)

مضمون بعنوان ’’الصادق و المصدّق و المصدوق‘‘ جو ابن عربیؓ کی تفسیر سورۃ زخرف آیت 62 کے حوالے سے حضرت عیسیٰؑ کی آمد ثانی کے متعلق ہے۔ (بدر 28؍اپریل و 5؍مئی 1910ء صفحہ 3) اسی اخبار میں صفحہ 5 پر اپنی ساری تنخواہ چندہ میں دینے کا عمدہ نمونہ (منشی غلام احمد صاحب اخترؔ سکنہ اوچ ضلع بہاولپور تحریر فرماتے ہیں کہ چٹھی جدید متعلق چندہ تعمیر پہنچی۔ اگرچہ مجھے سخت ضروریات ہیں مگر اسے مقدم قرار دے کر اپنی ساری تنخواہ مبلغ۔۔۔۔ آج ہی بذریعہ منی آرڈر ارسال ہے۔‘‘

  • آپ کا عربی مکتوب (الفضل 25؍ اپریل 1914ء صفحہ 2)
  • مسئلہ کفر و اسلام پر آپ کا مضمون (الفضل یکم جون 1914ء صفحہ 17،18)
  • آپ کی نظم در اہدائے کتاب لطیفہ اخترؔ (الفضل 16جنوری 1922ء صفحہ8)
  • رباعیات اختر (الفضل 19جنوری 1922ء صفحہ 11کالم 3)
  • جنوری 1922بعد نماز عصر آپ نے حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ کے حضور اپنی نظم سنائی۔ (الفضل 9فروری 1922ء صفحہ 1,2)
  • ’’جناب مولوی غلام احمد صاحب اخترؔ نے حضرت مسیح موعود کی نظم مندرجہ براہین احمدیہ حصہ پنجم کے ایک حصہ کا فارسی میں منظوم ترجمہ حضرت خلیفۃ المسیح کو سنایا۔‘‘ (الفضل 17جولائی 1922ء صفحہ1کالم1)
  • آپ کی نظم مسدس جو جلسہ سالانہ 1922ء پر پڑھی (الفضل 11جنوری 1923ء صفحہ 1,2)
  • بحضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ (الفضل 29جنوری 1923ء صفحہ 1,2)
  • آپ کی نظم (الفضل 18جنوری 1924ء صفحہ 1,2)
  • نظم (فاروق 12؍ستمبر 1918ء صفحہ 2،1)
  • ضیاء اختر۔ حضرت خلیفۃ المسیح ثانی رضی اللہ عنہ کی نظم پر ایک بابی نے منہ چڑایا اور تضمین سے پاک معنوں میں تحریف کی اور ’’اَلْقَی الشَّیْطٰنُ فِی اُمْنِیَّتِہٖ‘‘ کا مصداق بنا، جناب مولانا غلام احمد صاحب اخترؔ (اوچ) اس پر شہاب ثاقب گراتے ہیں: (الفضل 19اگست 1924ء صفحہ 2)
  • حضرت مولوی نعمت اللہ خان صاحب شہید افغانستان کے متعلق نظم (الفضل 2اکتوبر 1924ء صفحہ 1,2)
  • نظم بمسرت مراجعت حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ (الفضل 25نومبر 1924ء صفحہ 20)
  • آپ کی نظم جو 5؍جنوری 1925ء کو حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کے حضور پڑھی گئی: (الفضل 20جنوری 1925ء صفحہ 1,2)
  • جلسہ سالانہ 1925ء پر اپنی ایک مسدس پڑھنا (الفضل 12جنوری 1926ء صفحہ 8)
  • شان رسول اللہ ﷺ (نعتیہ کلام) (الفضل یکم نومبر 1927ء صفحہ 19۔ یہ نظم مجلس میلاد جامع مسجد بہاولپور میں پڑھی گئی۔)
  • جلسہ سالانہ کے لیے طویل نظم (الفضل 19 فروری 1933ء صفحہ 9)
  • 1934ء میں احرار کی یورش کے جواب میں حضرت حافظ مختار احمد صاحب شاہجہانپوری رضی اللہ عنہ کی نظمیں بعنوان ‘‘بیان اہل درد’’ جماعت میں اس قدر مقبول ہوئیں کہ بعض دیگر احمدی شعراء نے بھی اس زمین میں طبع آزمائی کی، حضرت اخترؔ صاحب نے بھی نظم کہی جو یوں ہے: (الفضل 15جنوری 1936ء صفحہ 3)
  • حضور کے سفر سندھ کے موقع پر سٹیشن ڈیرہ نواب پر حضور سے شرف ملاقات حاصل کرنا اور اپنی فارسی نظم سنانا (الفضل 5فروری 1936ء صفحہ 2)( الفضل 11فروری 1936ء صفحہ 2)
  • حضور کے سفر سندھ سے واپسی پر فارسی نظم (الفضل 29فروری 1936ء صفحہ 2)
  • حضرت ابوالعطاء جالندھری صاحب کی بلاد عربیہ سے واپسی پر فارسی میں نظم (الفضل 25اپریل 1936ء صفحہ 7)
  • حضور ؓکے سفر سندھ سے واپسی کے موقعپر اپنی فارسی نظم سنانا (الفضل 9؍جون 1938ء صفحہ 7۔ الحکم 9؍جون 1938ء صفحہ 7)

آپ نے 1942ء میں وفات پائی، اخبار الفضل نے خبر وفات دیتے ہوئے لکھا:
’’یہ خبر نہایت رنج اور افسوس کے ساتھ سنی جائے گی کہ حضرت مولوی غلام احمد صاحب اختر آف اوچ شریف ریاست بہاولپور جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مخلص صحابی اور فارسی کے بہت بڑے عالم تھے، وفات پاچکے ہیں، اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّاۤ اِلَیۡہِ رٰجِعُوۡنَ۔ حضرت مولوی صاحب نے گزشتہ نومبر میں بہاولپور میں پتھری کا اپریشن کرایا تھا مگر صحت نہ ہوئی اور اسی تکلیف میں آخر انہوں نے فروری 1942ء میں وفات پائی۔ چونکہ ان کے پسماندگان میں سے کوئی احمدی نہیں اس لیے کسی نے اطلاع نہیں دی اور اب ایک احمدی نے یہ اطلاع دی ہے، احباب حضرت مولوی صاحب مرحوم کے لیے دعائے مغفرت کریں۔‘‘

(الفضل 8؍جولائی 1942ء صفحہ 2)

(غلام مصباح بلوچ۔استادجامعہ احمدیہ کینیڈا)

پچھلا پڑھیں

جلسہ سالانہ سینیگال 2021ء

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 3 فروری 2022