• 5 مئی, 2025

جلسہ سیرت النبی ؐ

مؤرخہ 18دسمبر 2021ء کو جامعہ احمدیہ جرمنی میں مجلس ارشاد کے انتظام کے تحت جلسہ سیرت النبی ﷺ منعقد کیا گیا۔ کورونا کی وبائی صورت حال کے پیش نظر جلسہ کے پروگرام کو مختصر رکھا گیا۔جلسہ کی صدارت مکرم شمشاد احمد قمر، پرنسپل جامعہ احمدیہ جرمنی نے فرمائی۔

جلسہ کا آغاز تلاوت قرآن کریم سےہواجو عزیزم عدنان احمد بٹ نے پیش کی۔تلاوت کے بعد عزیزم ماہد الیاس نےحضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کا آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی مدح میں لکھا ہوا نعتیہ کلام پیش کیا۔ اس کے بعد عزیزم محفوظ احمد منیر، متعلم جامعہ احمدیہ جرمنی نے تقریر بعنوان ’’آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے عبادات کا انداز‘‘ پیش کی۔ موصوف نے واقعات کی رو شنی میں آپ ﷺ کی عبادات کا ذکر فرمایا۔ جس میں آپ ﷺ کی نماز کی کیفیت، نماز تہجد کے وقت خشوع و خضوع، تلاوت قرآن کا خاص اہتمام اور صحابہ ؓ کو بھی ترغیب دلاناوغیر ہ کے پہلوؤں پر روشنی ڈالی۔

مکرم شمشا د احمدقمر، پرنسپل جامعہ احمدیہ جرمنی نے اپنی تقریرمیں طلباء کے سامنے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے عظیم وصف صبرو برداشت اور توہین رسالت کے نام پر بنائے گئے قوانین جس پر علماء ناصرف خود بلکہ عوام کو بھڑکا کر آپ ﷺ کے نام پر قتل و غارت کرواتے ہیں کی حقیقت بیان فرمائی۔ قرآن اور احادیث کی رو سے بیان کیا کہ ہر زمانہ میں انبیاء کی توہین کی جاتی رہی ہے۔ مگر انہیں کبھی سز ا نہ دی گئی۔ آنحضورﷺ کے زمانہ میں آپﷺ کی توہین کی گئی اور کئی صحابہ تھے جو آپﷺ سے اجازت مانگنے آتے تھے کہ وہ توہین کرنے والے کو قتل کردیں مگر حضورﷺ نے کبھی ان کو اس کی اجازت نہ دی۔ یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ جس کی توہین کی جائے وہ خود معاف کر سکتا ہے مگر دوسرا گستاخ رسول کو سزا دے سکتاہے اس حوالے سے بیان کیا کہ آنحضور ﷺکے زمانہ میں یہود و نصاری کا کئی انبیاء کے بارہ میں ایسا عقیدہ تھا جس سے وہ ان مقدس وجودوں کی توہین کے مرتکب ہوتے تھے لیکن آنحضورﷺ نے ان کے خلاف کبھی کوئی ہتک رسول کا فیصلہ نہ فرمایا۔

آج کل ایک حدیث منْ سَبَّ نبیاً فَاقْتُلُوْہٗ کہ جس نے نبی کو گالی دی اسے قتل کردو،توہین رسالت کے حوالے سے بہت پیش کی جاتی ہے۔اس حدیث پر جرح کرتے ہوئے بیان کیا کہ یہ حدیث ضعیف اور قابل قبول نہیں ہے۔ آخر پر آپ نے قرآنی آیات کی روسے دین پر استہزاء اور رسول کی توہین واقع ہونے پر مسلمانوں کو دی گئی قرآنی تعلیم بیان کی اور بتایا کہ آنحضورﷺ کو بھی خدا نے دشمن کے خلاف تلوارکے ساتھ دفاع کی اجازت دی کیونکہ دشمن بھی تلوار کا استعمال کر رہاتھا۔اسی طریق سے اس جواب دیا گیا۔اسی طرح اگر دشمن زبانی یا تحریری حملہ کر رہا ہے تو اس کا جواب بھی پھر زبانی یا تحریری طور پر دینا ہے نہ کہ اسے قتل کر دیا جائے۔

پروگرام کا اختتام دعا سے ہوا۔

(حامد اقبال ۔شعبہ تاریخ جامعہ جرمنی)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 2 فروری 2022

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ