• 18 اپریل, 2024

زنا ایک گناہ عظیم

دوسری شرط بیعت
زنا ایک گناہ عظیم

میں دنیا پہ دیں کو مقدم کروں گا
اسی عہد پر اپنے قائم رہوں گا
جئیوں گا مروں گا گروں گا پڑوں گا
مگر قول دے کر نہ ہر گز پھروں گا

(از بخار دل)

حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جماعت احمدیہ میں شامل ہونے کے لیے جو دس شرائط بیعت افراد کے سامنے رکھیں ان میں آپ نے اپنی جماعت کو روحانی طور پر پاک کرنے کے لیے تمام اسلامی تعلیمات کا نچوڑ پیش کر دیا ہے جن پر عمل کر کے ایک عام انسان سے حقیقی مومن بننے کا سفر بآسانی طے کیا جا سکتا ہے۔

حضرت خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے جلسہ سالانہ قادیان 2022ء سے خطاب کرتے ہوئے دوسری شرط بیعت کی تفصیل بتاتے ہوئے نو گناہوں کا ذکر فرمایا۔جس گناہ کا ذکر اس مضمون میں بیان ہو گا وہ زنا ہے جو کہ گناہ عظیم ہے۔ یعنی مرد و عورت کا ایک دوسرے کے ساتھ بغیر شادی کے جنسی تعلق قائم کرنا۔ یہ دونوں فریقین کی رضا سے بھی ہوتا ہے جسے زنا بالرضا اورجو زور زبردستی سے کیا جائے اسے زنا بالجبر کہتے ہیں۔

زنا کی بابت کتاب رحمان میں بڑی واضح ہدایات موجود ہیں کہ وہ کس قدر برائیوں اور بے حیائیوں کا راستہ کھولنے والا ہے اور اس سے بچنا از حد ضروری ہے، ہر شریف طبع اس فعل سے کراہت محسوس کرتا ہے۔

حضرت امیر المومنین خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:

پھر اسی شرط دوم میں زنا سے بچنے کی شرط ہے۔ تو اس بارہ میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

وَلَا تَقۡرَبُوا الزِّنٰۤی اِنَّہٗ کَانَ فَاحِشَۃً ؕ وَسَآءَ سَبِیۡلًا ﴿۳۳﴾

(بنی اسرائیل: 33)

یعنی زنا کے قریب نہ جائو یقینا ً یہ بے حیائی ہے اور بہت برا راستہ ہے۔

ایک حدیث ہے۔ محمد بن سیرین روایت کرتے ہیں کہ آنحضرتﷺ نے درج ذیل امور کی نصیحت فرمائی، پھر ایک لمبی روایت بیان کی جس میں سے ایک نصیحت یہ ہے کہ عفت یعنی پاک دامنی اور سچائی، زنا اور کذب بیانی کے مقابلہ میں بہتر اور باقی رہنے والی ہے۔

(سنن الدارمی۔ کتاب الوصایا۔ باب مایستحبّ بالوصیۃ من التشھد والکلام)

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ
’’زنا کے قریب مت جاؤ یعنی ایسی تقریبوں سے دور رہو جن سے یہ خیال بھی دل میں پیدا ہو سکتا ہو اور ان راہوں کو اختیار نہ کرو جن سے اس گناہ کے وقوع کا اندیشہ ہو۔ جو زنا کرتا ہے وہ بدی کو انتہا تک پہنچا دیتا ہے۔ زنا کی راہ بہت بری ہے یعنی منزل مقصود سے روکتی ہے اور تمہاری آخری منزل کے لیے سخت خطرناک ہے اور جس کو نکاح میسر نہ آوے چاہئے کہ وہ اپنی عفت کو دوسرے طریقوں سے بچاوے۔ مثلاً روزہ رکھے یا کم کھاوے یا اپنی طاقتوں سے تن آزار کام لے۔‘‘

(اسلامی اصول کی فلاسفی، روحانی خزائن جلد10 صفحہ342)

دو عضو اپنے جو کوئی ڈر کربچائے گا
سیدھا خداکے فضل سے جنت میں جائےگا
وہ ایک زباں ہے عضونہانی ہے دوسرا
یہ ہے حدیث سیدنا سید الوریٰ

(درثمین)

اس بُرائی اور بے حیائی کے راستے سے بچنے کے لیے جہاں یہ تدبیر بتائی گئی ہے کہ مومن مرد اور مومن عورتیں اپنی نگاہوں کو بچا کر رکھیں وہیں نکاح کو اس سے بچنے کا عملی ذریعہ بتایاگیا۔ سورۂ المؤمنون میں جب ان خوش قسمت افراد کا تذکرہ ہوا جو آخرت میں جنت کے وارث بنیں گے تو ان کی خصوصیت بتلاتے ہوئے خدائے رحمان و رحیم نے فرمایا کہ وہ اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرتے ہیں۔ وَالَّذِیۡنَ ہُمۡ لِفُرُوۡجِہِمۡ حٰفِظُوۡنَ ۙ﴿۶﴾ اور اس بُرائی اور بے حیائی کے راستے سے بچنے اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کا طریق بھی بتلا دیا کہ اِلَّا عَلٰۤی اَزۡوَاجِہِمۡ سوائے اپنی بیویوں/شوہروں کے، یعنی نکاح جیسا مقدس عمل ہی شرم گاہوں کی حفاظت کا عملی ذریعہ اور زنا جیسے عظیم گناہ سے بچنے کا طریق بھی ہے۔ اسی لیے نکاح کو آسان بنانا چاہیے اور اس کی ترغیب دینی چاہیے تاکہ زنا کی روک تھام ہوسکے۔

فی زمانہ جہاں ہر طرف ہمیں اخلاقیات کے جنازے نکلتے دکھائی دیتےہیں۔ بے پردگی اور بے حیائی، بے راہروی عام ہے۔ ایسے ایسے شرمناک واقعات نگاہوں سے گزرتے ہیں کہ انسانیت کانپ کر رہ جاتی ہے۔ انسان جنسی لحاظ سے درندرہ بن چکا ہے۔ معصوم بچے بچیاں بھی جنسی درندگی کا نشانہ بنائے جا رہے ہیں۔ مغربی اور اب تو مسلمان ممالک میں بھی یہ برائی عام ہو چکی ہے۔ مغرب نے تو اس کو اس قدر عام کر دیا ہے کہ وہاں کوئی ان تعلقات کو برا نہیں سمجھتا بلکہ اسے معاشرے میں اس طرح رواج دیا جا چکا ہے جیسے وہ کوئی برائی نہ ہو۔ اس کے نتیجے میں خاندانی نظام ختم ہو چکا ہے۔ اس ناجائز تعلق کے نتیجے میں پیدا ہونے والی اولاد کی قسمت میں مکمل خاندان کا سکون کم ہی آتا ہے۔ اکثر عورت کو ہی ایسی اولاد کی دیکھ بھال تن تنہا کرنی پڑتی ہے۔ ایسے تعلقات کے نتائج پھر منشیات کے استعمال، ڈیپریشن، اور دیگر لغویات پر منتج ہوتے ہیں -خدا تعالیٰ کے ہر حکم میں ایک حکمت موجود ہے۔ زنا کو جو گناہ عظیم قرار دیا گیا ہے اس کو جب ہم معاشرتی اور عمومی طور پر بھی دیکھتے ہیں تو اس کے صرف نقصان ہی نقصان ہیں۔ بے شک خدا تعالیٰ نے ہر انسان کی افزائش نسل کے لیےجنسی عمل رکھا ہے جو ہر بالغ انسان کی ضرورت بھی ہے لیکن اسے نکاح جیسے مقدس رشتے کے بعد جائز قرار دیا گیا اور نکاح بھی وہ جو علی الاعلان کیا جائے خفیہ نکاح کو بھی نا پسند ٹھہرایا گیا۔ نکاح میں گواہان کی موجودگی میں ایجاب و قبول کے بعد دو افراد کو ایک جائز تعلق میں رہنے کی اجازت دی گئی۔ اس تعلق کے نتیجے میں پیدا ہونے والی اولاد کی ذمہ داری مرد و عورت دونوں پر برابر عائد ہوتی ہے۔ مرد نکاح کر کے ایک عورت کو اپنی ذمہ داری میں لیتا ہے۔ اس کے نان نفقہ کا ذمہ دار ہوتا ہے۔ اولاد اس کے نام و نسب سے جانی جاتی ہے۔ یہ تمام باتیں زنا میں ہونا ممکن نہیں۔ ایک مرد یا عورت ایک وقت میں کئی کئی مرد اور عورتوں سے جنسی تعلق قائم کرتے ہیں۔ لیکن اگر اس فعل کے نتیجے میں اولاد ہو تو اکثر یہ علم ہونا بھی مشکل ہوتا ہے کہ وہ کس کی اولاد ہے اور عموماً مرد اس سے لاتعلقی کا اظہار کرتا ہے۔ جبکہ باقاعدہ نکاح میں جب دونوں فریقین کے گھر والوں کی رضامندی بھی شامل حال ہوتی ہے تو وہ عموماً کسی بھی قسم کی ہونے والی بدمزگی میں وہ عزیز و اقارب ان کا ساتھ دیتے ہیں۔ خاندانی نظام کو قائم رکھنے کی یہ کاوشیں شادی شدہ جوڑوں اور ان کی جائز اولاد کے حصے میں آتی ہے۔ جبکہ دوسری صورت میں جب سب کچھ خفیہ اور پوشیدہ ہوتا ہے تو ہر کسی کے دل میں ایک شک کی سی کیفیت رہتی ہے اولاد کو لے کر بھی اور اپنے تعلق کو لے کر بھی۔ غرض جو سکون اطمیان ایک شادی میں ہونا چاہیے وہ زنا کے اور اس طرح کے ناجائز تعلقات میں ناپید ہوتا ہے۔

شادی کا مقصد ایک نیک ساتھی کا حصول ہے- جس سے آپ کی نسل چلتی ہے جس میں مرد قوام ہوتا ہے عورت کے تمام حقوق ادا کرنے کا ذمہ دار گھر کا سربراہ جو اپنے گھر کا محافظ ہوتا ہے اور عورت اس کی عزت و عصمت ہوتی ہے عورت کا فرض اس کے گھرکی دیکھ بھال اس کی نسل کو پروان چڑھنا ان کی بہتر تعلیم و تربیت اور ایک دوسرے کو سکون پہنچانا جسمانی اور ذہنی اور روحانی ہر طرح سے۔ اس لیے جب انسان بلوغت کی عمر کو پہنچ جائے تو والدین کو چاہیے کہ جلد از جلد اس کی شادی کا انتظام کیا جائے۔ تاکہ وہ گناہ کے راستوں پر چلنے سے محفوظ رہے۔ نیز شادی کے بعد دونوں فریقین کو ایک دوسرے کے جذبات و احساسات کا خیال رکھنا چاہیے تاکہ کوئی فریق اس بارے میں سوچے اور گھر میں ہی اپنی ہر جائز ضرورت پوری کرئے۔ نکاح کا حقیقی مقصد تقویٰ کا حصول ہے اور تقویٰ متقیٰ کو زنا جیسے گناہ کبیرہ سے دور رکھتا ہے اور اس طرح معاشرہ میں بھی سکون وامن برقرار رہتا ہے۔لیکن اگر زنا عام ہو جائے تو جسمانی،اخلاقی اور روحانی بیماریوں کی کثرت ہو جاتی ہے۔

آنحضرت صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے:
’’جب بھی کسی قوم میں فحاشی اور عریانی کا رواج بڑھتا ہے یہاں تک کہ وہ کھلم کھلا بے حیائی کرنے پر تل جاتے ہیں تو ایسے لوگوں کے درمیان طاعون اور اس جیسی ایسی بیماریاں پھیل جاتی ہیں جو ان کے گزرے ہوئے اسلاف کے زمانے میں موجود نہیں تھیں۔‘‘

(سنن ابن ماجہ كتاب الفتن باب العقوبات)

اور یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں کہ آج کی دنیا ہر لحاظ سے بیمار ہو چکی ہے۔ ہر طرف گناہ اور برائی کے سامان موجود ہیں اور سب کچھ ایک چھوٹے سے موبائل فون میں قید ہے اور ہر خاص و عام تک اس کی رسائی موجود ہے۔ فی زمانہ بدی میں مبتلا ہونا نہایت آسان ہے اگر خدا تعالیٰ کی مدد اور اس کا احسان نہ ہو تو۔

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایده الله تعالیٰ بنصره العزیز اسی ضمن میں ارشاد فرماتے ہیں:
’’چھپی ہوئی فواحش …ایسی ہیں جو بعض دفعہ انسان کو متأثر کرتے ہوئے بہت دُور لے جاتی ہیں۔ مثلاً بعض دفعہ غلط نظارے، غلط فلمیں ہیں، بالکل عریاں فلمیں ہیں۔ اس قسم کی دوسری چیزوں کو دیکھ کرانسان آنکھوں کے زنا میں مبتلا ہورہا ہوتا ہے۔ پھر خیالات کا زنا ہے، غلط قسم کی کتابیں پڑھنا یا سوچیں لے کر آنا۔بعض ماحول ایسے ہیں کہ ان میں بیٹھ کر انسان اس قسم کی فحشاء میں دھنس رہا ہوتا ہے۔ پھر کانوں سے بے حیائی کی باتیں سننا بھی زنا كے مقدمات ہیں۔‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ 12؍دسمبر 2003ء)

پھر مزید فرمایا:
’’یہ جو زنا ہے یہ دماغ کا اور آنکھ کا زنا بھی ہوتا ہے اور پھر یہی زنا بڑھتے بڑھتے حقیقی بُرائیوں میں مبتلا کر دیتا ہے۔ ماں باپ شروع میں احتیاط نہیں کرتے اور جب پانی سر سے اونچا ہو جاتا ہے تو پھر افسوس کرتے اور روتے ہیں کہ ہماری نسل بگڑ گئی، ہماری اولادیں برباد ہو گئی ہیں۔ اس لیے چاہئے کہ پہلے نظر رکھیں۔ بیہودہ پروگراموں کے دوران بچوں کو ٹی وی کے سامنے نہ بیٹھنے دیں اور انٹر نیٹ پر بھی نظر رکھیں… اگر ماں باپ کسی قسم کی کمزوری دکھائیں گے تو اپنے بچوں کی ہلاکت کا سامان کر رہے ہوں گے۔‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ 23؍اپریل 2010ء)

ایک حقیقی احمدی جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت میں ہے وہ اگر ان شرائط پر عمل نہیں کر رہا تو وہ احمدی کہلانے کا حق دار نہیں وہ ہر گز اس محفوظ قلعے کے حصار میں نہیں جس میں آنے والے کو عافیت کی بشارت دی گئی ہے۔ تو خدا سے یہ دعا مسلسل اور لگاتار کرنی چاہیے کہ وہ ہمیشہ ہمیں سیدھے راستے پر چلائے اور ہر نیکی کا راستہ اختیار کرنے والا اور ہر گناہ سے منہ موڑنے والا بنائے۔ متقی دنیا و آخرت دونوں میں خدا رحمان کی پناہ میں رہتا ہے جبکہ عاصی و گناہگار خواہ دنیا کی عارضی لذات حاصل کر بھی لے لیکن اس کا انجام نیکو کار سے بہت مختلف ہوتا ہے۔ خدا کے رحم اور ستاری کی چادر اس کے بدن کو ہر گز نہیں چھپاتی بلکہ خطوت الشیطان کی پیروی اس کو عریاں کر کے رسوا عام کر دیتی ہے۔ جس طرح متقی کے نیک انجام کی بشارت ہے اسی طرح زنا کار کے لیے صرف رسوائی ہی رسوائی ہے۔ اگر کسی کو کسی بھی شخص کے بارے میں یہ علم ہو کہ یہ زنا جیسے مکروہ فعل میں مبتلا ہے تو اس انسان کی عزت ختم ہو جاتی ہے۔ دوسری جانب نیک اور طیب انسان کو دنیا میں بھی عزت ملتی ہے اور آخرت میں بھی نیک اجر۔

زانی کی سزا قرآنی تعلیمات و احادیث کی روشنی میں

خدا تعالیٰ نے قرآن کریم میں زانی کے گناہ کو کبیرہ قرار دے کر اس کو سزا دینے کی تلقین کی ہے کیونکہ ایسے گناہوں کی سزا دینا لازم ہوتا ہے جو معاشرے میں فساد پیدا کرتے ہیں اور جن میں دیکھا دیکھی دوسرے بھی ایسے افعال میں مبتلا ہو جاتے ہوں۔ اس لیے خدا تعالیٰ نے زنا کی سزا رکھی ہے۔

اَلزَّانِیَۃُ وَالزَّانِیۡ فَاجۡلِدُوۡا کُلَّ وَاحِدٍ مِّنۡہُمَا مِائَۃَ جَلۡدَۃٍ ۪ وَّلَا تَاۡخُذۡکُمۡ بِہِمَا رَاۡفَۃٌ فِیۡ دِیۡنِ اللّٰہِ اِنۡ کُنۡتُمۡ تُؤۡمِنُوۡنَ بِاللّٰہِ وَالۡیَوۡمِ الۡاٰخِرِ ۚ وَلۡیَشۡہَدۡ عَذَابَہُمَا طَآئِفَۃٌ مِّنَ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ ﴿۳﴾

(النور: 3)

زنا کار عورت اور زنا کار مرد، پس ان میں سے ہر ایک کو سو کوڑے لگاؤ اور اللہ کے دین کے تعلق میں ان دونوں کے حق میں کوئی نرمی (کا رُجحان) تم پر قبضہ نہ کر لے اگر تم اللہ اور یومِ آخرت پر ایمان لانے والے ہو اور ان کی سزا مومنوں میں سے ایک گروہ مشاہدہ کرے۔

حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں: ’’ہمارے نزدیک شادی شدہ کی سزا کوڑے ہی ہوں گے سوائے اس کے کہ Adultery (بدکاری) کا عادی ہو اور لڑکیوں کو خراب کرے۔ اس کو بے شک Stoning کا مستحق سمجھیں گے۔ مگر شرائط وہی ہیں کہ چار عینی گواہ ہوں جو ملنے قریباً ناممکن ہوتے ہیں۔‘‘ (فائل مسائل دینی 1958ء) سب سے بڑھ کر ایک زانی یا زانیہ رحمت خدا وندی سے محروم ہو جاتا ہے جس محبت کو پانے کے لیے ایک مسلمان تمام عمر تگ و دو کرتا ہے وہ محبت ہی اس کو نصیب نہیں ہوتی۔ روحانیت سے وہ دور ہو جاتا ہے۔ اس سے بڑی سزا ایک مسلمان کے لیے اور کیا ہو سکتی ہے-

اپنی اولاد کو اس گناہ سے کیسے بچایا جائے؟

مغربی معاشرے میں بچوں کو اس معاملے میں خاص کر سمجھانے کی اور اس کے نقصانات بتانے کی ازحد ضرورت ہے۔ نماز کے بارے میں خاص کر یہ حکم کہ یہ منکر و فحشاء سے بچاتی ہے اگر اسے اس کی اصل روح کے ساتھ پڑھا جائے تو خود کو اور اولاد کو نماز کا عادی بنا کر ہر قسم کے منکر و فحشاء سے بچایا جا سکتا ہے۔

پیارے آقا ایده الله تعالیٰ بنصره العزیز نے فرمایا:
’’اگر اپنے بچوں كو ان گندگیوں اور غلاظتوں میں گرنے سے بچانا ہے تو سب سے بڑی كوشش یہی ہے كہ نمازوں میں باقاعده كریں۔ كیونكہ اب ان غلاظتوں اور اس گند سے بچانے كی ضمانت ان بچوں كی نمازیں الله تعالیٰ كے وعدے كے مطابق دے رہی ہیں۔ جیسا كہ وه فرماتا ہے كہ

اِنَّ الصَّلٰوۃَ تَنۡہٰی عَنِ الۡفَحۡشَآءِ وَالۡمُنۡکَرِ

(خطبہ جمعہ فرمودہ 24؍اپریل 2005ء)

حضرت مسیح موعود علیہ السلام قرآنی تعلیم بتاتے ہوئے فرماتے ہیں:
کہ قرآن مجید فرماتا ہے: قُلۡ لِّلۡمُؤۡمِنِیۡنَ یَغُضُّوۡا مِنۡ اَبۡصَارِہِمۡ وَیَحۡفَظُوۡا فُرُوۡجَہُمۡ (النور: 31) یعنی مومنوں کو کہہ دے کہ کسی کے ستر کو آنکھ پھاڑ کر نہ دیکھیں اور باقی تمام فروج کی بھی حفاظت کریں۔ یعنی انسان پر لازم ہے کہ چشم خوابیدہ ہوتا کہ کسی غیر محرم عورت کو دیکھ کر فتنہ میں نہ پڑے۔ کان بھی فروج میں داخل ہیں جو قصص اور فحش باتیں سن فتنہ میں پڑ جاتے ہیں، اس لئے عام طور پر فرمایا کہ تمام سوراخوں کو محفوظ رکھو اور فضولیات سے بالکل بند رکھو ذٰلِکَ اَزۡکٰی لَہُمۡ (النور: 31) یہ مومنوں کے لئے بہت ہی بہتر ہے اور یہ طریق تعلیم ایسی اعلیٰ درجہ کی پاکیزگی اپنے اندر رکھتا ہے کہ جس کے ہوتے ہوئے بد کاروں میں نہ ہوں گے۔

(ملفوظات جلد اول صفحہ55)

بانی سلسلہ عالیہ احمدیہ جماعت کو اس گناہ کبیرہ کے نقصانات بتاتے ہوئے فرماتے ہیں:
وہ یہ کہ زنا سے اور بدکاریوں سے پرہیز کرنا اور ہر ایک سمجھ سکتا ہے کہ زنا ایک بہت بے حیائی کا کام ہے اور اس کا مرتکب شہواتِ نفس سے اندھا ہو کر ایسا ناپاک کام کرتا ہے جو انسانی نسل کے حلال سِلسلہ میں حرام کو ملا دیتا ہے اور تضیع نسل کا موجب ہوتا ہے۔ اِسی وجہ سے شریعت نے اس کو ایسا بھاری گناہ قرار دیا ہے کہ اِسی دنیا میں ایسے انسان کے لئے حدِ شرعی مقرر ہے۔ پس ظاہر ہے کہ مومن کی تکمیل کے لئے صرف یہی کافی نہیں کہ وہ زنا سے پرہیز کرے کیونکہ زنا نہایت درجہ مفسد طبع اور بے حیا انسانوں کا کام ہے اور یہ ایک ایسا موٹا گناہ ہے جو جاہل سے جاہل اس کو بُرا سمجھتا ہے اور اس پر بجز کسی بے ایمان کے کوئی بھی دلیری نہیں کر سکتا۔ پس اِس کا ترک کرنا ایک معمولی شرافت ہے کوئی بڑے کمال کی بات نہیں لیکن انسان کی تمام روحانی خوبصورتی تقویٰ کی تمام باریک راہوں پر قدم مارنا ہے۔

(روحانی خزائن جلد21 صفحہ210)

ہم پر یہ خدا كا خاص فضل اور احسان ہے كہ اس نے ہمیں خلافت كی نعمت عطا فرمائی ہے اور خلیفۂ وقت وقتاًفوقتاً ہمیں ان برائیوں سے متنبّہ كر كے ان سے بچنے كی نصیحت فرماتے رہتے ہیں۔

اسی لیے اپنی اولاد کو جماعتی نظام کے ساتھ جوڑیں۔ تعلیمات جو اس بارے میں بہت واضح ہیں۔ ان کی تفسیر بتا کر بھی بچوں اور نوجوان نسل کو اس کی بد اثرات سمجھائے جانے چاہیے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنی جماعت کو نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’مومنوں کو چاہئے کہ وہ اپنی آنکھوں اور کانوں اور سترگاہوں کو نامحرموں سے بچاویں اور ہر یک نادیدنی اور ناشنیدنی اور ناکردنی سے پرہیزکریں کہ یہ طریقہ ان کی اندرونی پاکی کا موجب ہو گا‘‘

(براہین احمدیہ، روحانی خزائن جلد اول صفحہ209 حاشیہ)

میری اولاد کو تُو ایسی ہی کر دے پیارے
دیکھ لیں آنکھ سے وہ چہرئہ تاباں تیرا
عمر دے، رِزق دے اور عافیت و صحت بھی
سب سے بڑھ کر یہ کہ پا جائیں وہ عرفاں تیرا

(از درثمین)

آج کل سوشل میڈیا اور دیگر بری صحبتوں سے خود بھی بچیں اور اپنی اولاد کو بھی بچائیں۔ ان کا تعلق خالق سے جوڑ دیں ان کے سینے قرآن کی روشنی سے منور کر دیں تاکہ شیطان بھیس بدل بدل کر انہیں ورغلا نہ سکے۔ انہیں نظام جماعت کے ساتھ جوڑیں ان کے دوستوں پر نظر رکھیں اور سب سے بڑھ کر ان کے لیے دعائیں کریں کہ وہ ہمیشہ صراط مستقیم پر چلنے والے ہوں۔ ذیل میں کچھ دعائیں ہیں جو شیطان کے وار سے بچانے میں مددگار ثابت ہوں گی- اللہ تعالی ہمیں ہر برائی سے بچا لے ہر بدی سے ہمیں نفرت ہو اور ہر نیکی سے پیار۔ اللہ کرے ایسا ہی ہو۔ آمین اللھم آمین

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ کو شیطان سے بچنے کے لیے یہ دعا سکھلائی کہ:
’’اے اللہ! ہمارے دلوں میں محبت پیدا کر دے۔ ہماری اصلاح کر دے اور ہمیں سلامتی کی راہوں پر چلا اور ہمیں اندھیروں سے نجات دے کر نور کی طرف لے جا اور ہمیں ظاہر اور باطن فواحش سے بچا اور ہمارے لئے ہمارے کانوں میں، ہماری آنکھوں میں، ہماری بیویوں میں اور ہماری اولادوں میں برکت رکھ دے اور ہم پر رجوع برحمت ہو۔ یقیناً تُو ہی توبہ قبول کرنے والا اور بار بار رحم کرنے والا ہے اور ہمیں اپنی نعمتوں کا شکر کرنے والا اور ان کا ذکر خیر کرنے والا اور ان کو قبول کرنے والا بنا اور اے اللہ ہم پر نعمتیں مکمل فرما۔‘‘

(سنن ابو داؤد کتاب الصلاۃ باب التشہد حدیث 969)

ایک اور خوبصورت دعا

اَللّٰھُمَّ اِنِّی اَسْئَلُکَ الْھُدٰی و التُّقَى وَالْعَفَافَ وَالْغِنیٰ

ترجمہ: اے اللہ! میں تجھ سے ہدایت، تقویٰ، عفت اور غناء مانگتا ہوں

(صحيح مسلم، كتاب الذكر والدعاء والتوبة والاستغفار باب ما جاء أن القلوب بين أصبعي الرحمن)

یَا مُقَلِّبَ الْقُلُوْبِ ثَبِّت قَلْبِیْ عَلٰی دِیْنِکَ

(سنن الترمذي، كتاب القدر عن رسول الله)

ترجمہ: اے دلوں کے پھیرنے والے! میرے دل کو اپنے دین پر ثابت قدم رکھ

رَبَّنَا لَا تُزِغۡ قُلُوۡبَنَا بَعۡدَ اِذۡ ہَدَیۡتَنَا وَہَبۡ لَنَا مِنۡ لَّدُنۡکَ رَحۡمَۃً ۚ اِنَّکَ اَنۡتَ الۡوَہَّابُ ﴿۹﴾

(آل عمران: 9)

ترجمہ: اے ہمارے رب! ہمارے دل ٹیڑھے نہ کر دینا بعد اس کے جو تو نے ہمیں ہدایت دی اور ہمیں اپنے حضور سے رحمت عطا کرنا۔ یقیناً تو بہت عطا کرنے والا ہے۔

آمین اللّٰھم آمین

(صدف علیم صدیقی۔ کینیڈا)

پچھلا پڑھیں

بيعت وہ ہے جس ميں کامل اطاعت کي جائے

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 3 فروری 2023