•مکرمہ ثمرہ خالد۔ جرمنی سے لکھتی ہیں:
مؤرخہ 5؍جنوری 2023ء کی اشاعت میں آپ نے ’’شکرگزاری‘‘ کے مضمون کو سمجھانے کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے جس رؤیا و الہام سے مضمون کا آغاز کیا، اُس نے دل پر بے انتہا اثر کیا۔ یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ اگر ہم اپنی زندگیوں پر خدا تعالیٰ کے انعامات کو شمار کرنے لگیں تو ہمارے سر سجدہ سے اُٹھنے ہی نہ پائیں۔
مؤرخہ 7؍ جنوری 2023ء کے شمارہ میں مضمون جو صفیہ بشیر سامی صاحبہ کی تحریر کو عنوان بنا کر لکھا گیا تھا ’’دو دن کی ہے کہانی، نفرت سے جینا نہیں‘‘ پڑھنے کو ملا۔ حسبِ سابق موصوفہ نے ذاتی تجربات و مشاہدات پر مبنی دل موہ لینے والی باتیں لکھی ہیں۔ خاکسار نے اس تحریر کے لنک کو سٹیٹس پر لگایا تو بہت سی بہنوں نے اس آرٹیکل کو سراہا۔ ایک بہن سلیمہ شاہدہ صاحبہ نے تفصیلی آڈیو میسج بھیجا۔ جس میں صفیہ صاحبہ اور ان کی تحریر کے لئے تحسین، تشکر اور پیار کا پیغام تھا۔ الفضل کے توسط سے یہ دادو تحسین اور پیار صفیہ بہن تک پہنچاتی ہوں۔
اداریہ ’’موبائل فون ایک سہولت یا وبالِ جان‘‘ بہت عمدہ تحریر ہے۔ ایسی تحریرات وقتاً فوقتاً منظرِ عام پر آتی رہنی چاہئیں تا فوائد و نقصان کا تقابلی جائزہ مثبت تبدیلی کا باعث بنے۔ فی زمانہ موبائل کا استعمال بھی ناگزیر ہے لیکن اگر اپنی سوچ اور ترجیحات کو بدلتے ہوئے اسکا صرف مثبت استعمال کیا جائے تو یہ سہولت کی ہی شکل میں ہماری زندگی کا حصہ رہتا ہے۔ کچھ عرصہ قبل کسی کے سٹیٹس پر پڑھا تھا ’’نماز کے فوراً بعد لوگ یوں فون چیک کرتے ہیں کہ گویا مغفرت کا میسج آیا ہو۔‘‘ یہ بات لکھنے والے نے تو تفننِ طبع کی خاطر ہی لکھی تھی لیکن اگر حقیقت ِحال پر نظر ڈالیں تو یہی بات اکثر سامنے آتی ہے کہ نماز کے بعد تسبیحات اور ذکرِالہٰی کا وقت موبائل فون کی نظر کر دیا جاتا ہے۔ اللہ کرے کہ ہم سب اس سہولت کا برمحل و مثبت استعمال کرنے والے ہوں۔ آمین